”ارے بیٹے ذرا جلدی سے پانی پلا“ انہوں نے گڈو سے کہا،
گڈو پانی لینے دوڑا۔
”آپا میں نے نعیم کو آپ کا جواب بتا کر ابھی کراچی کے لئے نکلنا ہے“
امی نے پوچھا ُ ”بہن کیا فون آیا ہے؟ ّ“
نعیم کی امی بولیں، ”جی، آپانعیم نے پنڈی سے فون کیا ہے، وہ کہہ رہا ہے میں کل گھر چھٹی آرہا ہوں۔ آپ سے پوچھ کر بتائیں کہ پانچ یا سات نومبر کو شادی رکھ دیں“
اس سے پہلے کہ امی بولتیں، بڑی بھابی بولیں، ”خالہ ایسے تھوڑا شادی کی تاریخ لیتے ہیں اسے آنے دیں، ہم مشورہ کر کے بتا دیں گے“
”ہاں تو خالہ اور کیا؟ ایسی کیا مجبوری ہے“ چھوٹی بھابی نے لقمہ دیا۔
”خالدہ مجبوری ہے وہ کہہ رہا ہے کہ بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے اگرآپ لوگ نہیں مانتے تو وہ واپس چلا جائے گا“
منجھلی بھابی بولیں،”خالہ تو وہ دوبارہ آجائے گا، دونوں بھائی باہرہیں، لقمان اور ابا کیسے انتظامات سنبھالیں گے، آپ اسے کہیں کہ بعد میں چھٹی لے کر آجائے“۔
میں کمرے میں بیٹھی سب سن رہی تھی اور مجھے غصہ بھی آرہا تھا، کہ کہاں تو موصوف شادی لٹکارہے تھے اوراب ہمیں وقت نہیں دے رہے، آج سے پانچ یا سات دن بعد بارات لے کر آنے پر تلے ہوئے ہیں۔
کہ ان کی امی نے بم پھاڑا،”نعیم کہہ رہا ہے کہ اگر لڑکی والے نہیں مانتے تو بے شک پھر اُس کی طرف سے منگنی ختم کر دیں۔ آپا یہ سن کر تو میرے ہول اُٹھ رہے ہیں اور اس کے ابا بھی پریشان ہیں۔میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ میں تو اِس لڑکے سے تنگ ہوں،آپ فیصلہ کریں“۔
امی معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے بولیں،”ٹھیک ہے بہن، اس کو کہیں آجائے، ان دونوں میں سے کوئی تاریخ رکھ لیں گے“
”بہت بہت شکریہ۔ بس اب اس کا فون آئے گا میں اسے بتا کر نکل جاؤں گی، گل کہاں ہے َ“
یہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں آئیں میری بلائیں لیں اوربرقعہ سنبھالتے ہوئے اپنے گھر چلی گئی۔ لیکن اب ہم سب کو ہول اٹھنے شروع ہو گئے۔ نہ کوئی انتظام نہ لوگوں کو بلاوہ اور دونوں بھائی بھی باہر۔ بھابیاں پریشان اور ہم حیران۔
امی نے سب کی ہمت یہ کہہ کر بڑھائی،”کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو جائیں گے۔تاریخ پانچ کے بجائے سات رکھ لیں گے۔ اس طرح دو دن اور مل جائیں گے، فوجاں میں ایسے ہی چھٹی ملے“۔ ہماری امی اور ابو حیدرآباد دکن میں ہبلی شہر کے ہیں۔
سب نے اپنے اپنے ذمے مختلف کام بانٹ لئے دوسرے دن یکم نومبر تھی اور دو نومبر کو بقر عید تھی، عید کے انتظام کے ساتھ شادی کے انتظامات بھی شروع ہو گئے۔
لفٹین صاحب،دوپہر تک جہاز سے کراچی پہنچ گئے۔ ارے ہاں میں یہ بتانا بھول گئی کہ 19اکتوبر کو یہ کپتان صاحب ہو گئے تھے۔ کپتان صاحب، پر یاد آیا۔ کہ جب ان کے کپتان بننے کا معلوم ہوا تو مجھے اپنے کالج میں این سی سی کی ٹریننگ کرانے کے لئے آنے والے کپتان صاحب یاد آگئے۔ جن کے جسم کو اگر آدھا کیا جاتا تو دو کپتان بنتے۔ میرے خیال میں لفٹین اس وقت کپتان بنتا ہے جب تک اس کی توند نہ نکلے، ویسے سیانیاں کہتی تھیں کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر گذرتا ہے۔ اسی لئے میں نے کھانوں میں مہارت حاصل کر لی تھی۔حیدرآبادی کھانے، بمبئی کے کھانے اور دلّی کے کھانوں کے علاوہ چینی کھانوں میں، سوپ بنانا آگیا تھا۔ لیکن میں سوچتی کہ اگر لنگر کے کھانے (بارڈر پر آبزرور کو لنگر کا کھاناملتا ہے) نے ان کو گول مٹول بنا دیا تو پھر، میرے کھانوں کی گنجائش تو ختم ہو جائے گی۔
یکم نومبر کی رات ہم سونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کراچی سے آنے والی ریل کار مہران کی کوک سنائی دی۔ چھوٹے بھائی، نعیم کی امی کے ساتھ کراچی چلے گئے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے تمام رشتہ داروں کے ہاں جا کر شادی کی دعوت دینی تھی۔ اور آج واپس آنا تھا۔ ان دنوں نہ موبائل ہوتا تھا اور ٹیلیفون تو کم گھروں میں ہوتا تھا۔ لوگ ٹیلی پیتھی سے ہی کام چلاتے تھے۔ چھوٹی بھابی کو یقین تھا کہ چھوٹے بھائی شائد آدھے گھنٹے بعد آجائیں تو انہیں اٹھ کر کھانا دینا ہو گا۔ کیوں کہ کل عیدہونی تھی ۔ لہذا ان کا سونے کا پروگرام لیٹ تھا۔ مہران کی کوک سن کر منجھلی بھابی بولیں کی اُن کی دائیں آنکھ پھڑک رہی ہے شاید گڈو کے آبا آجائیں، بڑی بھابی نے کہا ابھی چھوٹی عید پر تو ہو کر گئے ہیں اتنی جلدی کیسے آئیں گے؟ آپ آنکھوں میں عرق گلاب ڈالیں آنکھیں دکھنے کو آئیں گی۔ سواگیارہ بجے گھنٹی بجی اور چھوٹے بھائی جان کی آواز آئی۔ بھابی نے مجھے کہا دروازہ کھو لو میں کھانا گرم کرتی ہوں۔ دونوں بھابیاں بھی اس امید پر اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ کہ شائد اُن کے شوہر بھی آئے ہوں۔مگر صرف چھوٹے بھائی اندر آئے انہوں نے دروازہ بند کیا اور صحن میں آکر سب کو سلام کیا اور واش روم میں چلے گئے۔ بھابیاں جواب دے کر ناامید ہو کر لیٹ گئیں۔ میں بھی لیٹ گئی اچانک میں نے دو سایوں کو کمرے سے نکل کر دبے پاؤں بڑھتے دیکھا۔ میرے منہ سے ایک خوفناک چینخ نکلی، سب گھبرا کر اٹھ گئے، اچانک صحن کی لائٹ جلی، تو سامنے بڑے بھائی جان اور منجھلے بھائی جان ہنس رہے تھے۔
گھر میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ ہم سب کی خوشی ؤؤعالم مت پوچھیں،معلوم ہوا کہ مسقط میں ان کی کمپنی کے مالک کے ہاں بیٹا ہوا تھا تو اُس نے سب کو تین تنخواہوں کے برابر بونس دیا۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے 30تاریخ کو دس بجے پاکستان آنے کا پروگرام بنایا اور یکم کودو بجے کی فلائیٹ سے کراچی پہنچ گئے۔چھوٹے بھائی کو یہ دونوں کراچی میں مہران پر ملے تھے، چھوٹے بھائی بھی ان کو اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن ہمیں شک کہ اچانک یہ سارے اتفاقات کیسے ہو گئے، کہ نعیم کا اچانک شادی کا کہنا اور بھائیوں کا آجانا۔ کہیں ملی بھگت تو نہیں؟ لیکن یہ ملی بھگت نہیں تھی، امی کے ایمان کی وجہ سے کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو جائیں گے اور سب کام خود بخود ہو گئے۔
عید کا پہلا دن تو قربانی کے ہنگامے میں گذرا شام کو نعیم کے ابو اور امی۔چھوٹی دونوں بیٹیوں کے ساتھ ہمارے گھر باقائد ہ شادی کی تاریخ لینے آئے جو پروگرام کے مطابق 7نومبر قرار پائی۔ہمارے چھوٹے بھائی کا پروگرام تھا کہ چار تاریخ کو گانے شروع ہو جائیں، نعیم سے کہہ کر حیدرآباد سے فوجی بینڈ بلوائیں گے۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر تھا کوئی تین سو گز کا فاصلہ ہو گا۔لہذا بارات پورے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں گھوم کر ہمارے گھر آئے گی وغیرہ وغیرہ ۔
نو بجے رات یہ بھائیوں اور ابا سے ملنے آئے۔ان کے جانے کے بعد معلوم ہو ا کہ کپتان صاحب نے سخت قسم کے مارشل لاء کا اعلان کر دیا ہے۔ شادی بالکل سادگی سے ہوگی۔ کسی قسم کا گانا بجانا نہیں ہو گا۔ ٹھیک پانچ بجے نکاح ہو گا۔ مغرب کے بعد کھانا اور بارات کی واپسی۔ تمام رسموں، کا خاتمہ کوئی مذاق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹے بھائی جان کو سخت غصہ آئے کہ یہ کوئی شادی ہے۔ مگر بڑے بھائی نے سمجھایا کہ نعیم کی بات بالکل صحیح ہے کہ اُن کے امی اور ابو، درسوں میں ہندوانہ رسومات سے پرہیز اور سادگی کا درس دیتے ہیں
لہذاہمیں نعیم کی بات ماننی پڑے گی۔ چنانچہ نعیم صاحب کی بات مانی گئی۔
لہذاہمیں نعیم کی بات ماننی پڑے گی۔ چنانچہ نعیم صاحب کی بات مانی گئی۔
میری سہیلیوں نے ایک کمرے میں ڈھولک بجا کر اپنے ارمان پورے کئے۔شادی کے دن گھر کے باہر چھوٹے بھائی کودوستوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا کہ مہمان گھر آکر یہ سمجھ کر واپس نہ جائیں کہ شادی ملتوی ہو گئی ہے۔کیوں کہ میرپورخاص مہمانوں کو صرف محلہ بتانا پڑتا ہے۔ کان پھاڑتے لاوڈ سپیکر باقی راستہ خود بتاتے ہیں۔ بارات میں صرف ان کے گھر کے لوگ تھے۔ کیوں کہ ان کے دوست میرے تینوں بھائیوں کے بھی دوست تھے۔وہ سیدھے ہمارے گھر آگئے۔بارات پونے پانچ پہنچ گئی 7نومبر کو ٹھیک جب گھڑی نے پانچ بجائے، قاضی شوکت مرحوم نے نکاح شروع کیا۔ نکاح کے بعد آرسی مصحف اور دودھ پلائی ہوئی پھر یہ نماز کے لئے مسجد چلے گئے کھانا ہوا اور تقریبا ً آٹھ بجے رخصتی کا شور مچا، ہمیں اٹھایا گیا کپڑوں کی سلوٹیں بہن اور بھابیوں نے دور کیں، سسرال سے آیا ہوا برقعہ پہنایا گیا، جونہی کمرے سے نکلے، اچانک احساس ہوا کہ، بس اب بابل کا گھر چھوٹا اور اس کے ساتھ ہی آنسو چھاجوں برسنے لگے، کہاں خوشی اب تو رونے کا سماں ہو گیا، ہم تو ہر شادی پر یہ سمجھتے تھے کہ رخصتی کے وقت رفیع کی آواز میں جو گانا لگایا جاتا ہے،
بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے،
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں ایسا پیار ملے
دلہنیں یقیناً یہ گاناوہ سن کر روتی ہیں، لیکن ہمارے آنسو تو گانے کی غیر موجودگی میں نکل رہے تھے، ابا جان، بڑے بھائی، منجھلے بھائی اور چھوٹے بھائی سب رو رہے تھے، اور یہاں تک کہ ہمارے دولہا بھائی بھی اپنی آنکھیں رومال سے صاف کر رہے تھے، کمرے سے دروازے تک کا سفرروتے اور بہن بھائیوں سے گلے ملتے ہوئے جاری رہا، چھوٹی بھابی ہمارے سر پر سبز غلاف میں لپٹے ہوئے قرآن کا سایہ کر رہی تھیں، گھر کے گیٹ کے بعد حقدار بدل گئے، ان کی چھوٹی بھابی بانو اور دونوں بہنوں نے، سنبھال لیا، ہماری سسکیاں جاری تھیں کہ بانو بولی، ”بھابی زیادہ نہ روئیں میک اپ خراب ہوجائے گا“ یہ سننا تھا کہ ہماری ہنسی چھوٹنے والی تھی کہ بڑی مشکل سے روکی، ہمیں کار میں بٹھایا گیا،یہ، ان کی امی، چھوٹے بھائی کی بیوی بانو لے کر واپس روانہ ہوئی۔ باقی سب باراتی پیدل اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے یہ بھی پیدل جانے پر بضد تھے لیکن بڑے بھائی جان نے زبردستی انہیں کار میں بٹھایا۔ یوں ہم بابل کے گھر سے پیا گھر سدھارے۔
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں