- ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں
،اکثر لوگ سوچتے ہیں -
” کیا ہم اپنے والدین سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟“
ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے، آپ بھی کبھی بھی تحقیق کر لیں ، آپ کو ملک کے بھکاری بھی اپنے والدین سے بہتر زندگی گزارتے ملیں گے، ان کے والدین سارا شہر مانگ کر صرف دس بیس روپے گھر لاتے تھے جب کہ کراچی اور لاہور کے بھکاری آج چھ سات ہزار روپے روزانہ کماتے ہیں۔
آپ اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ بھی کر لیں، آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا۔
گھر میں بچپن میں ایک پنکھا ہوتا تھا اور پورا خاندان ”او ہو پنکھا ادھر کریں“ کی آوازیں لگاتا رہتا تھا‘ سارا محلہ ایک روپے کی برف خرید کر لاتا تھا‘ لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے‘ ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لئے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا‘ بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے۔
لوگوں نے باہر اور گھر کے لئے جوتے اور کپڑے الگ رکھے ہوتے تھے‘ دستر خوان پر دوسرا سالن عیاشی ہوتا تھا‘ پلاؤ مہمانوں کے لئے بنتا ، سویٹ ڈش میں صرف زردہ یا کھیر بنتی تھی‘ مرغی صرف بیماری کی حالت میں پکائی جاتی تھی اور بیمار بیچارے کو اس کا بھی صرف شوربہ ملتا تھا‘ پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دیا ہوتا تھا۔
ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا‘ بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔
سائیکل خوش حالی کی علامت تھی اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا‘ گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی‘ بس اور ٹرین کے اندر داخل ہونے کے لئے باقاعدہ دھینگا مشتی ہوتی تھی اور کپڑے پھٹ جاتے تھے۔
گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لئے وقف ہوتا تھا‘ وہ آدھی رات تک ”اوئے نویدے“ کی آواز پر دوڑ کر اوپر چڑھ جاتا تھا اور انٹینے کو آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں گھماتا رہتا تھا اور اس وقت تک گھماتا رہتا تھا جب تک نیچے سے پورا خاندان ”اوئے بس“ کی آواز نہیں لگا دیتا تھا۔
پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا‘ سارا بازار مسجدوں کے استنجا خانے استعمال کرتا تھا‘ نہانے کے لئے مسجد کے غسل خانے کے سامنے قطارلگتی تھی‘ نائی غسل خانے بھی چلاتے تھے‘ یہ سردیوں میں حمام کے نیچے لکڑیاں جلاتے رہتے تھے اور لوگ غسل خانوں کے اندر گرم پانی کے نیچے کھڑے رہتے تھے اور نائی جب ان سے کہتا تھا۔
”باؤ جی بس کردیو پانی ختم ہو گیا جے“ تو وہ اس سے استرا یا تیل مانگ لیا کرتے تھے اور لوگ کپڑے میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے"۔
بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانک رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ کھا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے۔ کئی بچے آپ میں ایک دوسرے کا لنچ ایکسچینج بھی کرتے ، بعض بچے کسی اچھے لنچ کے بدلے ، کاپی کے کاغذ پر خریدی ہوئی سرخ رنگ کی کھٹی املی کی قربانی بھی دیتے ۔ چالیس اور پچاس سال کے درمیان موجود اس ملک کا ہر شخص اس دور سے گزر کر یہاں پہنچا ہے۔
آپ کو ہر ادھیڑ عمر پاکستانی کی ٹانگ پر سائیکل سے گرنے کا نشان بھی ملے گا، جو کرائے کی سائیکل لے کرریس لگانے کی نشانی ہوا کرتی تھی اور اس کے دماغ میں انٹینا کی یادیں بھی ہوں گی اور کوئلے کی انگیٹھی اور فرشی پنکھے کی گرم ہوا بھی۔
ہم سب نے یہاں سے زندگی شروع کی تھی‘ اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا!
آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم لوگوں کو دیتی ہے‘ آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں زیادہ فرق نہیں ملے گا ۔ جب کہ ہم اگر صرف تیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔
٭٭٭٭٭٭
سوال یہ ہے کہ
اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف اسٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟
مسافر جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف ایک ہی جواب آتا ہے‘ ناشکری!
ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شُکر کی کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں۔آپ نے انگریزی کا لفظ dissatisfaction سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں‘ یہ ایک خوف ناک نفسیاتی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں