Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 30 نومبر، 2020

ماضی سے حال تک کا سفر

 - ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں
،اکثر لوگ  سوچتے ہیں -

”   کیا  ہم اپنے والدین سے  بہتر  زندگی نہیں گزار رہے؟“

 ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے، آپ بھی کبھی بھی  تحقیق کر لیں ، آپ کو ملک کے بھکاری بھی اپنے والدین سے بہتر زندگی گزارتے ملیں گے، ان کے والدین سارا شہر مانگ کر صرف دس بیس روپے گھر لاتے تھے جب کہ کراچی اور لاہور کے بھکاری آج چھ سات ہزار روپے روزانہ کماتے ہیں۔
  آپ  اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ بھی کر لیں، آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا۔
  گھر میں بچپن میں ایک پنکھا ہوتا تھا اور پورا خاندان ”او ہو پنکھا ادھر کریں“ کی آوازیں لگاتا رہتا تھا‘ سارا محلہ ایک روپے کی برف خرید کر لاتا تھا‘ لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے‘ ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لئے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا‘ بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے۔
  لوگوں نے باہر اور گھر کے لئے جوتے اور کپڑے الگ رکھے ہوتے تھے‘ دستر خوان پر دوسرا سالن عیاشی ہوتا تھا‘ پلاؤ مہمانوں کے لئے بنتا ،  سویٹ ڈش میں صرف زردہ   یا کھیر بنتی تھی‘ مرغی صرف بیماری کی حالت میں پکائی جاتی تھی اور بیمار بیچارے کو اس کا بھی صرف شوربہ ملتا تھا‘ پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دیا ہوتا تھا۔

ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا‘ بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔
 سائیکل خوش حالی کی علامت تھی اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا‘ گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی‘ بس اور ٹرین کے اندر داخل ہونے کے لئے باقاعدہ دھینگا مشتی ہوتی تھی اور کپڑے پھٹ جاتے تھے۔

 گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لئے وقف ہوتا تھا‘ وہ آدھی رات تک ”اوئے نویدے“ کی آواز پر دوڑ کر اوپر چڑھ جاتا تھا اور انٹینے کو آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں گھماتا رہتا تھا اور اس وقت تک گھماتا رہتا تھا جب تک نیچے سے پورا خاندان ”اوئے بس“ کی آواز نہیں لگا دیتا تھا۔
  پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا‘ سارا بازار مسجدوں کے استنجا خانے استعمال کرتا تھا‘ نہانے کے لئے مسجد کے غسل خانے کے سامنے قطارلگتی تھی‘ نائی غسل خانے بھی چلاتے تھے‘ یہ سردیوں میں حمام کے نیچے لکڑیاں جلاتے رہتے تھے اور لوگ غسل خانوں کے اندر گرم پانی کے نیچے کھڑے رہتے تھے اور نائی جب ان سے کہتا تھا۔

”باؤ جی بس کردیو پانی ختم ہو گیا جے“ تو وہ اس سے استرا یا تیل مانگ لیا کرتے تھے اور لوگ کپڑے میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے"۔
  بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانک رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور  ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ کھا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے۔ کئی بچے آپ میں ایک دوسرے کا لنچ ایکسچینج بھی کرتے ، بعض بچے کسی اچھے لنچ کے بدلے ، کاپی کے کاغذ پر خریدی ہوئی سرخ رنگ کی کھٹی املی  کی قربانی بھی دیتے ۔ چالیس اور پچاس سال کے درمیان موجود اس ملک کا ہر شخص اس دور سے گزر کر یہاں پہنچا ہے۔
   آپ کو ہر ادھیڑ عمر پاکستانی کی ٹانگ پر سائیکل سے گرنے کا نشان بھی ملے گا، جو کرائے کی سائیکل لے کرریس لگانے کی نشانی  ہوا کرتی تھی اور اس کے دماغ میں انٹینا کی یادیں بھی ہوں گی اور کوئلے کی انگیٹھی اور فرشی پنکھے کی گرم ہوا بھی۔

 ہم سب نے یہاں سے زندگی شروع کی تھی‘ اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا!

آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم لوگوں کو دیتی ہے‘ آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں زیادہ فرق نہیں ملے گا ۔ جب کہ ہم اگر صرف تیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔

٭٭٭٭٭٭

سوال یہ ہے کہ
اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف اسٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟

 مسافر جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف ایک ہی جواب آتا ہے‘ ناشکری!

ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شُکر کی کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں۔آپ نے انگریزی کا لفظ dissatisfaction سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں‘ یہ ایک خوف ناک نفسیاتی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔


٭٭٭٭٭٭

ہفتہ، 21 نومبر، 2020

پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام

 پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام

وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿٦٥ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ﴿٦٦ وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٦٧ وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ﴿٦٨ ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٦٩ 

تحریر: جواد عبدالمتین اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس

ہم 1993 سے شہد کے حوالے سے پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ سے منسلک ہیں ۔ 2008 میں جن دنوں اسلامی اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس کی بنیاد رکھی گئی تھی انہی دنوں بازار میں عام فروخت ہونے والے شہد اور اصل خام شہد کے متعلق ہمارے تحقیقات مکمل ہوئی تھیں جس کی بنیاد پر علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ہم نے شہد کی عام فروخت کو محدود کر دیا اور 2010 تک تمام سیل پوائنٹس بند کرکے شہد کے کام کو صرف اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور اُن خریداروں تک محدود رہنے دیا جو کہ شہد کے متعلق مکمل معلومات رکھتے اور خام اور پروسیس شہد میں فرق جانتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جیسے ہمارے ملک میں ہردوسرا شخص مفتی اور ہر تیسرا شخص ڈاکٹر ہے اسی طرح شہد کے متعلق بھی ہر شخص اپنے آپ کو ماہر سمجھتا ہے اگرچہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ جانتا ہو۔ اب وہ تحقیقات کیا تھیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے کاروبار کو محدود کرنا پڑا اس کی تفصیل میں ابھی یہاں نہیں جائیں گے۔ ہم کیونکہ عام لوگوں کے بجائے صرف شہد کے متعلق معلومات رکھنے والوں کو ہی شہد اور شہد کے کاروبار کے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں اس لئے کبھی اس کی تشہیر بھی نہیں کی۔ لیکن یہاں شہد سے متعلق اپنے کاروبار اور تربیتی ترتیب کی تشہیر کرنا مقصود نہیں ہے موضوع ہے "پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام" اوپر یہ تذکرہ صرف اس لئے کیا تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجائے کہ شہد کی پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ کے ستائیس سالہ تجربے کی بنیاد پر جو بات کی جارہی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ - - - پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے شہد فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو شہد اور شہد کی مکھی کے متعلق معلومات نہیں رکھتے صرف ان کو شہد کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والے منافع سےغرض ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر شہد کی مکھی کے پورے پورے چھتے دکھا کر شہد کو خالص ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ان کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ شہد کی مکھی کے مکمل چھے کو اتارنا کتنا بڑا ظلم ہے۔ سال کے کسی بھی حصے میں اگر شہد کا مکمل چھتا اتار لیا جائے تو شہد کی تمام مکھیاں مر جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہد کے چھتے میں ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے جو انڈے دیتی ہے اور اس ملکہ کے کسی وجہ سے مر جانے کی صورت میں مکھیاں شہد کے چھتے میں موجود بچوں میں سے نئی ملکہ کو منتخب کرتی ہیں جس سے شہد کی کالونی کا نظام چلتا رہتا ہے۔ مگر پورا چھتہ اتارنے کی صورت میں ملکہ مکھی مرجاتی ہے اور تمام بچے بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ بقایا مکھیاں ناصرف کے بے گھر ہو جاتی ہیں بلکہ ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں رہتا اس لیے چھتے کی تمام مکھیاں بھوک اور پیاس سے مرتی ہیں۔ مکھی نے شہد کو سردیوں میں استعمال کی خوراک کے طور پر محفوظ کیا ہوتا ہے۔ جب ان سے مکمل شہد لے لیا جاتا ہے اور ان کے چھتے بھی اتار لیے جاتے ہیں تو نہ ان کے پاس رہنے کی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی سردیاں گزارنے کے لیے کوئی خوراک۔ چھتے میں موجود ملکہ مکھی جو کہ سائیز میں بڑی ہونے کی وجہ سے اُڑ بھی نہیں سکتی وہ بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ بیچاری مکھیاں بھوک، پیاس اور سردی کی شدت سے مرتی ہیں اسی وجہ سے اب دیہی علاقوں میں بھی شہد کی مکھیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے - - - - پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی چار اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سب سے بڑی ڈورساٹا ہے اس کے بعد میلیفیریا اور پھرفلوریا اور اس کے بعد سرانا۔ پاکستان میں نا تو شہد کی سب سے بڑی مکھی پائی جاتی ہے جس کا نام "لیبریوسا" ہے اور نہ ہی سب سے چھوٹی مکھی جس کا نام "انڈرينيفورميس" ہے۔ جبکہ عمومی طور پر لوگ ابھی بھی صرف چھوٹی مکھی اور بڑی مکھی پر ہی بحث میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ پوری دنیا میں شہد پر تحقیق کے حوالے سے مکھیوں سے زیادہ اِن پھولوں کی اہمیت رہی ہے جن سے شہد حاصل کیا گیا ہو۔ پوری دنیا میں شہد پرتحقیق کا بہت کام ہو چکا ہے، نا صرف کے شہد بلکہ شہد کی مکھی کے حوالے سے بھی بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جو کہ عام لوگوں کے لیے ناصر کے حیران کن ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورت شہد کی مکھی کے نام پر کیوں ہے اور اس کو اتنا تفصیل سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں شہد سے متعلق آیات میں مختصر مگر انتہائی جامع طور پرشہد کی مکھی اور شہد کے متعلق معلومات دی گئی ہیں، جن کو مکمل طور پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس کو شہد کے ماہرین ہی سمجھ سکتےہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے اس کو یہاں طوالت کے ڈر سے ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن شہد کی مکھی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیق کے مطابق 60 سے 80 فیصد انسانی خوراک کی پیداوار شہد کی مکھی کی مرہونِ منت ہے کیونکہ یہ پودوں میں پولینیشن کا کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ہی پھل اور سبزیاں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے کہ: "If the bee disappeared off the surface of the globe then man would only have four years of life left. No more bees, no more pollination, no more plants, no more animals, no more man." --Albert Einstein -- ترجمہ: "اگر مکھی دنیا کی سطح سے ختم ہو جاتی ہے تو پھر "انسان کے پاس زندگی کے صرف چار سال باقی رہ جاتے ہیں"۔ اگرمکھیاں نہیں ہوں گی تو پولینیشن نہیں ہوگی اور پولینیشن نہ ہونے کی وجہ سے پودے نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے جانور ختم ہو جائیں گے اور پھر انسان بھی ختم ہوجائیں گے۔ --البرٹ آئن سٹائین-- - - - - آپ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ قدرت کے اس نظام میں شہد کی مکھی کس قدر اہم ہے۔ جیسے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے ماہرین کی سرپرستی ضروری ہے اسی طرح شہد کے کام سے متعلق لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعبے کے ماہرین سے تربیت حاصل کریں اور پھر شہد کے کاروبار سے منسلک ہوں۔ شہد کی مکھیوں کے قتل عام کے حوالے سے محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے بھرپور اقدامات کریں ورنہ آنے والے سالوں میں شہد کی مکھیوں کے کم ہو جانے کی صورت میں ہماری تمام فصلیں اور باغات پیداوار کی شدید کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ - - - - فوری کرنے کے کام درج ذیل ہیں:- 1- شہد کی مکھی کے مکمل چھے اتارنے پر مکمل پابندی اور جرمانہ عائد کیا جائے ۔ 1- سرانا مکھی کے چھتے اتارنے پر مکمل پابندی لگائی جائے کیونکہ اس میں شہد بھی بہت کم ہوتا ہے اور یہ مکھی بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ 2- ڈورساٹا اور فلوریا مکھی کے مکمل چھتے نہ اتارے جائیں بلکہ صرف شہد والا حصہ اتارا جائےاور کچھ شہد مکھی اور اس کے بچوں کے لیے چھوڑ دیا۔ 3- زراعت کے شعبے میں شہد کی مکھی کی اہمیت کے پیش نظر محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات شہد کی مکھی کی حفاظت کے لئے حکومتی سطح پر قانون سازی کے لئے موثر اقدامات کریں۔ 4- ان تمام معاملات کو طے کرنے کےلیے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز (NARC) کے شعبہ مگس بانی سے رہنمائی حاصل کی جائے آئے. 5- شہد کی کوالٹی سے متعلق عوام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ شہد کے خالص ہونے کی یقین دہانی کرنے کے لئے چھتوں میں شہد حاصل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ----------------------------- شہد کےحوالے سے اگر کسی کو مزید معلومات درکار ہوں تو ان باکس یا اس نمبر پر ہم سے رابطہ کر سکتا ہے 03215108382 ----------------------------- تحریر جواد عبدالمتین٭٭٭٭٭

جمعہ، 6 نومبر، 2020

شگفتہ گو- ہزاروں خواہشیں ایسی

  انسانی زندگی کو بعض دانا سیکنڈ ہینڈ کار سے تشبیہ دیتے ہیں  جو مختلف صبر آزما مراحل سے گذرتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔ کہیں ٹائر پنکچر ہو گیا تو اس وجہ سے دھرنا مار کر بیٹھ جاتی ہے کہ پیٹرول ختم۔ کبھی اترائی پر اس قدر تیز دوڑتی ہے، کہ بیٹھنے والا گھبرا جاتا ہے۔ لیکن اکثر دھکا لگوائی جاتی ہے۔ پی ایم اے کی زندگی بھی اسی طرح کے مراحل کو مجموعہ ہے۔ ہر دم دھڑکا کہ، کیا ہماری گاڑی بخیر و  خوبی  ،اکیڈمی سے نکل سکے گی۔ اور نکلنے کے بعد اس کا رخ کس طرف ہوگا؟     
سیکنڈ ٹرم کے بعد ہم، تھرڈ ٹرم میں آئے اب ہم سے سینئیر صرف ایک کورس تھا۔ جو کبھی موج میں آکر ہمارا سکون تہہ و بالا کردیتا  لیکن   باقی دونوں  جونیئر کورسز سے چھپا کر، لیکن ہماری آہیں تو فضا میں، گھومتی گھامتی جونئیرز کے کانوں میں پڑتیں اور وہ باجماعت دعا مانگتے کہ ہمیں صبح تک رگڑا ملے تاکہ ان کے دل میں ٹھنڈک پڑے۔ 
گو کہ ہم خود کو پچاس فیصد کمیشنڈ آفیسروں میں سمجھنے لگے تھے۔ راتوں کو خواب بھی کچھ ایسے ہی نظر آتے لیکن ِ صبح گھڑی کے الارم کی خوفناک گونج کے پس منظر میں آنے والی”فال اِن“کی آوازیں، تمام خیالی قلعوں کو زمیں بوس کر دیتیں، شب و روز کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے-
مڈٹرم سے پہلے، پلاٹون سارجنٹ نے ایک فارم ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دیا  کہ سوموار تک جمع کروا دیں اور جن کا کلیم ہے وہ ضرور لکھیں۔ مت پوچھیئے خوشی سے ہماری کیا حالت تھی، جسم پر کپکپی طاری ہوگئی، ٹانگیں کپکپانے لگیں، گھٹنے کھڑکھڑانے لگے   اور شادی ء مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی، 
یا خدا! یہ کیسا انقلاب ہے ہم سے اکیڈمی میں ،  ہماری خواہش پوچھی جا رہی ہے،  اور یہاں  یہ حالت کہ :
 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے  
 
سارا ہفتہ خود کو والکنگ ریمپ پر مختلف لباسِ عساکر کے روپ میں دیکھتے رہے۔ کبھی پیادہ فوج کی وردی میں، اور کبھی آڑدیننس اور کبھی توپخانے کی، لیکن خدا گواہ ہے کہ بچپن سے ہمیں بینڈ والوں کی وردی بہت بھاتی تھی ۔ جب ایک آراستہ و پیراستہ کلّا پہنے ، موٹے پیٹ والا بینڈ ماسٹر دستے کے آگے ایسی شان سے چلتا ۔ جیسے راج ہنس اپنے قافلے کے ساتھ رواں دواں ہو ۔ اُس کی چال کی ہم نے دوستوں کے ساتھ اتنی نقل اتاری ۔ کہ اکیڈمی میں جب پہلی دفعہ پلاٹون کے ساتھ نیکر پہن کر مارچ کے لئے چند قدم بڑھے تھے کہ سٹاف نے آواز لگائی ۔
 “ نعیم صاحب ، بطخ کی طرح مت چلیں ، کیڈٹ بنیں کیڈٹ ، زمین پر اتنی زور سے پاؤں ماریں کہ چشمہ اُبل پڑے “ 
ہماری حالت اس بچے کی طرح تھی کہ جس کے سامنے بہت سے کھلونے رکھ دئے ہوں، اور ان میں سے ایک کا انتخاب، اس کے لئے مسئلہ بن جائے، ایسا مسئلہ کہ "دل ادھر ہے اور جان ادھر"، اور وہ سارے کھلونے سمیٹ کر  یکدم اٹھا کر بھاگ جانے کی خواہش دل میں دبا کر بیٹھا، حسرت سے سارے کھلونوں کو دیکھتا ہو-
 ویسے بھی ہم اکیڈمی میں ابھی طفل مکتب تھے، ہم میں وہ دوراندیشی اور بالغ نظری پیدا ہونا باقی تھی، جو فائینل ٹرم کے کیڈٹ میں ہوتی ہے۔ پی ایم اے میں مائیٹی سینئر ہونا آسان کام نہیں،  ابھی ہمارے اس منزل کے خاردار راستے سے گذرنے میں چار ماہ پڑے تھے۔  کافی سوچ و بچار، کی ریڈیو پر، ملی نغموں  کو بار بار سنا، چنانچہ جذبہ جہاد پر بلاوے  کی پر شکوہ دھن۔
 ”اے مردِ مجاھد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“  نے امن کی فاختہ کو اُڑادیا اور ہم  نے پیادہ فوج کے لئے پہلا  نمبر دیا، دوسرے اور تیسرے نمبر پر، جن آرمز کاانتخاب کیا، وہ ہمیں ملنا ناممکن تھیں۔ اور اُن سے سروکار بھی نہیں تھا وہ تو محض خانہ پُری تھیں، لہذا بتانے کا فائدہ بھی نہیں۔
  فارم جمع کروا کر ہم خو کو مکمل انفنٹری آفیسر کے روپ میں دیکھتے، سینئیر کی غیر موجودگی میں  پی ایم اے روڈ پر سینہ پھُلا کر  ایسے چلتے  جیسے لقاء کبوتر، دڑبے سے نکل کر چلتا ہے۔
  تھرڈ ٹرم کے خاتمے پر، ہم نے آرٹ اور کیمرہ کلب کے لئے جتنی تصاویر بنائیں، ان سب کا موضوع، جھولا پٹھو پہنے، دوڑتا، چھلانگ لگاتا، رسی سے لٹکا، پیرا شوٹ سے اترتا، فوجی ہی تھا۔
 ٹرم بریک میں ہم، پیرا کورس کے لئے پشاور روانہ ہوئے۔  پیرا کورس کے نامکمل خاتمے کے بعد پورا کورس واپس آیا تو ہم، اکیڈمی کے سب سے سینئیر کیڈٹ بن چکے تھے- بے تاج بادشاہت، ہمارے قدموں میں اور تین عدد جونئیر کورس،ہمارے رحم و کرم پر تھے۔ جہاں سے گذرتے، ”سلام علیکم سر“ کی صدا گونجتی۔ جونئیر ہمارے  ناز اٹھاتے، ہمارے ایک جملے ، " اے یووووو " پر، ساکت کھڑے ہوجاتے اور دوسرے جملے پر " کبھی خاک کے پردے سے یا نالے کی تاریک سرنگ سے " کیڈٹ برآمد ہوتے ،  بس نہ پوچھیں، کیا پرلطف  زندگی، ہم گذار رہے تھے۔
     پی ایم اے روڈ پر ایسے نکلتے، کہ دائیں ہاتھ میں سیچل  (جسے اردو میں بستہ  کہتے ہیں) لہرا رہا ہوتا، جو کندھے سے اتر کر ہاتھ میں آگیا تھا اور سینئیرز کا امتیازی نشان تھا۔سٹاف بھی نیچی اور دبی زبان میں،
 یہ سینئر صاحب، ٹھیک مارچ کریں،
نعیم صاحب -سیچل ایسے مت لہرائیں جیسے کوئی مٹیار کنویں پر دوپٹہ، لہراتے جارہی ہے، 
یہ فلاں صاحب ایسے مت چلیں، جیسے سر پر مٹکا اٹھا یا ہے، 
پی ایم اے روڈ کو مال روڈ مت سمجھیں ۔ٹہلیں ن ن  ن  مت!
 کیڈٹ کی طرح چلیں ، صا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اب  ۔
ہم بے نیاز انداز میں،پی ایم اے روڈ پر ، رواں دواں رہتے۔   کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم مستقل جنٹل مین کیڈٹ کلب کےممبروں میں سے ایک ہیں ۔
فائینل ٹرم میں ہمارا سینہ کچھ ضرورت سے زیادہ باہر آگیا تھا، خاص طور پر جب کوئی جونئیر ہمارے آرمز کے انتخاب کے بارے میں پوچھتا۔ سیچل (بستے) پر خود ہم نے بڑے بڑے حروف میں اپنی پسندیدہ انفنٹری بٹالین کا نام اور مونوگرام بنایا تھا، تاکہ جو لوگ لاعلم ہیں اور نہیں جانتے کہ ہمارا انتخاب کون سی بٹالین ہے وہ بھی جان لیں۔
دن آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے، ہمارے شریف طفل مکتب، یعنی جنٹل مین کیڈٹ کے لقب کے خاتمے کے دن قریب آرہے تھے۔ دل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھ رہی تھی مڈٹرم سے پہلے، ایک دن پیغام ملا، کہ آرمز کے انتخاب کو فائینل کرنے کے لئے، پلاٹون کمانڈر کا انٹرویو ہے۔
  پلاٹون کمانڈرنے گذشتہ سالوں میں ہمیں بچپن سے پالے ہوئے دنبے کی طرح اچھی طرح ٹٹولہ، دانت گنے  اوربالکل فٹ بنادیا تھا۔  لہذا،  ان کی رائے  ملٹری سیکریٹری برانچ کے لئے مقدم اور حتمی  تھی ۔   
ہم سے پہلے  کئی  پلاٹون میٹس، میجر متین مہاجر  کا آفس   گھوم آئے، ہماری باری آئی تو ہم، کیلوں والے بوٹوں  سے   ٹکا ٹک کی پرشور  آوازیں  آواز  نکلواتے  ہوئے ، پلاٹون کمانڈر کے کمرے کے دروازے کے سامنے،  چیک، ون ٹو، کہہ کر پکے فرش پر زور سے پیر مار کر رکے،تاکہ فرش ٹُٹ جائے تڑخ کرکے ، گلا پھاڑ کر ،
  "مے آئی کم ان سر ر ر ر ر ر! "کی کڑک دار آواز نکالی،
” یس کم ان “ پلاٹون کمانڈر نے اجاز ت مرحمت فرمائی۔
کمرے میں داخل ہوئے۔  پلاٹون کمانڈر نے سر سے پاؤں تک دیکھا، خوف کی ایک لہر، ریڑھ کی ہڈیوں سے گذرتی پیروں تک گئی، ایک خوفناک خیال نے سر ابھارا۔
 دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی ، ”یا اللہ رحم،  میرے مولا رحم، پلاٹون کمانڈر، وردی میں کوئی خرابی نہ نکال  دے  "۔

آہ کیوں کہ دل سے نکلی تھی، پرواز کرتی ہوئی، عرش کی جانب کوچ کر گئی اور پلاٹون کمانڈر کی نظریں ، ہمارے جوتوں سے اٹھ کر ،  بیلٹ  سے  ہوتی ہوئی  ، ٹوپی تک پہنچیں اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ، پر جم گئیں۔
”تمھاری میپ ریڈنگ اچھی ہے لیکن تم انفنٹری میں جانا چاہتے ہو؟“ ۔
  ہم نے بلند آواز سے کہا،”یس سر!“ ،
  ”اوکے، مارچ آف“  پلاٹون کمانڈر نے آرڈر دیا،
  ”یوریکا “ دل میں نعرہ مارا،
 الٹے پاؤں پھرے اور کمرے سے باہر نکل آئے، ہماری بانچھیں کانوں تک چری دیکھ کر، ساتھیوں نے مبارکباد دی۔ ہم امتحان عشق کا آخری مرحلہ بھی پاس کر چکے تھے۔
  پاسنگ آوٹ، سے پندرہ دن پہلے،  تمام کورس کو  اینگل ہال میں جمع ہونے کا آرڈر ملا، معلوم ہوا کہ آج، ہمیں اپنی اپنی آرمز اور یونٹ کے بارے میں بتایا جائے گا۔ باقی مشتاقان دید کی جلو میں ہم بھی، اینگل ہال پہنچے۔ ڈائس پر کمپنی و ٹرم کمانڈرز اور ملٹری سیکریٹری برانچ سے آئے ہوئے آفیسرز بیٹھے تھے۔
 بٹالین کمانڈر نے ڈائس پر آکر،  نے باری باری سب کا نام اور یونٹ کے بارے میں بتانا شروع کیا، خوشی اور غم کے سائے، کیڈٹس کے چہروں پر نظر آنے لگے۔ کئی کیڈٹس کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی  اور ہمارے دل میں ہمدردی کی گھٹائیں اٹھنے لگیں، اور بالآخر، ہمارا نمبر پکارا،گیا
ہم بڑی شان سے کھڑے ہوئے گویا  ہفت اقلیم کی بادشاہت ملنے والی ہے، پھر اعلان کادوسرا حصہ سنا تو ہمیں اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔بٹالین کمانڈر کی گونج دار آواز (لاوڈ سپیکر کی بدولت) کسی شک و شبہ سے بالا تر تھی، ہمیں یوں لگا کہ کشش ثقل ختم ہوگئی ہے، غالباً صورِ  اسرافیل  پھونک دیا گیا ہے۔ یا ہم ریلوے سٹیشن پر جا پہنچے ہیں۔ جہاں لاوڈ سپیکر سے آواز تو آرہی ہے لیکن الفاظ پانی میں ابل کر ادا ہو رہے ہوں،   لیکچر ہال ہمارے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ ایک دھماکا ہوا، ہوش آیا تو خود کو کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔دائیں بائیں بیٹھے ہوئے پلاٹون میٹس دلاسہ دینے لگے، کچھ نے تو باقائدہ تعزیت کرڈالی،
 ہماری حالت اس شخص کی تھی جس کو سفر ہفت خواں کے بعد مژدہ سنایا جائے، کہ یہ سامنے جو کٹیا نظر آرہی ہے اس میں۔لیلیٰ۔ تمھارے انتظار میں ہے۔
 وہ شخص، اپنی تھیلی میں سے کنگھی نکال کر بال سنوارے، پانی کی بوتل سے آخری چند گھونٹ نکال کر چہرے سے ریت دھوئے۔ اور کٹیا کی طرف اس امید پر بڑھے کہ اندر سے لیلیٰ یہ کہتے ہوئے بے تابی سے نکلے،
”ڈارلنگ، میں پورے دو سال تمھارا بے چینی سے انتظار کر رہی ہوں“
 لیکن آپ تصور کریں، اس وقت اس بے چارے کی کیا حالت ہوگی کہ، کٹیا کا  دروازہ کھلتے ہی، حضرت قیس داڑھی بڑھائے اول جلول بنے برآمد ہو  اور یہ کہتے ہوئے بغل گیر ہوجائے۔
 ”میری لیلیٰ میں تمھیں اب کہیں نہیں جانے دوں گا"۔
خدارا ہنسئیے مت،
 شکستہ دل اور ناتمام آرزوؤں کا جنازہ  سامنے پڑا ہو تو بتیسی کا نکلنا  گناہ کبیرہ ہے ، حضور آپ ماتم کریں،  ماتم ، ہمارے حال زار پر!-
 رنج و الم وغصے میں بھرے ہم پلاٹون کمانڈر کی طرف بڑھے، جی چاہتا تھا کہ اینگل ہال کے آفس کے سامنے ایک سٹیج بنائیں، مجمع اکٹھا کریں، اور ظلم و جبر کے نمائیندوں،  ملٹری سیکریٹری برانچ کے اہلکاروں کے خلاف ایک مدلل اور زہر بھری شعلہ بیاں تقریر کریں، جو تان سین کے دیپک راگ کی طرح  چار سو آگ لگا  دے۔مگر ہائے مجبوری پلاٹون  کمانڈرکو دیکھتے ہیں، غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، سب الفاظ بھاپ بن کر اڑ گئے۔  جو دلجوئی کے انداز میں کہہ رہے تھے، کہ
" نائم ، تمھاری میپ ریڈنگ بہت اچھی ہے اسی لئے میں نے تمھارے لئے، ”سفید ڈوری“ کا انتخاب کیا ہے"
 بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم یہ سفید ڈوری  کیا ہوتی ہے؟  کیا امن کا نشان ہے؟  نہیں  بس اسے ”وائیٹ لین یارڈ“ کہتے ہیں جو  پہلے توپچیوں کا نشان ہوتا تھا۔ 
تم ایک بہترین ”گنر آفیسر“ بنو گے۔
 ہمارے لبوں سے کراہ نکلی، جس کے معنی تھے، ”آہ بروٹس  تم بھی!“  جن پہ تکیہ تھا وہی پتہ ہوا دینے لگا۔
  پلاٹون کمانڈر  کے پاس کھڑے  ہوئے، میجر ریاض شاہ نے مبارک باد دی اور ہماری معلومات میں اضافہ کیا،
 ” 57ماؤنٹین رجمنٹ، میری  یونٹ  ہے جس میں تم جا رہے ہو، یہ آزاد کشمیر کے بہترین مقام" نیلم ویلی " میں ہے۔ مبارک ہو“۔
یوں  ایک اور کیل ہمارے دل کے تابوت  میں ٹھونک دی گئی، اب سندھ کا رہنے والا جنٹل مین کیڈٹ، کشمیر میں نیم لفٹین بن کر توپ چلائے گا  اور مزید پردیسی ہو جائے گا۔            
  اُف پلاٹون میٹس کے قہقہے،  طنز، چوٹیں ،” توتا توپ چلائے،  سیکنڈ لفٹین تالی بجائے“۔  
جیسے زہر میں بجھے تیروں سے چھلنی ہوتے ہوتے، بالآخر ہم  بوجھل دل اور  ناتمام خواہشوں کے ساتھ  پاس آؤٹ ہوئے،  سیکنڈ لفٹین بننے کی خوشی اپنی جگہ پر لیکن خواہشوں کے جنازے کو  پلاٹون کمانڈر کے حکم پر کندھا دینا اور انہیں  امیدوں کے قبرستان میں دفن کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔ اس کے لئے بڑی ہمت، دل و گردے چاہئیں،  ع
دفنانا ذرا دیکھ کر،    آرمز، زدہ کی لاش ۔ لپٹی ہوئی وردی میں کوئی آرزو نہ ہو۔
 
نوٹ: یہ مضمون 1977 کے زمزمہ میگزین  میں شائع ہوا تھا ۔

 

پیر، 2 نومبر، 2020

گیدڑ سنگھی

  گیڈر سنگھی جس کو انگلش میں Deer Musk بھی کہتے ہیں یہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک جوہرن سے نکلتی ہے اس ہرن سے جس کی ناف سے کستوری نکلتی ہے اور ہر کستوری والے ہرن میں نہیں ہوتی بہت کم کسی ہرن سے مل جاے تو مل جاے اس لئے کے بہت نایاب ہے اور مہنگے ترین عطریات میں استعمال ہوتی ہے جس کو بادشاہ یا امیر ترین لوگ ہی خرید سکتے ہیں ۔
دوسری قسم جو گیڈر کے سر پر ایک دانہ پھوڑا نکلتا ہے جو ایک خاص وقت کے بعد گر جاتا ہے ۔یہ گرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے ۔🌹

اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کو سگریٹ کی کلی یا کاغذ میں لپیٹ کر پانی میں ڈالیں تو چھلانگ لگا کر باہر آ جاتا ہے
اس کو ہاتھ کی ہتھلی میں رکھ کر بند کریں تو ہاتھ میں گرمی کا احساس ہوتا ہے جیسے کوئی سانس لے رہا ہے 🌹
اس کو سیندور میں رکھا جاتا ہے جو اسکی غذا ہے!
دو تین چھوٹی الائچی دو تین لونگ رکھے جاتے ہیں
ہر نئے  چاند میں اس کے بال بڑھ جاتے ہیں جو کاٹ دیے جاتے ہیں ۔
فوائد ۔عملیات میں خاص کر کسی کو دیوانہ بنانے میں استعمال ہوتی ہے ۔
نو چندی  اتوار یا جمعرات یا پیر کو کسی ایسی ڈبیا میں بند کریں ۔جس کے ڈھکن پر شیشہ لگا ہو اس شیشہ کو دھوپ پر کر کے مطلوب پر عکس ڈالیں وہ آپ کے قدموں میں ہو گا -

جس کو اپنا دیوانہ کرنا ہو اس سیندور میں معشوق کے پاؤں کی مٹی ڈال دیں- بس وہ سب کام چھوڑ کرآپ کا طواف کر رہا ہو گا ۔
جس گھر میں ہو اس گھر میں روپے پیسہ ایسابرسے گا جیسے بارش ۔
جس کی جاب نہ لگتی ہو وہ اپنے پاس رکھے دس جگہ اپلائی کرے تو دس جگہ ہی جاب لگے- جو جاب پسند آئے ہاں کردیں -
جس لڑکی کی شادی نہ ہوتی ہو، اُس کے  رشتوں کی لائن لگ جاتی ہے ۔  ماں باپ کو سمجھ نہیں آتا کسے ہاں کریں اور  کسے نا ! 
رانا اکمل کی وال سے -
آخر میں اتنا کہوں گا یہ سب بکواس ہے!
اور ہاں جن کے پاس گیڈر سنگھی ہوتی ہے- وہ خود کندھے پر تھیلا لٹکائے ،  دَر دَر جا کر روٹی مانگ رہے ہوتے ہیں-

 لہٰذا بس اس کا استعمال صرف عطریات میں ہوتا ہے ۔وہ بھی ہرن والی ۔

گیڈر والی گیڈر ہی استعمال کرتے ہیں جاہل بابے اور جاہل لوگ!

 سوری آپ کو سسپنس میں رکھا

٭٭٭٭٭٭

 

دوغلے پاکستانی

     کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی ہے  اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی ہے، لیکن پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت  امریکیوں کو جو حلفِ وفاداری  دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔

         Oath of Allegiance for Naturalized Citizens


 "I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty of whom or which I have heretofore been a subject or citizen; that I will support and defend the Constitution and laws of the United States of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United States when required by the law; that I will perform noncombatant service in the Armed Forces of the United States when required by the law; that I will perform work of national importance under civilian direction when required by the law; and that I take this obligation freely without any mental reservation or purpose of evasion; so help me God."

Signed by
:_________

  میں اپنی تمام وفا داری  اور اعتماد جو میں نے، کسی غیر ملکی شہزادے،  بادشاہت،  ریاست یا خود مختار ریاست کو دی جس کا میں باشندہ تھا،سے مکمل دستبرداری  کا قسمیہ اعلان کرتا ہوں۔اور یہ کہ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قانون اور آئین کی حفاظت اور مدد تمام غیر ملکی اور ملکی دشمنوں سے کروں گا ۔ اور پر میں پورے ایمان اور خلوص سے عمل کروں گا  اور میں یہ ذمہ داری  کسی ذہنی دباؤ یا مجبوری کے بغیر آزادانہ قبول کرتا ہوں،  خدا میری مدد کرے۔ اور میں اِس کا اقرار اپنے دستخطوں کے ساتھ کرتا ہوں
دستخط ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
    اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا  وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں  وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ  اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے  یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی  شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔
اِن بکے ہوئے امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں کے بچوں نے  جتنی مدد  اپنے نئے ملک کی کی اتنی مدد تو  اُن کے مٹی کے بچوں نے نہیں کی ۔
وزیراعظم بھٹو نے اِس خطرے کو پہچان کر پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے علیحدہ کر لیا ، یوں ایک عرصہ تک یہ لوگ  امریکہ ، برطانیہ و کینیڈا کے تیسرے درجے کے شہری رہے ۔
پاکستانی بیویوں کی بطن سے اِن کی اولاد   دوسرا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، اور 
وہاں کی عورتوں سے بغیر نکاح  یا  نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد ، پہلے درجے کی نسل میں شامل ہوگئی ، 
کیوں کہ وہ یہودی یا عیسائی ماں کی اولاد تھی ، پاکستانی باپ کی نہیں-
کئی پاکستانیوں نےاپنے  اِن بچوں خصوصاً  بیٹیوںکو پاکستان لانے کی کوشش کی وہ یاتو ایرپورٹ پر پکڑے گئے  یا یہاں آنے کے بعد  ان تینوں ملکوں نے پاکستان سے اپنے قوانین کے زور پر یہ لڑکیاں واپس منگوا لیں ۔  
کیوں کہ اِن ملکوں کے قوانین میں ، باپ کا نام  بچوں کے نام کے ساتھ صرف لاحقے کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔
عرصہ گذرنے کے بعد ، پاکستان پھر دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گیا ۔
کیوں ؟ 
کن فائدوں کے لئے ؟

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔