Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
بس اور کلف لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بس اور کلف لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 1 نومبر، 2023

انارکی ۔ برصغیر کی اینگلو انڈین نسل

 

جب انگریز ہندوستان پہنچے تو ہندوستان جنسی طور پر یورپ سے زیادہ آزاد تھا۔ ہم جنس پرست اور ہم جنس پرست تعلقات عام، کھلے اور شاعری اور پینٹنگز میں منائے جاتے تھے۔ لونڈیاں ایک عام رجحان تھا جسے تمام مذہبی اور نسلی گروہوں نے رواج دیا تھا۔ اس کے برعکس، وکٹورین انگلینڈ میں کافی سخت جنسی جبر تھا۔

جنسی تعلقات کے دو پہلو ہیں: ایک برطانوی فوجیوں اور دوسرا برطانوی افسران سے متعلق۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان میں، انگریزوں کے زیر کنٹرول ہندوستان میں جسم فروشی قانونی اور اچھی طرح سے منظم تھی۔ 1850 کی دہائی میں، پچھتر  فوجی اضلاع تھے اور ہر ضلع میں عصمت فروشی حکام کی نگرانی میں ہوتی تھی۔ انڈین میڈیکل سروس   کے ڈاکٹر قحبہ خانوں کو منظم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ تمام طوائفیں رجسٹرڈ تھیں، طوائفوں کی کم از کم عمر پندرہ سال تھی اور خواتین کو ان کے اپنے رہنے کے کوارٹر یا خیمے مہیا کیے جاتےتھے جن کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا تھا۔ کچھ قحبہ خانے  کافی بڑے تھے اور لکھنؤ کے کوٹھے میں پچپن کمرے تھے۔

 جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ طوائفوں کو ہٹا دیا جاتا  تھا اور صحت یاب ہونے تک ان  کو سیکس  کی اجازت نہیں تھی۔ مقامی اور یورپی فوجی دونوں ان بازاروں کو استعمال کرتے تھے۔ تاہم سپاہیوں کو ان طوائفوں سے ملنے کی حوصلہ شکنی کی  جاتی  جبکہ لالکرتی ( یورپی) فوجیوں کو ترجیح دی۔ زیادہ تر برطانوی فوجی معاشرے کے نچلے طبقے سے تھے اور وہ کسی برطانوی افسر کے معیار کے مطابق نہیں تھے۔ برطانوی فوجی، مقامی  سپاہیوں کے مقابلے طوائفوں سے زیادہ کثرت سے ملنے جاتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی فوجیوں کی شادی نہیں ہوئی تھی جبکہ  مقامی سپاہی عموماً شادی شدہ مرد ہوتے تھے۔ ان بازاروں کو لال کرتی  بازار کہا جاتا تھا۔  جنس پرستی اور ہم جنس پرستی دونوں تعلقات عام تھے۔

 برطانوی رجمنٹوں نے ہندوستان میں کئی سال گزارے اور کئی بار ایسے رشتوں سے بچے پیدا ہوئے۔ ان بچوں کے لیے اٹھارویں صدی کے اوائل میں خصوصی مکانات اور اسکول مختص کیے گئے تھے۔ 

 جہاں تک برطانوی افسران کا تعلق ہے، یہ رجحان 18ویں اور 19ویں صدی کے اوائل میں عام تھا۔ تاہم، جنسی تعلقات کی نوعیت مختلف تھی. ہندوستان کے اشرافیہ میں افسروں نے شادی کی۔ سول اور ملٹری دونوں کمپنی کے زیادہ تر ملازمین سولہ سال کی عمر میں سروس میں شامل ہوئے۔ بہت سے عوامل جیسے کہ بہت کم عمر، ہندوستان میں کئی دہائیوں تک   برطانیہ نہ جاسکنے   یا  چھٹی  کم ہونے  کی وجہ سے  یورپی خواتین سے دوری ، دور دراز کے اسٹیشن پر پوسٹنگ اور مقامی داشتاؤں اور بیویوں کے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ان میں سے کچھ انگریز مقامیوں خاندانوں   میں گھل مل گئے ۔

 سترہویں اور اٹھارویں صدی کے آخر میں، بہت سے یورپی باشندوں نے مقامی لونڈیوں کے ساتھ ساتھ ،قانونی طور پر مقامی مسلم اور ہندو دونوں عورتوں سے شادی کی۔ ان خواتین کو بی بی گھر کے نام سے الگ گھر میں رکھا گیا تھا۔

 یہ رواج کافی عام تھا کہ بنگال  سے 1780تا 1785میں زندہ بچ جانے والوں کی  وصیتوں کا ریکارڈ  ظاہر کرتی ہیں کہ تین میں سے ایک یورپی سپاہی ، اپنی   ہندوستانی  بیویوں یا  ساتھیوں کے لئے  وصیت کرتا  ۔ کچھ انگریزوں نے اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار رکھا جبکہ کچھ نے ہندو مذہب یا اسلام قبول کر لیا اور مکمل طور پر مقامی  بن گئے۔ ایسی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے  آرام سے دونوں سوسائیٹوں میں پروان چڑھتے   ۔جبکہ کچھ مقامی رہناپسند کرتے اورکچھ   انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرکے  وہیں آباد ہوجاتے ۔  جبکہ  مقامی طور پر پلے بڑھے بچوں میں سے کچھ  اردو اور فارسی   کے مشہور شاعر،موسیقار ، شیوخ  اور اسکالر بن گئے۔ 

مؤرخ ولیم ڈاریمپل نے اپنی کتاب انارکی  میں ان تعلقات کو تفصیل سےلکھا کیا ہے۔ 

دہلی میں برطانوی  ، میجر جنرل سر ڈیوڈ اوچرلونی مشرقی نواب کی طرح رہتے تھے جن کی تیرہ مقامی بیویاں تھیں۔ سب سے مشہور مبارک بیگم ہیں۔ 

پونے میں مرہٹوں کے دربار میں برطانوی باشندےمیجر ولیم پامر نے دہلی کے ایک ممتاز گھرانے کی بیگم فیض  بخش سے شادی کی۔

 حیدرآباد میں برطانوی رہائشی لیفٹیننٹ کرنل جیمز اچیلز کرک پیٹرک نے خیر النساء سے شادی کی۔جو حیدرآباد کے وزیر اعظم کی بڑی بھانجی تھی ۔ 

جیمز کا سوتیلا بھائی ولیم اپنی داشتہ  دھولوری بی بی کے ساتھ رہتا تھا۔  

میجر جنرل چارلس اسٹورٹ عملی طور پر ہندو بن چکے تھے اور اپنی ہندو بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا عرفی نام 'ہندو اسٹورٹ' اور 'جنرل پنڈت' تھا۔ اسے کلکتہ کے عیسائی قبرستان میں دفن کیا گیا لیکن اپنے ہندو دیوتاؤں کے ساتھ۔ 

حیدرآباد میں برطانوی فوجیوں کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جیمز ڈارلمپل نے نواب آف مسولیپٹم کی بیٹی موتی بیگم  سے شادی کی۔  

ولیم لینیئس گارڈنر نے نواب آف کیمبے کی بیٹی بیگم ماہ منزل النسا سے شادی کی۔

 حیدرآباد کے مرہٹوں اور نظام کے ساتھ فری لانس سروس کے بعد، اس نے ایسٹ کمپنی کے لیے گارڈنر ہارس کے نام سے بے قاعدہ کیولری رجمنٹ قائم کی۔ یہ رجمنٹ اب بھی ہندوستانی فوج کے سیکنڈ لانسر   کےنام پر زندہ ہے۔ گارڈنر آگرہ کے قریب اپنی بیوی کی جاگیر پر خوشی سے رہتا تھا (ماہ منزل مغل بادشاہ اکبر شاہ دوم کی گود لی ہوئی بیٹی تھی)۔

 اس کے بیٹے جیمز نے بیگم ملکہ ہمنی سے شادی کی۔ مغل شہنشاہ کی بھانجی (وہ لکھنؤ کے نواب کی بہن بھی تھیں)۔ 

ولیم کی پوتی کی شادی مغل شہزادے مرزا انجم شکوہ بہادر سے ہوئی تھی۔

ہندوستان کی سکنر فیملی ۔کے سربراہ  سکاٹش  نسل  لیفٹننٹ  کرنل  ہرکولیس سکنر  نے    بھوج پور کے ہندو راجپوت گھرانے میں ہندو عورت  شادی کی جس کے بطن سے  جیمز سکنر تولد ہو ۔    لیفٹننٹ کرنل جیمز سکنر  (1778 ۔ 1844) نےمسلم گھرانے میں شادی کی اور  دہلی گیٹ کے سامنے  عالیشان گھر بنایا ۔جو ہندو کالج دہلی کے طور پر استعمال ہوتا رہا ۔
 جیمز سکنر نے 'یلو بوائز' کے نام سے مشہور مرہٹہ کیولری رجمنٹ سکنرز ہارس بنائی جو  فرسٹ لانسر کے نام سے  ہندوستانی فوج کی سب سے سینئر کیولری رجمنٹ ہے۔  جیمز کی چودہ ہندو ،مسلمان بیویاں اور داشتائیں تھیں۔ اس نے ایک مسلمان کی طرح زندگی گزاری لیکن بعد میں زندگی میں باقاعدگی سے بائبل پڑھی اور دہلی کے سینٹ جیمز چرچ میں دفن ہوا۔ 

 ایسے ہی عشق کی آخری کہانی بنگال آرٹلری کے کرنل رابرٹ واربرٹن  (1812-1863)اور شاہ جہاں بیگم کی ہے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کی بھانجی۔ واربرٹن پہلی اینگلو-افغان جنگ (1839-1842) میں لڑا اور افغانوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسے شاہجہاں بیگم سے پیار ہو گیا اور اس سے شادی کر لی۔ اس   کی اولاد رابرٹ واربرٹن جونیئر (1842-1899)تھی۔ جو  1842 میں گندمک کے قریب ایک قلعے میں پیدا ہوا۔ جب کی ماں شاہ جہاں بیگم ، محمد اکبر خان     (سوتیلے بیٹے)  سے  جان بچاتی  پھر رہی تھی ۔ برٹن  کا پٹھان فیملی میں پرورش کی بنیاد پر انگریزی، فارسی اور پشتو پر عبور  تھا  اور اٹھارہ سال تک خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر خدمات  دیں ۔ ایک عجیب ستم ظریفی میں،کرنل  واربرٹن سینئر آئرلینڈ میں پیدا ہوئے اور پشاور کے کرسچن قبرستان میں دفن ہوئے جبکہ واربرٹن جونیئر افغانستان میں پیدا ہوا اور لندن کے قریب برمپٹن قبرستان میں دفن ہوا۔

اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کے قریب، کمپنی کے قوانین،انجیل کی بشارت    کی وجہ سے عیسائیوں کی مقامی عورتوں سے شادیوں کی  سرگرمیوں کے عروج اور ہندوستان میں یورپی خواتین کے  مقامیوں سے شادیوں کے مستقل بہاؤ نے اس طرح کے مقابلوں کو سختی سے روک دیا اور انیسویں صدی کے وسط تک یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک یہ رجحان تقریباً ختم ہو چکا تھا۔

 انگریزوں کو اندیشہ تھا کہ ہندوستانی انگریز عورتوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ 1800 کے اواخر اور 1900 کی دہائی کے اوائل میں جب قابل ہندوستانی ڈاکٹروں کو انڈین میڈیکل سروس  میں داخل کیا گیا تو انگریزوں نے انہیں ان عہدوں پر تعینات کرنے میں بے چینی محسوس کی جہاں انہیں انگریز خواتین کا معائنہ کرنا پڑتا تھا۔ انگریز خواتین کے ساتھ ہندوستانیوں کے تعلقات کا مسئلہ جنگ عظیم کے دوران اُٹھا۔

  جنگ عظیم  میں، ہندوستانی فوجی جب مغربی محاذ پر لڑتے تھے تو یورپی معاشرے سے رابطے میں آئے۔ کچھ ہندوستانی خاص طور پر سکھ اور پٹھان مقامی فرانسیسی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے۔جن کی اولادوں  کی وجہ سے    انگریز گھبرا گئے اور انہیں ان یورپی   خواتین کو ہندوستان واپس لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

میری (ولیم ڈاریمپل ) بھابی کے دادا خان زمان خان بابر (انڈین ڈاکٹر میڈیکل سروس  )،   نے  جب وہ فرانس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی  ۔خاندانی مذاق یہ ہے کہ فرانس میں کچھ میرے  کھوئے ہوئے کزن گھوم رہے ہیں۔ کچھ پٹھان ( سرحدی آفریدی) جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ لی ۔  جرمن خواتین سے شادی کی  وہاں رچ بس گئے ۔ مٹھی بھر یورپی خواتن کو قبائلی علاقوں میں واپس لے آئے۔سفارت  خانے  اور  خیبر پولیٹیکل ایجنٹ کی فائلیں ان لوگوں کا پتہ دیتی ہیں ۔ ایک آفریدی  دوسری جنگ کے بعد  جرمنی میں رہا اور جرمنی کے ایک قصبے میں تمباکو کی دکان چلا رہا تھا۔

 براعظم آسٹریلیا کی مختلف کالونیاں برطانوی سلطنت کے زیر تسلط تھیں، ابتدائی آباد کاروں نے برطانوی علاقوں خصوصاً ایشیا کے لوگوں کےبحری جہاز اونٹ کو  صحرا میں باربرداری  کے طور پر استعمال کیا۔ چنانچہ   1838 میں، جوزف بروس اور جان گلیسن نے پہلے "افغانوں"  کے اونٹوں کومنتخب کیا جو  18 کو  لے کر  1840 میں جنوبی آسٹریلیا کی بندرگاہ پورٹ ایڈیلیڈ    پہنچے۔یہ اونٹ ہیری کے نام سےمشہور ہوئے ۔جان ہوریکس کی قیادت   میں یہ بہترین باربرداری کے جانور ثابت ہوئے ۔چنانچہ کراچی سے 1858 میں جارج جیمز لینڈلز نے 24 اونٹ اور 8  سلیمان خیل ساربانوں کو لے کر  آسٹریلیا  ملبورن کی بندرگاہ پہنچا ۔یوں  مزید 24 اونٹوں کے ساتھ  مختلف  قبیلوں کے ساربانوں نے 9 جون 1960 کو آسٹریلیا پہنچایا ۔ سیموئل سٹکر نے 13 ساربان اور 100 اونٹ اوریوں 1860 تک 3000 سرحدی ساربان آسٹریلیاپہنچ چکے تھے ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یورپی آسٹریلیئن مہاجروں کی مقامی اسٹریلئن سے جنگ کے بعد مقامی  مقبوضہ  عورتوں   کو جن افغانیوں نے داشتاؤں کے طور پر رکھا ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یا واپس وہ سرحد یا کراچی لے آئے ۔

خانہ بدوش سلیمان خیل پاوندہ   نے ٹیلی گراف، ریلوے اور سڑکیں بچھانے کے لیے اپنے اونٹوں کے ساتھ آسٹریلیا لے گئے۔ کچھ آسٹریلوی خواتین کے ساتھ واپس آئے۔ ایسی ہی ایک ناقابل تسخیر آسٹریلوی خاتون اپنے شوہر کی موت کے بعد تھیمیری (وسطی ایشیا اور ہندوستان کے درمیان گھومنے والی بڑی بستیوں) کی سربراہ بنی۔ وہ کارواں کے سامنے اونٹ پر بیٹھی ہوتی  اور قبائلی علاقے میں داخل ہونے پر آسٹریلیا کے بھاری لہجے میں برطانوی سکاؤٹ افسروں کا استقبال کرتی۔ 

کچھ ہندوستانی شہزادوں نے 20ویں صدی میں انگریز عورتوں سے شادی کی تھی۔ آفیسر کور کے ہندوستانی ہونے سے انگریزی معاشرے کے ساتھ سماجی رابطے میں اضافہ ہوا۔ 1930 کی دہائی کے وسط میں جب انگریز خواتین نے  آفیسرز  کلب کے سوئمنگ پولز کا استعمال کرنا شروع کیا تو کلبوں میں ہندوستانی افسروں کا انگریز خواتین کو  سوئمنگ کے کم لباس پہنے دیکھنا  معیوب سمجھا جاتاتھا۔ دوسرا مسئلہ رقص سے متعلق تھا۔ رسمی رقص سرکاری کام کا حصہ تھا۔ بہت کم ہندوستانی افسران انگریز تھے اور ساتھ ہی وہ بال روم ڈانس میں بھی اچھے تھے جو انگریز خواتین سے رقص کے لیے پوچھتے تھے۔ جنرل 'ٹمی' کے ایس تھیمایا (4/19 حیدرآباد رجٹ) شاید اس سلسلے میں مستثنیٰ تھے۔ ہندوستانی افسران کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ یکساں سلوک چاہتے تھے۔ جس میں خصوصی کلبوں میں شرکت اور انگریز خواتین کے ساتھ تیراکی اور رقص کرنے کا حق بھی شامل تھا اگر وہ راضی ہو جائیں لیکن وہ  اپنی خواتین کو لانے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ کئی ہندوستانی افسران نے اپنی خواتین کو پردہ میں رکھا۔ اس کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں افسران پر ہوتا ہے خاص طور پر اعلیٰ ذات کے راجپوت افسران۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ بیویوں کے  باوجود    آزاد خیال ہندوستانی افسران بھی اپنی بیویوں کو دوسرے مقامی  افسروں  کے ساتھ  رقص کرنے میں راضی نہیں تھے   یا اپنی خواتین کو انگریز افسروں کے ساتھ رقص کرنے کی اجازت دینے پر  یا  ان کی اپنی برادریوں کی طرف سے  شرمندگی   کی وجہ سے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، دونوں معاشروں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جہاں بہت سے ہندوستانی افسران نے انگریز خواتین سے شادی کی۔

ہم جنس پرست لڑکوں سے محبت کرنے والے افسروں  نے خود کو  پفرز (فرنٹیئر فورس)اور سکاؤٹس میں پوسٹ  کروایا  کیا تاکہ پٹھانوں کے ہم جنس پرستوں جذبوں  کے  مفید ہو سکیں   ۔  پفرز یا سکاؤٹس کے ساتھ رجمنٹ میں تعینات افسران کو  نظم و ضبط کا منفرد  مسئلہ درپیش ہوتا ۔ کوئی ایسا معاملہ بھی ہوجاتا  ۔ جب ایک نوجوان ریکروٹ نے ناپسندیدہ پیش قدمی کے  نتیجے میں   بوڑھے صوبیدار کے سر میں گولی مار دی ۔ یا کوئی  صوبیدار اپنے ’’نوجوان لڑکے‘‘ کو دور دراز کے عہدوں پر بھیجنے کی بجائے اسے ہیڈ کوارٹر میں رکھ کر اور اسے آسان ڈیوٹی دینے اور اپنی ڈیوٹی میں تھکاوٹ   کا بہانہ دے کر اس پر خصوصی احسان کرتا ہے۔ہم جنس پرستی سپاہوں میں بھی عام تھی ۔  دو نوجوان سپاہی اصرار کرتے  کہ انہیں رات کی سنٹری ڈیوٹی کے لیے ایک ساتھ یا کسی چوکی پر تعینات کیا جائے جہاں وہ دنوں تک ساتھ رہیں۔

 ٭٭٭

 


جمعہ، 17 مارچ، 2023

سارے رقبے ۔ 45 ہزار 267 ایکٹر اراضی

ایک اخباری خبر جو وٹس ایپ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 ‏نگران حکومت پنجاب نے صوبے کے تین اضلاع بکھر، خوشاب اور ساہیوال میں کم از کم 45 ہزار 267 ایکٹر اراضی ’کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ‘ کے لیے پاک فوج کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیئے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک دستاویز کے مطابق ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے پنجاب کے چیف سیکریٹری، بورڈ آف ریونیو اور زراعت، جنگلات، لائیو اسٹاک اور آبپاشی کے محکموں کے سیکریٹرز کو بکھر کی تحصیل کلور کوٹ اور منکیرہ میں 42 ہزار 724 ایکڑ، خوشاب کی تحصیل قائد آباد اور خوشاب میں 1818 ایکڑ اور ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں 725 ایکڑ اراضی حوالے کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔ خط میں پنجاب حکومت کے 20 فروری 2023 کے نوٹی فکیشن اور 8 مارچ کے جوائنٹ وینچر معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا کہ ’8 مارچ کو جوائنٹ وینچر منیجمنٹ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ریاستی زمینوں کی پروجیکٹ کے لیے فوری ضرورت ہے اور اسے پاک فوج کے حوالے کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق جوائنٹ وینچر پر فوج، پنجاب حکومت اور کارپوریٹ فارمنگ پر کام کرنے والی نجی فرموں کے درمیان دستخط کیے گئے، منصوبے کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت زمین فراہم کرے گی جبکہ فوج اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے منصوبے کا انتظام اپنے پاس رکھے گی، اس کے علاوہ نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے گا اور کھاد اور معاونت فراہم کرے گا۔ عسکری ذرائع کے مطابق فوج اس زمین کی ملکیت نہیں لے رہی یہ پنجاب حکومت کی زیر ملکیت رہے گی، فوج ایک مربوط انتظامی ڈھانچہ فراہم کرے گی، ان کا کہنا تھا کہ یہ زمین زیادہ تر بنجر ہے اور یہاں پر کاشت کم یا نہیں ہوتی، مزید بتایا کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، بشمول جوائنٹ وینچر پارٹنرز اور مقامی افراد کی مدد سے فوج اسے زرخیز زمین میں بدل دے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب بورڈ آف ریونیو نے کئی مہینوں تک سروے کیا اور کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ان زمینوں کی نشاندہی کی، اس منصوبے کا انتظام ریٹائرڈ فوجی افسران کے پاس ہوگا،اور اس سے فوج کو کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہو گا بلکہ کاشتکاری سے ہونے والا منافع مقامی لوگوں، پنجاب حکومت اور اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والی فرموں کو جائے گا۔ کاشت سے حاصل ہونے والی کم از کم 40 فیصد آمدنی پنجاب حکومت کے پاس جائے گی جبکہ 20 فیصد زراعت کے شعبے میں جدید تحقیق اور ترقی پر خرچ کی جائے گی، باقی آمدنی کو آنے والی فصلوں اور منصوبے کی توسیع کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زرعی شعبے کی شرح نمو 1960 میں 4 فیصد سے گر کر 2022 میں 2.5 فیصد رہ گئی، جس کی وجہ ناقص اصلاحات، غیر مؤثر زرعی پالیسیوں کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب پڑھیں وٹس ایپ کے کمنٹس 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


 +92 300 7920092
: اے وطن کے جوشیلے جوانوں
سارے رقبے تمہارے لیے ہیں


یہ وطن تمہارا ہے
ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں

[17/0310:06 pm] +92 304 6917210: Jo golian khaty hain wo zayda tar retirement k bad apko bank's k bahir guard's ki uniform main nazar ayain gy


[17/03, 10:27 pm] +92 300 3930330: پورا چولستان یہ ٹھیکے پر دے چکے اور چولستانی الاٹمنٹ کے لیے کمیشنر آفس کے دھکے کھا رہے اب جو بھی رقبہ غیر آباد ہے وہ فوج لے گی عوام کو جو ملنا تھا وہ مل گیا

[17/03, 10:45 pm] +92 331 9790990: او پیارے گروپ ممبران کس طرف چل پڑے ہو، رقبہ گورنمنٹ کا ہے ادارے گورنمنٹ کے ہیں بس ہم نے اپنی کر کے کھانی ہے، پاسبان بھی ہم خود بھرتی کرواتے ہیں،

[17/03, 11:23 pm] +47 468 22 760: 🌹😁
[17/03, 11:24 pm] +92 300 3930330: بھائی عوام کونسا انڈیا کی ہے۔ عوام کا حق الاٹمنٹ ہے ان کو دیا جانا چاہیے۔ فورٹ عباس سے لے کر رحیم یار خان کا وسیع صحرا فوج کے قبضے میں ہے وہ یہاں چولستان ٹھیکے پر دے رہی ہے حبیب بنک میں ان کا اکاؤنٹ ہے پیسہ ڈائیریکٹ ان کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے جن کا حق ہے وہ دھکے کھا رہے نہ ٹیکس نہ کچھ وہ سب کھا رہے ہیں۔ اداروں سے زیادہ حق کسان کا ہے عوام کا ہے

[17/03, 11:25 pm] +92 300 3930330: ان کے دسیوں بزنس ہیں ان سے ان کا پیٹ نہین بھرتا جو عوام کا حق کھانے لگ گئے ہیں

[17/03, 11:28 pm] +47 468 22 760: 🌹بالکل بجا فرمایا۔۔ عوام کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہے اور ان کے کاروبار سیمنٹ کھاد کے کارخانے ہاؤسنگ سوسائیٹیز دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں۔

[17/03, 11:29 pm] +92 300 7920092: ایک ایک نے 1000 ، 1000 ایکڑ پر قبضہ کیا ہوا ہے

[17/03, 11:31 pm] +92 300 3930330: بالکل سر۔  ایسا ہی ہے اور ان کی حرص ابھی تک ختم نہین ہوئی۔ یہ ایک دن لوگ بھی بیچیں گے

[17/03, 11:31 pm] +92 300 7920092: پیڑول پمپس ، این ایل سی ٹرانسپورٹ ، ملک کے بڑے پروجیکٹ کے ٹھیکے یہاں تک کہ ٹک شاپس بھی

[17/03, 11:33 pm] +92 300 3930330: جی بالکل کیا ہوا ہے۔ جو رقبہ قابل کاشت نہین ہے وہاں لوگوں کو یہ لانڑا پھوگ جو صحرائی جھاڑیاں ہیں ان کو اکھاڑنے کے ٹھیکے دے رہے جس سے چولستانی چراگاہیں ختم ہو جائیں گی یعنی کوئی ایسی چیز جس سے پیسہ آے اس سے پیسہ کماؤ

[17/03, 11:33 pm] +92 300 3930330: سر اب ٹول پلازوں والا ایک نیا بزنس بھی ان کی لسٹ میں شامل ہو چکا ہے

[17/03, 11:34 pm] +92 300 7920092: بس اللہ پاک ہمارے ملک پر رحم فرمائے آمین

[17/03, 11:35 pm] +92 300 3930330: آمین اور کسی طرح ان کے چنگل سے ملک و قوم کو آزاد کرواے

[17/03, 11:35 pm] +47 468 22 760: اور منظور بھائی ان سے  زراعت بھی نہیں ہوتی۔۔ کیونکہ اس میں انّی کمائی نہیں ہے۔ یہ صبر آزما کام ہے۔۔

[17/03, 11:38 pm] +92 341 7917341: اے وطن کے جوشیلے جوانوں
سارے رقبے تمہارے لیے ہیں

یہ وطن تمہارا ہے
ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں

[17/03, 11:38 pm] +92 300 7920092: بھائی یہ لوگوں کو ٹھیکے پر زمین دے دیتے ہیں مُفتا لگاتے ہیں ان کی کون سی اپنی وراثت ہیں سیاستدان چوہے بنے ہوئے ہیں یہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں
[17/03, 11:38 pm] +92 300 3930330:

 سر 1971 سے لے کر ان کی کوئی ایسی کامیابی جو ان کا کام ہے اس میں نہیں لیکن بزنس میں بہت ہے

[17/03, 11:41 pm] +92 300 3930330:

سر آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ یہ پانچ ہزار فی ایکڑ کی سکیورٹی لیتے ہیں اور تین ہزار ایک ایکڑ کا ٹھیکہ لیتے ہیں ہر سال یہ دس فیصد ٹھیکہ بڑھاتے ہیں فورٹ عباس یزمان لیاقت پور خانپور احمد پور رحیم یار چھ تحصیلوں سے لے کر پاک انڈیا بارڈر تک منظور صاحب ہمارے سنئیر ہیں وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے ایکڑ رقبہ ان کے پاس ہے اور بنیادی ٹھیکے تین ہزار اور پانچ ہزار سکیورٹی ٹوٹل 8 ہزار فی ایکڑ کا پہلے سال کا ٹھیکہ جمع کر لیں کتنی آمدن ایک سال کی ہو گی


[17/03, 11:41 pm] +47 468 22 760:

اے پتر ہٹاں تے نئ وکدے ، -----
پینٹ اتروانے، ہتھیار ڈالنے سادہ مگر بے وقار تقریب
اپنوں کے سامنے ہتھیار بکف
غیروں کے آگے ہتھیار پھینک


[17/03, 11:42 pm] +92 300 3930330

: اس کے بعد سیاچن کارگل پھر افغان بارڈر کو دیکھ لیں ہر چیز افغانستان جا رہی کمیشن پر نہ افغانستان باررڈر پر ان سے سمگلنگ رکتی ہے نا دہشت گردی رکتی ہے

[17/03, 11:44 pm] +92 300 3930330:

قلعہ دراوڑ سے مغرب اور لیاقتپور سے مغرب میں جو درمیانی رقبہ جو انہوں نے ٹھیکے پر دیا ہے اس کے لیے یہ عباسیہ نہر سے ایک نہر لے آے ہیں اس رقبے کے لیے جو انہوں نے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے وہ بھی کسانوں کا حق یہ ادھر اپنے ٹھیکیداروں کو دے رہے ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

میر اکمنٹ


٭٭٭٭٭٭٭٭

جس کا جواب ایک نیک دل سینئر نے یوں دیا :۔
 

٭






 

 

پیر، 16 جنوری، 2023

برطانوی ، ٹیکس اور پنشن

 برطانوی مسلح افواج کے سربراہ  فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری نے ریٹائرمنٹ کے بعد برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات میں درخواست کی:۔

 میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد سوائے پنشن کے کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، بار بار مکان کی تبدیلی میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ گزارش ہے مجھے ایک مکان اور تھوڑی سی زرعی زمین الاٹ کر دیں تاکہ میں زندگی کے باقی ایام پرسکون طریقے سے گزار سکوں۔ 

وزیراعظم نے تحمل سے ساری بات سنی اور پھر جواب دیا:۔
مسٹر منٹگمری، یقینا آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ عالمی جنگ میں آپ نے تاج برطانیہ کے لئے شاندار خدمات دی ہیں جس کی ساری قوم معترف ہے لیکن جنرل صاحب، آپ کو اس قومی خدمت ہر ماہ معقول معاوضہ دیا جاتا رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت نے کسی مہینے آپ کو تنخواہ  ادا نہ کی ہو یا پھر کبھی آپ کی تنخواہ لیٹ ہو گئی ہو۔ اب جبکہ آپ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ریاست کے لئے کوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے اس کے باوجود برطانوی حکومت اپنے عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے آپ کو ہر ماہ معقول پنشن دے رہی ہے۔
مسٹر منٹگمری، بطور وزیر اعظم میں عوام کے حقوق کا محافظ ہوں اور ملکی آئين کے مطابق عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو اپنے لئے یا کسی دوسرے کے لئے خرچ کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔

لیکن جو تحفے آپ نے توشہ خانہ سے لئے ، اُنہیں بیچ کر گذارہ کرو !۔
منٹگمری سابق آرمی چیف تھا، فیلڈ مارشل بھی تھا۔ برطانوی حکومت کو کئی جنگیں جیت کر دے چکا تھا۔  بقول شخصے منٹگمری جاگتا تھا تو قوم سکون سے سوتی تھی۔ 

اس  نے سکون سے کہا ۔ جناب وزیر اعظم، آپ کے مشورے کا شکریہ ۔  وہ میری یادوں کا حصہ ہیں میں یادوں کو کیسے بیچ سکتا ہوں ؟ 

اس نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، ساتھ بیٹھ کر کافی پی اور ان سے ہاتھ ملا کر اپنے کرائے کے مکان کی طرف چلا گیا۔

وہ رات کے اندھیرے میں کسی سے ملنے نہیں گیا ، یہ بتانے کہ میری حالت دیکھو  اور کرائے کا مکان اور ایک فوجی کی خدمات ۔ 


منقول۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوج ، عوام اور جھرلو 

 

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

فوج ، عوام اورجھرلو

جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ دونوں کے سسر اچھے دوست ہیں .جس وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کی بھی اچھی دوستی تھی ۔جب نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا تو اس وقت جنرل پاشا کے دستخط سے منظور شدہ عمران خان پروجیکٹ آخری مراحل میں تھا جسے پاک فوج مقدس ڈاکٹرائن سمجھ کر آگے بڑھا رہی تھی ۔

جنرل فیض کا نام اس وقت سامنے آیا جب 2017 کے لبیک  دھرنے کو ن لیگ کے خلاف استعمال کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔جنرل فیض اس وقت ڈی جی سی تھے معاہدے پر جنرل فیض کے دستخط میڈیا پر چلے تو ان تذکرہ شروع ہو گیا ۔ 

عمران خان کو لانچ کرنے کا آخری مرحلہ قریب تھا۔ جسٹس شوکت صدیقی سے جب جنرل فیض ان کے گھر جا کر ملے۔ اور انہیں حکم دیا کے پانامہ میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہونی چاہئیے جسٹس صدیقی نے جواب دیا کہ ابھی کیس چل رہا ہے اگر سزا بنتی ہے تو میں سناوں گا اگر نہیں بنتی تو میں نہیں سناوں گا ۔ جنرل فیض نے اس وقت جملہ بولا جو تاریخی ہے اور سب کو یاد ہے کہ،، ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی،، ۔

 جسٹس صدیقی کے خلاف ریفرنس بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار کے ذریعے انہیں ہٹا دیا گیا ۔ 

پانامہ میں نواز شریف اور اس کی بیٹی کو الیکشن سے پہلے جیل میں ڈال کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا فائنل راونڈ شروع ہوا۔ 

تین لاکھ فوجی جوانوں کے ذریعے بندوق کی نوک پر الیکشن نتائج تبدیل کیسے کئے گئے آرٹی ایس بند کیا گیا اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے ۔ 

جنرل فیض نے 2018کی الیکشن میں عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہر طرح کی دھاندلی تشدد۔دھمکیاں سپریم کورٹ کے ججوں سے لیکر عام سرکاری اہلکاروں تک طاقت کا استعمال کیا ۔

 جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو جنرل فیض عمران خان کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ لیکن 2019 میں جب عمران خان نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بلا کر ایک اہم سیاست دان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر نے معذرت کر لی کہ سر میں ملک کی سپائی ایجنسی کا چیف ہوں مجھے سیاست میں مت گھسیٹیں ۔ 

اس کے علاوہ دور اور اہم واقعات میں بھی جنرل عاصم منیر نے سیاسی معاملات میں عمران خان کا ساتھ دینے سے انکار کیا ۔ جب وزیر اعظم۔ ہاوس میں فرح گوگی جمیل گجر ،خاتون اول اور عثمان بزدار کی کرپشن۔ اربوں۔ تک پہنچ گئ تو آرمی چیف جنرل باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی کووزیر اعظم عمران خان کے پاس بھیجا کہ ان کو بتائیں کہ پنجاب میں اسی طرح چلتا رہا تو پنجاب حکومت گر جائے گی ۔ 

عمران خان کو یہ بات پسند نا آئی وہ پہلے ہی ان کا سیاسی ساتھ نہ دینے پر جنرلُ عاصم منیر سے سخت خائف تھے انہوں نے جنرل باجوہ۔ سے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہٹایا جائے میں اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی لگانا چاہتا ہوں۔

 جنرل باجوہ نے بہت سمجھایا کہ یہ پنجاب کی کرپشن رپورٹ پاک فوج کی قیادت کے مشورے سے آپ کے ساتھ شئیر کی گئ ہے لیکن عمران خان بضد رہے اور جنرل باجوہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا فیصلہ ماننا پڑا۔ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا اور۔ چند ہفتوں کے اندر ساری پی ڈی ایم قیادت کو جیل میں ڈال دیا ۔

 اس دوران فیض حمید نے سپریم کورٹ نیب ایف آئی اے اور پاکستان پولیس پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا۔ ۔

ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا اپوزیشن پر عرصہ دراز تنگ کر دیا گیا ملک کی ساری انتظامئ مشنری اور دولت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر صرف ہو گئی۔ملک کی معیشت بیٹھ گئی۔

 یہاں تک تو پاک فوج نے برداشت کر لیا لیکن ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل باجوہ کو رپورٹ دی کے جنرل فیض رات کے اندھیرے میں چھپ کر وزیر اعظم سے مل رہے ہیں۔جنرل باجوہ کے لئے یہ خطرے کی گھنٹی تھی 

۔ پاک فوج میں جب بھی کوئی کور کمانڈر یا لیفٹینٹ جنرل کسی سیاسی شخصیت سے ملتا ہے تو پک فوج کے سربراہ سے اجازت لینا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ جنرل باجوہ نے جنرل فیض سے جب ان ملاقاتوں کا پوچھا تو جنرل فیض نے معزرت کی اور آئندہ اجازت لیکر ملنا کا یقین دلایا لیکن یہ ملاقاتیں نا رک سکیں وزیر اعظم ہاوس کے علاوہ یہ ملاقاتیں خفیہ مقامات پر ہونے لگیں ۔۔ملٹری انٹیلی جنس جو کہ آرمی چیف کے انڈر ہیں ۔انہوں نے جنرل فیض کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ فروری 2021میں پاک فوج کے چھے مہینے کی لگاتار کور کمانڈرز کانفرنسز میں بحث کے بعد فیصلہ ہوا کہ ملک کے مفاد میں پاک فوج کا سیاست سے پیچھے ۂٹ جانا ہی ملک کے مفاد میں ہے ۔تمام آفیسرز کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ ہم نیوٹرل ہو رہے ہیں کوئ ئی بھی اعلیٰ افیسر کسی بھی سیاسی جماعت کا ساتھ نہیں دے گا۔ لیکن جنرل فیض حمید اور عمران خان کچھ اور ہی پلان بنا رہے تھے ملٹری انٹیلی جنس نے سربراہ پاک فوج کو فائل پیش کی کہ جنرل فیض حمید ایک مغربی ملک کی کمپنی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری پر معاہدہ کر رہے ہیں ۔اسی ہفتے الیکٹرانک ووٹنگ پر بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ جسے پاس کروانے میں جنرل فیض کی اتحادی جماعتوں سے رابطے کا کال ریکارڈ ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل باجوہ کو پیش کر دیا ۔ سب سے بڑا جھٹکا جنرل باجوہ کو اس وقت لگا جب ملٹری انٹیلیجنس نے رپورٹ دی کی جنرل فیض اور عمران خان نے پلان بنایا ہے کہ جنرل باجوہ کو ہٹا کر جنرل فیض کو آرمی چیف بنایا جائے اور اگلے 15 سال کے لئے عمران خان صدربن جائیں اور اسی طرح ایکسٹینشن کے ذریعے جنرل فیض 15 سال تک آرمی چیف رہیں گے ۔

کور کمانڈر کانفرنس میں جنرل فیض حمید کی سیاسی سرگرمیاں پیش کی گئے۔ جنرل باجوہ نےجنرل فیض کو ہٹا کر جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کا فیصلہ کیا جس کی شدید مزاحمت کی گئی ۔

جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی -عمران خان نے جنرل ندیم انجم کی ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا - بالآخر فیض حمید کے سسر اور جنرل باجوہ کے سسر کی دوستی کی وجہ سے جنرل فیض کی جان بخشی ہوئ اور جنرل فیض کے کہنے پر عمران خان نے جنرل ندیم انجم کی تعیناتی پر دستخط کر دیئے - 

جنرل فیض پشاور کور کمانڈر بن گئے وہاں جا کر بھی انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اور آرمی چیف بننے کا خواب دیکھتے رہے -

ملٹری انٹیلی جنس کی خوفناک رپورٹ پر جنرل فیض کو پشاور سے ہٹا کر بہاولپور تعینات کر دیا -

 جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے پر جنرل فیض حمید نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا -اور نئے آرمی چیف کی کمان سنبھالنے کے ایک دن پہلے استعفی دے دیا -

 پاکستان کی تاریخ کے ایک متنازع اور آرمی چیف بننے کے خواب دیکھنے والے جنرل کاسیاہ باب بند ہوگیا ہے -

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

پیر، 4 جولائی، 2022

کیا فوجی آفیسران نے پاکستان لوٹا ؟

  پاک فوج کے افسران کی پرتعیش طرز زندگی  کے بارے میں بہت سی خرافات اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں اور جھوٹ اس پروپیگنڈے کا حصّہ ہے جس کا مقصد پاکستانی عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنا ہے، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالی جا سکے  ۔ ان الزامات اور جھوٹے پروپگنڈے کا سدباب کرنے کیلئے انکے متعلق ابہام ختم کرنا ضروری ہے ۔

نمبر 1. %10 سے زیادہ افسران بریگیڈیئر رینک تک نہیں پہنچتے یعنی BPS-20 ۔  جبکہ اسکے مقابلے میں سول اداروں کے تقریباً  %70 کے قریب افسران  BPS-20 میں پہنچ کر ریٹائر ہوتے ہیں۔

نمبر 2.  پاک فوج کے صرف %2 افسران میجرجرنل رینک تک پہنچ پاتے ہیں اور اس سے مزید کم یعنی %0.4 لیفٹینٹ جنرل کے رینک تک پہنچ پاتے ہیں۔  اور یہ ترقی وہ صرف اور صرف اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بناء پر حاصل کرتے ہیں ۔ اس ترقی کا انکے خاندانی پس منظر سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک جنرل کا بیٹا ہی صرف جرنیل بن سکتا ہے ۔  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی جرنیل کا بیٹا آرمی چیف نہیں بنا لیکن جرنل مشرف ،جرنل جہانگیر کرامت، جرنل وحید کاکڑ ، جرنل اسلم بیگ ، اور جرنل ضیاء الحق جیسے آرمی چیف بنے  جن کے والدین کا عسکری  شعبے سے کوئ تعلق نہیں تھا ۔
 
نمبر 3.  فوجی افسران بھی پانی بجلی گیس بلوں کی ادائیگی بغیر کسی رعایت کے کرتے ہیں۔

نمبر 4. فوج کے تمام افسران سے انکم ٹیکس کی ادائیگی تنخواء سے کٹوتی کی صورت میں کی جاتی ہے ۔  جو کہ ایک سال میں  دو ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔

نمبر 5. اگر فوجی آفیسر کو سرکاری رہائش الاٹ ہو جاۓ تو اسے تنخواہ میں مکان کا کرایہ نہیں ملتا۔

نمبر 6.بریگیڈئیر سے کم رینک کا کوئ بھی افسر سرکاری  گاڑی  رکھنے کا مجاز نہیں ہے اورسرکاری گاڑی کا نجی طور پر استعمال منع ہے۔

 نمبر 7. فوجی افسران ابتدائی دنوں سے ہی آرمی ہاؤسنگ اسکیم کے ممبر بن جاتے ہیں اور پھر سروس کے دوران ان کی تنخواہ  سے سکیم کے مطابق رقم ماہانہ طور پر کاٹی جاتی ہے ۔
ان کی ریٹائرمنٹ پر ایک تین کمروں کا اپارٹمنٹ  انکو اپنی  پنشن /کموٹیشن کا ایک بڑا حصہ ادا کرنے کے بعد الاٹ کیا جاتا ہے۔اب پہلے کی طرح جدا گھر نہیں صرف اپارٹمنٹ ہی ملتے ہیں  ۔

 نمبر 8. ڈی ایچ اے میں پلاٹ بھی بطور سروس بینیفٹ صرف اچھے  ڈسپلن والے آرمی آفیسرز ، جے سی اوز یا شہداء   کے خاندانوں کو الاٹ کیا جاتا ہے ۔  شہدا خاندان کے علاؤہ باقی سب کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قسطوں میں زمین کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ صرف  ترقیاتی چارجز ہی چھوڑے جاتے ہیں۔

 نمبر 9 ۔ فوج کے تمام افسران کو زرعی زمین الاٹ نہیں کی جاتی ۔ صرف شھداء کے اہل خانہ ، اور ایسے افسران / سپاہیوں کو دی جاتی ہے جن کو کسی بھی آپریشن کے دوران زخمی ہونے کی بناء پر معذوری کا سامنا ہو۔ یا پھرکچھ سینئر افسران کو ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف کے طور پر الاٹ کی جاتی ہے ۔

 نمبر 10. آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے  جو کہ  حکومت پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے ۔  اس ادارے میں فوج سے 44 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے %90 افسران کو دوبارہ ملازمت دی جاتی ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس کسی بھی سول  محکمے میں ملازمین کو 60 سال عمر سے پہلے ریٹائر نہیں کیا جاتا۔  

 نمبر 11. فوجی افسران کے بارے سب سے  بڑی اور عام غلط فہمی یہ پھیلائ جاتی ہے کہ یہ صرف ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ فوج کے تمام افسران کیلئے گریجویشن ضروری ہے ۔ وہ ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ  ہونے کے دو سال اندر گریجویشن یعنی بی ایس کی  ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔ بی ایس کا یہ پروگرام بھی 4 سال کا ہے جو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے پی ایم اے میں 2 سال اور باقی سروس کے پہلے 2 سال ۔ اس کے علاؤہ کچھ ٹیکنکل شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افسران کو انجنئیرنگ کے مختلف فیلڈز میں ملک کی چوٹی کی جامعات سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری کروائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی اور غیر ملکی کورسز،کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ایم ایس کی ڈگری حاصل کی جاتی ہیں ۔ باقی دنیا بھر میں پاک فوج کے افسران کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور مہارت کی داد دی جاتی ہے ۔ لہذا یہ سب کسی ایف اے پاس کے بس کی بات نہیں کے عالمی/قومی منظر نامے پر ہر فورم پر پر اعتماد ہو کر ملک کی نظریاتی اساس کا دفاع کر سکے ۔

 نمبر 12. فوج میں یہ "بلیڈی سولین " جیسا جملہ بولنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی کیونکہ آج کی پاک فوج میں 90 فیصد سے زائد وہ ہیں جن کے والدین "سولین" ہیں۔ جو باقی دس فیصد فوجی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے جذبات اور خاندانی پس منظر کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ فوجی ڈسپلن اور تربیت کی بناء پر ایسی بداخلاقی کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔
 
 نمبر 13. ہر بڑے ادارے کی طرح فوج میں بھی کبھی کبھار ایسے لوگ شامل ہو جاتے ہیں جو اپنی ذاتی فعل کی بناء پر ادارے کیلئے بھی باعثِ تشویش بن جاتے ہیں۔  سول اداروں کے بر عکس جہاں پاکستان سول سروس کے افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کی مثال شاذو نادر ہی ملتی ہے۔ پاک فوج نے اپنی زیرو ٹالرینس پالیسی کی بناء پر حالیہ کچھ سالوں میں 200 سے زائد افسران کو نوکری سے برخاست کیا ہے اور سخت سزائیں دیں ہیں ۔ جرائم جیسا کہ عہدے کا ناجائز استعمال اور کرپشن فوج میں ناقابل قبول ہے مگر ادارے کے وقار کو مرکوز خاطر رکھتے ہوۓ ان سزائوں کی عوامی سطح پر تشہیر نہیں دی جاتی ۔ .

 نمبر 14. پاک فوج اور اسکے افسران و جوان اسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ اپنے ملک کی مجموعی صورتحال اور مسائل سے بخوبی واقف بھی ہیں اور ان مسائل کا سامنہ بھی کرتے ہیں ۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو یا کرونا کے باعث لاک ڈائون ہوں ان سب کافوجی چھاؤنیوں پر برابر نفاذ کیا جاتا ہے ۔
نمبر 15. فوجی چھاؤنیوں میں نظر آنے والی صفائ اور نظم ونسق کی وجہ اضافی وسائل نہیں بلکہ اعلیٰ تنظیم اور حکام اعلیٰ کی نگرانی اور توجہ ہے ۔  جبکہ سول میٹروپولٹن کارپوریشن میں افرادی قوت ھونے کے باوجود ان خصوصیات کا فقدان نظر آتا ہے ۔

 نمبر16۔ دفاعی بجٹ کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ شاید  پاکستان کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے اور بجٹ کا %80 حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے ۔ حالانکہ  سچ یہ ہے موجودہ بجٹ میں دفاع کا حصہ 20 فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ ہمارے پڑوسی دشمن ملک کا دفاعی بجٹ دس گنا بڑا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنالیا ہے ۔ جس بجٹ کو زیادہ سمجھا جاتا ہے اس کے بارے میں جان لیں کہ پاکستان کے فی فوجی جوان اخراجات دنیا میں پہلے پچاس مملک سے بھی کم ہیں ۔پاکستان کے ایک فوجی پر فی کس خرچہ دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔

. نمبر 17. اور سب سے ضروری بات جو ہم سب پاکستانیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب اور یہ فوج اسی دھرتی ماں کی اولاد ہیں۔ ہم میں سب کی کوشش ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور پرامن زندگی دے سکیں۔ کوئی ایک پیشہ دوسرے پیشہ سے بہتر نہیں ہے ، ہم کسی بھی  پیشے کو نظر انداز نہیں کر سکتے نا ہی کسی کو اسکا حق  ہے ۔ کیونکہ سب ہی پیشے کام کریں گے تو ملک ترقی کرے گا خوشحال ہوگا ۔

 نمبر 18. ہمارا اتحاد ہی ہماری طاقت ہے ، دنیا کی کوئی فوج بھی اپنی عوام کی مدد اور مرضی کے بغیر کوئ جنگ نہیں جیت سکتی ۔ اور ہمیں اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے ۔ بہادرعوام کی اخلاقی  حمایت  کے بغیر فوج چاہے جتنی بھی اسلحہ بارود سے لیس ہو جنگ شروع تو کر سکتی ہے مگر جیت نہیں سکتی ۔
 نمبر 19.لہذا عوام بھی یہ ذمہ داری سمجھے کہ کم از کم ان لوگوں کا نشانہ نہ بنیں جو فوج اور عوام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے شرپسندوں اور سازشیوں کو پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان سے دفاعی بجٹ جیسے موضوعات پر رائے لی جاۓ ۔ آپ خود دیکھیں گے کہ یہ کیسے ثابت حقائق اور اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کریں گے ۔ لہاذا ہمیں بحیثیت قوم تمام تر مشکلات کے باوجودِ ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نا ہو سکیں ۔

⚔️ پاک فوج زندہ باد 🦅🇵🇰
پاکستان پائندہ باد 🇵🇰

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں ۔ 

٭ملٹری انکارپوریٹ اور آرمی آفیسرز کو ملنے والی زمینیں ، پلاٹ اور مکان ۔

ہفتہ، 14 اگست، 2021

اللہ حافظ، میں تو اپنے جہاز پر جا رہا ہوں۔

٭محمد حنیف کا کالم: جنرل مرزا اسلم بیگ کی مجبوریاں
تحریر : سابقہ پائلٹ آفیسر محمد حنیف
انتخاب : سید رضی الدین احمد، گروپ کیپٹن (ریٹائرڈ)
اشاعت : ویب سائٹ بی بی سی اردو مورخہ ۱۳ اگست ۲۰۲۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائیہ اور تعارف :
’’مجھے اگر جنرل ضیا کے جہاز کی مجرمانہ تحقیقات کا انچارج بنایا جاتا تو میں سیدھے سیدھے چار لوگوں کو اندر کرکے آدھے گھنٹے میں سب کچھ اگلوالیتا۔ دو خاکی اسلم بیگ اور محمود درانی اور دو شاہین۔ فاروق فیروز اور حکیم اللہ‘‘۔ یہ الفاظ میرے ضرور ہیں مگر پہلی بار جس کے منہ سے سنے وہ اور میں ۱۹۹۰ میں شورکوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ایکسپریس ٹرین کا انتطار کررہے تھے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ چاروں شخصیات آج بھی زندہ ہیں مگر کہنے والے ظہیر زیدی کو گروپ کیپٹن بن کر بعد از ریٹائرمنٹ انتقال ہوئے کئی برس گزرچکے ہیں۔  پیچیدہ مسائل یا تاریخ کے وہ سوال جن کا جواب تسلی بخش نہ مل سکا ہو انکو کھوجنا۔۔۔میرے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں۔ اور جنگ جمل ہو، لیاقت علی خان کا قتل یا جنرل ضیا کے جہاز کا حادثہ۔۔۔سب کچھ کھودا۔  الجبرا کا اچھا طالب علم رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر سوال کا حل نہ نکل رہا ہو تو پہلے جواب حاصل کرلو اور جواب سے  واپس سوال کی طرف کا سفر کیا جائے۔ یوں بہت ساری گمشدہ کڑیاں خود بخود مل جاتی ہیں۔
قتل کے وہ مقدمات جن میں ہم آج تک پھنسے ہوئے ہیں انکا حل نکالنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ جواب پہلے ڈھونڈا جائے۔ اور لیاقت علی خان کا قتل ہو یا ضیا کا۔ ان تمام لوگوں کو ڈھونڈا جائے جنکو ان حادثوں سے فائدہ پہنچا یا یوں کہہ لیں کہ حادثے کے بعد کون کہاں پہنچا یا کیا بن گیا۔ ان دونوں حادثات میں البتہ میں کسی غیر ملکی طاقت کا براہ راست ہاتھ ہونا کبھی نہیں مانتا۔ انکو صرف پتہ ضرور ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ باقی الحمداللہ اپنے اس کام کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ اسمیں بے نظیر کا قتل بھی شامل ہے۔‘‘
اتنی تمہید اس لئے باندھی کہ کرنل اشفاق حسین جو خود آئی ایس پی آر سے منسلک رہے اور پروتوکول وغیرہ کی نزاکتوں کو بخوبی جانتے ہیں مگر عرصے سے اسی نرگسیت کا شکار ہیں جسمیں بیگ صاحب بھی مبتلا ہیں، انہوں نے مرزا اسلم بیگ کی سوانح تحریر کرکے مارکیٹ میں پھیلادی۔ کہتے ہیں پوت کے پائوں پالنے میں نظر آجاتے ہیں اور بریانی کی دیگ سے ایک چاول چکھ کر ماہر باورچی پوری دیگ کے بارے میں جان لیتا ہے۔ گویا تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ یہی اس کتاب کا سرورق دیکھ کر سمجھ آگیا جب کرنل اشفاق نے دھڑلے سے اپنے نام کیساتھ (ریٹائرڈ) لکھنے کا کوئی تکلف یا کھڑاک ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔ اندازہ ہوگیا اندر سچ کا کتنا خیال رکھا گیا ہوگا۔
ہمارے پاکستان میں ایک صحافی ہیں ۔ ہمالیہ کی چوٹی پر ہمالیہ رکھ دیں تب بھی انکی بقلم خود صحافتی عظمت کو نہ چھو سکے انکی ایک بڑی زبردست خوبی ہے۔ کسی بھی مشہور شخص کے مرنے کے بعد اس سے اپنی کسی ایسی ماضی کی ملاقات کا تذکرہ لکھ ڈالیں گے اور اسمیں ایسے ایسے انکشافات ہونگے کہ سنتا جا شرماتا جا۔ میر تقی میر اور میر درد سے زیادہ میر جعفر سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ ۔۔۔  اسلم بیگ صاحب کی سوانح میں یہ کرتب بارہا دیکھنے کو ملا۔ ہر وہ شخص جو دنیا سے جاچکا (یا لگ بھگ جانے والا ہی سمجھیں)۔ بیگ صاحب نے اسے ضرور کوئی مشورہ دیا اور اسنے اس پر عمل نہ کرکے گھاٹے کا سودا کیا۔ واہ واہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیانے بتاتے ہیں کہ بیگ صاحب نے ضیا کی جگہ لینے کیلئے زور تو بہت لگایا مگر انکا جادو چل نہ پایا۔ اور وہ آج تک اقتدار کے ان۔۔۔ ان چکھے انگوروں کو کھٹا گردانتے ہیں۔
بہرحال کتاب کیا ہے۔ آدھے سچوں کا یک طرفہ ملغوبہ اور خود نمائی کیساتھ محض جھوٹ اور خود ساختہ دعووں کا مجموعہ۔۔ اشاعت کے بعد میرا جو بھی تبصرہ تھا وہ مجھ تک ہی موقوف تھا لیکن اب اس کتاب پر پھٹتے آموں والے محمد حنیف نے کالم لکھ کر سارے تبصروں پر سیاہی پھیر دی۔ حضرت خود بھی پاک فضائیہ میں پائلٹ نہ سہی مگر پائلٹ آفیسر ضرور رہے۔ اور ضیا کے حادثے کے بعد استعفی دے کر اس وقت کونے کونے نکل لئے جب خاکسار فلائنگ آفیسر کا یونیفارم پہن رہا تھا۔
محمد حنیف کا یہ کالم یا کتاب پر تبصرہ ۔۔۔کاپی پیسٹ ہے۔ ابتدائیہ اسلئے لکھا تاکہ اس تحریر سے لطف اٹھایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل اسلم بیگ کی کتاب کا نام سن کر تھوڑی حیرت ہوئی۔ کتاب کا عنوان ہے ’اقتدار کی مجبوریاں‘۔ حیرت اس لے کہ اسلم بیگ کی وجہ شہرت تو ہے ہی یہی کہ وہ باوجود ایک سنہری موقع ملنے کے اقتدار میں نہیں آئے۔
بلکہ جس لمحے انھوں نے اپنے چیف جنرل ضیاالحق کو بہاولپور میں خدا حافظ کہا اور یہ کہہ کر جائے وقوعہ سے نکل لیے کہ میرے پاس تو اپنا جہاز ہے۔ وہ قوم کو مسلسل یہی بتاتے رہے ہیں کہ دیکھو میں مارشل لا لگا سکتا تھا لیکن میں نے نہیں لگایا۔ میں اقتدار سنبھال سکتا تھا لیکن نہیں سنبھالا۔

اگر یادداشت صحیح ساتھ دیتی ہے تو اقتدار نہ سنبھالنے پر انھیں اور ان کے ساتھ پوری افواج پاکستان کو بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت بھی دیا تھا۔

تب بھی کسی نے کہا تھا کہ بی بی پتا نہیں ان کو تمغہ لگا رہی ہے یا جُگت۔
لیکن کتاب کے شروع میں ہی اسلم بیگ نے وضاحت کر دی ہے کہ اقتدار کی مجبوریاں دراصل جنرل ضیا الحق کے الفاظ ہیں جو انھوں نے اس وقت کہے جب جنرل بیگ انھیں قائل کر رہے تھے کہ وہ مارشل لا اٹھا کر جمہوریت بحال کر دیں۔ جنرل ضیا نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا مجھے پھانسی لگواؤ گے، جنرل ضیا اسلم بیگ کی بات نہیں مانے اور وہ یہ سنہرے الفاظ کہہ کر چل دیے کہ میں تو اپنے جہاز میں جا رہا ہوں۔ جنرل ضیا کا انجام سب کے سامنے ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلم بیگ کی کتاب کا دو لائنوں میں خلاصہ کر دیں تو وہ یہی ہو گا کہ جس نے بھی جنرل اسلم بیگ کی بات نہیں مانی اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ اس میں بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، سپریم کورٹ کے کئی جج، اصغر خان، روس اور امریکہ بھی شامل ہیں اور جنرل مشرف بھی جنھوں نے ایک میٹنگ میں جب جنرل بیگ کا خطاب سُنا تو ایسی گھگھی بندھی کہ آج تک بندھی ہوئی ہے۔

کتاب ہے تو جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات لیکن یہ خودنوشت نہیں ہے۔ فوج کے مشہور مزاحیہ اور سنجیدہ ادیب کرنل اشفاق حسین نے لکھی ہے۔ بقول ان کے وہ جنرل بیگ سے پی ایم اے کاکول میں گزارے دنوں کی کچھ باتیں پوچھنے گئے تھے لیکن گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور یہ کتاب بن گئی۔
یہ وہی بات ہے کہ ایک سڑک پر کسی راہگیر سے منزل کا راستہ پوچھیں اور وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر ساتھ بیٹھ جائے اور کہے کہ چلیں آپ کو گھر ہی چھوڑ آتا ہوں۔

جنرل اسلم بیگ نے اقتدار نہ سنبھالنے کے بعد ہماری قوم کو سٹریٹیجک ڈیپتھ (جس کا اُردو ترجمہ تزویراتی گہرائی ہے اور یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ کسی زبان میں ترجمہ ہو کر سمجھ نہیں آتی) کا تحفہ دیا تھا۔
دفاعی تجزیہ نگاروں نے سمجھایا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انڈیا ہم پر حملہ آور ہو گا تو چونکہ افغانستان ہمارا بھائی ہے تو ہم ان کی سرزمین کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کریں گے۔ یعنی اپنا اسلحہ بارود جنگی جہاز افغانستان میں پہنچا دیں گے اور پھر وہاں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
اس کتاب میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آخر ان کا نظریہ سچ ثابت ہوا ہے اور جس طرح سے انھوں نے ثابت کیا ہے لگتا ہے کہ وہ صرف ہمارے عسکری اثاثوں کو نہیں پوری قوم کو دھکیل کر افغانستان پہنچا دیں گے۔
پھر پاکستان میں ان کے فور سٹار ساتھیوں کی کہکشاں گالف کھیلے گی اور پوری دنیا مانے گی کہ چرچل کے بعد کوئی بندہ آیا تھا تو بیگ تھا۔ جنرل اسلم بیگ میں چرچل کی خصوصیات کرنل اشفاق صاحب نے نہیں ڈھونڈیں، بیگ صاحب نے خود ہی بتائی ہیں۔

یہ کتاب اپنے منھ میاں مٹھو بننے اور خود ترحمی کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ایک صفحے پر وہ فرماتے ہیں کہ روس کی شکست و ریخت میں اس ناچیز کا بھی حصہ ہے۔ تھوڑا آگے چل کر شکایت کرتے ہیں کہ حکومت نے میری سیاسی سرگرمیوں سے گھبرا کر میرا سرکاری باورچی مجھ سے چھین لیا۔
اقتدار نہ سنبھالنے، الیکشن میں دھاندلی نہ کروانے کے بعد اپنی مرضی سے ریٹائر ہونے کے بعد جنرل بیگ نے ایک غیرسرکاری تنظیم بنائی تھی ’فرینڈز‘ کے نام سے لیکن جنرل مشرف اُن کی مقبولیت سے اتنا گھبرا گئے کہ اس کی فنڈنگ بند کروا دی اور سب دوست فرینڈز کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
آپ کو شاید نہ پتا ہو کہ اس کے بعد انھوں نے عوامی قیادت پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی بنائی جس کی بینظیر بھٹو کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ بھی ہو گئی تھی۔ (جنرل بیگ کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں سات نشستیں ملنی تھیں۔)

لیکن جیالے ہی نہیں مانے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد بنے لیکن جب وہ اجلاس میں اپنے نظریات بیان کرتے تو باقی سیاسی رہنما سیاست کی بات کرنے لگتے۔ ملک کے سیاستدانوں سے مایوس ہو کر انھوں نے اخبارات میں مضمون لکھنے شروع کیے، مشرف پھر گھبرا گیا تو وہ بھی بند کروا دیے۔

جنرل بیگ کو اپنی ذات، اپنے ملک، اپنے ادارے اور اپنی تزویراتی گہرائی سے زیادہ اگر کسی سے محبت ہے تو وہ افغان طالبان ہیں۔ وہ ان کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور دنیا میں مسلمانوں کے عروج کا نقطہ آغاز دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ان میں چرچل والی خصوصیات ہیں لیکن ان کا خواب ملا عمر بننا ہے۔ (اگر ملا عمر کو گالف کھیلنے کا اور اپنا جہاز رکھنے کا شوق ہوتا تو شاید وہ جنرل اسلم بیگ بننا چاہتے۔)

افغان طالبان سے اتنی عقیدت کے باوجود وہ پوری کتاب میں وہ ’افغانی‘ اور ’افغانیوں‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جسے افغان اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں لیکن شاید یہ چرچل جیسی خوبیوں والے ناچیز مسیحا کو اجازت ہے کہ وہ جیسی چاہے زبان استعمال کرے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل بیگ کی زندگی کا سب سے شاندار لمحہ وہ تھا (یا اللہ تیرا شکر تو نے مجھے اتنی عزت دی) جب رچرڈ آرمیٹاج ان سے ملنے ان کے گھر آئے۔ یہ وہی آرمیٹاج تھے جنھوں نے مشرف کو دھمکی دی تھی کہ پاکستان پر بمباری کر کے پتھر کے زمانے میں پہنچا دوں گا۔ (رچرڈ سے پہلے ایک اور مشہور آدمی بھی جنرل بیگ کے گھر آیا تھا وہ الطاف حسین تھے لیکن ان کے ٹیبل مینرز جنرل صاحب کی اہلیہ کو پسند نہیں آئے تھے جنرل بیگ نے اپنے سیاسی کریئر میں ایک دفعہ ایم کیو ایم کے عظیم طارق کے ساتھ مل کر بھی تنظیم بنانے کا سوچا لیکن عظیم طارق نے تھوڑا ٹرخا دیا۔ کیا ہوا انجام عظیم طارق کا۔)

بہرحال رچرڈ آرمٹیاج دست بستہ حاضر ہوئے کہ ہمارے طالبان سے مذاکرات شروع کروا دو۔ جنرل بیگ نے آئی ایس آئی والے مشہور کرنل امام کو گھر بلا کر رچرڈ بھائی سے ملوا دیا۔ لیکن کرنل امام کو اکیلے میں یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ بندہ بھی خطرناک ہے اور ہمارے سرحدی علاقوں میں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

لیکن کرنل امام چل پڑے مذاکرات کروانے اور کبھی واپس نہ آئے۔ مجھے شاید آپ کو پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ جس نے جنرل اسلم بیگ کی بات نہیں مانی اس کا انجام کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا۔

کرنل اشفاق جنٹلمین بسم اللہ، جنٹلمین الحمداللہ اور کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا انداز شگفتہ ہے اور وہ فوجی زندگی کے بارے میں اس اسلوب میں لکھتے ہیں کہ سویلین قاری بغیر ڈرے ہوئے کھل کر ہنس لیتا ہے۔ لیکن اقتدار کی مجبوریاں پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کرنل صاحب کو شاید اس کتاب کا نام جنٹلمین استغفراللہ رکھنا چاہیے تھا لیکن کتب کی پشت پر دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ اس نام سے پہلے ہی ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔

اگر کسی مجبوری کے تحت آپ کو اقتدار کی مجبوریاں پڑھنی پڑھ جائے تو میری طرح شاید آپ کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہو کہ اللہ وہ دن ہم سب پر لائے جب ہم اپنے باس کو کہہ سکیں اللہ حافظ، میں تو اپنے جہاز پر جا رہا ہوں۔


 

٭٭٭٭٭٭٭٭۔

پڑھیں :
٭۔ اقتدار کی مجبوریاں 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔