Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 19 اپریل، 2017

ماضی کے گستاخ

ماضی کے گستاخ، جن  نظمیں غزلیں نصاب میں شامل_ہیں

غالب . .
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن 
دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
 
میرتقی میر .
میر کے دین و مذہب کو کیاپوچھتےہو؟
قشقہ کھینچا کب کا ترک اسلام کیا 

میر درد
رو بیٹھے گامیری ہی طرح اپنے دین کو
کافر جو تیرے ساتھ مسلمان ملے گا. 

جون ایلیاء
اپنا رشتہ زمین سے ہی رکھو
 کچھ,نہیں آسمان میں رکھا  

فیض احمد فیض
جن کا دین پیروی کذب وریا ہو ان کو
ہمت کفر ملے جرأتِ تحقیق ملے 

عبدالحمید عدم
دل خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔