Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 اپریل، 2017

ایسٹ تمور - سے سنگاپور۔ سری لنکا اور پاکستان

٭٭٭٭٭٭٭٭
دو اپریل کوصبح آٹھ بجے رانا صاحب اور سرتاج عالم ناشتے کے لئے لینے آگئے ۔ تیمور ہوٹل پہنچے-
تھوڑی دیر بعد ، ماریہ القطیری کا بھتیجا ، حمود القطیری بھی آگیا جو یہاں کا ایک بڑا بزنس میں اور رانا صاحب کا دوست ہے، سب نے مل کر ناشتہ کیا ۔ دس بجے واپس گھر پہنچے ۔تاکہ سامان کو مزید باندھا جائے ۔
سرتاج عالم نے آفس سے ایک بجے جانا تھا ، تاکہ ہمیں ائرپورٹ چھوڑ دے لیکن ایبٹ آباد کے ارشاد اور ذوالفقار ،12 بجے پہنچ گئے چم چم نے اپنی سائیکل جو اُس کی ماما نے اُسے برتھ ڈے گفٹ لے کر دی تھی وہ اُس نے ارشاد کی بیٹی کو گفٹ کر دی، گھر سے نکلے ۔
تمام سامان باندھ کر ۔ ائرپورٹ کے لئے ساڑھے بارہ بجے نکلے ۔ ایک بجے ایرپورٹ پہنچے ، چم چم کی ماما نے وزیٹر پاس لیا ۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بورڈنگ ایریا میں آگئی ، بڑے آرام سے سامان سکینر سے گذرا ، کوئی بیگ نہیں کھلوائے ، اگر پاکستان کا ائر پورٹ ہوتا تو بلا شبہ 30 کے جی کا ایک بیگ سمگلنگ کے الزام میں رکھوا لیا جاتا ، کیوں کہ وہ تحفوں سے بھرا ہوا تھا ۔
5 ڈالر فی بیگ کے حساب سے 3 بیگوں کے ارد گرد ، پلاسٹک چڑھایا گیا ۔ بورڈنگ پاس لئے ۔
اِس کے باوجود کہ بوڑھے نے شلوار اور قمیض پہنی تھی ۔   تینوں بیگ لاہور کے لئے بغیر سوالات و پریشانی کے لئے بُک کر لئے گئے ، 
 بورڈنگ پاس لے کر ائر پورٹ سے باہر آگئے ۔
اسلام آباد کی مسز کامران اور آٹھ ماہ کا ضعیم بھی ، کینیا اپنے ماموں کے پاس جانے کے لئے ائر پورٹ پہنچ چکا تھا ۔
کراچی کے ، فہد اور مسز فہد بھی اللہ حافظ کہنے پہنچ گئے تھے ، ابھی وقت تھا لہذا کرسیوں بیٹھ گئے ۔
" پہلے پاکستان میں بھی ایسا ہوتا تھا ، کہ بورڈنگ پاس لے کر باہر آکر دوستوں میں بیٹھ جاتے تھے " بوڑھے نے نوجوانوں کو پچھلی نصف صدی کی معلومات دی -
" تو پھر کب سے منع ہوا ؟" ارشاد نے پوچھا
" جب سے پاکستان میں ضیائی اسلام آیا ، سب چیزیں برقعوں میں چلی گئیں ، سوائے " مہتاب چنّا کے " " بوڑھے نے جواب دیا ۔
تین بج کر 35 منٹ پر جہاز اڑنا تھا ۔ 2:15 پر ایمبارکیشن کے لئے ،تمام نوجوانوں سے مل کر ، دوبارہ ائر پورٹ پر داخل ہوئے ۔
چم چم کی ماما بھی ساتھ تھی ، ایمبارکیشن پر بیٹی ہوئی ، پولیس خاتون کو چم چم نے پنچوں پر کھڑا ہو کر اپنا پاسپورٹ ، بورڈنگ کارڈ اور انفارمیشن سلپ دی ،
خاتون نے ویزہ پر اپنے سائن دیکھے اور خوشی سے چم چم کو دکھائے ،
" یہ میرے دستخط ہیں " وہ مسکراتے ہوئے بولی " آپ اتنی جلدی کیوں جارہی ہو؟ "

" میرے وہاں سکول کھل گئے ہیں " چم چم بولی
اپنا پاسپورٹ لینے کے بعد ، چم چم اپنی ماں سے لپٹ گئی اور چم چم کی ماں اپنی ماں سے ۔
بوڑھے نے بھی بیٹی کو گلے سے لگا کر اللہ حافظ کہا اور ہم تینوں لاونج میں داخل ہو گئے ۔
الوداع ایسٹ تِمور میں اپنا رزق تلاش کرنے والے پاکستانیو ، الوداع ۔
اللہ آپ کے رزق میں مزید وسعت عطا فرمائے ، آمین ثم آمین 

 چم چم ، بڑھیا اور میں  ایسٹ تِمور کے ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھے  بورڈنگ کا انتظار کر رہے تھے ۔ 
بوڑھا  دور کھڑے  سِلک ائر ویز کے جہاز کو دیکھ رہا تھا  اور بڑھیا چم چم کو ہدایاتِ سفر دے رہی تھی -




 بورڈ نگ کا اعلان ہوا ، چم چم دوڑ کر ایپرن پر آئی اور بائی جانب دیکھ کر ماما کو ہاتھ ہلایا  ،
"  اللہ حافظ ماما "
"کہاں ہیں ماما ؟ " بوڑھے نے پوچھا
"آپ وہ بلڈنگ دیکھ رہے ہیں ! " چم چم بولی 
کونسی ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
"آوا ، جس پر برگر کنگ لکھا  ہے ،  وہاں ٹیرس پر ماما کھڑی ہیں " چم چم بولی ۔
" جی نظر آگئی " بوڑھے نے جواب دیا 
" وہ دیکھیں ماما ھاتھ ہلا رہی  ہیں " چم چم بولی 
" ہاں نظر آگئی ، وہ وائیٹ شال میں " بڑھیا جذبات میں بولی 
ہم تینوں نے زور زور سے ہاتھ ہلایا۔

  اور جہاز کی طرف بڑھ گئے ۔

 جہاز میں سوار ہونے کے بعد ، چم چم سے بڑھیا نے دعائے سفر پڑھنے کا کہا ۔

جہاز میں چم چم نے ہیڈ فون کان میں لگائے، جہاز میں وڈیو سسٹم نہیں تھا  لہذا  گانے سننے کی کوشش کرنے لگی -


 
 تھوڑی دیر بعد چم چم نیند کی آخوش میں چلی گئی ۔



 
4  گھنٹے بعد ہم  سنگا پور کے چانگی ائر پورٹ پر تھے ۔ چانگی  ائر پورٹ بہت بڑا اور خوبصور ت  ہر ٹرمینل پر ایمبیسڈر ہوٹل ہے اور ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک لے جانے کے لئے ٹرین چلتی ہے -



 
  پسنجر لاونج میں پہنچتے ہی چم چم کے خوشی سے نعرے ، سب سے پہلے پھولوں کی جگہ بنے ہوئے " وِش پونڈ " میں ایک سکہ ڈالا
ڈرائینگ کی ،
ہماری ائر پورٹ پر موجود میجسٹک ہوٹل میں 12 گھنٹوں کی بکنگ تھی اور چم چم کا پروگرام کمرے میں جانے کا نہیں تھا ،
چنانچہ بوڑھا ہوٹل کے کاونٹر پر گیا ، بتایا کہ ہم پہنچ گئے ہیں 9 یا 10 بجے آئیں گے ۔



 
چنانچہ ، چم چم نے ٹرمینل 3 مکمل کی سیر کی ۔ جھولے جھولے ، نانو کے ساتھ دکانوں کی ونڈو اور رئیل شاپنگ کی ۔  مختلف گیمز کھیلیں ۔
چانگی ائر پورٹ سنگا پور ، چم چم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے !
 چم چم ایک گھڑی دیکھ کر مچل گئی صبح دلوانے کا وعدہ بڑھیا نے اِس شرط پر کیا کہ وہ شرارتیں نہیں کرے گی ۔
 چانگی ائر پورٹ پر انڈین ریسٹورانٹ میں ڈنر کے لئے ،
چم چم ، بڑھیا اور ضعیم کامران ،
بوڑھے نے دال، چاول لئے ۔
بڑھیا اور مسز کامران نے انڈین مصالحے دار،  ڈوسا لئے ۔



چم چم کا پہلے موڈ برگر کھانے کا تھا ، پھر انکار کر دیا اور پھر اُس نے " سالن ، روٹی اور بوٹی " کی ڈیمانڈ کی ۔
نان بننے میں مزید 25 منٹ کا بتایا گیا تو اُس نے بھی ، چاول کھانے کا پروگرام بنایا اور میٹھے میں میکڈونلڈ سے آئیس کریم کھائی !
اور واپس کمرے کی طرف روانہ ہوئے ۔
چنانچہ ہم 10 بجے رات کو کمرے میں آئے ۔
ہمیں 331 نمبر کمرہ ( 3 بیڈز) ملا اور مسز کامران کو 75 نمبر ( ڈبل بیڈ ) ۔ ایک لابی کے دائیں کونے پراور دوسرا لابی کے بائیں کونے پر
  -
 چم چم نے شرارتیں  بند کیں اور آرام سے بستر پر سو گئی ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سفر نامہ  کا اگلا مضمون   :

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔