Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 31 اکتوبر، 2021

اندرونی اور بیرونی دنیا کا رابطہ-4

آپ کا جو فعل میں نے دیکھا، اُس پر میں نے بھی ہوبہو عمل کیا ۔

ہمارے دماغ میں کسی بھی ڈیٹا کو اپنے اندر سمونے کا حجم کتنا ہے ۔ ہم حتمی طور پر نہیں بتا سکتے ۔اگر ہم میڈیکل سائنس کے ماہرین کایہ مفروضہ درست مان لیں لیں کہ ایک انسان کے ذہن میں 24 گھنٹوں میں تقریباً 70 ہزارسوچیں پیدا ہوتی ہیں یا ایک انسان کے دماغ میں آنکھوں کے ذریعے بیدار ہونے کے بعد ، سونے کا وقت نکال کر ،ریکارڈ ہونے والی بصری وڈیو کا ذخیرہ 50 سال کی عمر تک تقریباً ً 30 لاکھ گھنٹوں کی وڈیو ریکارڈنگ جگہ میں محفوظ ہوتا ہے ۔ ، کمپیوٹر کی طرح  دماغ کے علاوہ انسانی سر میں ننھے ننھے چپ سیٹس ہوتے ہیں جن کا لنک دماغ کے ساتھ جڑے ہوئے سر میں موجود ننھے   سے  حصے  سے ہوتا ہے ۔

جن میں ایک ہپّو کیمپس    بھی ہے ۔جو جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق بصری وڈیو ذہن میں چلاتا ہے ۔کیوں کہ اِس میں دماغ میں بھیجی جانے والی تمام معلومات بشمول خودکارنروس سسٹم کے لنک موجود ہوتے ہیں  اِسے آپ ھارڈ ڈسک کازیرو سیکٹر یا کتابی فہرست سمجھ لیں ۔

  بوڑھے کے دماغ میں بچپن سے لے کر اب تک یعنی 68 سال کی عمر میں مقصد اور بلامقصد بصری وڈیوز پر مشتمل ۔ 37 لاکھ گھنٹوں کا ذخیرہ  تو ہونا چاھئیے ۔

ہر انسان کے لئے قانونِ قدرت ایک ہے ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس میں با مقصد اور بلا مقصدوڈیوز کے کتنے ذخائر ہیں ؟

 یو ں سمجھئے کی بوڑھے کی عمر کا ایک میڈیکل ڈاکٹر اور ساتھ ہی اعلیٰ کلاس کا سرجن ،جس نے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی ہو اور لاکھوں نہیں تو ہزاروں مختلف آپریشن کئے ہوں اُس کے دماغ میں موجود بامقصد بصری وڈیو اور بوڑھے کے ذہن میں موجود بامقصد وڈیو ریکارڈنگ کے تناسب میں 50 فیصد کا فرق تو ضرور ہو گا ۔ یا ممکن ہے صرف 33 فیصد ہو ۔ بعینہی اِسی طرح اگر یہ ڈاکٹر ، القرآن کا حافظ ہو اور اُس نے   بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک القرآن کے الفاظ یاد رکھے ہوں اور اُن کو ہر سال دھراتا ہو ، تو اُس کے بامقصد بصری وڈیو کا ذخیرہ  اپنے ہم عصر ڈاکٹر سے زیادہ ہوگا اور دماغ میں موجود اب تک پڑھے گئے الفاظ کی لغت  پہلے والے ڈاکٹر  کے ذہن میں پہلے  لفظ   آبَاءِسےلے کر آخری لفظ  يَئِسَ  تک آنے والے 14814 الفاظ سے یقیناً کم ہوگی ۔جن کی دھرائی  جو کم و بیش 77 ہزار الفاظ پر مشتمل ہیں ، کی بصری فلم کم و بیش 5 تا 7 سالوں پر محیط ہوتی ہے ۔

پیدائش سے بچہ کی  پانچوں حواس سے بننے والی بصری فلم میں ،سب سے پہلے ماں کے چھونے کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے ۔ پھر ماں کے جسم کی خوشبو  اُس کے ذہن میں محفوظ ہوتی ہے           بچے کو دی جانے والی گھٹی اور پھر ماں کے دودھ کا ذائقہ، ماں کی لوری اُس کے کانوں سے دماغ میں بسیرا کرتی ہے اور آخر میں ماں سمیت تمام اُسے پیار کرنے والوں کی بصری وڈیوز جو اُس کے پانچوں حواس کے لنک کے ساتھ محفوظ ہو جاتی ہے ۔

بچہ وہی عمل کرتا ہے جو  فعل وہ دیکھتا ہے ۔

لیکن اگر فاعل کے قول میں تضاد ہو تو بچے کی شخصیت، اِس منافقت کی وجہ سے  دھری ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔

 ماں  باپ ، دادا دادی ، نانا نانی، بہن  بھائی،  باپ کے تمام رشتہ دار ، ماں کے تمام رشتہ دار ، اُن کے بچے، پڑوسیوں اور جاننے والوں کے بچے ، محلے کے بچے اور لوگ ، اساتذہ یہ سب بچے کے دماغ میں اپنے افعال پہچاتے ہیں اور بچہ اپنی سوچ کے سہارے ذہن سے  ہر وہ عمل کرتا ہے ۔ جو فعل وہ دیکھتا ہے ۔اچھا فعل اور بُرافعل کو پہچاننے کی تربیت  ماں سے شروع ہوجاتی ہے ۔

والدین ، سوسائٹی اور اساتذہ بچے کی تربیت کے تین ستون ہوتے ہیں۔ جو ایک بچے کے دماغ میں اپنے افعال کا ذخیرہ جمع کرواتے رہتے ہیں ۔ بچہ یا تو ہوبہو اُن پر عمل کرتا ہے یا پھر اپنی ذہن میں اچھے اور برے افعال کی چھانٹی کرنے کے بعد اپنی پسند کے افعال پر زمان(وقت)  و مکان  (مقام) کے لحاظ سے  عمل کرتا ہے ۔اُس کا عمل دوسروں کی دکھائی جانے والا فعل بن جاتا ہے ۔  ہر انسان اپنے اندر جمع افعال کو مختلف انداز سے اعمال میں ڈھالتے ہیں ۔

ابو آپ کے دوست آئے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔

 جاؤ اُن سے کہہ دو میں گھر پر نہیں !۔

بیٹا دوست سے ، ابو سوچکے ہیں ۔

اُن کے اعمال دوسروں کے لئے قول و فعل کا درست   اظہار  (الحق) ہوتے ہیں یا پھر قول و فعل کے متضاد (تکبّر) ہوتے ہیں ۔

ایک بچے کی اندرونی دنیا ، بچپن میں خالص اور تکبّر سے مبرّا ہوتی ہے لیکن پھر اُس میں باہر کی دنیا ہے قول و فعل کےمتضاد رویّوں کا عکس پڑنا شروع ہوجاتا ہے ۔

 انسانی تمام اچھائیاں اور برائیاں ، اُس کے دماغ اور ذہن کا کھیل ہے۔دماغ میں حواسِ خمسہ سے وصول ہونے والی تمام معلومات  ذخیرہ ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ ذہن میں سوچوں کے کھٹولے پر آوارہ گردی کرتی ہیں ۔ مثبت سوچ مثبت سے جڑتی ہیں اور منفی سوچ منفی سے جڑتی ہیں ۔ لیکن پریشانی اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب منفی سوچیں مثبت سوچوں پر حاوی ہو کر اعمال کا روپ دھار کر دوسرے انسان یا خود کے لئے مصیبت بنتی ہیں  ۔
جس کے لئے اُس کے خالق نے اُسے مکمل صوابدیدی اختیار دے رکھا ہے ۔مثبت سوچ اُس کے اچھے اعمال کے ساتھ اُسے انسانی بلندی پر لے جائے گی اور منفی سوچ اُسے حیوانی  کامیابیاں دلوا دے مگر انسانیت کے مرتبے سے گرا دے گی ۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا  فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (91)
فجور تمام شیطانی برائیاں اور تقویٰ تمام انسانی اچھائیاں۔
انسان کے دو پیراڈئم ہیں ، جن میں تبدیلی اُس کی عمر کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ایک فزیکل پیرا ڈائم (جو حواسِ خمسہ ) جسے وہ کائینات میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ، وہ ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور دوسرا سپرٹوئل پیرا ڈائم (الھام) جسے وہ  اُس کے ماحول کےمطابق مثبت اور منفیت ترازو میں جانتا رہتا ہے ۔ جوکُلی طور پر اجتماعی شعور کے جھکاؤ پر منحصر ہے ۔
   اگر اجتماعی شعور  مثبت (
ذکی )  ہے تو ثبوت کا پلڑا جھک جائے گا اور۔  ۔
اگر  اجتماعی شعور ، منفی(
دسو) ہے تو انکار کا پلڑا جھک جائے گا۔
 
٭ ٭٭٭٭جاری ہے ۔٭٭٭٭٭


٭٭٭٭مزیدمضامین  پڑھنے کے لئے  فہرست پر واپس  جائیں ۔ شکریہ ٭٭٭٭

پچھلا مضمون: ایک بچے کی اندرونی دنیا کی پہچان ۔

پیر، 18 اکتوبر، 2021

بچے کی اندرونی دنیا کی پہچان۔3

ایک بچے کی اندرونی دنیا کی پہچان ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تو اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے دوستو !

آپ یقیناً مسکرا رہے ہو گے یا قہقہہ لگا کر ہنسے ہوگے ، کہ بوڑھا ہمیں اب  ایک بچے کی اندرونی دنیا کی پہچان کروا رہا ہے ۔ شاید یہ بوڑھا بھی بچہ بنتا جارہا ہے ۔ چلیں یوں ہی سمجھ لیں ۔ 

٭- میں کون ہوں ؟  

یہ ایک جملہ جو ہر بچے کے ذہن میں سوال بن کر ابھرتا ہے ۔اِس کا جواب بھی وہ خود ہی دیتا ہے ۔

 میں ذہین ہوں اور میں محنتی ہوں ،لہذا  ،میں سب سے بہتر ہوں ۔ کیوں کہ میری ماں یہی کہتی ہے ۔

٭۔ کیا میں خود کو پہچانتا ہوں ؟

جی کیوں نہیں ؟   میں تیز دوڑتا ہوں ۔ میں بغیر گرے  چھلانگیں لگا سکتا ہوں ۔میرا مضبوط جسم ہے ، میری آواز  مٹھاس بھری ہے ۔میرے خوبصورت اور چمکدار بال ہیں ۔ خوبصورت ناک و نقش ہیں  ۔ تیز آنکھیں اور ہر آواز سننے والے کان ہیں ۔بہترین یاداشت رکھنے والا دماغ ہے ۔

میں تمام  بچوں سے  اعلیٰ تخلیق ہوں ۔ میں ہر وہ کام کر سکتا ہوں جو دوسرا بچہ کر سکتا ہے  ۔

 واہ اعلیٰ ، نہایت خوب ! کیا خوب جواب ہے ۔

میں ہر وہ کام کر سکتا ہوں جو دوسرا بچہ کر سکتا ہے  ۔

 جسم نہیں بلکہ ذہن کا استعمال ایک بچے کو باقی تمام بچوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ 

کیوں کہ دماغ  (تحت الشعور) میں پانچوں حواس سے جمع ہونے والی تمام    معلومات میں سے  کام کی معلومات   سوچ کی کشتی پر بیٹھ کر    ذہن (شعور) میں اتر کر    فہم و فکر ، عقل و دانش ،شعور و تدبّر! کی  اندرونی چکیوں سے گذر کر  بامعنی  اور دیرپا تبدیلیاں بن کر باہر نکلتی ہے ۔ 

 ذہن کا ماسٹر کنٹرولر  آپ کا دماغ ہے ۔ اور اُفق کر پار بسنے والے پیارے دوستو ۔ دماغ اور ذہن آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ کیوں کہ دماغ  آپ کے جسم  کا تاج ہے اور ذہن اُس میں جڑا ہیرا ۔ اور ہیرے کو پالش کرنا چمکانا  آپ کا کام ہے ۔

چلیں تو آئیں جسم کے تاج کو کھوجتے ہیں کہ آخر اِس میں کیا محیّرا لعقول چیزیں چھپی ہوئی ہیں   جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہیں ؟

تصویر میں اخروٹ کا مغز نہیں بلکہ دائیں طرف  انسانی مغز  (Brain)ہے   اور بائیں طرف اُس کی ایکسرے سے لی گئی مختلف پوزیشنز ہیں ۔  جو انسان کے مضبوط ترین ہڈیوں کے خول میں انسان کے خالق نے محفوظ کیا ہوا ہے ۔  لیکن یہ ہڈیاں لوہے یا فولاد کی نہیں کیلثیم سے بنی ہوئی ہیں جو ایکسیڈنٹ سے چٹخ کا ٹوٹ بھی سکتی ہیں ۔
دماغ کو پہنچنے والا نقصان انسانی جسم کے کسی بھی حصے کو مفلوج کر سکتا ہے ۔

بیگنی رنگ میں دماغ کے اِس حصے کو    سیرے برم  (Cerebrum) کہتے ہیں جو 85 فیصد   دماغ  کےوزن پر مشتمل ہے ۔ جس میں :

٭- شعور  (Short Term Memories)اور تحت الشعور (Long Term Memories)   بسیرا کرتے ہیں ۔ 

٭۔ انسانی پانچوں حواس سے حاصل ہونے والی معلومات ،یعنی کانوں سے پہنچنے والی آواز  ،  جسم پر محسوس ہونے والی سرسراہٹ  یا گدگدی ، ناک سے پہنچنے والی بو  ( خوش یا بد ) ، زبان کی نوک سے حلق تک محسوس ہونے والے ذائقے    کی ریکارڈنگ، بشمول آنکھوں سے  نظر آنے والی تمام تصاویر   کو محفوظ رکھتا ہے ۔ گویا  پیدائش سے لے کر موت تک کا سارا ریکارڈ اِس میں موجود ہوتا ہے ۔

٭۔انسانی سوچ  اور تمام خود سے کئے جانے والے اعمال  کو یہ کنٹرول کرتا ہے ۔ جن میں دوڑنا ۔ جوڈو کراٹے کی مشق ، جمناسٹک کے کرتب ۔ چھلانگ مارنے  کے لئے  ہاتھوں اور پاؤں کے عضلات کو حرکت دیتا ہے ۔ دماغ کو اگر اوپر سے دیکھیں تو اِس کے دو  واضح حصے نظر آتے ہیں ۔  دایاں حصہ بائیں جسم کو کنٹرول کرتا ہے اور بایاں حصہ دائیں جسم کو۔

٭۔ حساب کے سوالات کو حل کرنے  ،کسی بھی تصویر کو کاپی کرنے اور وڈیو گیم  بنانے میں مدد دیتا ہے ۔

٭- دایاں حصہ فنونِ لطیفہ(موسیقی ،آواز کا زیر و بم ،  کائینات میں بکھرے رنگ ، خوشبو ، ذائقے ، اشکال   ) اور بایاں حصہ فنونِ کثیفہ   ( حساب وکتاب ، جمع تفریق ،  تقاریر ، مشکل ترین  اکاؤنٹنگ  کی ترتیب ، کمپیوٹر پروگرامنگ ، صحیح اندازے  ) سے متعلق  کے شعبوں  سے متعلق ہوتا ہے ۔ اور اِن دونوں کے درمیان باقاعدہ پُل بنے ہوتے ہیں جن پر سے گذر کر آپ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں حصے میں آسانی سے جاسکتے ہیں ۔

  سیرے برم  (Cerebrum) میں موجود تمام معلومات کو  یک جاء کرنے کے لئے دماغ  کے باقی 15 فیصد وزن میں شامل   دماغ کا آٹھواں حصہ    سیرے بیلم   (Cerebellum)کہلاتا ہے ۔


تمام خود سے کئے جانے والے اعمال  کو یہ حتمی اور بہترین  نتائج  سے سنوارتا ہے  ۔لیکن اِس کے لئے آپ کو لازماً   مشقوں کی ضرورت ہے کیوں کہ آپ جتنی زیادہ مشق کریں گے اُتنا ہی  آپ کے نتائج میں نکھار آئے گا ۔ خواہ یہ علمی میدان میں ہوں یا کھیل  کے میدان میں ۔

لیکن مشقوں کے لئے  شرط ،عملِ پیہم ،مسلسل   اور بہتری  کی طرف ہو تو اعلیٰ نتائج  ملتے ہیں ۔ کسلمندی یا سستی سے کی جانے والی تمام مشقیں لا حاصل ہوتی ہیں ۔
آپ کے جسم کے  مکمل تواز ن  کی ذمہ داری ،
سیرے بیلم   (Cerebellum) پر ہے ۔ چکر آنے سے آپ کا توازن عارضی طور پر ختم ہو جاتا ہے ۔اور آپ کی حرکات آپ کے کنٹرول میں نہیں رہتیں ۔ لہذا اپنی صحت کا مکمل خیال رکھیں ۔آپ کا  سنائی دینے والا سسٹم، دکھائی دینے والا سسٹم  اور آپ کے  جوڑوں  میں خرابی  ،  سیرے بیلم   (Cerebellum) کے ذریعے ،آپ  کی حرکات کے توازن کو خراب کرتے ہیں  ۔

 آپ کے دماغ میں مٹر کے سائز کا ایک غدود ہے  ۔ جسے    پیچوٹری گلینڈ    (Pituitary Glands)کہتے ہیں۔

یہ آپ کے جسم کے ہر خلیئے میں رگوں کے ذریعے خون  کے ذریعے ، آکسیجن ، توانائی  پہنچانے کے کام پر مامور ہے ، بلکہ جسم کو ضرورت کے تمام ہارمونز   بناتا ہے  اور   ضرورت کے مطابق   جسم میں شوگر اور  پانی کی مقدار کا توازن برقرار رکھتا ہے ۔اور سب سے بڑھ کر آپ کے نظامِ انہظام کو فعال رکھتا ہے تاکہ آپ کی کھائی ہوئی غذا  ، معدے میں تحلیل ہو کر اُس میں شامل تما م غذائی  قوت آپ کے خون میں مناسب مقدار میں شامل ہو کرآپ کے جسم کو توانائی، مضبوطی اور بالیدگی کی طرف لے جائے ۔ پڑھا آپ نے اِس ننھے سے مٹر کے برابر دماغ میں موجودغدود  ، پیچوٹری گلینڈ    (Pituitary Glands)   کا کام ؟ 

 ایک صحتمند جسم کے مکمل درجہ حرارت کو اِس کے خالق کے قانون کے مطابق  98.6 ڈگری فارن ھائیٹ یا  37 ڈگری سنٹی گریڈ  برقرار رہنا چاھیئے ۔ جس کے لئے اُس نے انسانی جسم میں ایک چھوٹا  ، درجہ حرارت کنٹرول کرنے کا  غدود  ( تھرموسٹیٹ) دماغ میں رکھ دیا ہے ، جسے  میڈیکل کی زُبان میں پہچان کے لئے  ھائیپو تھیلا مس  (Hypothalamus) رکھا ہے ۔

اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو ، یہ آپ کے جسم کے ٹمپریچر کو   98.6 ڈگری فارن ھائیٹ یا  37 ڈگری سنٹی گریڈ   سے  بڑھنے  یا کم ہونے نہیں دیتا ۔ 

آپ ایکسرائز کریں یا دوڑیں تو  آپ کے جسم کے ہر عضو کو آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے ، تو پیچوٹری گلینڈ ، دل کو پیغام دیتا ہے کہ خون کو جلدی جلدی پمپ کرکے جسم میں دوڑاؤ کیوں کہ  ٹانگوں اور ہاتھوں کے تمام مسلز کو توانائی ، ہارمونز ، شوگر اور پانی کی ضرورت پڑنے والی ہے ۔  دل کے دھڑکنے کی رفتار آہستہ آہستہ بڑھنے لگتی ہے اور جناب جسم کا ٹمپریچر بھی بڑھنے لگتا ہے ۔   ھائیپو تھیلا مس  (Hypothalamus)  پسینہ لانے والے غدود کو حکم دیتا ہے کہ جسم کے مساموں سے خون میں  موجود پانی کو جسم پر پھیلا دو تاکہ ہوا لگنے سے جسم ٹھنڈا رہے اور گرم نہ ہونے پائے ۔ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ انسانی جسم میں 45 سے 65 فیصد تک ہوتی ہے ۔ اگر آپ کا وزن 60 کلو گرام ہے تو آپ کے جسم میں پانی کی مقدار کم از کم 30 کلوگرام لازمی ہوگی ۔عام درجہ حرارت میں   دوڑنے ، بھاگنے اورایکسرسائز کرنے سے آپ کے جسم سے صرف   ڈیڑھ لٹر پانی  فی گھنٹہ پسینے اور سانس نکلتا ہے ۔گرمیوں کے موسم میں یہ  3 لٹر تک پہنچ  جاتا ہے ۔ 

ارے ہاں ، بوڑھے نے تو سردی لگنے یعنی جسم کا درجہ حرارت ،    98.6 ڈگری فارن ھائیٹ یا  37 ڈگری سنٹی گریڈ   سے    کم ہونے پر ،   ھائیپو تھیلا مس  (Hypothalamus)  کا عمل کیا ہوگا  کہ  جسم واپس گرم ہوجائے ؟

اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو ، بوڑھے کو رات  کو ہفتے  ایک بار  اکثر خواب آتا ہے کہ وہ سیاچین میں برف کے نیچے دبا ہے اور مدد کے لئے ہاتھ پاؤں چلا رہا ہے  اور کسی کو پکار رہا ہے ۔مجھے کمبل اوڑھاؤ ،  مجھے کمبل اوڑھاؤ ،اِس کشمکش میں آنکھ کھل جاتی ہے ، بوڑھے کی سردی سے کپکپاہٹ کو اگر کسی پیمانے پر ناپا جائے  تووہ پیمانہ بوڑھے کی تھرتھراہٹ سے ٹوٹ جائے ، بوڑھا فوراً بڑھیا کے یخ بستہ کمرے سے باہر نکلتا ہے ، لاؤنج میں آتا ہے ، ایکسرسائز کرتاہے ، لمبی لمبی سانسیں لے کر   پھیپھڑوں میں روک کر جسم کو گرم کرتا ہے ۔5 سے 10 منٹ کے بعد بوڑھا پرسکون حالت میں آتا ہے تو جب کمرے میں داخل ہوتا ہے تو بڑھیا پوچھتی ہے کہ کیا ہوا ؟
بوڑھا کہتا ہے سیاچین میں گلیشئر کے نیچے دب گیا تھا ۔
اپنا سلیپنگ بیگ کیوں سوتے میں اتار کر پھینک دیتے ہو ؟ میں آپ کی وجہ سے ایر کنڈیشنڈ 20 سے کم نہیں کرتی   پسینے آرہے ہوتے ہیں ۔ اور آپ برف میں دبنے کا بہانہ کرتے ہیں ۔ 

بوڑھا چپ چاپ گرمیوں میں ، اپنا سلیپنگ بگ لے کر دوبارہ سو جاتا ہے ۔


تو اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو ،پریشان نہ ہونا ، آپ کے جسم کی قیامت خیز کپکپاہٹ یا کھال کی تھرتھراہٹ ۔   ھائیپو تھیلا مس  (Hypothalamus)  کا عمل ہے جو آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو واپس  ،    98.6 ڈگری فارن ھائیٹ یا  37 ڈگری سنٹی گریڈ  لانے میں مدد دیتا ہے ۔ 

لہذا   کپکپاہٹ یا پسینے کا بہنا دراصل آپ کے قدرت کی طرف سے عطا کردہا ، آٹومیٹک  تھرموسٹیٹ کا کمال ہے جو آپ کے جسم کی گاڑی کو گرم یا ٹھنڈا ہونے نہیں دیتا ۔ اور صرف یہ کیا آپ کے جسم کا تاج ، آپ کے جسم کے پورے آٹومیٹک نظام کو اُس کے خالق کے بنائے گئے پروگرامنگ کے مطابق کنٹرول کرتا ہے ۔جو دماغ سے نکلنے والے  ایک موٹی  کیبل  ، جس میں  انسانی جسم کے ہر ریشے کے لئے ایک ننھی تار  موجود ہے ۔

یوں لاتعداد  ہر ریشے سے جڑی ہوئی ،   انسانی  جسم میں موجود   نہایت باریک برقی تاریں ہیں جنہیں نروس سسٹم   ()Nervous System  کہتے ہیں ۔ 

یہ نروس سسٹم  سر میں  موجود ،  سیرے برم  (Cerebrum) ، سیرے بیلم   (Cerebellum)،     پیچوٹری گلینڈ    (Pituitary Glands)اور    ھائیپو تھیلا مس  (Hypothalamus) ،کو مکمل جسم سے ملاتا ہے اور پل پل کی جسم پر گذرنے والی آپ بیتی  ،  سیرے برم  (Cerebrum) میں پانچوں حسیات  کے ذریعے  ریکارڈ  کرواتا رہتا ہے  ۔
اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو ۔ انسان کو تخلیق کرنے سے پہلے انسان کے خالق نے   مکمل انسانی پلاننگ کرلی تھی ۔ انسانی دماغ کا گرے میٹر اور وھائیٹ میٹر  اِن کے اور  حرام مغز  ( سپائنل کارڈ) کے درمیان چھوٹے چھوٹے  اجسام  جو مکمل  خودکار اور اپنے اندر بہترین انتظام کے ساتھ  وسطی دماغ  کے ساتھ جس میں پونز اور میڈولاجیسے منتظم لئے ہوتی ہے۔جس کی حفاظت کا انتظام جسم کے مکمل صحتمند ہونے پر منحصر ہے ۔ جس کے منتظم آپ ہیں۔   
کائینات اور انسان کے خالق کی طرف سے ،ایک انسان میں بلٹ  اِن سافٹ وئر  یا ہیومین آپریٹنگ سسٹم  کی بدولت ،خود بخودیعنی آٹومیٹک  ہونے والے اعمال (اندرونی) اور افعال (بیرونی ) ہوتے رہتے ہیں۔انسانی ذہن ، دوسرے انسانوں  سے آنکھ ، کان اور  جلد کے ذریعے سیکھتا رہتا ہے  اور زُبان سے اِسےبہتری کی طرف لے جاتا ہے ۔ زُبان اِسے باقی تمام مخلوقات پر اشرف  بناتی ہے ۔  
اُفق کے پاربسنے والے پیارے دوستو  ،آپ ، میں اور  ہر  انسان کائینات  کا مرکز ہے۔  کیوں کہ ہماری کائینات آپ کے میرے اور ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔جسے ہم اپنی پیدائش کے فوراً  بعد  اپنے  اندر کی دنیا میں  حواسِ خمسہ سے   اپنے دماغ  میں سموتے ہیں۔ لیکن اُس سے پہلے ہماری اندرونی دنیا    بیدارہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ 
 سب سے پہلے نروس سسٹم  حرکت میں آتا ہے ۔ جس سے چھو کر محسوس کرنے   یا  دوسرے  کے چھونے  سے پیغاماتِ  محبت دماغ  میں جگہ بناتے ہیں اور  ذہن  میں  سب سے پہلے ماں  کی محبت  پیدا ہوتی ہے     اور  پھر آہستہ آہستہ  ، اپنے ذہن  میں اندرونی دنیا بیدار ہو کر  ، بیرونی دنیا سے  اُس  کی آوازوں ،   پورے رنگوں،  خوشبوؤں اور  ذائقوں    سمیت سنتے ،   دیکھتے   سونگھتے اور  چکھتے ہیں ،سنتے اور  محسوس کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ حواسِ خمسہ میں سے کسی ایک میں نقص اندرونی دنیا  کو بیدار ہونے سے نہیں روک سکتا  لیکن بیرونی دنیا سے رابطے  میں خلل ضرور  پیدا کرتا ہے۔  ایک پیدائشی نابینا کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا میں جو کمی پیدا ہوگی وہ  باقی چار حواسِ  پوری نہیں کرسکتے ، اِسی طرح قدرتی موسیقی کا لطف  کانوں ہی سے اٹھایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بیرونی دنیا کی  پہچان،  اندرونی دنیا  کے لئے بنائے جانے والے قدرتی  نفس میں اچھائی  اور برائی کا الہام (پہچان) کے موازنے  کے بعد عمل (اندرونی دنیا   میں سوچوں  کی کارگذاری ) بیرونی دنیا سے اندرونی دنیا میں داخل ہوتا ہے ۔جہاں  آپ کا ذہن اُسے  اپنی قدروں ، اصولوں ، میعار اور اپنے  نفع و نقصان میں جانچتا ہے  اورفعل( بیرونی دنیا  میں منتخب اعمال کی کارگذاری ) میں  دوسروں کو نظرآتاہے ۔ 
آپ کا جو فعل میں نے دیکھا، اُس پر میں نے بھی ہوبہو عمل کیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 پچھلا مضمون :     بچہ اور بیداریءِ فکر  

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔