Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 4 جون، 2018

براھما مرغیاں

 بوڑھے نے جب ہوش سنبھالا تو گھر میں، دنبے کے بچوں  کے ساتھ مرغیاں بھی دیکھیں۔ پھر بوڑھے کے بچوں نے مرغیوں اور چوزوں سے کھیلا کیوں کہ بوڑھا اور بڑھیا جب بھی  پوسٹنگ  پر نئے شہر جاتے۔  تو رنگ برنگے چار چوزے لے آتے ، جو زندہ بچتے تو مرغیاں بن جاتے  ۔ جب بوڑھا ریٹائر ہوا  اور اٹک میں پانی 22 بطخیں ، تین السیشن کتے ،  کیڈٹ کالج کے مالک کو کیڈٹ  کی خوشیوں کے لئے دے آئے ۔ 

اسلام آباد میں  گھر میں رکھنے  کی جگہ نہ تھی اور بچے کالجوں میں جانے والے تھے  لہذا ، یہ پروگرام مؤخر کیا ۔ سب سے چھوٹی بیٹی فوج میں گئی تو  چم چم  بوڑھے اور بڑھیا کا دل بہلانے کو دنیا میں آگئی ۔ 

 ایک دن بوڑھا ٹیرس پر کھڑا تھا کہ سڑک پر ایک چوزے بیچنے والا نظر آیا ۔ بوڑھا جلدی سے اترا تاکہ چم چم کو چوزے دکھائے ۔ چم چم نے پہلے تو حیرت سے چوزوں کو دیکھا ، بوڑھے کو دیکھا ، چوزے والے کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا یا ۔ چوزے  والے نے زرد رنگ کا چوزہ چم چم کو دیا ، چم چم نے چوزے کو مچلتے دیکھ کر پہلے تو ہاتھ پیچھے کیا اور پھر چوزہ پکڑ لیا ۔ بوڑھے نے دو چوزے خریدے اور اوپر آگیا ۔ چوزہ دیکھتے ہی بڑھیا نے شور مچایا  ۔۔ یہ کیا لے آئے ؟
بھی چم چم نے مانگے میں نے خرید لئے ۔ کتنے کے ملے  5 روپے کے دو ۔

ایک ایک روپے میں ملنے والے چوزے وہ آپ کو پانچ روپے میں دے گیا ۔ 

زوجہ یہ 2010 ہے ، 1994 نہیں ۔

چم چم نیچے اترتے ہے چوزوں کوپکڑے وہ ہاتھ نہ آئے تو چینخے ۔ بوڑھا اور بڑھیا  خوش ہوں ۔ یوں اب چم چم کہ ماں روزانہ صبح چم چم کو ہمارے گھر چھوڑ کر آفس چلی جائے اور چم چم چوزوں سے کھیلے ۔

اسلام آباد میں اپنے دوست کے گھر بڑھیا کے ساتھ گیا ہو ایف 6 کا رہائشی تھا ۔ اُس کے ہاں امپورٹٹڈ پہلوان نما مرغیاں دیکھیں دل خوش ہو گیا ۔

قیمت پوچھی ، بکرے کے برابر چوزوں کا پوچھا ۔ 200 روپے فی چوزہ ۔ اب کیوں کہ اُس کے والد کا ترکے میں چھوڑا ہوا 1500 گزکا گھر تھا ۔ لہذا وہ اپنی امارت کا اظہار کر سکتا تھا ۔ جی 9 کے کرائے کے گھر میں رہنے والا بوڑھا نہیں ۔ 

یہ  10 پونڈ کی مرغیاں ،امریکہ میں 1850 میں گوشت کے لئے پالی جانے لگیں ۔ اور یوں اِس کی اولادیں دیسی بن کر برصغیر میں بھی آگئیں ۔  

2014 اگست میں بوڑھا ، ڈی ایچ اے 1 میں آگیا  ، یہ بھی کرائے کا گھر تھا مگر  بڑا اور لان کے ساتھ  یوں بوڑھے نے ، طوطے ، کاک ٹیئل ، بجری ، لو بڑد ، فاختہ  اور اصیل مرغیاں پال لیں اور ہاں ایک بلی اور پوڈل کتا بھی ، یہ سب چم چم کی فرمائش پر تھے ۔ 

بوڑھے کی وقت گذاری کے لئے یہ مصروفیت اچھی تھی ۔

 پھر 2018 میں بوڑھے  نے تین پولش چوزے لئے ، اُس کے بعد ، پاجامے والے چوزے اور پھر امریکن مرغیاں ، جس کے انڈے 200 روپے میں مرغی بازار میں چوزے نکلوانے کے لئے فروخت ہوتے ۔ مرغی بازار کالج روڈ والوں نے یہ سب امپورٹڈ  کے نام سے فروخت کئے ۔

 ارے ہاں چم چم کے چنکو اور پنکو کی داستان آپ نے پڑھی ۔ نہیں  تو دوستو آگے چلنے سے پہلے  یہ ضرور پڑھیں ۔   چم چم کے چنکو اور پنکو۔

 ٭٭٭٭٭فہرست چوزہ /مرغ بانی  ٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔