Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 24 اپریل، 2017

فتنہ ءِ مودودیت !

 فتنہ مودودیت جو ظاہر میں اپنے آپ کو جماعت اسلامی کہلاتا ہے ایک ایسا فتنہ ہے کہ اس کے عقائد امت مسلمہ کے اکابرین کے خلاف ہیں۔
جماعت اسلامی کے بانی  " الاعلیٰ  کے ابو"    مودودی   کی کتابوں اور رسالوں میں ایسی خطرناک باتیں موجود ہیں کہ جن سے ناواقف آدمی صرف گمراہ ہی نہیں بلکہ کفر میں بھی پڑسکتا ہے۔یہ جماعت، اپنے اوپر اسلام کا ٹھپّہ لگا کر ،  اپنے علاوہ سب کو گمراہ قرار دیتی ہے ۔
"جماعت اسلامی " اور " اسلامی جمعیت طلبہ" کے کارکن،  نوجوانوں کو اپنی جماعت میں شرکت کی دعوت دے کر گویہ کہ مودودی صاحب کے غلط عقائد کو اپنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔
 فتنہ مودودیت پر الحمدللہ علماء کرام نے بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں،پر اکثر وہ مدلّل و مفصل جوابات ہونے کی وجہ سے طویل ہیں۔ اس مختصر مضمون میں مودودی مذہب کا مطالعہ کرکے مودودیت کے فتنہ سے آگاہ ہوکر اپنے آپ کو اس فتنہ سے بچاہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہر فتنہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مودودی صاحب اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام: اہل سنت الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نہ صرف نبوت کے بعد بلکہ نبوت سے پہلے بھی معصوم ہوتے ہیں اور اہل سنت کے نزدیک کسی نبی نے بارے میں کوئی ایسی تعبیر کرنا جائز نہیں جو ان کے مقام رفیع کے شایان شان نہ ہو۔لیکن مودودی صاحب بڑی بےتکلفی سے لکھتے ہیں:
۔ اور ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ہر نبیؑ سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہوجانے دی ہیں"۔ (تفہیمات،حصہ دوم۔ص۵۰)
۲۔ مودودی صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب بیانی کا بہتان لگاتے ہوئے لکھتے ہیں" حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زمانے میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال آپؐ کے عہد میں ہی ظاہر ہو جائے۔ یا آپؐ کے بعد کسی قریبی زمانہ میں ظاہر ہو،لیکن کیا ساڑے تیرہ سو برس تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ حضورؐ کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔ اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کئے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں’ نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ اسے حدیث ہی کا صحیح فہم کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ اس قسم کے معاملات میں نبی کے قیاس و گمان کا درست نہ نکلنا ہرگز منصب نبوت پر طعن کا موجب نہیں ہے"۔ (ترجمان القرآن’’ربیع الاول ۱۳۶۸ھ’جلد ۲۸،ص۳۱)
۳۔ "انبیاء کرام سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں اور ان کو سزا بھی دی جاتی ہے"۔ ( رسالہ ترجمان القرآن، ص۱۵۸،مئی ۱۹۵۵ء)
۴۔ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فوق البشر ہے نہ ہی بشری کمزوریوں سے بالا تر ہے"۔ (رسالہ ترجمان القرآن،اپریل ۱۹۷۶ءبعنوان: اسلام کس چیز کا علمبردار ہے (خطبات یورپ، ص۷۸)
۵- حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وعظ و تلقین میں ناکامی (نعوذباللہ)۔مودودی صاحب لکھتے ہیں " لیکن وعظ و تلقین میں ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی"۔ (الجہاد فی الاسلام،ص۱۷۴)
۶۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر فرائض ِ رسالت میں کوتاہیوں کا الزام، مودودی صاحب سورۃ نصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
" اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پر محمدؐ کو مامور کیا گیا تھا ، تو آپؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنے لگنا۔نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمہارے رب کی ہے، لہذا اس کار عظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمد و ثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک اس سال کے زمانے خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرز د ہوگئی ہوں، انہیں معاف فرمادے" (قرآن کی چار بنیادی اصلاحیں،ص۱۵۲)
۷۔ "حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا، اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا"۔ (تفہیم القرآن،ج۴، ص۳۲۷، سورہ ص)
۸۔ " اور تو بسااوقات پیغمبروں تک کو اس نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں چناچہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقعہ پر تنبیہ کی گئی" ۔ ( تفہیمات،ج۱،ص۱۶۱،طبع پنجم)
۹۔ " حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہو کر اوریا سے طلاق کی درخواست کی تھی"۔ (تفہیمات،ج۲،ص۴۲،طبع دوم)
۱۰۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں مودودی صاحب لکھتے ہیں "بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لئے اپنا سمجھنا کو وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے" ۔( تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۴۴،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
۱۱۔ " حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں۔ گالباً انہوں نے بے صبر ہوکر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا" ۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۱۲،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
۱۲۔ " موسیٰ علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیر مارچ کرتا ہوا چلا جائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقہ میں بغاوت پھیل جائے" ۔ ( رسالہ ترجمان القرآن،ص۵،دسمبر۱۹۴۶ءج۲۹)
۱۳۔ " نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گنا ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا"۔ ( رسائل و مسائل،ج۱،ص۳۱،طبع دوم)
۱۴۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں"پھر اس اسرائیلی چروہے کو بھی دیکھئے جس سے وادی مقدس طویٰ میں بلا کر باتیں کی گیئں۔ وہ بھی عام چرواہوں کی طرح نہ تھا"۔ ( رسائل و مسائل،ج۱،ص۳۱، تفہیمات، ج۱،ص۲۹۴)
۱۵۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں " یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ ڈکٹیٹرشپ کا مطالبہ تھا۔ اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزش تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے"۔ ( تفہیمات۔ج۲،ص۱۲۲، طبع پنجم،۱۹۷۰ء)
مودودی صاحب اور صحابہ کرامؓ:
انبیاء کرام علہیم الصلوٰۃ والسلام کے بعد انسانیت میں سب سے زیادہ مقدس جماعت صحابہ کرام کی جماعت ہے۔ جن کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں اعلان کردیا کہ " رضی اللہ عنہم ورضواعنہ" ترجمہ: اللہ پاک صحابہ کرام سے راضی ہو گئے اور صحابہ کرام اللہ پاک سے راضی ہوگئے۔ پیغمبر ﷺنے ارشاد فرمایا کہ  
" اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم من بعدی غرضا فمن احبھم فبحبی احبھم و من ابغضھم فببغضی ابغضھم من آذاھم فقد آذانی فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ فیوشک ان یا خذہ" (مشکوٰۃ شریف،ص۵۵۴،بحوالہ ترمذی) ترجمہ:
اللہ سے ڈرو میرے اصحاب کے بارے میں۔ اللہ سے ڈرو میرے اصحاب کے بارے میں۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنا لینا۔ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی تو جلد ہی اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں پکڑے گا۔

اہل سنت الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں یعنی صحابہ کرامؓ نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لئے مشعل راہ اور حجت ہے۔ صحابہ کرام کے معیار ہونے پر قرآن کی آیات، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کا اجماع ہے۔لیکن جماعت اسلامی کے بانی  مودودی، کے نزدیک صحابہ کرامؓ معیار حق نہیں۔ لکھتے ہیں:
۱۔ "رسول خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو ہر ایک کو خدا کے بتائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے، اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو اس کو اسی درجہ میں رکھے"۔ ( دستور جماعت اسلامی پاکستان،ص۱۴)
اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں جو زہر مودودی صاحب سے" تجدید و احیائے دین، خلافت و ملوکیت اور تفہیم القرآن" وغیرہ میں لکھا ہے کہ  اِسے ہم خالص شیعت کا ہی ذہن سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
۲۔ " چناچہ یہ یہودی اخلاق ہی کا اثر تھا کہ مدینہ میں بعض انصار اپنے مہاجربھائیوں کی خاطر اپنی بیویوں کو طلاق دیکر ان سے بیاہ دینے پر آمادہ ہو گئے تھے"۔ (تفہیمات،ج۲،ص۳۵،طبع دوم)
۳۔ " حضرت عثمانؓ جن پر اس کار عظیم(خلافت) کا بار رکھا گیا تھا، ان خصوصیات کے حامل نہ تھے جو ان کے جلیل القدر پیشرؤں کو عطا ہوئی تھیں۔ اس لئے جاہلیت کو اسلامی نظام اجتماعی کے اندر گھس آنے کا راستہ مل گیا۔ " (تجدید و احیائے دین،ص۲۳)
۴۔ " لیکن ان کے بعد جب حضرت عثمانؓ جانشین ہوئے تو رفتہ رفتہ وہ اس پالیسی سے ہٹتے چلے گئے۔ انہوں نے پے در پے اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کئے اور ان کے ساتھ دوسری ایسی رعایات کیں جو عام طور پر لوگوں میں ہدف اعتراض بن کر رہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے افریقہ کے مال غنیمت کا پورا خمس(پانچ لاکھ دینار) مروان کو بخش دیا"۔ (خلافت و ملوکیت،صفحہ و حاشیہ ۱۰۶،طبع دوم)
۵۔ " حضرت عثمانؓ کی پالسی کا یہ پہلو بلا شبہ غلط تھا اور غلط کام بہر حال غلط ہے خواہ وہ کسی نے کیا ہو،اس کو خواہ مخواہ کی سخن سازیوں سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا نہ عقل و انصاف کا تقاضہ ہے اور نہ دین کا یہ مطالبہ ہے کہ کسی صحابی کی غلطی کو غلطی نہ مانا جائے"۔ (خلافت و ملوکیت،ص۱۱۶)
۶۔کاتب وحی امیر معاویہؓ پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:" ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہؓ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں بر سر منبر حضرت علیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے۔ حتیٰ کہ مسجد نبوی میں منبر رسولؐ پر عین روضہ نبوی کے سامنے حضورؐ کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علیؓ کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے۔ کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو درکنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو گندگی سے آلودہ کرنا تو دین و اخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤنا فعل تھا"۔ ( خلافت و ملوکیت،ص ۱۷۴،طبع ۲۳)
۷۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:" وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہوگئیں تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان درازی کرنے لگی تھیں"۔(ہفت روزہ ایشیا الا ہور،۱۹نومبر۱۹۷۶ء بحوالہ دو بھائی ص۵۸)
۸۔ " سود خوری جس معاشرے میں ہوتی ہے وہاں سے غلطیاں ہوتی ہیں جو صحابہ نے کی، کیونکہ صحابہ کرام میں غرور تھا، نفرت والے تھے،کنجوس اور بخیل تھے اور حضرت عثمان ڈرپوک تھے،ان سب پیٹوں میں شراب تھی اور اسی وجہ سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں شکست ہوئی"۔ ( تفہیم القرآن،ج۱،ص۲۸۸ ،۱۹۹۶ ایڈیشن)
۹۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مودودی صاحب لکھتے ہیں" جنگ جمل کے بعد انہوں نے قاتلین عثمانؓ کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیا۔ انکے پورے زمانہ خلافت میں ہم کو صرف ایک ہی کام ایسا نظر آیا جس کو غلط کہنے کے سوا چارہ نہیں"۔( خلافت و ملوکیت،ص۱۴۶)
مودودی صاحب کعبتہ اللہ کی توہین کرتے ہوئے لکھتے ہیں"وہ سرزمین جہاں سے کبھی اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا آج اُسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔ اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے’ نہ ہی اسلامی اخلاق ہیں نہ ہی اسلامی زندگی ہے۔ لوگ دُور دُور سے گہری عقیدتیں لئے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں،مگراس علاقہ میں پہنچ کر جب ہر طرف ان کو جہالت، گندگی، طمع، بے حیائی، دنیا پرستی،بداخلاقی، بدانتظامی اور عام باشندوں کی طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے تو ان توقعات کا سارا طلسم پاش پاش ہوکر رہ جاتا ہے۔ حتٰی کہ بہت سے لوگ حج کرکے اپنا ایمان بڑھانے کے بجائے اور اُلٹا کچھ کھو آتے ہیں’’(خطباتِ مودودی،ص۳۱۶،طبع۳۹)
بغیر وضو کے سجدہ تلاوت:تمام علمأء امت جمہور کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لئے نماز کی شرطیں ہیں۔ یعنی وضو بھی شرط ہے۔ ابن عمرؓ کا فتویٰ فتح الباری وغیرہ میں موجو د ہے: ‘’ لا یسجد الرجل الا وھو طاھر’’ ( فتح الباری، ج۲،ص۴۵۷)ترجمہ: کوئی آدمی بلا وضو سجدہ نہ کرے۔ 
آج تک بلا وضو کے سجدہ کرنے کا کوئی قائل نہیں ہوا ہے۔مگر مودودی صاحب لکھتے ہیں
" سجدہ کے لئے جمہور انہیں شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں، یعنی با وضو ہونا،قبلہ رخ ہونا اور نماز کی طرح سجدہ میں زمین پر سر رکھنا لیکن جتنی بھی احادیث سجدہ تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جس حال میں بھی ہو جھک جائے خواہ باوضو ہو یا نہ، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو"۔(تفہیم القرآن،ج۲،ص۱۱۶،سورۃ اعراف)
ڈاڑھی کے متعلق مودودی صاحب کی گمراہی: پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے " احفواالشوارب واعفوااللحیٰ" ترجمہ: مونچھوں کو کٹواؤ اور ڈاڑھی کو بڑھاؤ۔ (مسلم،ج۱،ص۱۲۹)
لیکن نام نہاد جماعت اسلامیہ کے بانی ابوالاعلی مودودی صاحب کا پوری امت مسلمہ سے بالکل مختلف ہے۔ لکھتے ہیں:
۱۔  آپ کا خیال ہے" نبیؐ جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑی ڈاڑھی رکھنا سنت یا اسوہ رسول ہے۔ ۔ 
مگر میرے صرف یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کی اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک تحریف دین ہے"۔ (رسائل و مسائل،حصہ اول، ص۲۴۷)
۲۔ "ڈاڑھی کے متعلق نبیؐ نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے"۔ (رسائل و مسائل، ج۱،ص۱۴۷)
۳۔ " میرے نزدیک کسی کی ڈاڑھی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا"۔ ( رسائل و مسائل،ج۱،ص۱۵۳)
پوری امت مسلمہ پر مودوددی صاحب کا تبرا،لکھتے ہیں:-
۱۔"امام ابوحنیفہ کی فقہ میں آپ بہ کثرت ایسے مسائل دیکھتے ہیں جو مرسل اور معصل اور منقتع احادیث پر مبنی ہیں یا جن میں ایک قوی الاسناد حدیث کو چھوڑ کر ایک ضیعف الاسناد حدیث کو قبول کیا گیا ہے۔ یا جن میں احادیث کچھ کہتی ہیں اور امام ابوحنیفہ اور انکے اصحاب کچھ کہتے ہیں۔ یہی حال امام مالک کا ہے،امام شافعی کا اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں"۔ ( تفہیمات،ج۱،ص۳۶۰)
۲۔ " تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے قریب تھا کہ عمر بن عبد لعزیزؒ اس منصب پر فائز ہوجاتے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے بعد جتنے مجدد پیدا ہوئے ان میں ہر ایک نے کسی خاص شعبے یا چند شعبوں ہی میں کام کیا۔ چناچہ مجدد کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے"۔ (تجدید و احیائے دین، ص۴۹)
۳۔ " اور یہی جہالت ہم ایک نہایت قلیل جماعت(جماعت اسلامی) کے سوا مشرق سے لیکر مغرب تک کے مسلمانوں میں عام دیکھ رہے ہیں خواہ ان پڑھ ہوں یا دستار بند علماء یا خرقہ پوش مشائخ یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات۔ ان سب کے خیالات اور طور طریقے ایک دوسرے سے بدر جہا مختلف ہیں۔ مگر اسلام کی حقیقت اور اسکی روح سے ناواقف ہونے میں سب یکساں ہیں" ۔( تفہیمات،ج۱،ص۴۵)
۴۔ " میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگان سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں، جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں، اسے حق کہتا ہوں اور جس چیز کو کتاب و سنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے عتبار سے درست نہیں پاتا۔ اس کو صاف صاف نا درست کہتا ہوں "۔ (رسائل و مسائل،ج۱،ص۴۱۵)
۵۔ " عربی زبان کی تعلیم کا پرانا ہولناک طریقہ اب غیر ضروری ہو گیا ہے۔ جدید طرز تعلیم سے آپ چھ مہینے میں اتنی عربی سیکھ سکتے ہیں کہ قرآن کی عبارت سمجھنے لگیں"۔ (تفہیمات،ج۲،ص۲۹۵،طبع چہارم)
۶۔ " میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لئے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کچھ شدید تر چیز ہے"۔ (رسائل و مسائل ، ج۱، ص۲۴۴،طبع دوم)
۷۔ " میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت یا شافعیت کا پابند ہوں"۔ ( رسائل و مسائل، ج۱،ص ۱۴۹،طبع ۲۹)

شیعوں کی طرف سے مودودی صاحب کی خدمات کا کھلا اعتراف اور اعزاز:
۱۔ " سید مودودی صرف پاکستان ہی کے نہیں پورے عالم اسلام کے قائد تھے۔ ان کے اسلامی فکر نے پوری اسلامی دنیا میں اسلامی انقلاب کی تحریک برپا کردی۔۔ انکے مشن کو آگے بڑھانے کی بہت ضرورت ہے"۔ امام خمینی کا بیان۔ ( ہفت روزہ "شیعہ" لاہور،۱۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء)۔
۲۔ شیعوں نے مودودی صاحب کو شیعہ مذہب کی خدمات کے صلے میں "آیت اللہ" کا خصوصی خطاب دیا ہے۔ جب کہ شیعوں کے ہاں" آیت اللہ" کا خطاب عام شیعوں کے لئے نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف قابل اعتماد اور ذمہ دار شیعہ کے لئے ہوتا ہے۔ ( ہفت روزہ صدائے بلتستان یکم مارچ ۱۹۷۹ء)
۳۔ ایرانی انقلاب کے اہم رکن آیت اللہ نوری کا بیان " مودودی صاحب کا بڑا کارنامہ ہے کہ ہماری شیعہ تہذیب کو دنیا کے سامنے واضح کیا"۔ (روزنامہ ،جسارت، مودودی ،صحفہ ۶۴) ۔
دنیا میں ایک ہی معصوم ہے اور وہ بھی خود مودودی صاحب(العیاذ باللہ)۔ لکھتے ہیں
" خدا کے فضل سے میں نے کوئی بات جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیا اور کہا حتیٰ کہ ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا حساب مجھے خدا کو دینا ہے، نہ کہ بندوں کو۔ چناچہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی ایک لفظ بھی خلاف حق نہیں کہا"۔ (رسائل و مسائل،ج۱،ص۳۰۲،طبع دوم)

جماعت اسلامیہ کے بارے میں علماء کرام کا فتاویٰ
۱۔ فقیہ العصر مفتی رشید احمدؒ فرماتے ہیں" جماعت اسلامی اہل سنت سے خارج ہے اور اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے عام مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ ہے، ان کے ساتھ کسے قسم کا تعاون جائز نہیں، ان میں رشتے کرنا جائز نہیں، ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں"۔ ( احسن الفتاویٰ،ج۱،ص۳۲۹)
۲۔ مفتی عظم دارالعلوم دیوبند مفتی محمودؒ فرماتے ہیں" ابوالاعلی مودودی اور ان کی جماعت کے لٹریچر میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں۔ کچھ باتیں معتزلہ کی، کچھ خوارج کی، کچھ شیعوں کی، کچھ غیر مقلدین کی اور کچھ منکرین حدیث کی ہیں"۔ (فتاویٰ محمودیہ،ج۲،ص۱۴۴)
آخر میں اللہ دعا ہے کہ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے، ہر قسم کے فتنوں سے خاص کر فتنہ مودودیت " نام نہاد جماعت اسلامی" کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔ آمین
(مصنف نامعلوم ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مودودی کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
ہر بیٹے کے نام کا دوسرا حصہ ” فاروق” ہے۔
مودودی کے چھ کے چھ بیٹے ،
محمد فاروق ، احمد فاروق ، ، عمر فاروق ، حسین فاروق ، حیدر فاروق اور خالد فاروق۔ جمیت اور نہ ہی جماعتِ اسلامی  ، یعنی مودودی کے قابل نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ ، مودودی صاحب کی بیگم محمودہ سلطانہ پر بھی مودودی صاحب کی  خود ساختہ تبلیغ کاکوئی اثر نہیں ہوا تھا ۔ بہت بعد میں وہ جماعت کی رکن بنیں !
مودودی نے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور وہ ان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔لہذا سکھر کے حافظ وحید اللہ صاحب اتالیق مقرر کیے گئے۔ بد قسمتی سے ابتداء میں ان کی اہلیہ کی طرف سے بچوں کی بے جا تائید کی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے تربیتی ڈسپلن پر اثر پڑتا تھا۔
” حیدر فاروق  ”   ہمیشہ متنازعہ رہا ، بلکہ خود بھائیوں اور بہنوں میں بھی متنازعہ۔ سبھی بھائی بہن ان کے لبرل خیالات ، ان کے عقائد اور ان کی بدعات سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔موصوف والد کی تبلیغ سے بیزار ہو کر حق کی تلاش میں  ربوہ بھی گئے ۔ جسے کوثر نیازی نے اپنے رسالہ " شہاب " میں تصویر بھی چھاپی ۔
 حیدر فاروق صاحب ، عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے ادارے میں عرصے تک بھاری معاوضے پر کام کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی نماز جنازہ انہوں نے پڑھائی۔

 مرد وں میں ایک خاتون  نے  صف میں  شانہ بشانہ کھڑی تھی ۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ حرمین میں نماز جنازہ مردوں کے علاوہ عورتیں بھی ادا کرتی ہیں ۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔