Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 22 اپریل، 2017

ہم اور سٹلائیٹ ٹاؤن ہاکی گراونڈ !

 آتا ہے مجھے ، یاد وہ  ہم دم -
 اپنا  زمانہ   وہ  بچپن کا ! 
٭٭٭٭
 1968 نومبر کی بات ہے، کوئٹہ سے ہم دونوں بھائی اپنے والدین  اور چار بہن بھائیوں کے ساتھ   میرپورخاص آئے ۔ ہمارا یہ سفر ہر سال کا ہوتا ۔ کوئیٹہ میں  نومبر کے پہلے ہفتے میں سالانہ امتحان دیتے ہی  ، ابا   ٹرین میں سیٹیں بُک کرواتے اور ہم سردیاں باہر گذارنے کوئٹہ سے نکل جاتے ۔  کوئٹہ ایکسپریس سے بہاولپور واپس قاضی احمد (مورو کے لئے ) ،    مورو سے نوابشاہ، نوابشاہ سے  چھوٹی ٹرین پر   وایا سانگھڑ    میرپورخاص خالہ کے گھر اترتے ۔ پھر واپسی پر حیدرآباد رشتہ داروں سے امی ملواتی ہوئیں ۔کوٹری سے بولان میل کے ذریعے فروری کے پہلے ہفتے میں واپس    کوئٹہ جہاں نئی کلاسیں ہماری منتظر ہوتیں ۔
1968 میں بجائے دیگر رشتہ داروں سے ملنے مختلف شہروں میں جانے کے بجائے ، امی نے سیدھا میر پورخاص کا رُخ کیا   اور یوں ہم خالہ کے گھر اُترے اور پھر اپنے آبائی گھر شفٹ ہو گئے  -  یہ  گھر  حیدر آباد دکن کے سقوط کے بعد کھوکھراپار سے  ہجرت کرکے پاکستان اپنی اماں  کے ساتھ  آنے والے میرے چچا محمد اکرام الدین کو الاٹ ہواتھا ۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ کہ 1956 آپا  ، میں اور چھوٹا بھائی جو ایک سال کاتھا   اور میں ڈھائی سال کا ۔ دادی اور چچا کے ساتھ  مئی  میں عید الفطر  کی چھٹیاں  گذارنے آئے تھے - مجھے چچا نے ایک گاڑی  اور ایک باجا دلایا  تھا  اور آپا کو پلاسٹک کی گڑیا ۔  دادی نے میری گاڑی   کے ساتھ دھاگا باندھ دیا ، میں گاڑی کھینچتا  اور باجا بجاتا پورے صحن میں چکر لگاتا ، امی گود میں چھوٹے بھائی کو اٹھا کر آپا کے ساتھ ، اپنی بہن کے گھر چلی جاتیں - جو چچا کے گھر سے 300 گز دور تھا ۔جہاں نانی بھی تھیں ، میں دادی کے پاس رہ جاتا ۔ 

دادی مزے مزے کی چیزیں کھلاتیں ۔ ایک دن میں گھر کی سیڑھیاں اتر کر  اپنی کا کھینچتا  ، کھر کے سامنے کیکروں کے جنگل کی طرف جارہا تھا ، کہ زینب پھوپی جو سامنے والے گھر میں رہتی تھیں   چلائیں   حسنیہ بھابھی لالے کو دیکھیں کہا جارہا ہے ۔ دادی دوڑ  کرآئیں  اُٹھایا اور  گود  میں لے کر گھرلائیں ، مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ ہمارے گھر کی سڑک کے دونوں طرف کیکروں کا جنگل تھا ۔
چچا کی وفات کے بعد یہ گھر ابا کے نام ٹرانسفر ہو گیا - اُن دونوں  ماشکی  پانی ڈالا کرتا تھا ، بلدیہ کی ٹینکیاں اور تالاب نہیں بنے تھے ۔
1968 میں   ۔ گھر کے دائیں طرف والے جنگل میں پانی کے تالاب کے لئے گڑھے  کھودے گئے تھے - صرف ٹینکی کے سامنے تالاب بنا تھا   اور بلدیہ کا پانی گھروں میں آتا تھا -
اپنے گھر میں شفٹ ہوتے ہی ، ہم دونوں بھائیوں نے ہاکیاں اور گیند نکالی  اور گھر کے سامنے  سڑ ک پر کھیلنے لگے ۔ 
کچھ دنوں بعد قاضی  شوکت کا بیٹا ، سعادت بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگیا ۔ کچھ دنوں بعد جمعہ خان کا بھائی لیاقت بھی ہماری ٹیم کا حصہ بن گیا ۔ 
ایک دن ،  ہم دونوں بھائی اور سعادت ہمارے گھر کے سامنے ھاکی کھیل رہے تھے ، کہ گیند عبدالرحمان کے والد   کے تخت کےپائے  پر جا لگی ۔وہ بڑھاپے میں ٹیک لگائے خوابِ خرگوش میں گل قیلولہ کر رہا تھا ، گھبرا کر اُٹھا اور  مسفع اور مسجع بلاغت کے ساتھ گالیوں کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ۔اور ایک ھنگامہ برپا ہوا گیا ، سب لوگ گھروں سے نکل آئے ۔
 قصہ مختصر ، محلہ کمیٹی کے سربراہ عبدالرحیم خان ساحب   کا فیصلہ ہوا ، کہ سامنے گراونڈ میں جا کر کھیلا جائے -
 لیکن گراونڈ میں کیکر لگا ہوا تھا ،گراونڈ کے درمیان کے صاف حصے میں کرکٹ والوں نے قبضہ کیا ہوا تھا ۔جہاں   ہاکی کھیلنا  قابلِ تعزیر جرم تھا  کیوں کہ پچ خراب ہوتی ۔
خیر سعادت ، امین ،لیاقت اور میں   نے مل کر  چھوٹے چھوٹے کیکر کاٹے اور تھوڑا سا حصہ کھیلنے کے لئے تیار کیا ۔

اگلے دن   میں اور سعادت ، شہریار کے والد امیرالدین بلوچ کے پاس گئے ۔جو پہلے چیئر مین رہے تھے ،درخواست کی  کہ ہمیں بلدیہ سے ٹریکٹر کی مدد دی جائے کہ ہم گراونڈ کو صاف کر کے ہاکی کا بنوانا چاھتے ہیں ۔ اللہ اُن کے درجات بلند کرے ، اُنہوں نے نہ صرف ٹریکٹر دیا بلکہ ہاکی کے پول بھی بلدیہ والوں سے کہہ کر لگوا کر دیئے -
 ہماری ہاکی کی شہرت   اُڑی جو ماڈل ہائی سکول کے آٹھویں کلاس کے ٹیچر  اور سکول کے سپورٹس ٹیچر الطاف صاحب کو ہمارے گھر لے آئی ۔ امی سے وعدہ لیا اور یوں اگلے دن ہم ماڈل ہائی سکول پہنچے جہاں الطاف صاحب  نے ہمیں ، اُس وقت تک اپنی کلاس میں بٹھا لیا ۔ جب تک ہمارا سکول سرٹیفکیٹ نہ آجائے ۔ کہ بچہ کہیں گورنمنٹ  ھائی سکول یا  کمپری ہنسو ہائی سکول نہ چلا جائے جہاں عبدالرحیم خان چچا کی بیٹا منصور پڑھتا تھا ۔ 
یوں میٹرک کلاس کا نوجوان ، آٹھویں کلاس میں بیٹھ گیا ۔  آٹھویں کلاس میں ہر استاد ہمیں ذھانت کی بنیاد پر اپنی کلاس کامانیٹر بنا دیتا  - یوں کلاس کوئٹہ سے آئے ہوئے  سٹوڈنٹ  کے خلاف بغاوت کی فضا پیدا ہو گئی ۔  ہمیں معلوم تھا کہ کلاس کا مانیٹر ہمیں نہیں بنایا جاسکتا   کیوں کہ الطاف صاحب جانتے تھے ، کہ چند دنوں بعد ہم نے  کلاس چھوڑ جانا ہے اور ہمیں یہ راز نہ کھولنے کا حکم تھا ۔
تو ایک دن  جب ہمیں   آٹھویں  کلاس سے نکال کر میٹرک کی کلاس میں بٹھایا گیا تو آٹھویں  کلاس کے کلاس مانیٹر کی جان میں جان آئی ۔ 
ہاکی گراونڈ تیار ہوا ۔ تو  ہماری گلی کا نادر ، لیاقت  ،  چھوٹا بھائی امین ، سعادت ،لیاقت  جونئیر ، جانی  فٹ بالر ، اس کا بھانجا حمایت اللہ ،  منصور عبدالرحیم - شروع کے ساتھی تھے ۔
 پھر ناصر ،رفیع اللہ،   آغا طارق ،    یوں شاہین ہاکی کلب  سیٹلائیٹ ٹاون ، راقم، امین ، سعادت ، لیاقت کی وجہ سے وجود میں آیا - پیڈ چھپے  سرپرست  امیر الدین بلوچ ، ٹیم کیپٹن سعادت     علی ، وائس ٹیم کیپٹن  نعیم الدین خالد ۔خزانچی  لیاقت ۔
 اُس کے بعد جھگڑا یہ پڑا ، یہ   ٹینکی روڈ کے شمال میں ، گراونڈ کے بغیر  شاہین ہاکی کلب سیٹ لائیٹ ٹاون ،  منہاج  بھائی اور  عابد علی بھائی کا پہلے سے موجود ہے،نیا بنانے کی کیا ضرورت ۔ اب چونکہ ہم پیڈ چھپوا چکے تھے  تو  فیصلہ یہ ہوا کہ شاہین ہاکی کلب   سینئر زاور  شاہین ہاکی کلب جونئیر ز  بنائے جائیں ۔
جو بعد میں  دونوں سیٹلائیٹ ٹاؤن ہاکی کلب میں ضم کر دیئے گئے ۔

کئی میچ کھیلے ۔  22 اکتوبر 1969  میں کھیلے گئے ، اِس انٹر سٹی ہاکی ٹورنامنٹ  کی اِس تصویر میں کھڑے ہوؤں میں-
 دائیں سے بائیں  ، انصار بھائی(ریفری) ۔ راقم(لیفٹ اِن)۔ متین (رائیٹ ہاف)-اختر(لیفٹ بیک)۔ عابد (لیفٹ ہاف)-کھلاڑی پولیس ہاکی کلب-  بدر بھائی ، امیر الدین بلوچ۔  رفیع اللہ(سنٹر فارورڈ) ۔ اشفاق (لیفٹ آؤٹ) ۔ راجہ امجد(رائیٹ بیک )  ۔ بشیر (سینٹر ہاف) ،چوہدری منظور (رائیٹ اِن)۔  ناصر الدین(رائیٹ آؤٹ)  ۔ منظور اور جہانگیر(ریفری)    شامل ہیں - اور بیٹھا ہوا ہماری ٹیم کا گول کیپر اکرام -
ہماری ٹیم دو کے مقابلے میں تین گول سے جیتی تھی -
٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔