دوستو ! فوج سے فوجی گھریلو ملازم ، کی حیثیت ختم کرنے سے ، فوجی آفیسروں کو سویلئین ملازم رکھنے کی اجازت ملی ، جس کی داستان تو کوئی فوجی آفیسر ہی سنا سکتا ہے ، ہم اِس تجربے سے نہیں گذرے ۔
سویلئین ملازم تو سویلئن ہی ہوتا ہے ۔ نہ معلوم موڈ بدلے اور کب دوڑ جائے ، یا چھٹی جائے اور واپس ہی نہ آئے ۔ اب بے چارہ ، فوجی آفیسر ایک نئے ملازم کی تلاش میں ، کبھی جاننے والوں کی منتیں کر رہا ہے اور کبھی والدین کی کہ کسی کو بھجوادو ۔ میرے دونوں ، بچے بھی اِسی پریشانیوں میں گذرے ، کہتے ہیں کہ فوجی کو اچھی بیوی تو ڈھونڈنے سے ملتی ہے ۔لیکن اچھا بیٹ مین (اب سویلئین ملازم) قسمت والوں کو ملتا ہے ۔ میرا کیوں کہ بوائز ہاسٹل چلانے کا چار سالہ تجربہ ہے ، جس میں ، میس کے ویٹرز کی طرز پر ویٹرز کی تربیت اور باورچی کی ، ایسی تربیت کہ ، اردگرد کے دوست ، دوپہر کا کھانا کھانے ہاسٹل آیا کرتے تھے ، بلکہ جس کالج کے ساتھ ہاسٹل منسلک تھا اُس کے پرنسپل سمیت کم و بیش سارے استاد ، لنگر کی دال کی بڑی تعریف کرتے اور شوق سے کھاتے ۔ گو کہ یہ ماضی کی بات ہے لیکن دوست اب بھی فون کرتے ہیں ،
" یار ، بیٹے کو NCB چاھئیے بڑا تنگ ہے، کوئی اچھا سا ڈھونڈھ دو، جو کم از کم سال دوسال ٹِک کر رہے "
اب سویلئین کہاں ٹِک کر رھتا ہے ، وہ تو پاؤں ٹکانے کے لئے گھر سے نکلتا ہے ، جو نہی ساز گار ہوا ملتی ہے پُھر سے اُڑ جاتا ہے ۔ پہلے تو سرکار بھی بضد تھی ، کہ نہیں ، NCB میٹرک پاس ہونا چاھئیے ، لیکن آہستہ آہستہ احساس ہوا ، کہ بیگم صاحبہ ، بیگم صاحبہ بننے کے بعد روٹی نہیں پکا سکتی ، مرچیں نہیں کاٹ سکتی پیاز نہیں چھیل سکتی ، برتن نہیں دھو سکتی ۔
تو دس جماعت پاس ، اللہ دتہ کیسے یہ سب کر سکتا ہے ؟
وہ تو انگریز ہی تھا ۔ کہ جو باورچیوں ، ویٹرس اور بیٹ مین ، اَن پڑھ ہی پسند کرتا تھا ۔ چنانچہ اب ، انڈر میٹرک گھریلو مازمین بنانے کی چھوٹ مل گئی۔
لیکن تربیت یافتہ ملازم کہاں سے آئے ؟
اب فوجی آفیسر تو الگ ریٹائرڈ آفیسروں کو بھی گھریلو ملازمین کی ضرورت پڑھ گئی ہے ، وہ جن کے بچے فوج میں ہیں اُنہیں تو میڈیکل اَن فٹ NCB مل جاتے ہیں ، لیکن کئی اب بھی ، پرانے دن یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں ۔
پچھلے دنوں ، چند دوستوں کی مجلس میں ، اِس قومی مسئلے کے حل کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ، کہ ملازمین کا کیا حل نکالا جائے؟
میں نے گھر آکر سوچا اور پلان بنایا کہ کس طرح ، آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام کھرے کئے جائیں ، یعنی دوستوں کو بھی ملازمین ملیں اور فوجی آفیسروں کو بھی تربیت یافتہ ملازمین مل جائیں ۔ اورانڈر میٹرک بچوں کو اچھاروزگار بھی مل جائے ۔ جہاں اُن کا مستقبل بھی محفوظ ہو ۔ اور والدین کو بھی سہارا ملے ۔ کہ
" نالائق بیٹا نہ صرف برسرِ روزگار ہو گیا ہے اُسے نہ صرف پنشن ملے گی بلکہ ، اب ہمارا علاج بھی مفت ہوتا ہے "۔
اگر آپ کے ارد گرد کوئی ایسا ضرورت مند کم پڑھا لکھا نوجوان ہو ، تو اُسے اِس ملازمت کے بارے میں ضرور بتائیں اور اِس بات کا خیال رہے ، کہ ایک گھریلو ملازم ، جو ایک طرح سے گھر کا حصہ جب ہی بنتا ہے ، جب وہ شریف ، نظریں نیچی رکھنے والا اور محنتی پاکستانی فرد ہو ، جس کا کوئی پولیس ریکارڈ نہ ہو اور نہ ہی وہ کردار کا مشکوک ہو !
8 جون 2016 کو میں نے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں اشتہار دیا ۔
صبح 7 بجے سے 5 بجے تک ، میں موبائل پر مصروف رہا اور فون کی تعداد سے اندازہ ہوا ، کہ بے روزگار افراد کی کمی نہیں !
کئی تو بچوں کے والدین تھے ۔بچوں نے بھی کئے جو اپنے گاؤں میں بے روزگار تھے یا دیہاڑی پر کام کر رہے تھے ۔چنانچہ ۔ ایس ایم ایس میسج کے ذریعے ، امیدواران کے آنے والے فون کے جواب میں ، یہ میسج دینا شروع کیا ۔
سویلئین ملازم تو سویلئن ہی ہوتا ہے ۔ نہ معلوم موڈ بدلے اور کب دوڑ جائے ، یا چھٹی جائے اور واپس ہی نہ آئے ۔ اب بے چارہ ، فوجی آفیسر ایک نئے ملازم کی تلاش میں ، کبھی جاننے والوں کی منتیں کر رہا ہے اور کبھی والدین کی کہ کسی کو بھجوادو ۔ میرے دونوں ، بچے بھی اِسی پریشانیوں میں گذرے ، کہتے ہیں کہ فوجی کو اچھی بیوی تو ڈھونڈنے سے ملتی ہے ۔لیکن اچھا بیٹ مین (اب سویلئین ملازم) قسمت والوں کو ملتا ہے ۔ میرا کیوں کہ بوائز ہاسٹل چلانے کا چار سالہ تجربہ ہے ، جس میں ، میس کے ویٹرز کی طرز پر ویٹرز کی تربیت اور باورچی کی ، ایسی تربیت کہ ، اردگرد کے دوست ، دوپہر کا کھانا کھانے ہاسٹل آیا کرتے تھے ، بلکہ جس کالج کے ساتھ ہاسٹل منسلک تھا اُس کے پرنسپل سمیت کم و بیش سارے استاد ، لنگر کی دال کی بڑی تعریف کرتے اور شوق سے کھاتے ۔ گو کہ یہ ماضی کی بات ہے لیکن دوست اب بھی فون کرتے ہیں ،
" یار ، بیٹے کو NCB چاھئیے بڑا تنگ ہے، کوئی اچھا سا ڈھونڈھ دو، جو کم از کم سال دوسال ٹِک کر رہے "
اب سویلئین کہاں ٹِک کر رھتا ہے ، وہ تو پاؤں ٹکانے کے لئے گھر سے نکلتا ہے ، جو نہی ساز گار ہوا ملتی ہے پُھر سے اُڑ جاتا ہے ۔ پہلے تو سرکار بھی بضد تھی ، کہ نہیں ، NCB میٹرک پاس ہونا چاھئیے ، لیکن آہستہ آہستہ احساس ہوا ، کہ بیگم صاحبہ ، بیگم صاحبہ بننے کے بعد روٹی نہیں پکا سکتی ، مرچیں نہیں کاٹ سکتی پیاز نہیں چھیل سکتی ، برتن نہیں دھو سکتی ۔
تو دس جماعت پاس ، اللہ دتہ کیسے یہ سب کر سکتا ہے ؟
وہ تو انگریز ہی تھا ۔ کہ جو باورچیوں ، ویٹرس اور بیٹ مین ، اَن پڑھ ہی پسند کرتا تھا ۔ چنانچہ اب ، انڈر میٹرک گھریلو مازمین بنانے کی چھوٹ مل گئی۔
لیکن تربیت یافتہ ملازم کہاں سے آئے ؟
اب فوجی آفیسر تو الگ ریٹائرڈ آفیسروں کو بھی گھریلو ملازمین کی ضرورت پڑھ گئی ہے ، وہ جن کے بچے فوج میں ہیں اُنہیں تو میڈیکل اَن فٹ NCB مل جاتے ہیں ، لیکن کئی اب بھی ، پرانے دن یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں ۔
پچھلے دنوں ، چند دوستوں کی مجلس میں ، اِس قومی مسئلے کے حل کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ، کہ ملازمین کا کیا حل نکالا جائے؟
میں نے گھر آکر سوچا اور پلان بنایا کہ کس طرح ، آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام کھرے کئے جائیں ، یعنی دوستوں کو بھی ملازمین ملیں اور فوجی آفیسروں کو بھی تربیت یافتہ ملازمین مل جائیں ۔ اورانڈر میٹرک بچوں کو اچھاروزگار بھی مل جائے ۔ جہاں اُن کا مستقبل بھی محفوظ ہو ۔ اور والدین کو بھی سہارا ملے ۔ کہ
" نالائق بیٹا نہ صرف برسرِ روزگار ہو گیا ہے اُسے نہ صرف پنشن ملے گی بلکہ ، اب ہمارا علاج بھی مفت ہوتا ہے "۔
اگر آپ کے ارد گرد کوئی ایسا ضرورت مند کم پڑھا لکھا نوجوان ہو ، تو اُسے اِس ملازمت کے بارے میں ضرور بتائیں اور اِس بات کا خیال رہے ، کہ ایک گھریلو ملازم ، جو ایک طرح سے گھر کا حصہ جب ہی بنتا ہے ، جب وہ شریف ، نظریں نیچی رکھنے والا اور محنتی پاکستانی فرد ہو ، جس کا کوئی پولیس ریکارڈ نہ ہو اور نہ ہی وہ کردار کا مشکوک ہو !
8 جون 2016 کو میں نے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں اشتہار دیا ۔
صبح 7 بجے سے 5 بجے تک ، میں موبائل پر مصروف رہا اور فون کی تعداد سے اندازہ ہوا ، کہ بے روزگار افراد کی کمی نہیں !
کئی تو بچوں کے والدین تھے ۔بچوں نے بھی کئے جو اپنے گاؤں میں بے روزگار تھے یا دیہاڑی پر کام کر رہے تھے ۔چنانچہ ۔ ایس ایم ایس میسج کے ذریعے ، امیدواران کے آنے والے فون کے جواب میں ، یہ میسج دینا شروع کیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں