Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 31 اکتوبر، 2021

اندرونی اور بیرونی دنیا کا رابطہ

آپ کا جو فعل میں نے دیکھا، اُس پر میں نے بھی ہوبہو عمل کیا ۔


ہمارے دماغ میں کسی بھی ڈیٹا کو اپنے اندر سمونے کا حجم کتنا ہے ۔ ہم حتمی طور پر نہیں بتا سکتے ۔اگر ہم میڈیکل سائنس کے ماہرین کایہ مفروضہ درست مان لیں لیں کہ ایک انسان کے ذہن میں 24 گھنٹوں میں تقریباً 70 ہزارسوچیں پیدا ہوتی ہیں یا ایک انسان کے دماغ میں آنکھوں کے ذریعے بیدار ہونے کے بعد ، سونے کا وقت نکال کر ،ریکارڈ ہونے والی بصری وڈیو کا ذخیرہ 50 سال کی عمر تک تقریباً ً 30 لاکھ گھنٹوں کی وڈیو ریکارڈنگ جگہ میں محفوظ ہوتا ہے ۔ ، کمپیوٹر کی طرح  دماغ کے علاوہ انسانی سر میں ننھے ننھے چپ سیٹس ہوتے ہیں جن کا لنک دماغ کے ساتھ جڑے ہوئے سر میں موجود ننھے   سے  حصے  سے ہوتا ہے ۔

جن میں ایک ہپّو کیمپس    بھی ہے ۔جو جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق بصری وڈیو ذہن میں چلاتا ہے ۔کیوں کہ اِس میں دماغ میں بھیجی جانے والی تمام معلومات بشمول خودکارنروس سسٹم کے لنک موجود ہوتے ہیں  اِسے آپ ھارڈ ڈسک کازیرو سیکٹر یا کتابی فہرست سمجھ لیں ۔

  بوڑھے کے دماغ میں بچپن سے لے کر اب تک یعنی 68 سال کی عمر میں مقصد اور بلامقصد بصری وڈیوز پر مشتمل ۔ 37 لاکھ گھنٹوں کا ذخیرہ  تو ہونا چاھئیے ۔

ہر انسان کے لئے قانونِ قدرت ایک ہے ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس میں با مقصد اور بلا مقصدوڈیوز کے کتنے ذخائر ہیں ؟

 یو ں سمجھئے کی بوڑھے کی عمر کا ایک میڈیکل ڈاکٹر اور ساتھ ہی اعلیٰ کلاس کا سرجن ،جس نے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی ہو اور لاکھوں نہیں تو ہزاروں مختلف آپریشن کئے ہوں اُس کے دماغ میں موجود بامقصد بصری وڈیو اور بوڑھے کے ذہن میں موجود بامقصد وڈیو ریکارڈنگ کے تناسب میں 50 فیصد کا فرق تو ضرور ہو گا ۔ یا ممکن ہے صرف 33 فیصد ہو ۔ بعینہی اِسی طرح اگر یہ ڈاکٹر ، القرآن کا حافظ ہو اور اُس نے   بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک القرآن کے الفاظ یاد رکھے ہوں اور اُن کو ہر سال دھراتا ہو ، تو اُس کے بامقصد بصری وڈیو کا ذخیرہ  اپنے ہم عصر ڈاکٹر سے زیادہ ہوگا اور دماغ میں موجود اب تک پڑھے گئے الفاظ کی لغت  پہلے والے ڈاکٹر  کے ذہن میں پہلے  لفظ   آبَاءِسےلے کر آخری لفظ  يَئِسَ  تک آنے والے 14814 الفاظ سے یقیناً کم ہوگی ۔جن کی دھرائی  جو کم و بیش 77 ہزار الفاظ پر مشتمل ہیں ، کی بصری فلم کم و بیش 5 تا 7 سالوں پر محیط ہوتی ہے ۔

پیدائش سے بچہ کی  پانچوں حواس سے بننے والی بصری فلم میں ،سب سے پہلے ماں کے چھونے کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے ۔ پھر ماں کے جسم کی خوشبو  اُس کے ذہن میں محفوظ ہوتی ہے           بچے کو دی جانے والی گھٹی اور پھر ماں کے دودھ کا ذائقہ، ماں کی لوری اُس کے کانوں سے دماغ میں بسیرا کرتی ہے اور آخر میں ماں سمیت تمام اُسے پیار کرنے والوں کی بصری وڈیوز جو اُس کے پانچوں حواس کے لنک کے ساتھ محفوظ ہو جاتی ہے ۔

بچہ وہی عمل کرتا ہے جو  فعل وہ دیکھتا ہے ۔

لیکن اگر فاعل کے قول میں تضاد ہو تو بچے کی شخصیت، اِس منافقت کی وجہ سے  دھری ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔

 ماں  باپ ، دادا دادی ، نانا نانی، بہن  بھائی،  باپ کے تمام رشتہ دار ، ماں کے تمام رشتہ دار ، اُن کے بچے، پڑوسیوں اور جاننے والوں کے بچے ، محلے کے بچے اور لوگ ، اساتذہ یہ سب بچے کے دماغ میں اپنے افعال پہچاتے ہیں اور بچہ اپنی سوچ کے سہارے ذہن سے  ہر وہ عمل کرتا ہے ۔ جو فعل وہ دیکھتا ہے ۔اچھا فعل اور بُرافعل کو پہچاننے کی تربیت  ماں سے شروع ہوجاتی ہے ۔

والدین ، سوسائٹی اور اساتذہ بچے کی تربیت کے تین ستون ہوتے ہیں۔ جو ایک بچے کے دماغ میں اپنے افعال کا ذخیرہ جمع کرواتے رہتے ہیں ۔ بچہ یا تو ہوبہو اُن پر عمل کرتا ہے یا پھر اپنی ذہن میں اچھے اور برے افعال کی چھانٹی کرنے کے بعد اپنی پسند کے افعال پر زمان(وقت)  و مکان  (مقام) کے لحاظ سے  عمل کرتا ہے ۔اُس کا عمل دوسروں کی دکھائی جانے والا فعل بن جاتا ہے ۔  ہر انسان اپنے اندر جمع افعال کو مختلف انداز سے اعمال میں ڈھالتے ہیں ۔

ابو آپ کے دوست آئے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔

 جاؤ اُن سے کہہ دو میں گھر پر نہیں !۔

بیٹا دوست سے ، ابو سوچکے ہیں ۔

اُن کے اعمال دوسروں کے لئے قول و فعل کا درست   اظہار  (الحق) ہوتے ہیں یا پھر قول و فعل کے متضاد (تکبّر) ہوتے ہیں ۔

ایک بچے کی اندرونی دنیا ، بچپن میں خالص اور تکبّر سے مبرّا ہوتی ہے لیکن پھر اُس میں باہر کی دنیا ہے قول و فعل کےمتضاد رویّوں کا عکس پڑنا شروع ہوجاتا ہے ۔

 انسانی تمام اچھائیاں اور برائیاں ، اُس کے دماغ اور ذہن کا کھیل ہے۔دماغ میں حواسِ خمسہ سے وصول ہونے والی تمام معلومات  ذخیرہ ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ ذہن میں سوچوں کے کھٹولے پر آوارہ گردی کرتی ہیں ۔ مثبت سوچ مثبت سے جڑتی ہیں اور منفی سوچ منفی سے جڑتی ہیں ۔ لیکن پریشانی اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب منفی سوچیں مثبت سوچوں پر حاوی ہو کر اعمال کا روپ دھار کر دوسرے انسان یا خود کے لئے مصیبت بنتی ہیں  ۔
جس کے لئے اُس کے خالق نے اُسے مکمل صوابدیدی اختیار دے رکھا ہے ۔مثبت سوچ اُس کے اچھے اعمال کے ساتھ اُسے انسانی بلندی پر لے جائے گی اور منفی سوچ اُسے حیوانی  کامیابیاں دلوا دے مگر انسانیت کے مرتبے سے گرا دے گی ۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا  فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (91)
فجور تمام شیطانی برائیاں اور تقویٰ تمام انسانی اچھائیاں۔ 
تو اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو!    ۔ 
اندرونی دنیا کا بیرونی دنیا سے رابطے پر آپ کا مکمل صوابدیدی اختیار ہے ۔ کہ مثبت راہ چنی جائے یا منفی ۔ بس آپ نے اپنے سر میں موجود دماغ (ہارڈڈسک) کے نیچے واقع ،مڈ برین  میں موجود ،  چپ سیٹس کوخود  ایڈجسٹ کرنا یا کسی ماہر  سے  ایڈجسٹ کروانا  ہے ۔ جو اتنا آسان تو نہیں لیکن وقت کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔کیوں  کہ آپ کا دماغ آپ کے ذہن کے تابع ہے۔ خواہ یہ اجتماعی شعور ،سےتبدیل ہو یا آپ کے ذاتی شعور سے اپنی سمت تبدیل  کرے۔ اجتماعی شعور کے لئے آپ کو ایسی محفلیں چننا پڑیں گی جن میں مقرر یا عالم مثبت آفاقی سوچ کا درس دیں ۔آفاقی سوچ سب انسانوں کے لئے ایک ہوتی ہے ۔ لیکن مذاہب اُن میں تفریق کر دیتے ہیں ۔   

  انسان کو تخلیق کرنے سے پہلے انسان کے خالق نے   مکمل انسانی پلاننگ کرلی تھی ۔ انسانی دماغ کا گرے میٹر اور وھائیٹ میٹر  اِن کے اور  حرام مغز  ( سپائنل کارڈ) کے درمیان چھوٹے چھوٹے  اجسام  جو مکمل  خودکار اور اپنے اندر بہترین انتظام کے ساتھ  وسطی دماغ  کے ساتھ جس میں پونز اور میڈولاجیسے منتظم لئے ہوتی ہے۔جس کی حفاظت کا انتظام جسم کے مکمل صحتمند ہونے پر منحصر ہے ۔ جس کے منتظم آپ ہیں۔
   بہت سے دوستوں نے فیس بُک اور وٹس ایپ پر پرسنل میسج میں پوچھا کہ اِن دماغی وضاحت کا مقصد کیا ہے ؟ اتنا تو ہم کو بھی معلوم ہے ۔
میں نے سوال کیا کہ آپ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہیں کیا آپ کو کاربوریٹر کا پورا فنکشن معلوم ہے ؟
گاڑی کے انجن کی سپیڈ اُس کی صحت کا انحصار کاربوریٹر پر ہے ۔ کیوں کہ کاربوریٹر میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں ۔ ایک پیٹرول اور دوسرا اُس کے اندر جانے والی ہوا ۔یہ دونوں صاف ہونا چاھئیں ۔تو انجن کو لمبے عرصے تک اوور ھال کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور انجن کی غذا ( انجن آئیل) ۔اگر آپ اِن پر توجہ دیں گے تو آپ فخر سے کہیں گے کہ میری گاڑی  اتنے لاکھ کلومیٹر چل چکی ہے اور اب تک اوور ھال نہیں ہوئی ۔
      ہسپتال اوور ھالنگ کے لئے انسانی گاڑیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کیوں ؟
تمام انسانی بیماریاں حواسِ خمسہ سے انسانی انجن میں جاتی ہیں ۔    حواسِ خمسہ پر اپنا مکمل کنٹرول رکھیں، تو  بیماریوں کو راستہ نہیں ملے گا ۔انشاء اللہ
اپنی اندرونی اور بیرونی دنیا کے درمیان، آفاقی سچائیوں  کا  ایک فلٹر لگا لیں ۔ تو ہر قسم کے خوف سے بے نیاز ہو کر امن کی زندگی گذاریں گے ۔
یاد رکھیں !۔
انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ۔ اُن میں تمام  اچھائیاں اورکمزوریاں ۔ آدم کی تخلیق کے وقت سے موجود ہیں ۔اور یہی بنی آدم  کو وراثت میں ملی ہیں ۔ ہر انسان اپنے فعل کو اچھا اور دوسرے کے فعل کو برا اسمجھتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو ورق الجنۃ سے ڈھانپتا ہے ۔     جن میں ناشکرا پن، تکبّر ، ضد ،    ضعیف ۔ عجلت پسند۔ جلد باز ۔اپنے لئے بھلائی اور دوسرے کے لئے برائی ۔ظالم۔ فسادی ۔ فاسق۔بھلکڑ ۔جھگڑالو۔عزم کی کمی  ۔یاسیت پسندی ۔کنجوس۔ بخیل۔ہر راحت اپنے لئے ۔
ساری عمر ساتھ رہنے کے باوجود کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ دوسرے انسان کو 100 فیصد پہچانتا ہے ۔ دوسرے انسان کا 100 فیصد اُس کے وہ افعال ہیں جو اُس نے ظاہر کئے ہیں جو پہلے شخص نے  دیکھے ہیں  اور جو اُس نے نہیں ظاہر کئے وہ وہی کمزوریاں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا ہے ۔ ایک شعر ہے ۔
گو شیخ صاحب خلافِ شرع تھوکتے نہیں ۔
لیکن کبھی کبھی رات کو،  وہ چُوکتے نہیں ۔
  اِسے اللہ کے الفاظ میں انسانی قول و فعل کا تضاد کہتے ہیں جو تکبّر کی نشانی ہے ۔
ایک بچے  کی اندرونی دنیاجسے ہم معصوم کہتے ہیں وہ بیرونی دنیا سے رابطے کے بعدمعصوم نہیں رہتی۔ اُسے معصوم رکھنے کے لئے اُس کے سامنے سے  ماں باپ کے ذاتی قول و فعل کے تضاد کو ہٹانا ہوگا، خواہ یہ  تضاد مذاق میں ہوں یا  فطرتاً ۔
 
جاری ہے ۔  
    
٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭مزیدمضامین  پڑھنے کے لئے  فہرست پر واپس  جائیں ۔ شکریہ ٭٭٭٭

پچھلا مضمون: ایک بچے کی اندرونی دنیا کی پہچان ۔

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔