٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
25/03/2017 اتوار آج
ہمارا پروگرام عطارو جزیرے پر جانے کا تھا ۔جس کا دیلی سے فاصلہ 42
کلومیٹر تھا ۔ یہاں سے ایک بڑا جہاز برلن نکرومہ ، جب یہ آیا ہوگا تو اِس
کی حالت ، اچھی تھی ، مگر اب یہ بُری حالت میں ہفتہ اور اتوار کو چلتا ہے ۔
بلکہ یوں سمجھو کہ ، صرف ہفتہ اور اتوار کو ٹورسٹ کو لے کر جاتا ہے ۔
اور
دوسری درمیانے سائز کی بوٹ ڈریگن سٹار عطارو جاتی ہے . ایک دن پہلے بکنگ
کرائی ، ڈریگن سٹار کے چار کمپارٹمنٹ ہیں ، وی آئی پی ، ٹورسٹ ، فیملی اور
تیموری ورکرز ، کرایہ بالترتیب ، 25، 15، 10 اور 5 ڈالر ہے بوٹ صبح 8 بجے
روانہ ہوکر واپس ڈیڑھ بجے سے تین بجے کے درمیان موسم کے مطابق واپس آتی ہے ،
وی
آئی پی ، کلاس کا ائرکون خراب تھا ، لہذا ہم نے ٹورسٹ کا ٹکٹ لیا اور صبح
پکنک کھانا بنا کر راوبگی کی جگہ اگئے جو شپ یارڈ کے ، شمال مغربی کنارے پر
تھی ۔ گیغ بند تھے لہذا ساتھ پارک میں ، سمندر کے ساتھ بنی منڈیر پر
انتظار کے لئے بیٹھ گئے سامان کار ہی میں رہا ۔
مجھے دور ، گرجا نظر آیا تو میں نے فوٹو گرافی کے لئے اپنا نائکن 3100 ڈی ایس ایل آر نکالا، اور فوٹو گرافی شروع کی ،
یہاں جتنے بھی گرجے اور مندر ہیں ،
انڈونیشیاء نے بنوائے تھے ، 1975 سے پہلے یہاں پرتگالیوں کا راج تھا ،
دسمبر میں انڈونیشی فوج کے ایکشن کے بعد ، یہاں کے عیسائی عوام نے مزاحمتی
تحریک شروع کر دی ۔ 1999 میں آزادی کے بعد تِموریوں نے جابجا ، جنگ لڑنے
والوں کے مجسمے بنائے ، عجائب گھروں میں پوری تحریک کی تصویریں اور دیگر
معلومات رکھیں ۔
یہاں
کے درخت بہت قدیم ہیں ، جو بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں ، درختوں کے پیچھے
مجھے ایک مجسمہ نظر آیا وہاں سے گرجے اور مجسمے کی تصویر لی ، پھر مجسمے
کے نزدیک گیا ، یہ تمور کی آزادی دو ہیروؤں کا مجسمہ ہے ، جس میں مرتے ہوئے
شخص کو دوسرا سہارا دیئے ہوئے ہے ، دونوں مجسمے فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔
میں
دو تین تصوریں کھنیچ کر واپس جانے کے لئے مڑا تو ایک تِمُوری نوجوان کان
میں ہینڈ فری لگا کر سامنے سے آتا ہوا نظر آیا ، اُس نے میری طرف دیکھا ،
اور زور سے کہا ،
" السلام و علیکم "
مجھے ایسا لگا کہ ویرانے میں چپکے سے بہار آگئی ہے ۔
" وعلیکم السلام ، ور حمۃ اللہ و برکاتۃ " کہا ، وہ چلتے چلتے رک گیا ، میں نے آگے بڑھ کرگرم جوشی ہاتھ ملایا-
" پاکستان ؟ " اُس نے پوچھا ،
" تمھیں کیسے اندازہ ہوا کہ میں مسلمان ہوں ، ہندو بھی ہوسکتا ہوں"
" پچھلے جمعہ کو میں نے آپ کو مسجدِ نور میں دیکھا تھا " اُس نے جواب دیا ،" لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ آپ انڈین ہو یا پاکستانی "
اُس نوجوان سے کافی باتیں کرنے کا دل چاہا رہا تھا کہ چم چم کی آواز آئی ۔
" آوا ! بوٹ ارہی ہے " چنانچہ اُس کا موبائل نمبر لیا اور آئیندہ ملنے کا کہہ کر ہاتھ ملا کر چل پڑا ۔
بڑھیا نے پوچھا یہ کون تھا جس سے آپ باتیں کر رہے تھے ،
بوٹ پر بیٹھے اور بوٹ ڈیلی سے 41 کلومیٹر دور سمندر میں جزیرہ عطارو کی طرف ہوگئی ۔
جو پہلے قیدی رکھنے کو استعمال ہوتا تھا۔ اب مسٹر ماریہ القطیری، فریڈم فائیٹر کو بخش دیا گیا ہے -
٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں