Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

فوج ، عوام اورجھرلو

جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ دونوں کے سسر اچھے دوست ہیں .جس وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کی بھی اچھی دوستی تھی ۔جب نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا تو اس وقت جنرل پاشا کے دستخط سے منظور شدہ عمران خان پروجیکٹ آخری مراحل میں تھا جسے پاک فوج مقدس ڈاکٹرائن سمجھ کر آگے بڑھا رہی تھی ۔

جنرل فیض کا نام اس وقت سامنے آیا جب 2017 کے لبیک  دھرنے کو ن لیگ کے خلاف استعمال کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔جنرل فیض اس وقت ڈی جی سی تھے معاہدے پر جنرل فیض کے دستخط میڈیا پر چلے تو ان تذکرہ شروع ہو گیا ۔ 

عمران خان کو لانچ کرنے کا آخری مرحلہ قریب تھا۔ جسٹس شوکت صدیقی سے جب جنرل فیض ان کے گھر جا کر ملے۔ اور انہیں حکم دیا کے پانامہ میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہونی چاہئیے جسٹس صدیقی نے جواب دیا کہ ابھی کیس چل رہا ہے اگر سزا بنتی ہے تو میں سناوں گا اگر نہیں بنتی تو میں نہیں سناوں گا ۔ جنرل فیض نے اس وقت جملہ بولا جو تاریخی ہے اور سب کو یاد ہے کہ،، ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی،، ۔

 جسٹس صدیقی کے خلاف ریفرنس بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار کے ذریعے انہیں ہٹا دیا گیا ۔ 

پانامہ میں نواز شریف اور اس کی بیٹی کو الیکشن سے پہلے جیل میں ڈال کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا فائنل راونڈ شروع ہوا۔ 

تین لاکھ فوجی جوانوں کے ذریعے بندوق کی نوک پر الیکشن نتائج تبدیل کیسے کئے گئے آرٹی ایس بند کیا گیا اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے ۔ 

جنرل فیض نے 2018کی الیکشن میں عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہر طرح کی دھاندلی تشدد۔دھمکیاں سپریم کورٹ کے ججوں سے لیکر عام سرکاری اہلکاروں تک طاقت کا استعمال کیا ۔

 جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو جنرل فیض عمران خان کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ لیکن 2019 میں جب عمران خان نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بلا کر ایک اہم سیاست دان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر نے معذرت کر لی کہ سر میں ملک کی سپائی ایجنسی کا چیف ہوں مجھے سیاست میں مت گھسیٹیں ۔ 

اس کے علاوہ دور اور اہم واقعات میں بھی جنرل عاصم منیر نے سیاسی معاملات میں عمران خان کا ساتھ دینے سے انکار کیا ۔ جب وزیر اعظم۔ ہاوس میں فرح گوگی جمیل گجر ،خاتون اول اور عثمان بزدار کی کرپشن۔ اربوں۔ تک پہنچ گئ تو آرمی چیف جنرل باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی کووزیر اعظم عمران خان کے پاس بھیجا کہ ان کو بتائیں کہ پنجاب میں اسی طرح چلتا رہا تو پنجاب حکومت گر جائے گی ۔ 

عمران خان کو یہ بات پسند نا آئی وہ پہلے ہی ان کا سیاسی ساتھ نہ دینے پر جنرلُ عاصم منیر سے سخت خائف تھے انہوں نے جنرل باجوہ۔ سے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہٹایا جائے میں اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی لگانا چاہتا ہوں۔

 جنرل باجوہ نے بہت سمجھایا کہ یہ پنجاب کی کرپشن رپورٹ پاک فوج کی قیادت کے مشورے سے آپ کے ساتھ شئیر کی گئ ہے لیکن عمران خان بضد رہے اور جنرل باجوہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا فیصلہ ماننا پڑا۔ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کو ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا اور۔ چند ہفتوں کے اندر ساری پی ڈی ایم قیادت کو جیل میں ڈال دیا ۔

 اس دوران فیض حمید نے سپریم کورٹ نیب ایف آئی اے اور پاکستان پولیس پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا۔ ۔

ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا اپوزیشن پر عرصہ دراز تنگ کر دیا گیا ملک کی ساری انتظامئ مشنری اور دولت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر صرف ہو گئی۔ملک کی معیشت بیٹھ گئی۔

 یہاں تک تو پاک فوج نے برداشت کر لیا لیکن ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل باجوہ کو رپورٹ دی کے جنرل فیض رات کے اندھیرے میں چھپ کر وزیر اعظم سے مل رہے ہیں۔جنرل باجوہ کے لئے یہ خطرے کی گھنٹی تھی 

۔ پاک فوج میں جب بھی کوئی کور کمانڈر یا لیفٹینٹ جنرل کسی سیاسی شخصیت سے ملتا ہے تو پک فوج کے سربراہ سے اجازت لینا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ جنرل باجوہ نے جنرل فیض سے جب ان ملاقاتوں کا پوچھا تو جنرل فیض نے معزرت کی اور آئندہ اجازت لیکر ملنا کا یقین دلایا لیکن یہ ملاقاتیں نا رک سکیں وزیر اعظم ہاوس کے علاوہ یہ ملاقاتیں خفیہ مقامات پر ہونے لگیں ۔۔ملٹری انٹیلی جنس جو کہ آرمی چیف کے انڈر ہیں ۔انہوں نے جنرل فیض کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ فروری 2021میں پاک فوج کے چھے مہینے کی لگاتار کور کمانڈرز کانفرنسز میں بحث کے بعد فیصلہ ہوا کہ ملک کے مفاد میں پاک فوج کا سیاست سے پیچھے ۂٹ جانا ہی ملک کے مفاد میں ہے ۔تمام آفیسرز کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ ہم نیوٹرل ہو رہے ہیں کوئ ئی بھی اعلیٰ افیسر کسی بھی سیاسی جماعت کا ساتھ نہیں دے گا۔ لیکن جنرل فیض حمید اور عمران خان کچھ اور ہی پلان بنا رہے تھے ملٹری انٹیلی جنس نے سربراہ پاک فوج کو فائل پیش کی کہ جنرل فیض حمید ایک مغربی ملک کی کمپنی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری پر معاہدہ کر رہے ہیں ۔اسی ہفتے الیکٹرانک ووٹنگ پر بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ جسے پاس کروانے میں جنرل فیض کی اتحادی جماعتوں سے رابطے کا کال ریکارڈ ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل باجوہ کو پیش کر دیا ۔ سب سے بڑا جھٹکا جنرل باجوہ کو اس وقت لگا جب ملٹری انٹیلیجنس نے رپورٹ دی کی جنرل فیض اور عمران خان نے پلان بنایا ہے کہ جنرل باجوہ کو ہٹا کر جنرل فیض کو آرمی چیف بنایا جائے اور اگلے 15 سال کے لئے عمران خان صدربن جائیں اور اسی طرح ایکسٹینشن کے ذریعے جنرل فیض 15 سال تک آرمی چیف رہیں گے ۔

کور کمانڈر کانفرنس میں جنرل فیض حمید کی سیاسی سرگرمیاں پیش کی گئے۔ جنرل باجوہ نےجنرل فیض کو ہٹا کر جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کا فیصلہ کیا جس کی شدید مزاحمت کی گئی ۔

جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی -عمران خان نے جنرل ندیم انجم کی ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا - بالآخر فیض حمید کے سسر اور جنرل باجوہ کے سسر کی دوستی کی وجہ سے جنرل فیض کی جان بخشی ہوئ اور جنرل فیض کے کہنے پر عمران خان نے جنرل ندیم انجم کی تعیناتی پر دستخط کر دیئے - 

جنرل فیض پشاور کور کمانڈر بن گئے وہاں جا کر بھی انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اور آرمی چیف بننے کا خواب دیکھتے رہے -

ملٹری انٹیلی جنس کی خوفناک رپورٹ پر جنرل فیض کو پشاور سے ہٹا کر بہاولپور تعینات کر دیا -

 جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے پر جنرل فیض حمید نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا -اور نئے آرمی چیف کی کمان سنبھالنے کے ایک دن پہلے استعفی دے دیا -

 پاکستان کی تاریخ کے ایک متنازع اور آرمی چیف بننے کے خواب دیکھنے والے جنرل کاسیاہ باب بند ہوگیا ہے -

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔