یزید پر شب و ستم
اور امام غزالی نے یزید پر شب و ستم کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ مسلمان تھے اور یہ ثابت نہیں کہ وہ قتل حسین پر راضی تھے - رہا ان پر رحمتہ الله علیہ کہنا سو یہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے اور ہم ان پر رحمت کی دعا اپنی نمازوں میں تمام مومنین و مسلمین کے بشمول مانگا کرتے ہیں.(البدایه و النہایه صفحہ 173 جلد 12 )
رَبَّنَا اغفِر لى وَلِوٰلِدَىَّ وَلِلمُؤمِنينَ يَومَ يَقومُ الحِسابُ ﴿إبراهيم:
41﴾
کتاب فضل یزید .پانچویں اور چھٹی ہجری صدی کا وہ زمانہ ہے جب بنی امیہ اور خاص کر یزید کے مخالفانہ پروپیگنڈہ نے شدت اختیار کی اور طرح طرح کے بہتان تراشے گیے تو کچھ صالحین امت نے حقیقت انکشاف کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ عبد المغیث نے امیر یزید کی حسن سیرت پر ایک کتاب تصنیف کی (البدایه و النہایه جلد 12 صفحہ 338 )
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیفہ بیان کیا ہے کہ جب کتاب فضل یزید کی شہرت ہوئی تو خلیفہ وقت الناصر الدین عباسی نے شیخ صاحب کو بلایا اور امیر یزید کے بارے میں سوال کیا کہ یزید پر لعن کیا جاۓ یا نہیں انہوں نے جواب دیا کہ لعن کرنا ہر گز جائز نہیں اور اگر اس کا دروازہ کھول دیا جاۓ تو لوگ ہمارے موجودہ خلیفہ پر بھی لعن کرنے لگ جائیں گے خلیفہ نے پوچھا وہ کیسے تو شیخ نے کہا کہ وہ بہت سی منکرات پر عمل پیرا ہیں اور اس بعد انہوں نے خلیفہ کے برے اعمال گنوانے شروع کر دیے خلیفہ نے گفتگو ترک کر دی اور ان کے پاس سے چلے گۓ.لیکن اس کلام کا اثر ان کے دل پر ہوا اور انہوں نے کبھی لعن نہیں کیا (جلد 12 صفحہ 238 البدایه )
امیر المومنین الناصر الدین الله عباسی متوفی ہجری 622 جن کا ذکر اس روایت میں ہے ان کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ خلفاۓ اسلام میں ان کی مدت خلافت سب سے زیادہ تھی یعنی 49 برس بذات خود بلند پایہ عالم تھے ، علما و فضلا کے قدر دان تھے علم حدیث سے شغف تھا اور فن حدیث پر ان کی کتاب روح المارفین نامی مشہور ہے ہجری 589 میں دار العلوم نظامیہ بغداد میں دار الکتب کثیر سرمائے سے تعمیر کروایا اور دس ہراز کتابیں اپنے یہاں سے منتقل کیں (مرا تھ الزماں جلد 8 صفحہ 421)
شیطان:
دوستو میری اس تاریخی ریسرچ کا موضوع عقائد کی بحث نہیں ہے بلکہ بعض تاریخی حقیقتوں کا انکشاف ہے جو عام مسلمانوں کو تلخ اور ناگوار جتنے بھی معلوم ہوں ، خلاف قانون یا خلاف تھذیب نہیں کہے جا سکتے اور نہ ان کا مقصد محترم شخصیتوں پر حملہ کرنا ہے . ہم سمجھتے ہیں کہ ان تاریخی حقیقتوں کی زد جیسی شیعہ تاریخوں پر پڑتی ہے ویسی ہی سنی عالموں کے لکھے ہوے شہادت ناموں پر بھی پڑتی ہے اور بلا شبہ ان افسانوی اور وضعی حکایتوں پر زد پڑنی لازم بھی تھی جو واقعات کی اصل صورت مسخ کرنے کی غرض سے محض سیاسی مقاصد سے وضح کی گئیں .اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنی جمود اور توہم کا سبب بن گئی.
مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے شاید اسی عجمی ذہنیت کے لئے فرمایا .
تمدن ،تصوف شریعت کلام . بتاں عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایت میں کھو گئی
دوستو میری اس تاریخی ریسرچ کا موضوع عقائد کی بحث نہیں ہے بلکہ بعض تاریخی حقیقتوں کا انکشاف ہے جو عام مسلمانوں کو تلخ اور ناگوار جتنے بھی معلوم ہوں ، خلاف قانون یا خلاف تھذیب نہیں کہے جا سکتے اور نہ ان کا مقصد محترم شخصیتوں پر حملہ کرنا ہے . ہم سمجھتے ہیں کہ ان تاریخی حقیقتوں کی زد جیسی شیعہ تاریخوں پر پڑتی ہے ویسی ہی سنی عالموں کے لکھے ہوے شہادت ناموں پر بھی پڑتی ہے اور بلا شبہ ان افسانوی اور وضعی حکایتوں پر زد پڑنی لازم بھی تھی جو واقعات کی اصل صورت مسخ کرنے کی غرض سے محض سیاسی مقاصد سے وضح کی گئیں .اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنی جمود اور توہم کا سبب بن گئی.
مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے شاید اسی عجمی ذہنیت کے لئے فرمایا .
تمدن ،تصوف شریعت کلام . بتاں عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایت میں کھو گئی
مجاہد اعظم: کے شیعہ مولف تو حادثہ کربلا کے من گھڑت قصوں کے بارے میں واضح طور پر خود ہی کہتے ہیں کہ
ہم تسلیم کرتے ہیں بعض واقعات جو نہایت مشہور اور سینکڑوں برسوں سے سنیوں او شیعوں میں نسل بہ نسل منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں سرے سے بے بنیاد اور بے اصل ہیں ہم مانتے ہیں تمام علماء ، بڑے بڑے مفسرین ، محدثین مورخین اور مصنفین ان کو یکے بہ دیگرے بلا سوچے سمجھے نقل کرتے چلے آئے ہیں اور ان کی صحت اور غیر صحت کو میعار اوراصول پر نہیں جانچا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام تو عوام خواص بھی اس سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے گویا ان کا انکار بد یہات کا انکار ہے.( مجاہد اعظم صفحہ 163 )
شیطان:
ان شیعہ مولف نے تو کربلا کے پانچ دس نہیں بلکہ 35 مشہور قصوں پر شد و مد سے جرح کرتے ہوے ان کو سرے سے غلط اور بے بنیاد قرار دیا اور بعض کو من گھڑت اور مبالغہ آمیز قرار دے کر صاف صاف کہا کہ ذاکروں نے لوگوں کو رلانے اور عزہ داری کی خاطر بے سروپا قصے مشہور کر رکھے ہیں.
حجه السلام امام غزالی:
اپنی کتاب العواسم میں بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے امیر یزید کا ذکر الزہد میں صحابہ کے بعد اور تابعین سے پہلے کیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام احمد کے نزدیک امیر یزید کی عظیم منزلت تھی یھاں تک کہ ان کو ان نیک اور زہد تابعین کے زمرہ میں شامل کیا ہے کہ جن کے اقوال کی پیروی کی جاتی اور ان کے خطابوں سے ہدایت حاصل کی جاتی اور وہاں انہوں نے تابعین کے تذکرے سے پہلے اور صحابہ اکرام کے بعد ان کا ذکر نیک لوگوں میں کیا ہے پس کہاں ہیں ان کے سامنے شراب نوشی اور فسق و فجور کے الزامات جس کا ذکر مورخین کرتے ہیں کیا ان لوگوں کو اس پر شرم نہیں آتی. (العواسم صفحہ 233 )
حجتہ السلام امام غزالی نے شافی فقیہ عماد الدین ابو الحسن الکہراسی متوفی ہجری 503 کے ایک سوال کے جواب میں امیر یزید کو ایک صیح العقیدہ مسلمان ہونے اور ایک مومن کی حیثیت سے ان پر رحمتہ الله علیہ کہنے کو جائز بلکہ مستحب قرار دیا ہے. وہ فرماتے ہیں کہ .
اور یزید صحیح العقیدہ مسلمان تھے اور یہ صحیح نہیں کہ انہوں نے حسین کو قتل کرایا یا اس کا حکم دیا یا اس پر راضی ہوے جب کہ یہ قتل ان سے (یزید) سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا تو ان کے ساتھ ایسی بد گمانی رکھنا حرام ہے اور الله پاک کا ارشاد ہے کہ بد گمانی سے بچتے رہو اس لئے کہ بعض بد گمانیاں سخت گناه ہیں اور نبی پاک نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا مال اس کی جان اور اس کی آبرو ریزی اور اس کے ساتھ بد گمانی کرنے کو الله نے حرام ٹھہرایا ہے ، جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تو جاننا چاہئے کہ وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے .جو لوگ بھی اکابر اور وزراه اور سلاطین میں سے
اپنے زمانے میں قتل ہوے اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ ان کے قتل کا حکم کس نے دیا کون اس پر راضی تھا اور کس نے اس کو نا پسند کیا تو وہ شخص اس پر ہر گز قادر نہیں ہو گا کہ اس کی گہرائی تک پہنچ سکے،اگرچہ یہ قتل اسکے پڑوس میں اسکے زمانے میں اور اسکی موجودگی میں ہی کیوں نہ ہوا ہو،
مزید فرماتے ہیں تو پھر اس واقه کی حقیقت تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے جو دور کے شہر اور قدیم زمانہ میں گزرا ہے اور کیسے اس واقعہ کی صیح حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس میں چار سو برس سے زیادہ کی طویل مدت گزر چکی ہو اور امر واقعہ یہ بھی ہو کہ اس بارے میں تعصب کی راہ اختیار کی گئی ہو جس کی وجہ سے مختلف فرقوں کی طرف سے اس کے بارے میں بکثرت روایتیں مروی کی ہوں پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کی صیح حقیقت کا ہر گز پتہ نہیں چل سکتا اور جب حقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہئے اور ان پر (یزید) پر رحمتہ الله علیہ کہنا جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ تو ہماری ہر نماز میں اس قول کہ الله مومن مرد اور عورتوں پر رحم فرما میں داخل ہیں کیونکہ وہ مومن تھے.( دفیات بن خلکان .جلد ١ صفحہ 465 . مطبوعہ مصر)
ہم تسلیم کرتے ہیں بعض واقعات جو نہایت مشہور اور سینکڑوں برسوں سے سنیوں او شیعوں میں نسل بہ نسل منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں سرے سے بے بنیاد اور بے اصل ہیں ہم مانتے ہیں تمام علماء ، بڑے بڑے مفسرین ، محدثین مورخین اور مصنفین ان کو یکے بہ دیگرے بلا سوچے سمجھے نقل کرتے چلے آئے ہیں اور ان کی صحت اور غیر صحت کو میعار اوراصول پر نہیں جانچا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام تو عوام خواص بھی اس سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے گویا ان کا انکار بد یہات کا انکار ہے.( مجاہد اعظم صفحہ 163 )
شیطان:
ان شیعہ مولف نے تو کربلا کے پانچ دس نہیں بلکہ 35 مشہور قصوں پر شد و مد سے جرح کرتے ہوے ان کو سرے سے غلط اور بے بنیاد قرار دیا اور بعض کو من گھڑت اور مبالغہ آمیز قرار دے کر صاف صاف کہا کہ ذاکروں نے لوگوں کو رلانے اور عزہ داری کی خاطر بے سروپا قصے مشہور کر رکھے ہیں.
حجه السلام امام غزالی:
اپنی کتاب العواسم میں بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے امیر یزید کا ذکر الزہد میں صحابہ کے بعد اور تابعین سے پہلے کیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام احمد کے نزدیک امیر یزید کی عظیم منزلت تھی یھاں تک کہ ان کو ان نیک اور زہد تابعین کے زمرہ میں شامل کیا ہے کہ جن کے اقوال کی پیروی کی جاتی اور ان کے خطابوں سے ہدایت حاصل کی جاتی اور وہاں انہوں نے تابعین کے تذکرے سے پہلے اور صحابہ اکرام کے بعد ان کا ذکر نیک لوگوں میں کیا ہے پس کہاں ہیں ان کے سامنے شراب نوشی اور فسق و فجور کے الزامات جس کا ذکر مورخین کرتے ہیں کیا ان لوگوں کو اس پر شرم نہیں آتی. (العواسم صفحہ 233 )
حجتہ السلام امام غزالی نے شافی فقیہ عماد الدین ابو الحسن الکہراسی متوفی ہجری 503 کے ایک سوال کے جواب میں امیر یزید کو ایک صیح العقیدہ مسلمان ہونے اور ایک مومن کی حیثیت سے ان پر رحمتہ الله علیہ کہنے کو جائز بلکہ مستحب قرار دیا ہے. وہ فرماتے ہیں کہ .
اور یزید صحیح العقیدہ مسلمان تھے اور یہ صحیح نہیں کہ انہوں نے حسین کو قتل کرایا یا اس کا حکم دیا یا اس پر راضی ہوے جب کہ یہ قتل ان سے (یزید) سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا تو ان کے ساتھ ایسی بد گمانی رکھنا حرام ہے اور الله پاک کا ارشاد ہے کہ بد گمانی سے بچتے رہو اس لئے کہ بعض بد گمانیاں سخت گناه ہیں اور نبی پاک نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا مال اس کی جان اور اس کی آبرو ریزی اور اس کے ساتھ بد گمانی کرنے کو الله نے حرام ٹھہرایا ہے ، جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تو جاننا چاہئے کہ وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے .جو لوگ بھی اکابر اور وزراه اور سلاطین میں سے
اپنے زمانے میں قتل ہوے اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ ان کے قتل کا حکم کس نے دیا کون اس پر راضی تھا اور کس نے اس کو نا پسند کیا تو وہ شخص اس پر ہر گز قادر نہیں ہو گا کہ اس کی گہرائی تک پہنچ سکے،اگرچہ یہ قتل اسکے پڑوس میں اسکے زمانے میں اور اسکی موجودگی میں ہی کیوں نہ ہوا ہو،
مزید فرماتے ہیں تو پھر اس واقه کی حقیقت تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے جو دور کے شہر اور قدیم زمانہ میں گزرا ہے اور کیسے اس واقعہ کی صیح حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس میں چار سو برس سے زیادہ کی طویل مدت گزر چکی ہو اور امر واقعہ یہ بھی ہو کہ اس بارے میں تعصب کی راہ اختیار کی گئی ہو جس کی وجہ سے مختلف فرقوں کی طرف سے اس کے بارے میں بکثرت روایتیں مروی کی ہوں پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کی صیح حقیقت کا ہر گز پتہ نہیں چل سکتا اور جب حقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہئے اور ان پر (یزید) پر رحمتہ الله علیہ کہنا جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ تو ہماری ہر نماز میں اس قول کہ الله مومن مرد اور عورتوں پر رحم فرما میں داخل ہیں کیونکہ وہ مومن تھے.( دفیات بن خلکان .جلد ١ صفحہ 465 . مطبوعہ مصر)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں