پاکستان کے گاؤں دیہاتوں ، یہاں تک شہروں میں بھی
"جہاں جہالت کا اندھا، ننگا اور دنگا راج ہے"
وہاں کے گھروں میں جو بچہ
کاہل، کام چور ڈفر، حرام خور اور انتہائی درجے کا نکھٹو ہوتا اس کا باپ اس کو کان
سے پکڑ کر تشریف پر لاتیں مارتا گھسیٹتا قریبی مسجد کے چوبارے پر باندھ کر، مُلاّ کے حوالے یہ کہہ
کر کرتا ہے۔
"اعلیٰ حضرت ، چمڑی آپ کی اور ہڈیاں میری"
اسکے بعد دس سال تک کیا ہوتا ہے ؟
وہ اس بچے کے ورثاء کے علاوہ تمام دنیا خوب جانتی ہے مگر اس ہونے کا براہ راست اثر ہمارے معاشرے پر پڑتاہے جو اندر سے ناسور کی طرح قوم کے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں کو بھی سڑاتا جاتا ہے ۔
اپنے جیسے پست و سازشی ذہنوں کے درمیان پرورش پایا ہوا یہ جادوگر ، اپنے ناقص علم کی ڈگڈگی بجاتا ، قوم کو اپنے پیچھے لے کر چلتا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ اچھے اچھے پڑھے لکھے ذمہ دار افراد ان نکھٹو بچوں کے سامنے اپنے ٹھوڑیوں کے بل گرکر روتے نظر آتے ہیں۔
روز مرہ کی زندگی کے ہر معاملے کو عقل و شعور کے ساتھ باریکی بینی سے پرکھنے والے افراد اگر کسی معاملات میں عقل استعمال نہیں کرتے تو وہ ایسے مذہبی مسائل ہیں، جو لڑائیوں کے سواء کسی بھی اچھی بات کو جگہ نہیں دیتے ، جن کو سمجھنے اور سمجھانے کا مکمل ٹھیکہ انہوں نے، اِن کُند ذہن بچوں کے حوالےکیا ہوا ہے۔
"اعلیٰ حضرت ، چمڑی آپ کی اور ہڈیاں میری"
اسکے بعد دس سال تک کیا ہوتا ہے ؟
وہ اس بچے کے ورثاء کے علاوہ تمام دنیا خوب جانتی ہے مگر اس ہونے کا براہ راست اثر ہمارے معاشرے پر پڑتاہے جو اندر سے ناسور کی طرح قوم کے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں کو بھی سڑاتا جاتا ہے ۔
اپنے جیسے پست و سازشی ذہنوں کے درمیان پرورش پایا ہوا یہ جادوگر ، اپنے ناقص علم کی ڈگڈگی بجاتا ، قوم کو اپنے پیچھے لے کر چلتا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ اچھے اچھے پڑھے لکھے ذمہ دار افراد ان نکھٹو بچوں کے سامنے اپنے ٹھوڑیوں کے بل گرکر روتے نظر آتے ہیں۔
روز مرہ کی زندگی کے ہر معاملے کو عقل و شعور کے ساتھ باریکی بینی سے پرکھنے والے افراد اگر کسی معاملات میں عقل استعمال نہیں کرتے تو وہ ایسے مذہبی مسائل ہیں، جو لڑائیوں کے سواء کسی بھی اچھی بات کو جگہ نہیں دیتے ، جن کو سمجھنے اور سمجھانے کا مکمل ٹھیکہ انہوں نے، اِن کُند ذہن بچوں کے حوالےکیا ہوا ہے۔
گویا کہ وہ ، اِن بچوں سے
بھی گزرے ہوئے ۔
تحریر : شجاعت علی خان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں