Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی کا اعزاز





میں وردی نہیں پہنتی، لیکن میں فوج میں ہوں، کیوں کہ میں اس کی بیوی ہوں 
میں اس عہدے پر ہوں جو دکھائی نہیں دیتا، میرے کندھوں پر کوئی رینک نہیں 

میں سلیوٹ نہیں کرتی، لیکن فوج کی دنیا میں میرا مسکن ہے 
میں احکام کی زنجیر میں نہیں،لیکن میرا شوہر اس کی اہم کڑی ہے 

 میں فوجی احکام کا حصہ ہوں، کیوں کہ میرا شوہر ان کا پابند ہے 
میرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں، لیکن میری دعائیں میرا سہارا ہیں 

میری زندگی اتنی ہی جانگسل ہے، کیوں کہ میں پیچھے رہتی ہوں 
میرا شوہر، جذبہ حریت سے بھرپور، بہادر اور قابل فخر، انسان ہے 

تپتے صحرا ہوں، ریگستان ہوں، برفیلے میدان یا کھاری سمندر 
ملک کی خدمت کے لئے اس کا بلاوہ، کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا

میرا شوہر، قربانی دیتا ہے اپنی جان کی، میں اور میرے بچے بھی 
میں سرحدوں سے دور، امیدوں کے ہمراہ، اپنے پر آشوب مستقبل کی 

میں محبت کرتی ہوں اپنے شوہر سے، جس کی زندگی سپاہیانہ ہے 
لیکن میں، فوج کے عہدوں میں نمایا ں ہوں، کیوں کہ میں فوجی کی بیوی ہوں 



جمعہ، 20 دسمبر، 2013

میں سو نہ سکی





وہ  بچی تھی
چھوٹی سی پیاری سی
میری نواسی عالی جیسی

اپنے باپ کی گود میں سہمی سی
نرم و نازک کونپل کی طرح لرزاں 

وہ کھیل رہی تھی ہنس رہی تھی 
اپنی دادی کی گود میں چند لمحے پہلے 

اپنی ماں کو شرارت سے چڑاتی ہوئی 
دادی کی گود میں چُوری شوق سے کھاتی ہوئی 

اب وہ خاموش ہے انے باپ کو گود میں 
سر سے بہتا خون، جسم سے رستا خون 

کپڑوں کو بھگوتا، ایڑیوں کو بھگوتا ٹپ ٹپ گرتا 
غزہ کی سڑک پر لمبی سی  اک لکیر  

سرخ رنگ کے قطروإ کی دور معدوم ہوتی جاتی ہے 
وہ ننھی معصوم سی پیاری بچی 

قطر قطرہ خالی ہوتی ہے 
انکھیں بند ہوتی ہیں 

میری آنکھیں بھی دھندلی ہوتی ہیں 
قطرہ قطرہ وہاں خون ہے یہاں آنسو ہیں 

وہ ننھی پیار ی معصوم بچی سو گئی 
ہسپتال پہنچنے سے پہلے اک ابدی نیند میں 

وہ ننھی پیاری معصوم سی بچی 
میری نواسی عالی جیسی

میں سو نہ سکی، انسانوں کے ظلم پر 
جو وہ کرتے ہیں اپنے بچوں کے امن کی خاطر 


جمعرات، 12 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی -5


وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  

میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
پانچ جنوری کو دوپہر ڈھائی بجے، میرپورخاص سے حیدرآباد جانے والی ٹرین پر ہمارا پروگرام تھا۔ اب چونکہ ایک دن پہلے ہی تیاری شروع کی امی کے گھر سے جاکر میں اپنے کپڑے لائی تو امی نے کہا کہ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جانا، لہذا دس بجے آجانا۔ جب  چلنے لگے تو میں نے اپنا سوٹ کیس نکالا انہوں نے پوچھا اس میں کیا  ہے میں نے بتایا میرے کپڑے ہیں۔ یہ ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا۔ کوئٹہ کی ہوا ابھی نہیں چلی تھی لہذا کم سردی تھی اور امید تھی کہ ہمارے کراچی ہوتے چل پڑے گی تو میں گرم کپڑے بھی رکھے۔ انہوں نے کہا سوٹ کیس کھولو۔ میں نے سوٹ کیس کھولا۔ انہوں نے میرا ایک سوئیٹر نکالا اور تین جوڑے اور کہا یہ کافی ہیں۔ میں پریشان کہ شادی کے بعد پہلی دفعہ کراچی جارہی ہوں اور صرف تین جوڑے؟
میں نے پوچھا،”بس، صرف یہی؟“
کہنے لگے، "ہم ہفتے بعد واپس آجائیں گے لہذا  اتنا سامان کون  اٹھائے گا۔ ؟ "
اب کیا کرتی، تین سوٹ ایک سوئیٹر ان کے بیگ میں ٹھونسا، جس میں ان کی ایک سوئیٹر اور دو کرتے اور پاجامے ایک پینٹ پر پہنے والی قمیض اور بس۔
 
ان کے امی، ابو، دونوں بہنوں سے مل کر نکلے دونوں چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ایک نے بیگ اٹھایا اور امی کے گھر پہنچے۔ دونوں بھابیاں ان کے پیچھے کہ یہ کیا سامان ہے کراچی میں ڈھیر سارے رشتہ دار ہیں سب کے گھر نئی دلہن ایک ہی جوڑاپہن کر جائے گی۔ امی کے گھر بھی میرے کپڑے پڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوٹ کیس اٹھا سکتی ہے تو بے شک دو سوٹ کیس دے دیں میں تو نہیں اٹھاؤں گا۔  چھوٹی بھابی پریشان، امی نے سمجھایا۔ کہ نعیم ٹھیک تو کہہ رہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہفتے کے لئے مہینے بھر کے کپڑے لے جانے کی؟ کھانا کھایا۔ گھر سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر بیس منٹ کا تھا  اور اگر والکرٹ کی طرف سے جائیں تو  دس بارہ منٹ لگتے۔ ان کا پروگرام تھا  دوبجے نکل کر آرام سے پہنچ جائیں گے۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے سے فارغ  ہوئے کہ دورازے پر گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اباجان نے تانگے والے کوکہا تھا وہ آگیا یہ حیران کہ اتنی جلدی جاکرکیا کریں گے۔ خیر بڑی مشکل سے یہ تیار ہوئے۔ابا جان بضد کہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر آئیں گے، یہ کہیں کہ خالو، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے اباجان راضی ہوئے ِ ان کے دونوں بھائی کہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ انہوں نے منع کر دیا،بلکہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی، میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ بھائی سے کہہ کر مجھے بھی کراچی ساتھ لے چلو۔ بہرحال ہم تانگے میں بیٹھے۔ ہمارے گھر سے آدھا میل دور پانی کی ٹینک کے پاس سے ِ میرواہ، ڈگری اور جیمس آباد جانے والی سڑک گذرتی۔ تانگہ جب وہاں پہنچاتو ایک خوبصورت سے بس اقبال کمپنی کی آکر رکی اور آوازآئی حیدر آباد کراچی،  حیدر آباد کراچی،  انہوں نے تانگے والے کو کہا روکو۔ہم بس سے جائیں گے۔ تانگے والے نے پوچھا آپ سٹیشن نہیں جائیں گے۔ انہوں کہا نہیں آپ واپس جائیں تو وہ کہنے لگا کہ باقی پیسے میں آپ کو دوں یا شیخ صاحب کو؟ انہوں نے کہا ان کو دے دینا۔  ہم دونوں بس میں سوار ہو گئے۔  بس آدھی بھری ہوئی تھی۔
انہوں نے مجھے عورتوں والی سیٹ پر بٹھایا اور خود مجھ سے دو سیٹ پیچھے کسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ  پیچھے دو افراد کی سیٹ خالی تھی ہم دونوں وہاں بیٹھ جاتے۔ اب سارے راستے میں چپ بیٹھ کرڈھائی گھنٹے کا سفر کروں۔ ٹنڈو الہ یار میں آدھی بس خالی ہو گئی یہ جہاں بیٹھے تھے انہوں نے مجھے وہاں بلا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے دو جاننے والے بس میں بیٹھے تھے ایک تو ان کے کلاس فیلو تھے اور دوسرے ان کے ابا کے دوست۔ لہذا شرم کی وجہ سے یہ میرے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یار میں بسیں تقریباً بیس منٹ رکتی ہیں۔ جو پرانے سفر کرنے والے ہیں وہ  حیدرآباد جانے کے لئے ٹنڈو الہ یار تک کا ٹکٹ لیتے اور سٹاپ پر اتر کر سب سے اگلی بس میں بیٹھ جاتے اس طرح آدھے گھنٹے کی بچت ہو جاتی۔ ہماری بس سب سے آگے آئی۔ تو عورتوں کی سیٹ پر عورتیں آکر بیٹھ گئیں۔ جو نہی بس چلنے کے لئے آگے بڑھی  تو ان کے استاد  الطاف صاحب اور ان کی بیگم بس میں سوار ہوئیں۔ انہوں نے میرے ساتھ، ان کی بیگم کو بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوگئے۔ ان کے استاد کو ایک سیٹ مل گئی۔  مجھے پریشانی، بس کا بونٹ جو اندر ہوتا ہے وہ خالی مگر یہ اس پر نہ بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یارسے ٹنڈو جام موڑ تک انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ حیدرآبادشہر میں داخل ہوئے تو ان کو سیٹ مل گئی۔ بس ریلوے سٹیشن کے پاس رکی۔ہم دونوں اترے اور وہاں سے رکشامیں بیٹھ کر ، حیدرآباد کینٹ میں ان کے ابو کے فیملی فرینڈ کے بیٹے مظہر حسین جو ایم۔ ای۔ ایس میں ایس۔ڈی۔ او،  تھے وہاں پہنچے۔ مظہربھائی آفس گئے تھے ان کی بیگم پروین باجی گھر پر تھیں بہت خوش ہوئیں۔ یہ توکھانا کھا کر سو گئے تو پروین باجی مجھے لے محلے میں اپنی تین سہیلیوں کے گھر لے کر گئیں۔ مظہر بھائی اور پروین باجی آپس میں کزن تھے اور راولپنڈی میں ٹنچ بھاٹہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، ہماری شادی پر، پروین باجی، ان کے چھوٹے دیور اور جیٹھ  اپنی بیٹی کے ساتھ آئے تھے۔پانچ بجے،مظہر بھائی بھی آگئے۔

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ آج آفیسر میں تمبولا ہے۔ انہوں نے فوراً پروگرام بنا لیا۔مظہر بھائی نے معذرت کر لی۔ مغرب کے بعد ہم دونوں گھر  آفیسر میس پہنچے۔ تھوڑے لوگ آئے تھے۔ انہوں نے آفیسرز میس دکھایا۔ میس میں داخل ہونے کے بعد  الٹے ہاتھ پر قائد اعظم کی تصویر تھی اس کے نیچے ایک میز پر ایک بڑا سا رجسٹر پڑا تھا جس کے غالباً پہلے صفحے پر وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کے ہری سیاہی سے دستخط تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس میس کا افتتاح کیا تھا اور ہری رنگ کی ایک لکیر نیچے تک کھینچی ہوئی تھی۔تاکہ وزیر اعظم کے بعد کوئی اور دستخط نہ کرے اور دوسرے صفحے پرسیکنڈ لیفٹنٹ فاروق احمد کے دستخط تھے جس نے وزیر اعظم کی تقلید میں اپنے دستخط کر کے نیچے ایک نیلی لکیر کھینچ دی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ِ مؤرخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن سنا ہے کہ بریگیڈ کمانڈر نے سیکنڈ لیفٹننٹ کو بلوایا اور خوب جھاڑا۔

میس گھوم کر باہر نکلے اور لان میں جاکر بیٹھ گئے۔ نعیم دو کارڈ لے آئے لیڈیز اوربچوں کے لئے کارڈ مفت تھا  اور مردوں   کے لئے کارڈ کی قیمت ایک روپیہ۔ مجھے سمجھانے لگے کہ تمبولا کیسے کھیلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کھیل شروع ہوا میں کنفیوز ہو گئی اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا سیدھی طرح نمبر نہیں بول سکتے۔ نعیم، مجھے نمبر بتاتے میرا کوئی نمبر نہیں کٹ رہا تھا۔ آفیسرز اور ان کے بچے نعرے لگا رہے تھے کہ یہ نمبر نکالو۔ کھلانے والے نے اعلان کیا کہ جس کا کوئی نمبر نہیں کٹا ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ میں شرمندگی سے کھڑی نہ ہوں کہ باقی لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ بدقسمت لوگ کھڑے ہوجائیں۔ تو مجھ سمیت کوئی بارہ  افراد کھڑے ہو گئے جن میں تین عورتیں بھی تھیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اگلا نمبر بولا گیا۔ پانچ افراد بیٹھ گئے۔ پھر نمبر بولا تو دو افراد بیٹھ گئے۔اب دو عورتیں اور تین افراد کھڑے تھے۔پھر نمبر بولا گیا۔ ایک خاتون بیٹھ گئیں۔ کسی نے نعرہ لگایا ”نعیم میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہیں“، یہ نعیم کے کورس میٹ  کیپٹن جاوید تھے۔ اگلے دو نمبر کے  بعد صرف میں کھڑی تھی۔ میجر ابرار جو تمبولا کھلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا،”لیڈیز اینڈ جنٹلمین، آج کے پہلے ہاؤس کی پہلی بدقسمت خاتون“۔
کیپٹن جاوید نے دوبارہ نعرہ لگایا، ”نیولی ویڈ“۔
جس پر میجر ابرار نے کہا، ”کہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ تشریف لائیں“ ہم دونوں ساتھ گئے، انہوں نے، تمبولے کا تحفہ اور ”آج کے مہمان“ کا ایک تحفہ دیا۔

 سب نے تالیاں بجائیں۔  اپنی نشست پر آکر تحفہ کھولا۔ ایک بڑا مگ تھا اور دوسرا خوبصورت سا گلدان۔
تمبولا، ایک کھیل ہے جو انگریزوں نے مہینے میں ایک دفعہ اپنے گھروں سے دور فوج کی ملازمت میں رہنے والوں اور سول سروسز کے آفیسروں کے لئے ایک اچھی شام گذارنے کے لئے ایجاد کیا۔ سب اپنے اپنے کارڈ خریدتے ہر کارڈ پر خانوں کی تین لائین ہوتیں ہیں۔ اور ہر لائین میں پانچ نمبر لکھے ہوتے۔ پہلی لائین، دوسری لائین، تیسری لائین۔ کل پندرہ نمبر۔ کھلانے والے کے تھیلے میں پیتل کی ڈسک پر لکھے ہوئے کل 90نمبر ہوتے۔ کھیل میں دلچپسی کے لئے مختلف انعام رکھے جاتی ہیں ہیں۔
جن میں ”خوش قسمت“  جس کے پہلے کوئی سے پانچ نمبر کٹ جائیں۔
 ”بد قسمت“ جس کا کوئی نمبر نہ کٹے۔
  ”ٹاپ لائین“ جس کی پہلی لائین کے تمام پانچ نمبر کٹ جائیں۔
اسی طرح ”سنٹر  اور باٹم لائن“
پھر ”اہرام“  پہلی لائین کا ایک نمبر، دوسری لائن کے دو نمبر اور تیسری لائین کے تین نمبر۔ اسی طرح ”الٹا اہرام“۔
  پھر ”چار کونے اور بُل“  یعنی پہلی لائین اور تیسری  لائین کے کونے کے  نمبر اور درمیانی لائین کا بیچ کا نمبر۔
  پھر فل ہاؤس  یعنی جس کے سب سے پہلے تمام پندرہ نمبر کٹ جائیں۔
پھر  ”سنو بال“  اس میں پہلے تیس نمبر میں جس کے کارڈ کے تمام نمبر کٹ جائیں یہ اس شام کا آخری کھیل ہوتا ہے ۔
 ہاں اس گیم میں ہر ہاؤس  میں  خریدے گئے ٹکٹوں کی آدھی رقم مختلف انعاموں کے لئے اور آدھی رقم ”سنو بال“ کے لئے رکھ لی جاتی۔ نمبر پکارا جاتا اور کھیلنے والے اپنے کارڈ سے نمبر کاٹتے رہتے۔ کھلانے والا  اپنے سامنے رکھے ہوئے بورڈ پر نکلا ہوا نمبر اس کے اپنے خانے میں رکھتا جاتا  اور ہر نمبر کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع، جگہ یا مشہو ر فوجی یونٹ کانام یا اعزاز منسوب ہوتا۔ مثلا۔ نمبر 21نکلتا تو  ”رائل سلیوٹ“  ٹو اینڈ ون،  ٹوئینٹی ون کہا جاتا ہے۔ 88 کو ”ٹو فیٹ لیڈیز“ ایٹ اینڈ ایٹ، ایٹی ایٹ کہا جاتا۔ کھیلنے والوں  کے نمبر کٹتے جاتے۔ شور مچاتا جاتا۔ جو کھیلتے وہ تو نعرے لگاتے اور نہ کھیلنے والے بھی، فوج کے خشک ماحول کی ماہانہ گھٹن نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیتے۔ جس کے نمبرپہلے کٹ جاتے
جس کا  انعام نکلتا تو ایک ساتھ بیٹھاہوا گروپ  آفیسر میس یا کلب کا لان سر پر اٹھا لیتا۔
تمبولا، فوجی آفیسروں کا مقبول کھیل تھا۔  جہاں دس آفیسرز میس میں جمع ہوئے۔ وہاں تمبولا،لازمی ہوتا، جس طرح ہر کھیل، جواریوں کے ہاتھ تباہ ہوتا ہے اسی طرح تمبولا کے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی فلیٹ کلب میں پاکستان کا سب سے بڑا تمبولا کھیلا جاتا۔ ہزاروں لوگ کھیلتے۔”سنو بال ہاؤس“ بیس ہزار تک کا شاید کھیلا جاتا۔ 1977کے بعد، تمبولے کو جواء قرار دے کر اسے ”قابل دست اندازیء پولیس“ قرار دے دیا۔  جنانچہ فوج میں بھی کچھ عرصہ تمبولا بند رہا ۔ پھر خیال آیا کہ اس طرح تو گذارا نہیں ہوگا۔ فوج کا ماحول اور گھٹن زدہ ہو گیا۔ اب صرف آفیسرز، کسی کی پوسٹنگ پر دیئے گئے کھانوں پر اپنی بیگمات کے ساتھ جمع ہوتے۔ بچوں کا آپس میں میل جول، سکول یا پڑوس میں رہ گیا۔ چنانچہ،”بنگو“ کے نام سے  اسلامی کھیل متعارف کرایا گیا۔ سارا جسم وہی تھا صرف نام کا برقع پہنا کر رقم کے بجائے گفٹ انعام میں ملنے لگے۔
جن میں، ”چھوٹے  انعام“  مگ، گلدان، فریم شدہ سینری  یا پینٹنگ  اور بڑا نعام، ہاؤس میں جمع رقم کے مطابق، کٹلری سیٹ، کافی سیٹ یا ٹی سیٹ پر مشتمل ہوتا، ہاں شور مچانے اور نعرے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن  1977 سے 1980تک
زمانہ کافی آگے آچکا تھا۔ 
پہلے ہاؤس کے بعد ہمارا گروپ بھی بن گیا۔ دو نعیم کے کورس میٹ، کیپٹن  بٹ،  کپٹن جاوید، جو  اپنی بیوی اور خوبصورت سے گول مٹول ایک سالہ بیٹے  جہانزیب کے ساتھ۔ ایک کیپٹن سعید جو سی ایم ایچ میں کوارٹرماسٹر تھے اور ان سے ڈیڑھ سال سینئر تھے یعنی 51لانگ کورس کے اور پی ایم اے میں اورنگ زیب کمپنی کے تھے۔جس میں نعیم ”پہلی ٹرم“ میں تھے۔ بعد میں کیپٹن سعید فارن سروسزز  کے لئے سلیکٹ ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ آئے تھے۔ ہماری ٹیبل پر آگئے۔ کیوں کہ سب سے جونئیر ہم لوگ تھے۔باقی سینئر آفیسرز تھے۔ ان کے یونٹ کے میجر ”طارق“ جو کشمیر میں ان کے ساتھ تھے اور حیدرآباد کے رہنے والے تھے اپنی بیوی اور تین۔ چھوٹی بیٹیوں۔ ماریہ۔(دس سال)۔ کنزہ (آٹھ سال) اور جویریہ (پانچ سال) یہ  پہلے ہاؤس  کے بعد آئے تھے۔

 پہلا ہاؤس کھیلنے کے بعد میں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے تھے۔ میرا کارڈ نعیم ہی کاٹتے رہے۔ تینوں بچیوں کے آنے سے میں ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ماریہ اور کنزہ بہت تیز تھیں اورذہین بھی۔ کوئی نمبر پکارا جاتا، تو میں انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی دوسرا نمبر بتاتی لیکن مجال ہے کہ ان کی توجہ میں کوئی فرق آیا ہو۔ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد سب، کارڈ مجھے دے دیتے۔ میں سب کو میز پر بچھا کر جویریہ کے ساتھ، جو نمبر پکارا جاتا میں کاٹتی رہتی۔ کوئی نہ کوئی کارڈ پورا کٹ جا تا۔ جویریہ کی خوشی قابل دید ہوتی۔
  جویریہ زور سے پکارتی ”یس“۔
جس کا مطلب ہوتا کہ ہمارا کارڈ کٹ گیا ہے۔ جس پر لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے۔ تھوڑی دیر تک جب ہماری ٹیبل سے کوئی نہ کھڑا ہوتا تو، ”بوگی، بوگی“ کا شور  مچتا لیکن جویریہ اپنی ”ماما“کو کارڈ دکھاتی ”مسز طارق“ اپنے بیگ سے دو ٹافیاں نکالتیں اور جویریہ کو دیتیں۔ جویریہ ایک مجھے دیتی اور ایک خود کھاتی۔ تیسرے ہاؤس کے بعد  کیپٹن جاوید کی مسز کپٹن سعید کی مسز اور ان کی بہن بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہیں بھی نمبر سمجھ نہیں آتے جس کی وجہ سے وہ بور ہونے لگیں۔ اب وہ میرے ساتھ گپیں لگانا چاہیں اور جویریہ شور مچائے۔ کہ میں اس کے ساتھ ”بنگو“ کھیلوں۔ سب مردوں نے ”ویٹرز“ کو آرڈر دے کر ”چپس، پکوڑے، تکے اور کولڈ ڈرنکس منگوائیں۔ نعیم کو میجر طارق نے منع کر دیا۔ جوتھے ہاؤس کے دوران ویٹر کھانے کا سامان لے آیا ِ ہم تینوں کے علاوہ، باقی چھ افراد انہماک  سے ”بنگو“ کھیلنے اور کھانے میں 
مصروف تھے اور میں دیگر خواتین کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ،جویریہ کے ساتھ، اس کے کارڈ کٹوا رہی تھی۔

پانچواں ہاؤس ”سنو بال“ تھا۔ اسے کے لئے کوئی کارڈ فری نہیں تھا۔ قیمت وہی ایک روپیہ۔ اس وقت تک کھیل اپنے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے اور باقی تینوں خواتین نے بھی کھیلنے کا پروگرام بنایا کیوں کہ انعام میں چھ افراد کاکٹلری سیٹ تھا۔ ایک شیٹ  پر چھ کوپن ہوتے ہیں جس میں پورے 90نمبر ہوتے ہیں۔ سب نے ایک ایک شیٹ خریدی،اورتو اور دونوں بچیوں نے دو دو کوپن کی ضد کی۔ نعیم تو دو کارڈ لائے،
کیپٹن  جاوید نے چوٹ کی، ”یار کنجوسی مت دکھاخود نہیں تو بھابھی کے لئے ایک شیٹ  لے لے“۔
”نعیم نے کہا کہ یہ آج کاا نعام لے چکی ہیں اور میرا انعام آج تک نہیں نکلا تو خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کی کیا -ضرورت؟۔ خوشی کے لئے کھیلو جوئے کیلئے نہیں“۔
میجر طارق فوراً چمک کر بولے، ”فتویٰ مت دے۔ امیر المؤمنین نے جائز کر دیا ہے“۔

باقی اب پھر خواتین اپنے اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ جویریہ کو بھی معلوم تھا کہ اس ہاؤس میں تنگ نہیں کرنا اس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا، لیکن وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔


سنو بال شروع ہوا اور25 نمبروں  کے بعد میرا صرف ایک نمبر 54رہ گیا تھا۔جو نعیم کا پی ایم اے کا کورس تھا۔ سب کی توجہ ہم پرہوگئی۔ جویریہ دعائیں مانگنے لگی۔ میری بھی عجیب حالت۔ ہر نمبر نکلنے سے پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
 آخری نمبر سے پہلے میجر ابرار نے پوچھاAny body sweating ?,
    پورے گروپ نے نعرہ لگایا ”یس“۔  
میجر ابرار نے نمبر نکالا اور بولے، " Guess which Number"
شور مچا، 54۔
 لیکن نمبر تھا 11۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ  پڑھتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لکھتے ہوئے۔ میں اس وقت، حیدرآبا د آفیسرز میس کے لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ، یک دم خاموشی چھا گئی ہے ۔ ٹھنڈی سڑک سے گذرنے والے رکشے کی ٹرٹراہٹ ، خاموشی میں جل تھل پیدا کرتی ہے اور پھر خاموشی اور ان سب پر حاوی میری  ”سانس“ ہے  جو اس وقت نکلی تھی۔ سب نے ہمدردی کی، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا میں واقعی، ”بد قسمت“ ہوں۔ میں نے نعیم سے،رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ بولے، ”بے وقوف، یہ ایک کھیل ہے انعام نکل گیا تو بہتر ورنہ کھیل کو تو انجوئے کیا۔ اچھا چلو کھڑی ہوجاؤ“۔ کیوں میں نے پوچھا۔  میجر ابرار نے اعلان کیا ہے کہ جن کا آخری نمبر رہ گیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔

مجھ سمیت تین افراد کھڑے ہو گئے۔  صرف میرا 54 نمبر تھا ان دونوں کے 44،  میجر ابرار نے پھر کہا کہ جن کے دو نمبر رہتے ہوں وہ کھڑے ہوں۔ پانچ افراد  اور کھڑے ہو گئے۔  54اور  26 کے تین،  44 اور 26 کے دو ۔ گویا تین نمبر میجر ابرار نے پوچھا کیا 93نمبر تک”سنو بال“ بڑھا دیں۔  سب نے  ہاں، ہاں کا شور مچایا۔ میجر ابرار نے تھیلے کو ہلا کر نمبر نکالا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہے کسی کا بھی نمبر نہیں نکلا۔  اب انعام تو دینا تھا۔ کٹلری سیٹ کے بجائے۔ ٹی سیٹ کا اعلان ہوا۔ اب ہاؤس باقی سات نمبروں میں نکلنا تھا۔  چھٹا نمبر پکارا گیا۔ 54 ۔ہمارے گروپ  نے بلند آواز میں نعرہ مارا ”گریٹ“ اور یوں  ٹی سیٹ کی حقدار میں ٹہری۔  اس کے بعد،  ٹوکن کے پیچھے نام لکھ کر  ”لکی ڈرا“ کے لئے ڈالنے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بکس تھے۔ ہمارے گروپ نے تمام کوپن کے پیچھے  جویریہ کا نام لکھ کر جویریہ سے بکس میں ڈلوادیا۔  لیڈیز کا انعام،  جویریہ کا نکلا۔  اور اس طرح میری زندگی کہ پہلی شام میرے لئے یادگار بن گئی۔ 





٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 پچھلا مضمون ۔ ۔فوجی کی بیوی - 4  ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔ فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت
 
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

ہونہار بِروا - 1




بدھ، 11 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی - 4




                سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے  پڑ رہے تھے۔  کوئی منہ دکھائی میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت سو رہے تھے۔  بھائی مل گئے کا نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو سوئے ہوئے تھے۔  ان دونوں کو اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔ 

                دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔  اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں ان کے ساتھ دوبارہ  اپنے سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا تھا۔  میں نے کہا اپنے بھائی سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“  مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔

                 انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی، محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے چھوٹے  بھائی کی بیوی، بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی)  اور دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ  چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا اور  بانو کانواب شاہ، چنانچہ اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری  مجھ پر آگئی۔  بانو کو چونکہ اسی مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔

 اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔ 

                ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے  ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔  اب یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا  میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔ میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔ پڑھا  ایک بے ضرر سا خط تھا اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے دیا،  بانو نے پڑھ کر حمیدہ کو دیا اور حمیدہ  اور فردوس دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں، لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے گئے۔  گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی میں شرکت کے لئے اپنی  دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو زیادہ  تر آپا اور ان کے تھے سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے رہیں اور دونوں  ہفتے وہ اپنی بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑھ جاتے۔ 

                غالباً یہ  1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی۔یہ  پانچ سال کے تھے،  آپا سات سال کی، امین  چار سال اور سعیدہ ایک سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ  سکوں گا۔ انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟  گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی  اور  اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی)  یہ چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی نے  نالی کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا  تھڑا بنایا۔ یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔  اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “  

                گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ  چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں واقع  محلے کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا،  جب نعیم کی پیدائش ہوئی تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں، ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے انہیں پالا،  ان کے والد کی پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ لوگ  یہاں آگئے تو یہ گلزار خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔

                دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔ اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ  خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں لکھی جاتی۔ 
                16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی ھے۔ میں بھی خوش  اب میری ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔ 
                22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا، میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔ نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔  اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔  
                وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 پچھلا مضمون ۔ ۔فوجی کی بیوی - 3  ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔  فوجی کی بیوی - 5
 
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭


منگل، 10 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی - 3

                
ارے بیٹے ذرا جلدی سے پانی پلا“ انہوں نے گڈو  سے کہا،
گڈو پانی لینے دوڑا۔
آپا میں نے نعیم کو آپ کا جواب بتا کر ابھی کراچی کے لئے نکلنا ہے“ 
امی نے پوچھا ُ ”بہن کیا فون آیا ہے؟ ّ“ 
نعیم کی امی بولیں، ”جی، آپانعیم نے پنڈی سے فون کیا ہے، وہ کہہ رہا ہے میں کل گھر چھٹی آرہا ہوں۔ آپ سے پوچھ کر بتائیں کہ پانچ یا سات نومبر کو شادی رکھ دیں
 اس سے پہلے کہ امی بولتیں، بڑی بھابی بولیں، ”خالہ ایسے تھوڑا شادی کی تاریخ لیتے ہیں اسے آنے دیں، ہم مشورہ کر کے بتا دیں گے
ہاں تو خالہ اور کیا؟ ایسی کیا مجبوری ہے“  چھوٹی بھابی نے لقمہ دیا۔
 ”خالدہ مجبوری ہے وہ کہہ رہا ہے کہ بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے اگرآپ لوگ نہیں مانتے تو وہ واپس چلا جائے گا
منجھلی بھابی بولیں،”خالہ تو وہ دوبارہ آجائے گا، دونوں بھائی باہرہیں، لقمان اور ابا کیسے انتظامات سنبھالیں گے، آپ اسے کہیں کہ بعد میں چھٹی لے کر آجائے“۔
                 میں کمرے میں بیٹھی سب سن رہی تھی اور مجھے غصہ بھی آرہا تھا، کہ کہاں تو موصوف شادی لٹکارہے تھے اوراب ہمیں وقت نہیں دے رہے، آج سے پانچ یا سات دن بعد بارات لے کر آنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
                کہ ان کی امی نے بم پھاڑا،”نعیم کہہ رہا ہے کہ اگر لڑکی والے نہیں مانتے تو بے شک پھر اُس کی طرف سے منگنی ختم کر دیں۔ آپا یہ سن کر تو میرے ہول اُٹھ رہے ہیں اور اس کے ابا بھی پریشان ہیں۔میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ میں تو اِس لڑکے سے تنگ ہوں،آپ فیصلہ کریں“۔
                امی معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے بولیں،”ٹھیک ہے بہن، اس کو کہیں آجائے، ان دونوں میں سے کوئی تاریخ رکھ لیں گے
 ”بہت بہت شکریہ۔ بس اب اس کا فون آئے گا میں اسے بتا کر نکل جاؤں گی، گل کہاں ہے َ
                یہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں آئیں میری بلائیں لیں اوربرقعہ سنبھالتے ہوئے اپنے گھر چلی گئی۔ لیکن اب ہم سب کو ہول اٹھنے شروع ہو گئے۔ نہ کوئی انتظام نہ لوگوں کو بلاوہ اور دونوں بھائی بھی باہر۔ بھابیاں پریشان اور ہم حیران۔
                امی نے سب کی ہمت یہ کہہ کر بڑھائی،”کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو جائیں گے۔تاریخ پانچ کے بجائے سات رکھ لیں گے۔ اس طرح دو دن اور مل جائیں گے، فوجاں میں ایسے ہی چھٹی ملے“۔  ہماری امی اور ابو حیدرآباد دکن میں ہبلی شہر کے ہیں۔
سب نے اپنے اپنے ذمے مختلف کام بانٹ لئے دوسرے دن یکم نومبر تھی اور دو نومبر کو بقر عید تھی، عید کے انتظام کے ساتھ شادی کے انتظامات بھی شروع ہو گئے۔
                لفٹین صاحب،دوپہر تک جہاز سے کراچی پہنچ گئے۔  ارے  ہاں میں یہ بتانا بھول گئی کہ 19اکتوبر کو یہ کپتان صاحب ہو گئے تھے۔ کپتان صاحب،  پر یاد آیا۔ کہ جب ان کے کپتان بننے کا معلوم ہوا تو مجھے اپنے کالج میں این سی سی کی ٹریننگ کرانے کے لئے آنے والے کپتان صاحب یاد آگئے۔ جن کے جسم کو اگر آدھا کیا جاتا تو دو کپتان بنتے۔ میرے خیال میں لفٹین اس وقت کپتان بنتا ہے جب تک اس کی توند نہ نکلے،  ویسے سیانیاں کہتی تھیں کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر گذرتا ہے۔ اسی لئے میں نے کھانوں میں مہارت حاصل کر لی تھی۔حیدرآبادی کھانے، بمبئی  کے کھانے اور دلّی کے کھانوں کے علاوہ چینی کھانوں میں، سوپ بنانا آگیا تھا۔ لیکن میں سوچتی کہ اگر لنگر کے کھانے (بارڈر پر آبزرور کو لنگر کا کھاناملتا ہے) نے ان کو گول مٹول بنا دیا تو پھر، میرے کھانوں کی گنجائش تو ختم ہو جائے گی۔ 
                یکم نومبر کی رات ہم سونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کراچی سے آنے والی ریل کار مہران کی کوک سنائی دی۔ چھوٹے بھائی، نعیم کی امی کے ساتھ کراچی چلے گئے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے تمام رشتہ داروں کے ہاں جا کر شادی کی دعوت دینی تھی۔ اور آج واپس آنا تھا۔ ان دنوں نہ موبائل ہوتا تھا اور ٹیلیفون تو کم گھروں میں ہوتا تھا۔ لوگ ٹیلی پیتھی سے ہی کام چلاتے تھے۔ چھوٹی بھابی کو یقین تھا کہ چھوٹے بھائی شائد آدھے گھنٹے بعد آجائیں تو انہیں اٹھ کر کھانا دینا ہو گا۔ کیوں کہ کل عیدہونی تھی ۔ لہذا ان کا سونے کا پروگرام لیٹ تھا۔ مہران کی کوک سن کر منجھلی بھابی بولیں کی اُن کی دائیں آنکھ پھڑک رہی ہے شاید گڈو کے آبا آجائیں، بڑی بھابی نے کہا ابھی چھوٹی عید پر تو ہو کر گئے ہیں اتنی جلدی کیسے آئیں گے؟ آپ آنکھوں میں عرق گلاب ڈالیں آنکھیں دکھنے کو آئیں گی۔ سواگیارہ بجے گھنٹی بجی اور چھوٹے بھائی جان کی آواز آئی۔ بھابی نے مجھے کہا دروازہ کھو لو میں کھانا گرم کرتی ہوں۔ دونوں بھابیاں بھی اس امید پر اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ کہ شائد اُن کے شوہر بھی آئے ہوں۔مگر صرف چھوٹے بھائی اندر آئے انہوں نے دروازہ بند کیا اور صحن میں آکر سب کو سلام کیا اور واش روم میں چلے گئے۔ بھابیاں جواب دے کر ناامید ہو کر لیٹ گئیں۔ میں بھی لیٹ گئی اچانک میں نے دو سایوں کو کمرے سے نکل کر دبے پاؤں بڑھتے دیکھا۔ میرے منہ سے ایک خوفناک چینخ نکلی، سب گھبرا کر اٹھ گئے، اچانک صحن کی لائٹ جلی، تو سامنے بڑے بھائی جان اور منجھلے بھائی جان ہنس رہے تھے۔
                گھر میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ ہم سب کی خوشی ؤؤعالم مت پوچھیں،معلوم ہوا کہ مسقط میں ان کی کمپنی کے مالک کے ہاں بیٹا ہوا تھا تو اُس نے سب کو تین تنخواہوں کے برابر بونس دیا۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے 30تاریخ کو دس بجے پاکستان آنے کا پروگرام بنایا اور یکم کودو بجے کی فلائیٹ سے کراچی پہنچ گئے۔چھوٹے بھائی کو یہ دونوں کراچی میں مہران پر ملے تھے، چھوٹے بھائی بھی ان کو اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن ہمیں شک کہ اچانک یہ سارے اتفاقات کیسے ہو گئے، کہ نعیم کا اچانک شادی کا کہنا اور بھائیوں کا آجانا۔ کہیں ملی بھگت تو نہیں؟ لیکن یہ ملی بھگت نہیں تھی، امی کے ایمان کی وجہ سے کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو جائیں گے اور سب کام خود بخود ہو گئے۔  
                عید کا پہلا دن تو قربانی کے ہنگامے میں گذرا شام کو نعیم کے ابو اور امی۔چھوٹی دونوں بیٹیوں کے ساتھ ہمارے گھر باقائد ہ شادی کی تاریخ لینے آئے جو پروگرام کے مطابق 7نومبر قرار پائی۔ہمارے چھوٹے بھائی کا پروگرام تھا کہ چار تاریخ کو گانے شروع ہو جائیں، نعیم سے کہہ کر حیدرآباد سے فوجی بینڈ بلوائیں گے۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر تھا کوئی تین سو گز کا فاصلہ ہو گا۔لہذا بارات پورے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں گھوم کر ہمارے گھر آئے گی  وغیرہ  وغیرہ ۔
                 نو بجے رات یہ بھائیوں اور ابا سے ملنے آئے۔ان کے جانے کے بعد معلوم ہو ا کہ کپتان صاحب نے سخت قسم کے مارشل لاء کا اعلان کر دیا ہے۔ شادی بالکل سادگی سے ہوگی۔ کسی قسم کا گانا بجانا نہیں ہو گا۔ ٹھیک پانچ بجے نکاح ہو گا۔ مغرب کے بعد کھانا اور بارات کی واپسی۔ تمام رسموں، کا خاتمہ کوئی مذاق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹے بھائی جان کو سخت غصہ آئے کہ یہ کوئی شادی ہے۔ مگر بڑے بھائی نے سمجھایا کہ نعیم کی بات بالکل صحیح ہے کہ اُن کے امی اور ابو، درسوں میں ہندوانہ رسومات سے پرہیز اور سادگی کا درس دیتے ہیں
لہذاہمیں نعیم کی بات ماننی پڑے گی۔ چنانچہ نعیم صاحب کی بات مانی گئی۔


                میری سہیلیوں نے ایک کمرے میں ڈھولک بجا کر اپنے ارمان پورے کئے۔شادی کے دن گھر کے
 باہر چھوٹے بھائی کودوستوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا کہ مہمان گھر آکر یہ سمجھ کر واپس نہ جائیں کہ شادی ملتوی ہو گئی ہے۔کیوں کہ میرپورخاص مہمانوں کو صرف محلہ بتانا پڑتا ہے۔ کان پھاڑتے لاوڈ سپیکر باقی راستہ خود بتاتے ہیں۔ بارات میں صرف ان کے گھر کے لوگ تھے۔ کیوں کہ ان کے دوست میرے تینوں بھائیوں کے بھی دوست تھے۔وہ سیدھے ہمارے گھر آگئے۔بارات پونے پانچ پہنچ گئی  7نومبر کو ٹھیک جب گھڑی نے پانچ بجائے، قاضی شوکت مرحوم نے نکاح شروع کیا۔ نکاح کے بعد آرسی مصحف اور دودھ پلائی ہوئی پھر یہ نماز کے لئے مسجد چلے گئے کھانا ہوا اور تقریبا ً  آٹھ بجے رخصتی کا شور مچا، ہمیں اٹھایا گیا کپڑوں کی سلوٹیں بہن اور بھابیوں نے دور کیں، سسرال سے آیا ہوا برقعہ پہنایا گیا، جونہی کمرے سے نکلے، اچانک احساس ہوا کہ، بس اب بابل کا گھر چھوٹا اور اس کے ساتھ ہی آنسو چھاجوں برسنے لگے، کہاں خوشی اب تو رونے کا سماں ہو گیا، ہم تو ہر شادی پر یہ سمجھتے تھے کہ رخصتی کے وقت رفیع کی آواز میں جو گانا لگایا جاتا ہے،
بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے،
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں ایسا پیار ملے
               دلہنیں یقیناً یہ گاناوہ سن کر روتی ہیں، لیکن ہمارے آنسو تو گانے کی غیر موجودگی میں نکل رہے تھے، ابا جان، بڑے بھائی،  منجھلے بھائی اور چھوٹے بھائی سب رو رہے تھے، اور یہاں تک کہ ہمارے دولہا بھائی بھی اپنی آنکھیں رومال سے صاف کر رہے تھے، کمرے سے دروازے تک کا سفرروتے اور بہن بھائیوں سے گلے ملتے ہوئے جاری رہا، چھوٹی بھابی ہمارے سر پر سبز غلاف میں لپٹے ہوئے قرآن کا سایہ کر رہی تھیں، گھر کے گیٹ کے بعد حقدار بدل گئے، ان کی چھوٹی بھابی بانو اور دونوں بہنوں نے، سنبھال لیا، ہماری سسکیاں جاری تھیں کہ بانو بولی، ”بھابی زیادہ نہ روئیں میک اپ خراب ہوجائے گا“  یہ سننا تھا کہ ہماری ہنسی چھوٹنے والی تھی کہ بڑی مشکل سے روکی، ہمیں کار میں بٹھایا گیا،یہ،  ان کی امی، چھوٹے بھائی کی بیوی بانو لے کر واپس روانہ ہوئی۔ باقی سب باراتی پیدل اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے  یہ بھی پیدل جانے پر بضد تھے لیکن بڑے بھائی جان نے زبردستی انہیں کار میں بٹھایا۔ یوں ہم بابل کے گھر سے پیا گھر سدھارے۔



٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 پچھلا مضمون ۔ ۔فوجی کی بیوی - 2  ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔  فوجی کی بیوی - 4
 
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭


پیر، 9 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی - 2


        غالباً 10جولائی تھی اِن کا خط اپنی بہن سعیدہ کے نام آیا۔ وہ خط لے کر ہمارے گھر آئی اور بتایا کہ بھائی کا خط آیا ہے۔ میں گھبرا گئی کہ نہ معلوم میرے بارے میں کیا لکھا ہو میری چھوٹی بہن فردوس، خط پڑھنے پرمُصراور میں منع کروں کہ دوسروں کا خط نہیں پڑھتے۔ بہرحال سعیدہ کے کہنے پر اُس نے اونچی آواز میں خط پڑھنا شروع کیا۔ جو ریل کے سفر سے شروع ہو کر کرم ایجنسی میں پارا چنار میں ختم ہوا اور راستے میں یہ جن رشتہ داروں سے ملے اُن کی تفصیل، سب سے مزیدار اِن کا کوہاٹ سے ٹل تک کا سفر تھا۔ چار گھنٹوں کا یہ سفر انہوں نے ناک پر رومال رکھ کر سفر کیا کیوں کہ پوری بس میں نسوار اور تھوک کی بو میں سانس دوبھر تھا۔ مجھے بڑا ترس آیا۔ آخر میں ایک جملہ،”محلے والوں کو سلام“  پر مجھے بہت غصہ آیا کہ میرے متعلق ایک بات بھی نہیں لکھی  اور "اپنے محلے والوں" کے لئے سلام بھجوا دیا ہے۔  

       کالج میں میری دوسری پوزیشن آئی، میں تھرڈ ایر سے فورتھ ایر میں اپنی سہیلوں کے ساتھ چلی گئی۔ فردوس نے چپکے سے اپنی طرف سے خط لکھ کر سعیدہ کو دیا اُس نے وہ اِن کو بھجوا دیا۔ جواب میں، فردوس کے نام خط آیا، اُس میں ایک روپے کے نوٹ پر اپنے دستخط کے ساتھ لکھا،”اعلی کامیابی پر“  اور خط کے آخر میں پھر وہی  جملہ،”محلے والوں کو سلام“  تب عقدہ کھلا کہ،”محلے والے“  ہمارے لئے استعارہ ہے۔ اِن کے خط آتے رہے نومبر 77کی بات ہے ہم لوگ دس بجے دھوپ سینکنے کے لئے سامنے والے صحن میں بیٹھے تھے  میں کسی کام کے لئے اُٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، چھوٹی بھابی گئیں اور پوچھا کون ہے؟ جواب میں پوچھا،”لقمان صاحب ہیں“ بھابی نے دوبارہ پوچھا آپ کون؟ آواز آئی، ”عبدا لغنی“۔ بھابی حیران کہ اس نام کا تو بھائی کا کوئی دوست نہیں اور پھر بھائی گھر پر نہیں تھے۔ بتا دیا کہ وہ نہیں ہیں۔ بھابی نے واپس ہونے والے کو دیکھا، اِن کا انداز نظر آیا مجھے بلایا دیکھو یہ کون ہے میں نے دروازے کے سوراخ سے جھانک کر دیکھا۔ یہ سامنے سڑک پر کھڑے کسی سے بات کر رہے تھے۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹی اور اندر دوڑ گئی۔

        فردوس باہر نکلی انہیں بلایا مگر یہ چلے گئے، معلوم ہوا کہ مہینے کی چھٹی لے کر آئے ہیں ۔ امی کو معلوم ہوا تو نارض ہوئیں کہ اندر کیوں نہیں بلایا۔ شام کو بھائی آئے تو منجھلے بھائی کے بیٹے گڈّوکو بھیج کر بلوایا، یہ گھرپر نہیں تھے مغرب کے بعد اپنے ہمزاد، آزاد بھائی کے ساتھ آئے۔امی نے کھانے کا پوچھا تو معلوم ہوا کھانا کھا کر آئے ہیں، حال احوال پوچھا اور چائے بھجوائی۔ تھوڑی دیر میں ناہید اور اس کی بہن آگئی۔ اُن کا پروگرام اِن سے مذاق کرنے کا تھا۔اِن کے لئے چائے اہتمام سے بنائی گئی۔ ناہید نے گڈّو کو بتایا کہ یہ کپ اِن کے سامنے رکھنا اور ہنسنا بالکل نہیں۔ گڈّو چائے رکھ کر پلٹا، ناہید، اس کی بہن اور فردوس سٹول رکھ کر دروازے کے اوپر بنے روشندان سے جھانکنے لگیں۔چائے اُن کے سامنے رکھی یہ پیالی نہیں اُٹھا رہے، یہاں سسپنس بڑھتا جارہا تھا۔بھائی نے اصرار کیا بھئی چائے پیو انہوں نے کہا پہلے پانی پیوں گا۔بھائی پانی لینے اُٹھے۔آزاد بھائی نے اُٹھ کر سامنے بڑی میز سے اخبار جہاں اُٹھایا اور واپس بیٹھ گئے۔ چائے کی پیالیاں ویسے ہی پڑی تھیں۔ بھائی نے پانی دیا انہوں نے پانی پیا۔آزاد بھائی نے چائے کی چسکی لی اور پیالی واپس رکھتے ہوئے میز پر گر گئی۔آزاد بھائی نے، بھائی سے معذرت کی اور اِن سے کچھ کہا، انہوں نے اپنی چائے دینے کی کوشش کی۔ شکر ہے آزاد بھائی نے انکار کر دیا۔انہوں نے پیالی اُٹھا کر چسکی لی تھوڑا سا منہ بنایا، بات بات کی خبر اوپر سے ہماری طرف آرہی تھی۔امی، باورچی خانے میں تھیں اور ہم سب منہ میں دوپٹے ٹھونسے ہنس رہے تھے اور یہ منہ بنا بنا کر چائے پیتے جا رہے تھے، تھوڑی دیر بعد ہم حیران ہوئے پھر ہمارے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ کہ چار چاول کے چمچے نمک ملی چائے پینے کے بعد انسان کی کیا حالت ہو گی، بہر حال وہ چائے انہوں نے پی لی اور جاتے ہوئے کہا،”لقمان بھائی چائے بڑی مزیدار تھی“۔ ہم سب پریشان اب کیا ہوگا۔ مجھے غصہ بھی آرہا تھا کہ مذاق تھا ساری چائے پینے کی کیا ضرورت تھی، عجب ڈھیٹ آدمی ہے اگر کچھ ہو گیا تو پھر۔  دوسرے دن معلوم ہوا کہ اِن کی طبیعت خراب ہو گئی اور یہ اپنی امی کے ساتھ حیدآباد سی ایم ایچ گئے ہیں۔ مجھے خود پر غصہ آیا کہ منگیتر تو میرے تھے میں نے کیوں مذاق کرنے دیا اور ندیدوں کی طرح ساری چائے پینے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا گھر میں چائے نہیں ملتی۔ 

         امی سے ہمیں بہت جھاڑ پڑی ناہید کو بھی باتیں سنی پڑیں اور سب نے وعدہ کیا کہ آئیند ہ کوئی ایسا مذاق نہیں کریں گے۔ہمیں افسوس کہ شاید سسرالی چائے کا بھرم رکھنے میں یہ مجنوں سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ آزاد بھائی سے گرنے والی چائے دراصل نمکین چائے تھی جو سیکنڈ کے وقفے میں آزاد بھائی کے روشندان کی سامنے سے ہو کر اخبار جہاں اُٹھانے کے وقت تبدیل کردی۔ یہ پہلے سے تیار ہو کر آئے تھے کہ مذاق ہو نہ ہو پیالیاں کسی طرح تبدیل کرنی ہیں اور کسی بھی چیز کو پہلے آزاد چکھے گا اور بعد میں یہ، چنانچہ آزاد بھائی نے چائے  پی کر بتا دیا کہ نمک ڈالا ہے یہ ویسے ہی منہ بنا بنا کر پیتے رہے۔ پہلے ہم اپنی کامیابی پر خوش ہوئے اور بعد میں اِن کی حالت کا اندازہ کر کے پریشان اور باقی کسر، سعیدہ نے فردوس کو یہ کہہ کر پوری کر دی کہ بھائی کی طبیعت خراب تھی،امی کے ساتھ حیدآباد سی ایم ایچ گئے ہیں۔ بعد میں سعیدہ نے بتایا کہ بھائی کو اِس قسم کا مذاق پسند نہیں،جس میں نقصان پہنچے۔بہرحال مذاق سے ہم نے جزوی  توبہ کی لیکن کہتے ہیں کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں وہ سالیاں ہی کیا جو دلہابھائی کو زچ نہ کریں۔ لیکن ہونے والی دلہن کی آشیرباد کے بعد۔اُن کی پلاننگ کے بعد ہماری اپروول کے بعد کاروائی ہوتی۔لیکن انہوں نے اپنے بھائی اور آزاد بھائی کے ساتھ مل کر ایک دفعہ لوہاری مذاق کیا۔ یعنی سو سنار کی اور ایک لوہار کی۔

      انہیں آئے ہوئے کوئی بیس بائیس دن ہو گئے تھے،ہر تیسرے چوتھے دن مغرب کے بعد آزاد کے ساتھ ہمارے ہاں چائے پینے آتے۔کہانیاں اور مختلف واقعات سنانے میں انہیں مہارت حاصل تھی، کیوں کہ ہر قسم کے ڈائجسٹ، ناول، تاریخی کہانیا ں اور عمران سیریز پڑھتے، چنانچہ گڈو اور فردوس فرمائش کر کے قصے سنتے، جن میں اِن کے دونوں چھوٹے بھائی اور بہنیں بھی شامل ہو جاتیں۔کبھی کسوٹی بھی کھیلا جاتا، ہم لوگ دروازے کے دوسری طرف روشندان سے آنے والی آوازیں سنتے رہتے، بعد میں فردوس اور گڈو تفصیل بتاتے۔

       میرپور خاص میں توہم پرستی بہت زیادہ ہے، چنانچہ وہاں جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کا بھی راج ہے اب معلوم نہیں کہ وہی حال ہے یا لوگ تعلیم کی وجہ سے بہادر ہو گئے ہیں۔ہمارے گھر کے سامنے بڑی سڑک ہے اور پچھلی طرف چھوٹی گلی ہے جس میں لوگوں نے اپنی بھینسیں باندھی ہوتی ہیں، یہ گلی آٹھ بجے کے بعد سنسان ہو جاتی ہے۔ہاں ہم جو اِن سے مذاق کرتے اُس میں چھوٹے بھائی بھی شامل ہوتے ۔ اُس دن انہوں نے جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کی خوفناک کہانی سنائی، رات ساڑھے دس بجے کا وقت تھا، یہ تینو ں  بعد میں اپنے گھر چلے گئے، گھر میں چھوٹے بھائی، اور ہم سب تھے ابا کراچی گئے ہوئے تھے۔ہم سونے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ چھوٹے بھائی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر ہوئی اٹھے تھے اور صحن میں گھومتے ہوئے دعائیں پڑھ رہے تھے۔ گیارہ بجے ہماری پچھلی گلی کے دروازے کی کنڈی کسی نے بجائی، ہم سب چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ چھوٹے بھائی نے پوچھا کون ہے، ہمیں انّا خالہ کی لرزتی  آواز سنائی دی ”لقمان دروازہ کھولو“  بھائی نے کمرے سے چابی لا کر دروازے کے اندر لگا ہوا تالا کھولا، ہم سب بھی صحن میں آگئے، چھوٹی بھابی اور بھائی نے دروازہ کھول کر باہر اندھیرے میں جھانکا، دروازے کے باہر کوئی نظر نہیں آیا، چھوٹی بھابی نے آواز دی  انّا کہاں ہو۔ سامنے دائیں طرف دیوار کی طرف سے آواز آئی ”یہاں ہوں“  انہوں نے سامنے دیکھا۔ اچانک ایک سفید ٹھگنا سا سایہ بھائی کی طرف لپکا اور بھائی کے سر سے ٹوپی اتار کر تاریکی میں گم ہو گیا۔ اُس کے گم ہوتے ہی سامنے سے گھٹی گھٹی آواز میں ہنسنے کی آوازآئی۔ بھابی نے لپک کر بھائی کو اندر کھینچا۔ دروازے کو کنڈی لگائی تو دروازے کو دھکا دینے اور کھرونچنے  اور انّا خالہ کے رونے کی آواز آئی۔ بھائی،بھابی اور ہم سب چھلانگیں مارتے اور ہانپتے کانپتے کمرے میں گھس کے دروازے کو کنڈی لگا دی  اور ہماری رات سوتے اور ڈرتے گذری، دوسرے دن شام سعیدہ اور حمیدہ  ہمارے گھر آئیں۔اُنہیں ہم نے ساری کہانی سنائی وہ بھی حیران ہو کر ہماری کہانی سنتی رہیں بعد میں سعیدہ نے کہا کہ نعیم بھائی نے یہ ٹوپی بھجوائی ہے۔اُس نے لفافے سے لقمان بھائی کی ٹوپی نکال کر دی جو سایہ لے کر بھاگ گیا تھا اور ہمیں سب کو چیئیں (املی کی گٹھلیاں) پڑھنے پر لگا گیا۔

    آزاد بھائی اِن کے میٹرک کے کلاس فیلوہیں اور دونوں گہرے دوست ہیں، آزاد بھائی صحافت میں چلے گئے اور یہ فوج میں، دونوں ایک جیسے کپڑے پہنتے اور چشمہ لگاتے تو ہم شکل جڑواں بھائی نظر آتے، اِن کی امی آزاد بھائی کو ہمزاد کہتیں۔کئی دفعہ شہر سے گھر آنے کے بعد پوچھتیں "نعیم کہاں ہے؟ " سعیدہ بتاتی کہ بھائی تو نہیں آئے تو کہتیں میں نے خود شہر میں دیکھا ہے۔ 

      وقت گذرتا رہا ہم 1978میں گریجوئیٹ ہو گئے۔ انہوں نے دس روپے کا نوٹ دستخط کر کے فردوس کو بھجوایا اور تنبیہ کی کہ”محلے والوں“ کو بتائیں کہ اِس کے پکوڑے مت کھانا۔ آگے پڑھنے کے لئے ہمیں حیدرآباد جانا پڑتا جس کی اباجان نے اجازت نہیں دی، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کیوں کہ اِس سال شادی ہونی ہے لہذا پرائیویٹ کوشش کی جائے۔ یہ اُن دنوں نوشہرہ میں کورس کر رہے تھے کہ ایک بری خبر ملی وہ یہ کہ اپریل 1978میں افغانستان میں انقلاب آیا اور کچھ روسی دستے افغانستان میں داخل ہو گئے۔اور ہماری مغربی سرحد جو ایک پر سکون سرحد تھی، سورش زدہ علاقے میں تبدیل ہوگئی۔ اِن کی یونٹ کے آبزرور کو سرحد پر دفاعی پوزیشن سنبھالنے کا حکم ہو ا جو پارا چنار اور علی زئی کے علاقوں میں بنائی گئیں یہاں سے پاکستان میں گاڑیوں کے راستے آتے تھے۔ کورس کے بعد یہ اپنی بیٹری کی آبزرویشن پوسٹ پر چلے گئے۔ یہ ستمبر میں چھٹی آئے۔ اپنے اباجان سے مل کر انہیں سارا حال بتایا۔ اِن کے ابا نے ہمارے ابو کو بتایا کہ حالات کی وجہ سے سال تک شادی ممکن نہیں، ابو نے کہا کوئی بات نہیں۔  یہ واپس چلے گئے۔

      خاندانی سازشوں سے شائد کوئی خاندان بچا ہو، جہاں دوست ہوتے ہیں وہاں حاسد بھی بہت، فروری یا مارچ 1979کی بات ہے کہ ابو جان کے نام ایک خط آیا جو اِن کی طرف سے تھا اور ہمارے صحن میں پڑا تھا ابو نے خط کھولا، پریشان ہو گئے، امی اور بھائیوں نے پڑھا۔ اُن کی بھی یہی حالت ہمیں بھی سن گن ملی کہ اِنہوں نے کوہاٹ میں کسی کیپٹن  لیڈی ڈاکٹر سے شادی کر لی ہے۔ مجھے بھی دکھ ہو ا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ریجیکشن کا جو احساس ایک لڑکی کو ہوتا ہے اُس نے ہمیں بھی افسردہ کر دیا۔ فیصلہ ہوا کہ اِن کے ابو سے بات کی جائے، امی اور ابو اِن کے گھر گئے۔

         ہمارے ابو نے اِن کے ابو کو وہ خط دے دیا اِن کے ابو نے وہ خط پڑھا  اور ابو سے پوچھا،
" عبدالغفورصاحب آپ نے یقین کر لیا۔ ابو نے جواب دیا، یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ؟"
اِ ن کے ابو نے کہا،  "پہلی بات تو یہ نعیم ایسا نہیں کر سکتا، اگر اُس نے لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنی ہوتی تو حیدرآباد میں میرے دوست کی بیٹی لیڈی ڈاکٹر تھی انہوں نے رشتے کاکہلوایا تھا ۔ مگر نعیم نے انکار کر دیا ، وہ مکمل گھریلو بیوی چاہتا ہے دوسرے یہ   اُس کیلکھائی نہیں، اُس کا لفافہ کہاں ہے؟"
 میرے ابو نے کہا " وہ تو گھر پڑا ہے"

        بھتیجے گڈّو کو بھیجا کہ لفافہ لے کر آئے۔سعید لفافہ لے کر آیا۔ انہوں نے لفافہ دیکھا تو اُس پر مہر کے بجائے دوات کے ڈھکن سے گول مہر لگائی گئی تھی۔ اِن کے ابو نے بتایا، کہ کوئی فساد پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی میز کی دراز سے ایک خط نکال کر دیا اور کہا کہ ایسے تین خط پہلے بھی مجھے مل چکے ہیں جو میں پڑھ کر پھاڑ چکا ہوں یہ چوتھا خط ہے جو کل ملا ہے آپ گھر لے جائیں اور پڑھیں لیکن اُن دونوں خطوں کی لکھائی ایک ہے۔

         ابو معذرت کر کے خط گھر لے آئے پڑھا، بلکہ ہم نے بھی دراز سے نکال کر پڑھا بہت غصہ آیا لیکن تھوڑی سی خوشی بھی ہو ئی کہ چلو کوئی تو ہمارے لئے خودکشی کرنے کے لئے تیار ہے اور ایک یہ ہمارے منگیتر صاحب ہیں کہ بیس ماہ کی منسوبیت کے باوجودہمارا رتبہ ”محلے والوں“ سے آگے نہیں بڑھا اور ایک ہم ہیں کہ ہم نے اپنے بھتیجے  گڈّو کے ہاتھوں، اِن کے پینے والے پائپ کا تمباکو، سگریٹ، فردوس کو لکھے ہوئے اِن کے خط جمع کر کر کے رکھے۔ اور یہ سوچ بھی آتی تھی کہ انہوں نے ہمیں ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ماں کی مجبوری سے بند گئے ہیں۔خدانخوستہ کہیں وہ خط سچ نہ ہو اِنہوں نے شادی نہ کر لی ہو! وسوے دبے پاؤں آتے رہے ، 

       وقت آہستہ آہستہ رینگتا رہا،اِن کے گھر والے شادی کا نام نہیں لیتے، جب امی، ان کی امی سے پوچھتیں تو وہ کہتیں کہ دیکھیں نعیم کب راضی ہوتا ہے۔ اور نعیم صاحب تھے کہ شادی سے زیادہ شہادت کی طرف راغب تھے۔ افغانوں کے ساتھ مل کر روسیوں سے لڑ رہے تھے۔ستمبر 1979کی بات ہے بھابی کی انّا خالہ نے امی کو رائے دی۔ کہ مجھے لڑکے والوں کا شادی کا ارادہ نہیں لگتا اُس سے پہلے کہ لڑکے والے انکار کریں آپ لوگ خود منگنی توڑ دیں۔یہ بات امی، انّا اور چھوٹی بھابی کے درمیان خفیہ طور پر گردش کر رہی تھی ابھی تک کسی اور کو ہوا نہ لگی تھی۔ لڑکا بھی تلاش کر لیا گیا، چھوٹی بھابی کا ماموں زاد رضاعی بھائی سعید عرف گلّو، لڑکے میں کوئی برائی نہ تھی سوائے ایک بات کے کہ اُس کے والد گالیاں دینے کے ماہر تھے۔ جو امی کے لئے قابل قبول نہ تھی۔

        نہ جانے یہ بات کس طرح ”وکی لیکس“ بن گئی  اور ناہید کے ذریعے نہ صرف ہم تک پہنچی بلکہ میری منجھلی بھابی کے ذریعے اُن کی امی تک، وہاں سعید ہ سے ہوتی ہوئی۔اِن تک پہنچ گئی۔اِن کا خط آیا کہ اگر ”گل“ کی خواہش ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں انہیں یہ منگنی توڑنے کی اجازت ہے۔  مجھے معلوم ہوا تو پھر شدید دکھ ہوا  نہ کوئی شور نہ کوئی ڈائیلاگ، اُن دنوں سدھیر اور محمد علی کے ظالم سسر یا باغی حسینہ کے خلاف بولے جانے والے ڈائیلاگ  زیادہ گونجتے تھی یہ فوجی تو ڈائیلاگ بولنے میں واقعی وحید مراد نکلا۔ 

        لفٹین صاحب نے کتنی آسانی سے بات ہم پر ڈال دی اور خود صاف بچ گئے۔ تاکہ خود نیک نام ہوں اور ہم بدنام۔ کہ لڑکی نے ایک شریف آدمی سے منگنی توڑ ڈالی۔ اور وہ بھی 23ماہ بعد، ہم نے انّا خالہ کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا، ہم پر بڑا زور ڈالا جانے لگا، ہم اپنی جگہ پر قائم تھے لیکن دل میں خوف بھی تھا کہ کہیں ہم شرمندہ نہ ہوجائیں،  میری گہری سہیلی نے اپنی خدمات پیش کیں کہ وہ  نعیم کو خط لکھ کر پوچھتی ہے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتے ایک شریف لڑکی کو انتظار کی صلیب پر کیوں لٹکایا ہوا ہے۔میں نے سختی سے منع کر دیا کہ نہیں اُنہوں نے گیند میری طرف لڑھکا دی ہے اور فیصلہ میں نے کرنا ہے اور وہ یہ کہ میں انتظار کروں گی۔

 وہ 30اکتوبر 79کی بات ہے، صبح کے نو بجے تھے  امی، انّا خالہ ،تینوں بھابیاں، میں اور فردوس  بیچ کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ گیٹ بجا۔ گڈّو  دروازہ کھولا، اِن کی امی گھبرائی ہوئی داخل ہوئیں، دادی کہاں ہیں، گڈّو نے جواب دیا اندر بڑے کمرے میں بیٹھی ہیں ۔


 امی ”یا اللہ خیر“  کہتے ہوئے اُٹھیں، ”آپا سلام"
 "وعلیکم“ نعیم کی امی بولیں ”نعیم کا پنڈی سے فون آیا ہے“

 وہ بھرائی ہوئی سانس میں بولیں، ایسا لگتا تھا کہ تقریباً دوڑتی ہوئی آئی ہیں۔  


٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 پچھلا مضمون ۔ ۔فوجی کی بیوی - 1٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔  فوجی کی بیوی - 3
 

٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔