آج 12 ربیع الاول ہے ، نیک اور ایماندار لوگوں نے
مسجدوں میں ، نعت خواں کی آواز میں آواز ملا کر، اپنے اپنے قصیدانِ بُردہ
فلک شگاف رتھوں میں بٹھا کر اُفق کے پار روانہ کر دئے ہیں ۔
مخیئر حضرات نے شیرینی کی دیگیں پکا کر ، فقراء ، مساکین ، غریبوں اور بھکاریوں کے علاوہ اپنے نزدیکی 40 گھروں تو کیا دوردراز رہنے والوں کے ہاں بھی کاروں میں بھجوائی ہیں ۔
عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جشن ولادت و وصال منانے والوں نے گھر پر جھلملاتی روشنیوں کے برقی قمقموں کی لڑیاں سجا دی ہیں ۔
منکرانِ عید میلاد النبی ﷺ کو قائل کرنے کے لئے ملاؤں نے ، اِن سب کو دلیل الکتاب کھول کر ترنم و لے میں سُنائی ہے ۔ اور کچھ حضرات اِس آیت سے اپنے اپنے یومِ ولادت و برسی و عرس کے لئے استنباط کرتے ہیں ۔
جیسے کے آج ایک فیس بک دوست نے یہ آیت پیش کی ۔
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا [19:15]
اب کون ہے جو اِس آیت سے کُفر کرے ، الکتاب کے پنوں میں یہ پوری اپنی آب و تاب سے ، اپنے سیاق و سباق کے ساتھ روشن ہے ۔
ھر مسلمان ،اِس آیت کی روشنی میں اپنی سالگرہ منانے کا حق رکھتا ہے کیوں ٹھیک ہے نا ؟
لیکن کیا مُلا کو اِس کا سیاق معلوم ہے ؟
کیا اللہ کی یہ نباء ہر شخص کے لئے ہے ؟
میرا خیال ہے کہ نہیں !
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴿19:12﴾
وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ﴿19:13﴾
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴿19:14﴾
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿19:15﴾
سورۃ مریم کی ، 12، 13 اور 14 آیات کو غور سے پڑھیں اور اپنے پاس موجود نسخوں میں سے ترجمہ دیکھیں ، تو شاید آپ کو نہ اللہ کے اِس سلام کا سیاق و سباق معلوم بلکہ شانِ نزول (عید میلاد النبی ﷺ) بھی سمجھ آجائے گی ۔
لیکن ٹہریں : کیا يَوْمَ وُلِدَ النبیﷺ کا 12 ربیع الاول ہی ہے ۔ یا ہم کوئی بھیانک غلطی اِس وجہ سے کر رہے ہیں، کہ کہیں 12 ربیع الاول یوم الحزن نہ منانا پڑے ؟
صبح دوستوں کی اطلاع کے لئے وٹس ایپ اور فیس بک پر کسی کی کشید کی ہوئی یہ پوسٹ لگائی۔ جس پر دشنام طرازی اب تک جاری ہے ۔
ایک طالب ہدایت اللہ نامی دوست نے جن کا تعلق غالباً " پی ٹی آئی " سے ہے لکھا :
محترم سرکار آپ میلادی هوں یا نہ هوں لیکن کم از کم جهوٹ تو نہ پهیلائیں.یہ جو پوسٹ آپ نے لگائی هے اگر آپ اپنی بات میں سچے ہیں تو اسی کتاب کو بازار سے لے کر اس کایہی پیج سکین کر کے لگائیں یہاں تو میں بهی آپ کے ساتهہ شامل هوں گا.خدا کے لئے کیوںکسی کے بغض نفرت میں اپنا ایمان خراب کرتے ہیں جهوٹے الزامات لگا کر!
آج گالف کھیلتے ہوئے اپنے دو معزز اعلیٰ تعلیم یافتہ کورس میٹس سے ، يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ النبیﷺ پر بحث ہوئی ، اُنہوں نے ، یک زبان کہا ۔
"ہم نے آج تک، نہیں پڑھا اور نہ سُنا کہ محمد ﷺ ، 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے ، سب 12 ربیع الاول پر متفق ہیں ۔ "
اُن تمام حضرات بشمول دوستوں کے لئے اور خاص طور پر ہدایت اللہ کے لئے ۔ (تصویروں کو کلک کریں گے تو پی ڈی ایف فائل کھل جائے گی )
ارے ھاں : احمد رضا خان بریلویوں (حمد و نعت کا دلدادہ مسلک) کے امام ہیں ، وکی پیڈیا میں جن کے متعلق درج ہے
احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔
نوٹ : جو پہلے سے لکھی گئی کُتب کی تلخیص ہے ! ہماری فوجی زبان میں اِسے چھاپہ کہتے ہیں -
مخیئر حضرات نے شیرینی کی دیگیں پکا کر ، فقراء ، مساکین ، غریبوں اور بھکاریوں کے علاوہ اپنے نزدیکی 40 گھروں تو کیا دوردراز رہنے والوں کے ہاں بھی کاروں میں بھجوائی ہیں ۔
عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جشن ولادت و وصال منانے والوں نے گھر پر جھلملاتی روشنیوں کے برقی قمقموں کی لڑیاں سجا دی ہیں ۔
منکرانِ عید میلاد النبی ﷺ کو قائل کرنے کے لئے ملاؤں نے ، اِن سب کو دلیل الکتاب کھول کر ترنم و لے میں سُنائی ہے ۔ اور کچھ حضرات اِس آیت سے اپنے اپنے یومِ ولادت و برسی و عرس کے لئے استنباط کرتے ہیں ۔
جیسے کے آج ایک فیس بک دوست نے یہ آیت پیش کی ۔
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا [19:15]
اب کون ہے جو اِس آیت سے کُفر کرے ، الکتاب کے پنوں میں یہ پوری اپنی آب و تاب سے ، اپنے سیاق و سباق کے ساتھ روشن ہے ۔
ھر مسلمان ،اِس آیت کی روشنی میں اپنی سالگرہ منانے کا حق رکھتا ہے کیوں ٹھیک ہے نا ؟
لیکن کیا مُلا کو اِس کا سیاق معلوم ہے ؟
کیا اللہ کی یہ نباء ہر شخص کے لئے ہے ؟
میرا خیال ہے کہ نہیں !
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴿19:12﴾
وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ﴿19:13﴾
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴿19:14﴾
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿19:15﴾
سورۃ مریم کی ، 12، 13 اور 14 آیات کو غور سے پڑھیں اور اپنے پاس موجود نسخوں میں سے ترجمہ دیکھیں ، تو شاید آپ کو نہ اللہ کے اِس سلام کا سیاق و سباق معلوم بلکہ شانِ نزول (عید میلاد النبی ﷺ) بھی سمجھ آجائے گی ۔
لیکن ٹہریں : کیا يَوْمَ وُلِدَ النبیﷺ کا 12 ربیع الاول ہی ہے ۔ یا ہم کوئی بھیانک غلطی اِس وجہ سے کر رہے ہیں، کہ کہیں 12 ربیع الاول یوم الحزن نہ منانا پڑے ؟
صبح دوستوں کی اطلاع کے لئے وٹس ایپ اور فیس بک پر کسی کی کشید کی ہوئی یہ پوسٹ لگائی۔ جس پر دشنام طرازی اب تک جاری ہے ۔
ایک طالب ہدایت اللہ نامی دوست نے جن کا تعلق غالباً " پی ٹی آئی " سے ہے لکھا :
محترم سرکار آپ میلادی هوں یا نہ هوں لیکن کم از کم جهوٹ تو نہ پهیلائیں.یہ جو پوسٹ آپ نے لگائی هے اگر آپ اپنی بات میں سچے ہیں تو اسی کتاب کو بازار سے لے کر اس کایہی پیج سکین کر کے لگائیں یہاں تو میں بهی آپ کے ساتهہ شامل هوں گا.خدا کے لئے کیوںکسی کے بغض نفرت میں اپنا ایمان خراب کرتے ہیں جهوٹے الزامات لگا کر!
آج گالف کھیلتے ہوئے اپنے دو معزز اعلیٰ تعلیم یافتہ کورس میٹس سے ، يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ النبیﷺ پر بحث ہوئی ، اُنہوں نے ، یک زبان کہا ۔
"ہم نے آج تک، نہیں پڑھا اور نہ سُنا کہ محمد ﷺ ، 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے ، سب 12 ربیع الاول پر متفق ہیں ۔ "
اُن تمام حضرات بشمول دوستوں کے لئے اور خاص طور پر ہدایت اللہ کے لئے ۔ (تصویروں کو کلک کریں گے تو پی ڈی ایف فائل کھل جائے گی )
احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔
نوٹ : جو پہلے سے لکھی گئی کُتب کی تلخیص ہے ! ہماری فوجی زبان میں اِسے چھاپہ کہتے ہیں -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں