Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

سابقہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کے سفر میں مددگار

   یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنےتو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کیا، شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ 

٭ قوم سے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’میں نے سخت ایکشن لیا ہے اور چند فربہ جنرلز کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔ وہ فوج کے وڈیرے تھے اور ہم وڈیروں کے خلاف ہیں۔‘

  

26 دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبد الرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے گواہوں کے بیانات، جن میں 213 آفیشل کے بیانات حلفی بشمول یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو اور اہم آفیشلز میں:۔٭٭٭

جنرل عبد الحمید خان۔لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ۔لفٹننٹ جنرل گل حسن خان۔میجر جنرل غلام عمر۔ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا ۔  لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان ۔ میجر جنرل عابد علی زاہد ۔ میجر جنرل بی ایم مصطفی ۔ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی ۔ میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن) ۔ میجر جنرل رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن) ۔ بریگیڈیئر باقر صدیقی ۔ (چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ) ۔ بریگیڈیئر محمد حیات ۔ (کمانڈر 107 بریگیڈ، 39 ڈویژن) ۔ بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی ۔ (کمانڈر 53 بریگیڈ، نو ڈویژن) ۔ بریگیڈیر ایس اے انصاری ۔ ( کمانڈر 23 بریگیڈ) ۔ بریگیڈیئر عبدالقادر خان ۔ (کمانڈر 93 بریگیڈ۔36 ڈویژن) ۔ میجر جنرل محمد حسین انصاری ۔ ( کمانڈر نو ڈویژن) ۔ میجر جنرل قاضی عبدالمجید ۔( کمانڈر 14 ڈویژن) ۔ میجر جنرل نذر حسین شاہ ( کمانڈر 16 ڈویژن) ۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی ۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان ۔ بریگیڈیئر جہانزیب ارباب (کمانڈر 57 بریگیڈ ) وائس ایڈمرل مظفر حسن ۔ ایئر مارشل عبدالرحیم خان ۔ میجر جنرل اکبر خان ۔ جنرل یعقوب علی خان ۔ بریگیڈئر صدیق سالک ۔ ائر کمانڈر انچیف ۔ ائر مارشل عبدالرحیم خان ۔ ایڈمرل سید محمد احسن ۔ رئر ایڈمرل لزلی منگوئن ۔لفٹننٹ جنرل ٹکا خان ۔ ائر کموڈور ظفر مسعود ۔ نورالامین ، رئرایڈمرل محمدشریف ۔
 
لیفٹیننٹ کمانڈرمنصور الحق ۔ ائر مارشل پیٹرک ۔ سیکریٹری اطلاعات روئیداد خان ۔

 
قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ 1972 میں پیش کی گئی جو نامکمل تھی ۔ 1973 میں جنگی قیدیوں کی واپسی کے بعد اضافی بیانات شامل کئےگئے  ا
ور دوسری رپورٹ 23 اکتوبر  1974 میں پیش کی۔
مرکزی رپورٹ میں مشرقی پاکستان میں بحران پیدا ہونے والے سیاسی امور کے ساتھ جامع طور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اس نے عوامی لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک کو 'دہشت گردی کا راج' قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے ، اور یحییٰ خان کی ناقص فوجی اور سیاسی حکمت عملی پر۔ در حقیقت ، یحییٰ خان سانحہ میں چیف مجرم کے طور پر ابھرا۔ یہ ایک جنگ تھی ۔
 جس پر
رپورٹ میں 
لکھا ، پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف تعداد میں تعداد میں تھی بلکہ اسلحے سے ٹریننگ کے لحاظ سے بھی ہر طرح بہتر تھی ۔ 
 
  پاکستان فوج کی مشرقی پاکستان میں کل تعدا د  90،000 ہزار  فوجی  ایک جھوٹا پروپیگنڈا تھا ۔وہاں کل پاکستان سے گئے  تمام بشمول فوجی ، نیوی ، ائرفورس  ، پولیس  اور سویلئین کی صحیح تعداد درج ذیل ہے ۔

Branch Number of captured Pakistani POWs
Army 54,154
Navy 1,381
Air Force 833
Paramilitary including police 22,000
Civilian personnel 12,000
Total: 90,368 
 پاک فوج تین لاکھ گوریلوں کے خلاف انتہائی نامساعد حالات میں مسلسل نو مہینے تک بر سر پیکار رہی اور بالاآخر جب ان پر قابو پانے لگی تو انڈیا سے یہ ناکامی برداشت نہ ہوئی اور ڈھائی لاکھ باقاعدہ فوج کے ساتھ تین طرف سے حملہ کر دیا ۔   اس 9 مہینے کی تھکی ہوئی فوج نے زبردست مزاحمت کی جو ہم نہیں بلکہ انڈیا کے اپنے جرنیل اور کتابیں لکھنے والے کہتے ہیں لیکن کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔ پوری فوج کو مرنے سے بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا حکم ہوا۔
 
بنگلہ دیش کے اس دعوے کے ساتھ کہ تیس لاکھ بنگالی مارے گئے اور دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی ، 
رپورٹ میں  لکھا کہ مشرقی پاکستان میں تعینات پاک فوج کی پوری طاقت کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوسکتا تھا یہاں تک کہ اگر اس کے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔
ضمنی رپورٹ ، جو سیکٹر کے لحاظ سے جنگی شعبے کا جائزہ لیتی ہے ، اس لئے تکلیف دہ گردانی جاتی ہے کیونکہ اس میں 16 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے. ڈھاکہ میں اس کے پاس 26،000 فوج موجود تھی ، ہندوستانیوں کو غلبہ حاصل کرنے کے لئے کم از کم دو ہفتوں کی ضرورت ہوتی اور چونکہ وہ بنگالی عوام کے نجات دہندہ کے طور پر حملہ کر رہے تھے اس لئے انھوں نے بمباری کا سہارا نہ لیا ہوتا۔ اس دوران میں جنگ بندی پر بات چیت ہوسکتی تھی۔ لیکن نیازی 'تقریبا مکمل ذہنی فالج کی حالت میں تھے۔'

کُھلی عدالت میں مقدمہ

کمیشن نے سفارش کی کہ جنرل یحییٰ خان کا 15 الزامات کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے اور کورٹ مارشل کے ذریعہ مختلف درجات کے دیگر افسران کے لئے بھی مقدمہ چلانے کی تجویز پیش کی گئی۔ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ جرنیل یحییٰ خان ، عبدالحمید خان ، ایم ایم پیرزادہ ، غلام عمر اور اے او مٹھا پر دونوں محاذوں پر جنگ کے سلسلے میں فرائض کی غفلت برتنے کے لئے مقدمہ چلایا جائے۔ تاہم اس ضمن میں کسی قسم کے مقدمے کی سماعت نہیں کی گئی۔
آخر حمود الرحمان کمیٹٰی رپورٹ میں ایسا کیا تھا کہ وہ 30 سال تک چھپائی گئی ۔ 
افواہوں کے بازار پر پانی ڈالنے کے لئے بالآخر جنرل پرویز مشرف نے اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے لئے وزیر داخلہ معین الدین حیدر ، کابینہ کے سکریٹری معصومہ حسن اور سکریٹری خارجہ انعام الحق پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور سفارش کی تھی کہ کیا کارروائی ہونی چاہئے۔ 
انہوں نے یہ سفارش دی کہ اس رپورٹ کو پبلک کیا جانا چاہئے اور یہ کابینہ ڈویژن کے ذریعہ 20 دسمبر 2000 کو ایک پریس ریلیز میں عوام تک پہنچا دی گئی ، جس میں ایک طویل عرصے سے اس مطالبے کا حوالہ دیا گیا کہ اس رپورٹ کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔
اس رپورٹ کو 30 دسمبر 2000 کو اس انداز میں پبلک کیا گیا تھا جس طرح پوری دنیا میں سرکاری ریکارڈ محفوظ دستاویزات میں محدود ریکارڈ عام کئے جاتے ہیں۔ غیر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اس رپورٹ کی کاپیاں کابینہ ڈویژن اور اس کے دفاتر کراچی اور لاہور میں رکھی گئیں۔ میڈیا اور دلچسپی رکھنے والے شہریوں نے ان سے استفادہ حاصل کیا اور بہت سے اخباروں نے دونوں اہم اور ضمنی رپورٹس کے اقتباسات چھاپے۔ 

حیی خان


یحییٰ خان
(بلوچ رجمنٹ)

سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و وزیر خارجہ تھے۔

بھٹو حکومت نے انھیں گھر میں نظر بند رکھا تاہم جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ یحییٰ خان کا 10 اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔ 

 جنرل عبد الحمید خان (بلوچ رجمنٹ)

جنرل عبد الحمید خان یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انھیں 20 دسمبر 1971 کو برطرف کر دیا تھا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں ان کی وفات ہوئی۔ 

لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ 

وہ صدر کے پرنسپل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پُل سمجھے جاتے تھے۔ 20 دسمبر کو انھیں بھی عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ وہ گوشہ نشین رہے۔ 

 لیفٹنٹ جنرل گل حسن خان (فرنٹیئر فورس رجمنٹ)

سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انھیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انھیں، ایئرفورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کر دیا گیا۔

اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انھیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا۔

گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں 1993 میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام پنڈی کلب کے دو کمروں میں گزارے اور وہیں 10 اکتوبر 1999 کو ان کی وفات ہوئی۔ انھیں بھی مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔ 


میجر جنرل غلام عمر 

وہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔

اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق 28 لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔

لیکن کیا ہوا کیا نہیں، کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی 20 دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیا الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین رہے۔ 

میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا  (بلوچ رجمنٹ)

20 دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں 25 مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔

دسمبر 1999 میں ان کا لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکیں، لکھ پڑھ سکیں اور سو سکیں اور چہل قدمی کے لیے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکیں۔‘

جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انھیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک۔‘ 

لیفٹینینٹ جنرل ارشاد احمد خان 

1971 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انھوں نے شکر گڑھ کے 500 دیہات بلامزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہو گئے۔ 

میجر جنرل عابد علی زاہد 

ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انھوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو انڈین دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کر سکے۔ 

میجر جنرل بی ایم مصطفی 

ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔

 لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی

جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ انھیں دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر بے جگری سے لڑنے پر ملٹری کراس اور ٹائیگر کا خطاب ملا تھا۔

جب بیشتر جنرلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کر دیا تو نیازی نے خود کو اس کام کے لیے پیش کر دیا۔

کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔

میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’یہ میں کیا سُن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے۔‘

جنرل نیازی کے خلاف 15 الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت تمغے اور پنشن ضبط کر کے برطرف کر دیا۔

انھوں نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ بھٹو کے خلاف تحریک میں پی این اے کے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی حکومت نے بوجوہ دھیان نہیں دیا۔

دو فروری 2004 کو وفات پائی اور سادگی سے دفن ہو گئے۔

میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن)

ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔

میجر جنرل رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن)

ان کا ڈویژن کومیلا میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زخمی ہو گئے اور 12 یا 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکریٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیئرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس صدر بھی رہے۔

بریگیڈیئر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ)

وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ 10 دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس پلان پر عمل نہیں کیا۔

ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دورانِ قید ان کے تعلقات نگراں انڈین افسروں سے اتنے بہتر ہو گئے کہ کلکتہ میں کیمپ سے کبھی کبھار باہر جا کر شاپنگ بھی کر لیتے تھے۔

بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کر کے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔

بریگیڈیئر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ، 39 ڈویژن)

ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔

بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، نو ڈویژن)

ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نو دسمبر کو 124 بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش

جسٹس حمود الرحمٰن جن کی زیر سربراہی سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کے تعین کے لیے کمیشن قائم کیا گیا

حمود الرحمان کمیشن نے مندرجہ ذیل افسروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی۔

بریگیڈیر ایس اے انصاری ( کمانڈر 23 بریگیڈ)

ان کا نام ان 195 افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومتِ بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔

بریگیڈیئر عبدالقادر خان (کمانڈر 93 بریگیڈ۔36 ڈویژن)

خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محبِ وطن اور غیر محبِ وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ جب انڈین ایئربورن دستے ڈھاکہ کے نواح میں اترنے شروع ہوئے تو عبدالقادر ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے جمال پور میں بریگیڈ کمان کر رہے تھے۔

یہ اس مغالطے میں قیدی بن گئے کہ پیراشوٹوں سے ان کی مدد کے لیے چینی فوج اُتر رہی ہے۔

اس کے علاوہ بریگیڈیر منظور احمد ( کمانڈر 57 بریگیڈ ۔ نو ڈویژن) کے خلاف بھی محکمہ جاتی ایکشن کی سفارش کی گئی۔

کمزور پیشہ ورانہ صلاحیتیں

کمیشن نے مندرجہ زیل چار میجر جنرلوں اور 19 بریگیڈیئرز کے بارے میں کہا کہ یہ اپنی کمزور پیشہ ورانہ صلاحتیوں کے سبب مزید عسکری ذمہ داریوں کے قابل نہیں۔

میجر جنرل محمد حسین انصاری ( کمانڈر 9 ڈویژن)

پاکستان واپسی کے بعد لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین رہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا۔ بعد ازاں جماعتِ اسلامی کے احتساب سیل کے نگراں رہے اور فروغِ تعلیم و صحت کی این جی او میں بھی فعال رہے۔ چودہ جنوری 2004 کو وفات ہوئی۔

میجر جنرل قاضی عبدالمجید ( کمانڈر 14 ڈویژن)

حمود الرحمان کمیشن کی جانب سے کارروائی کی سفارش کے علاوہ ان کا نام 195 افسروں کی مطلوب حکومتِ بنگلہ دیش کی فہرست میں بھی شامل رہا۔ مگر وہ گوشہ نشین ہو گئے۔

میجر جنرل نذر حسین شاہ ( کمانڈر 16 ڈویژن)

ان کے دستے نٹور کے علاقے میں تعینات تھے۔ کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ جب گرفتار ہوئے تو اس وقت بھی کچھ چٹ پٹا کھا رہے تھے۔

میجر جنرل راؤ فرمان علی 

وہ 10 برس سے زائد عرصے تک مشرقی پاکستان میں مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے جس میں انٹیلیجینس اور سیاسی جوڑ توڑ کے امور بھی شامل تھے۔ ڈائری لکھنے کے شوقین تھے۔ ان کی قبضہ شدہ ڈائری میں یہ جملہ بھی تھا ’مشرقی پاکستان کے سبزہ زار کو سرخ کرنا ہو گا۔‘

حسن ظہیر نے اپنی کتاب ’دی سیپریشن آف ایسٹ پاکستان‘ میں راؤ صاحب کو ڈھاکہ میں 24 مارچ کی رات کو شروع ہونے والے آپریشن سرچ لائٹ کا اہم ذمہ دار قرار دیا۔

جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں الزام لگایا کہ ہتھیار ڈالنے سے دو روز پہلے راؤ فرمان علی نے قید میں موجود 200 کے لگ بھگ بنگالی دانشوروں اور اساتذہ کو قتل کروا دیا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ واردات فوج نے کی یا البدر اور الشمس رضاکاروں کے ذریعے ہوئی۔

سنہ 1973 میں قید سے واپسی پر راؤ فرمان علی کو ریٹائر کر دیا گیا۔ تاہم ان کی پنشن، رینکس اور تمغے بحال رہے۔ جولائی 1977 میں ضیا الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو الیکشن سیل بنایا اس میں بھی فعال رہے۔

پھر ضیا کابینہ میں دو برس پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’پاکستان کیسے تقسیم ہوا‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔

کچھ اور بھی کردار ہیں جن کا کمیشن کی رپورٹ میں تذکرہ تو ہے لیکن کسی طرح کی کارروائی کی واضح سفارش نہیں کی گئی جیسے: 

لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان 

لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کے استعفے کے بعد انھیں ایسٹرن کمان کے سربراہ کے طور پر ڈھاکہ بھیجا گیا۔

24 اور 25 مارچ کی درمیانی شب آپریشن سرچ لائٹ انھوں نے ہی شروع کیا۔ ان سے یہ فقرہ منسوب ہے کہ ’مجھے لوگ نہیں زمین چاہیے۔‘

اپریل کے پہلے ہفتے میں ان کی جگہ جنرل نیازی نے لے لی اور ٹکا خان کو ملتان کور سونپ دی گئی۔

تین مارچ 1972 کو بھٹو حکومت نے ٹکا خان کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کر کے پہلا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ جنرل ضیا کے دور میں وہ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنے۔ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں گورنر پنجاب رہے۔

28 مارچ 2002 کو ٹکا خان کی وفات ہوئی۔ ان کے جنازے میں اعلیٰ سویلین و فوجی قیادت شریک ہوئی اور فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ’وہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر سخت محنت اور قانون کی حکمرانی کے سبب پہنچے۔‘ 

بریگیڈیئر جہانزیب ارباب کمانڈر 57 بریگیڈ 

حمود الرحمان کمیشن کے روبرو گواہوں نے ان پر لوٹ مار، قتل وغارت میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔ بقول جنرل نیازی بدعنوانیوں کی پاداش میں بریگیڈیئر ارباب اور ان کے ساتھی جونیئر افسروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی اور انھیں مغربی پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔

جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد جنرل ارباب بحثیت کمانڈر فائیو کور سندھ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور گورنر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر بھی رہے۔ 

وائس ایڈمرل مظفر حسن 

1969 سے دو مارچ 1972 تک بحریہ کے سربراہ رہے۔ انھیں، فوج کے سربراہ گل حسن اور فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان کے ساتھ فوج کی جیگ برانچ کی سفارش پر مراعات ضبط کرکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

دورانِ جنگ انھیں فضائیہ سے مدد نہ ملنے کی مسلسل شکایت رہی۔ اس بارے میں فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جو انھوں نے مظفر حسن سے کہا: ’اولڈ بوائے۔۔۔ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔ مجھے افسوس ہے تمہارے جہاز ڈوب گئے۔۔‘ 

ایئر مارشل عبدالرحیم خان 

دورانِ جنگ پاک فضائیہ کے سربراہ رہے۔ بھٹو کو اقتدار کی منتقلی میں گل حسن کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔ مگر تین مارچ 1972 کو جیگ برانچ کی سفارش پر برطرف ہوئے اور مراعات ضبط ہو گئیں۔

بھٹو نے تالیفِ قلب کے لیے سپین میں سفیر بنا دیا لیکن 13 اپریل 1977 کو انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجاً سفارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد امریکہ میں بس گئے اور وہیں 28 فروری 1990 کو انتقال ہوا۔

کچھ افسروں کے پاس اہم ذمہ داریاں تھیں لیکن ان کا کردار زیرِ بحث نا آ سکا جیسے: 

میجر جنرل اکبر خان 

166 سے 1971 تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی رہے۔ انھوں نے یحیی خان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر کے ساتھ مل کر 1970 کے انتخابات میں حسبِ منشا نتائج حاصل کرنے کے لئے خاصی تگ و دو کی۔ 

کردار نبھانے سے انکار 

مگر کچھ ایسے جرنیل بھی تھے جنھوں نے آنکھ بند کر کے ڈرامے کے کردار نبھانے سے انکار کر دیا جیسے: 

جنرل یعقوب علی خان 

صاحبزادہ یعقوب علی خان کو مشرقی پاکستان کے حوالے سے حکومتی حکمتِ عملی سے اختلاف تھا۔

جب مشرقی پاکستان میں ایجی ٹیشن زوروں پر تھا تو یہ ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ اورمارشل لا ایڈمنسٹریٹر زون بی تھے۔ انھوں نے سات مارچ 1971کو فوجی قیادت کی مشرقی پاکستان کے تناظر میں سیاسی و عسکری حکمتِ عملی سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ 

ایڈمرل ایس ایم احسن 

ان کا شمار پاکستانی بحریہ کے معماروں میں ہوتا ہے۔ سات مارچ 1971 کو یحییٰ حکومت کی مشرقی پاکستان سے متعلق پالیسوں پر اختلاف کرتے ہوئے وہاں کی گورنری سے استعفیٰ دے دیا۔

پنڈی کی فوجی قیادت کے سامنے وہ تنِ تنہا مشرقی پاکستان کا سیاسی مقدمہ لڑتے رہے جس پر انھیں ’ایک مشکل آدمی‘ اور ’بنگالیوں کے ہاتھوں بکنے والا‘ جیسے طعنے بھی سننے پڑے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سربراہ بھی رہے۔ انھوں نے پورٹ قاسم کی بنیاد رکھی۔ آخری زندگی گوشہ نشینی میں گزاری اور چار دسمبر 1989 کو وفات ہوئی۔ اعلیٰ سول و فوجی قیادت کی موجودگی میں اعزاز کے ساتھ کراچی کے فوجی قبرستان میں تدفین ہوئی۔

اور ہزاروں ایسے فوجی جوان اور افسر بھی تھے جنھیں محلاتی سازشوں اور پیچ و خم کی کوئی خبر نہیں تھی۔ جن کا نام دوستوں اور دشمنوں نے عزت سے یاد رکھا۔ جیسے فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس، میجر محمد اکرم، میجر شبیر شریف، سوار محمد حسین، لانس نائیک محفوظ وغیرہ۔ 

بیوروکریٹس اور سیاستدان

کچھ بیورو کریٹس نے یحییٰ حکومت کے ہر اقدام کی رطب السانی میں زمین آسمان ایک کر رکھے تھے۔ اس وقت زیادہ اصحاب کے تذکرے کی گنجائش نہیں۔ بطور نمونہ ایک نام کافی ہے جیسے، روئیداد خان۔ 

روئیداد خان 

روئیداد خان مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے آغاز سے جون 1972 تک سیکریٹری اطلاعات رہے۔ ان کا شمار پاکستان کے سدا بہار بیورو کریٹس میں تھا۔ انھوں نے پانچ صدور کے ساتھ کام کیا۔

یحییٰ حکومت کے دوران انھوں نے بطور سیکریٹری اطلاعات اس بات کو یقینی بنایا کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بھنک مغربی پاکستان والوں کو نہ پڑ جائے۔

انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مینجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر کو ایک دستاویزی فلم ’دی گریٹ بٹریل‘ بنانے کا کام سونپا جس کی شوٹنگ مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں کی گئی۔

اس فلم کا مقصد مکتی باہنی کے مظالم اجاگر کرنا تھا۔ چونکہ یہ فلم آپریشن شروع ہونے کے چار ماہ بعد جولائی میں شوٹ ہوئی لہٰذا اس میں جو لاشیں اور کھوپڑیاں دکھائی گئیں ان کے بارے میں یہ طے نہ ہو سکا کہ انھیں کس نے مارا ہے۔ لہٰذا اس فلم کی سکریننگ کا منصوبہ کر کے اسے محمکہ اطلاعات کے ڈبوں میں بند کر دیا گیا۔

روئیداد خان مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے مارچ میں آغاز سے جون 1972 تک سیکریٹری اطلاعات رہے۔ اور پھر بھٹو حکومت نے انھیں کسی اور محکمے کی ذمہ داری سونپ دی۔ جنرل ضیا الحق کے طویل عرصے سکریٹری داخلہ رہے۔

جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو عبوری حکومت میں احتسابی سیل کے نگراں رہے۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ’پاکستان، اے ڈریم گون ساور‘ لکھی۔ برٹش اور امریکن پیپرز کو بھی کتابی شکل دی۔

جہاں تک سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو سوائے اصغر خان، ولی خان، جی ایم سید اور ملک غلام جیلانی کے مغربی پاکستان میں کم و بیش سب نے مشرقی پاکستان کے بارے میں سرکاری کہانی کو بلا سوال و جواب ہضم کر لیا۔

 26 مارچ کو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘ 

مئی 1971 میں امیرِ جماعتِ اسلامی مولانا مودودی نے کہا ’ہماری بہادر افواج نے پاکستان بچا لیا۔‘ 

یحییٰ حکومت نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 78 اور صوبائی اسمبلی کی 193 نشستوں کو خالی قرار دے کر ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن امن و امان کی صورتِ حال کے سبب یہ ممکن نہ ہو سکا۔

چنانچہ ان نشستوں کو ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں بندر بانٹ کر کے جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ کے دھڑوں اور پیپلز پارٹی میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں یہ عمل قالین کے نیچے خاموشی سے دبا دیا گیا۔

حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو دبانے اور سیاسی جماعتوں کی خاموش و اعلانیہ تائید سے آئندہ کے لیے یہ بات طے ہو گئی کہ احتساب اور پاکستان دو مختلف اصطلاحیں رہیں گی۔

سنہ 1977 میں حکومت کا تختہ الٹا جانا، بھٹو کی پھانسی، بعد میں آنے والی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ، بناسپتی اتحادوں کی تشکیل، کارگل اور مشرف کا برسر اقتدار آنا اور ہر حکومت پر غیر یقینی کے باوردی سائے۔۔۔

 اس سب کے ڈانڈے اکہتر کے سال میں ہونے والے واقعات سے آنکھیں موندنے سے جا ملتے ہیں۔ چاہے کوئی پسند کرے یا نا کرے۔ (منقول) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیگر مضامین : - 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔