یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنےتو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کیا، شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔
٭ قوم سے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’میں نے سخت ایکشن لیا ہے اور چند فربہ جنرلز کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔ وہ فوج کے وڈیرے تھے اور ہم وڈیروں کے خلاف ہیں۔‘
Army 54,154
Navy 1,381
Air Force 833
Paramilitary including police 22,000
Civilian personnel 12,000
ضمنی رپورٹ ، جو سیکٹر کے لحاظ سے جنگی شعبے کا جائزہ لیتی ہے ، اس لئے تکلیف دہ گردانی جاتی ہے کیونکہ اس میں 16 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے. ڈھاکہ میں اس کے پاس 26،000 فوج موجود تھی ، ہندوستانیوں کو غلبہ حاصل کرنے کے لئے کم از کم دو ہفتوں کی ضرورت ہوتی اور چونکہ وہ بنگالی عوام کے نجات دہندہ کے طور پر حملہ کر رہے تھے اس لئے انھوں نے بمباری کا سہارا نہ لیا ہوتا۔ اس دوران میں جنگ بندی پر بات چیت ہوسکتی تھی۔ لیکن نیازی 'تقریبا مکمل ذہنی فالج کی حالت میں تھے۔'
کُھلی عدالت میں مقدمہ
اس رپورٹ کو 30 دسمبر 2000 کو اس انداز میں پبلک کیا گیا تھا جس طرح پوری دنیا میں سرکاری ریکارڈ محفوظ دستاویزات میں محدود ریکارڈ عام کئے جاتے ہیں۔ غیر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اس رپورٹ کی کاپیاں کابینہ ڈویژن اور اس کے دفاتر کراچی اور لاہور میں رکھی گئیں۔ میڈیا اور دلچسپی رکھنے والے شہریوں نے ان سے استفادہ حاصل کیا اور بہت سے اخباروں نے دونوں اہم اور ضمنی رپورٹس کے اقتباسات چھاپے۔
جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ انھیں دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر بے جگری سے لڑنے پر ملٹری کراس اور ٹائیگر کا خطاب ملا تھا۔
جب بیشتر جنرلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کر دیا تو نیازی نے خود کو اس کام کے لیے پیش کر دیا۔
کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔
میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’یہ میں کیا سُن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے۔‘
جنرل نیازی کے خلاف 15 الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت تمغے اور پنشن ضبط کر کے برطرف کر دیا۔
انھوں نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ بھٹو کے خلاف تحریک میں پی این اے کے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی حکومت نے بوجوہ دھیان نہیں دیا۔
دو فروری 2004 کو وفات پائی اور سادگی سے دفن ہو گئے۔
میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن)
ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن)
ان کا ڈویژن کومیلا میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زخمی ہو گئے اور 12 یا 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکریٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیئرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس صدر بھی رہے۔
بریگیڈیئر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ)
وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ 10 دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس پلان پر عمل نہیں کیا۔
ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دورانِ قید ان کے تعلقات نگراں انڈین افسروں سے اتنے بہتر ہو گئے کہ کلکتہ میں کیمپ سے کبھی کبھار باہر جا کر شاپنگ بھی کر لیتے تھے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کر کے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔
بریگیڈیئر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ، 39 ڈویژن)
ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔
بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، نو ڈویژن)
ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نو دسمبر کو 124 بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔
محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش
حمود الرحمان کمیشن نے مندرجہ ذیل افسروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی۔
بریگیڈیر ایس اے انصاری ( کمانڈر 23 بریگیڈ)
ان کا نام ان 195 افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومتِ بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔
بریگیڈیئر عبدالقادر خان (کمانڈر 93 بریگیڈ۔36 ڈویژن)
خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محبِ وطن اور غیر محبِ وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ جب انڈین ایئربورن دستے ڈھاکہ کے نواح میں اترنے شروع ہوئے تو عبدالقادر ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے جمال پور میں بریگیڈ کمان کر رہے تھے۔
یہ اس مغالطے میں قیدی بن گئے کہ پیراشوٹوں سے ان کی مدد کے لیے چینی فوج اُتر رہی ہے۔
اس کے علاوہ بریگیڈیر منظور احمد ( کمانڈر 57 بریگیڈ ۔ نو ڈویژن) کے خلاف بھی محکمہ جاتی ایکشن کی سفارش کی گئی۔
کمزور پیشہ ورانہ صلاحیتیں
کمیشن نے مندرجہ زیل چار میجر جنرلوں اور 19 بریگیڈیئرز کے بارے میں کہا کہ یہ اپنی کمزور پیشہ ورانہ صلاحتیوں کے سبب مزید عسکری ذمہ داریوں کے قابل نہیں۔
میجر جنرل محمد حسین انصاری ( کمانڈر 9 ڈویژن)
پاکستان واپسی کے بعد لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین رہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا۔ بعد ازاں جماعتِ اسلامی کے احتساب سیل کے نگراں رہے اور فروغِ تعلیم و صحت کی این جی او میں بھی فعال رہے۔ چودہ جنوری 2004 کو وفات ہوئی۔
میجر جنرل قاضی عبدالمجید ( کمانڈر 14 ڈویژن)
حمود الرحمان کمیشن کی جانب سے کارروائی کی سفارش کے علاوہ ان کا نام 195 افسروں کی مطلوب حکومتِ بنگلہ دیش کی فہرست میں بھی شامل رہا۔ مگر وہ گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل نذر حسین شاہ ( کمانڈر 16 ڈویژن)
ان کے دستے نٹور کے علاقے میں تعینات تھے۔ کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ جب گرفتار ہوئے تو اس وقت بھی کچھ چٹ پٹا کھا رہے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں