Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 3 جون، 2016

ستی ساڑھ ... دوہرا معیار

....دوہرا معیار. ...
....ستی ساڑھ.....

.. یہ اس معاشرے کا چلن ہے .. مرد بد کردار ہو  تو آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں کہ مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں
عورت وہی کچھ کرے تو بد کردار اور فحاشہ کہلاتی ہے

مرد طلاق یافتہ ہو جائے تو تمام رشتہ دار اپنی اپنی بیٹیوں کے رشتے لے کر حاضر ...
اور عورت خلع لے لے تو تمام رشتہ دار اپنی انگلیاں عورت کی طرف اٹھانے کے لئے حاضر..

اور تو اور وہ شناسا بهی ڈھونڈ لینے کی جستجو کرتے ہیں تمام عزیزان مہربان کہ جس کے لئے عورت نے خلع لی .. ورنہ بھلا کوئی عورت اپنا بسا بسایا گھر بلاوجہ تو برباد نہیں کرے گی نا .. چاہے بے چاری وہاں سے گالیاں جوتیاں کھاتی ہی نکلی ہو ..

بیوی مر جائے تو مرد مظلوم  بے چارہ تنہا بچے کیسے پالے گا . باہر کام کرے گا یا گھر دیکھے گا روٹی پانی کی تنگی ہو گی نا .. مرد کی ضروریات کی ایک طویل فہرست ہے جو بے چارے کو چند ماہ بهی اکیلا نہیں رہنے دیتی....

اور عورت بیوہ ہو جائے تو ماں کی قربانیوں اور عظمت کے گن گا کر ضروریات کا گلا اور آواز گھونٹ دی جاتی ہے .. روٹی کے لقمے تک کی محتاج ہو جائے فاقوں کی نوبت آ جائے لیکن دوسری شادی کا نام نہیں لیا جائے گا .. کیونکہ پھر بچے کون سنبھالے گا..

    . مزیدار بات یہ ہے کہ جو مرد دوسری شادی اپنے بچوں کی پرورش کے نام پر کرتا ہے وہ بهی غیر شادی شدہ دوشیزہ چاہتا ہے اور اگر کسی بیوہ یا طلاق یافتہ سے شادی کر بهی لے تو اس عورت کی پہلی اولاد کو قبولنے کے لئے شاذ ہی کوئی مرد اپنا دل بڑا کر پاتا ہے ..

......یہ دوہرے معیار اس برصغیر کی ستی کی رسم کے عین مطابق ہیں بس بظاہر عورت جلائی نہیں جاتی لیکن بیوگی کا کفن اوڑھا کر زندہ درگور ضرور کر دی جاتی ہے ..

بیوہ کے سر کو جلد از جلد ڈھانپنے کے اسلامی حکم کو مقدس غلاف میں بند کر کے طاقچے کی زینت بنا دیا گیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت مباحثہ کام ائے..
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

ہفتہ، 12 ستمبر، 2015


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔