----- إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ
مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ----- ( سورۃ الرعد 13/11)
" بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ
بدلے "
اجمل خان:
اگر میں بحیثیت استاد کہوں تو آپ نے یقیناً ایک بہترین مضمون
لکھا ہے اور آیات بھی اپنے مضمون کے لئے لکھی ہیں ، جو یقیناً آیات نہیں بلکہ آیات
اللہ کے اعضا ہیں جو آپ نے اپنے مقصد کے لئے استعمال کئے ۔
میں باقی مضمون پر تو نہیں البتہ اِس آیت پر آپ کی توجہ دلاؤں گا جو
میں نے ری پیسٹ کی ہے ۔ اِس کا ترجمہ اور اپنا مفہوم بھی لکھوں گا ۔ (بدلنا یا تبدیلی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ، " ب د ل " مادے سے کئی الفاظ الکتاب میں درج کئے ہیں )۔
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ
مَا بِقَوْمٍ
بے شک اللَّـهَ غَيِّرُ نہیں کرتا/کرے گا جو قوم کے ساتھ ہے ۔
حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۱۱
حتیٰ وہ (قوم) غَيِّرُکریں۔کریں گے جو اُن کے نفسوں کے ساتھ ہے ۔
اِس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ،
اللہ کسی قوم کے تغیّر میں صرف اُس وقت اُن کا ساتھ دیتا ہے
جب قوم کے لوگ بذریعہ اللہ کی آیات پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس میں خود تغیّر لائیں
۔
مکمل آیت یہ ہے :
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ ( سورۃ الرعد 13/11)
میں نے پرانا سوئچ تبدیل کرکے نیا لگا دیا ۔ (خرابی بہت بڑی تھی )
میں نے پرانے سوئچ میں تغیّر سے اُسے بہتر کر دیا ۔
انسانی تبدیلی کسی پانی کی ٹنکی کی صفائی نہیں جس میں دو انسان لگا
کر ، پرانا پانی نکال دیا جائے ، ٹنکی کی صفائی کی جائے اور عملِ تبدل سے نئے پانی سے بدل دیا جائے
۔
لیکن اگر پانی کا بدلنا ممکن نہیں ، تو عملِ تغیّر سے وہ مکمل بہتر نہیں ہوسکتا ، کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے ۔
انسانی نفس کی صفائی ۔ ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے ۔
1- بچے کے نفس کی تربیت اُس کے والدین کرتے ہیں ،
2- اُستاد اپنے عمل اور تعلیم سے اُسے پالش کر کے چمکاتا ہے ۔ ( وہ
اِس طرح کہ جب وہ پرچہ طالب علموں کو دے کر کلاس سے باہر چلا جاتا ہے اور تین گھنٹے
بعد آتا ہے تو کلاس میں "پِن ڈراپ " خاموشی ہوتی ہے ۔ سب سے زیادہ نمبر لینے
والا بچہ یا سب سے کم نمبرلینے والا بچہ اپنی محنت کو پرچے پر اتار دیتا ہیں
"
اگر والدین کو معلوم ہوجائے ، کہ بچے نے نقل کرنے کی کوشش کی تھی ،
تو اُسے سائیکارٹسٹ کے پاس بھیجا جاتا ہے ۔
تو معلوم ہوتا کہ ، کہ سوسائٹی کے بچے نے اُسے زیادہ نمبر لینے کی
ترغیب بتائی تھی ، جس کی وجہ سے اُس نے یہ حرکت کی ۔ والدین بچے کو یہ نہیں کہتے کہ
"آئندہ اُس گندے اور نقل مارنے والے بچے سے نہیں ملنا"
بلکہ وہ بچے کے والدین سے مل کر اُسے اُس کے بچے کی اِس "کمزوری
" کا بتاتے ہیں ، وہ والدین یہ کہہ کر اُن پر نہیں پِل پڑتے
"
کہ تمھارا بچہ نالائق ہے ، ہمارے بچے کو خراب کر رہا ہے
"، بلکہ اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اپنے بچے کی اِس طرح کونسلنگ کرتے ہیں
کہ اُس بچے کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے ، اِس کے لئے وہ بچے کے استاد سے ضرور
ملتے ہیں ، اور اُستاد ڈنڈا لے کر بچے پر ٹوٹ نہیں پڑتا "
وہ اپنے رویئے پر نظر ڈالتا ہے ، کہ کہیں اُس نے اِس بچے کو نظر انداز
تو نہیں کیا ۔
نوجوان مفکر اجمل خان : اگر میں یہ کہوں ، کہ والدین ، استاد اور سوسائیٹی
، تینوں بچے کے نفس میں تغیّر لاتے ہیں ۔
پاکستان یا کہیں بھی یہ کسی بھی بیرونی انقلاب سے ممکن نہیں ، جب تک
والدین اور استاد اپنے نفسوں میں انقلاب نہیں لاتے اور یہ انقلاب بچے کے نفس میں چھو منتر سے نہیں آئے گا ، اِس مکمل انقلاب کے لئے دس سے چالیس سال کا عرصہ لگے گا ۔
ہماری آنکھوں کو انقلاب کے لئے غیر ملکیوں کے منظر دکھائے جاتے ہیں
۔ اگر آپ اِس منظر کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھنا چاھیں تو آپ کو پاکستان سے ، برطانیہ
، فرانس ، امریکہ یا کینیڈا کا سفر اپنے سامان کے ساتھ کرنا پڑے گا ۔ جب آپ اپنی منزل
پر اتریں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں ایرپورٹ سے لے کر جہاز میں سوار ہونے
تک ایک بے ہنگم ہجوم نظر آئے گا ، جو جہاز سے اترنے سے لیکر ایرپورٹ سے نکلنے تک مہذب
قطار بنانے والے انسانوں میں تبدیل ہوجائے گا "
کیا یہ وہاں کی فضاء کا کمال ہے ؟ یا
وہاں اللہ نے اِنسانوں نفسوں کو تبدیل کرنے والی کوئی مشین لگائی ہے
؟
نہیں وہاں کا استاد سخت ہے ، وہ دوسرے ملک سے آنے والے نامعقول بچوں کی تربیت بڑے ، پیارے ماحول میں کرتا ہے ۔
یو ں سمجھیں کہ بس وہ آپ پر جرمانہ کرتا ہے ،آپ کی ہراُس غلطی پر جس کو آپ معاف نہیں کرواسکتے ۔
نوجوان مفکر اجمل خان : چند افراد کو لے کر دھرنا دینے سے کسی انسان کی زندگی میں انقلاب نہیں آتا ۔ انقلاب کپڑوں کا بھی نام نہیں کہ عورتوں کو پہنا دئیے جائیں یا مردوں کو ۔
2006 میں اپنی رفیقہء حیات گُل، کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کراچی سے مدینہ جاتے ہوئے ، دبئی سے ہماری سیٹ سے دو سیٹ آگے ، انگلش بولتی ہوئی ،امریکی لباس میں چار نوجوان خواتین "سرخ و سفید" مانند شفتالو بیٹھی تھیں ، جس کو دیکھ کر حاجیوں کا ایمان متزلزل ہورہا تھا ۔ لہذا اُنہوں نے اُن کو کہا کہ وہ اپنے لباس پر چادر ڈال لیں ، مگر اُن کے ساتھ مرد نے بڑے غیر مہذب انداز اُنہیں پاکستانی انداز میں سمجھایا ۔ وہ چپ کرکے بیٹھ گئے ۔ اُن میں سے دو خواتین نے حاجیوں کو چڑانے کے لئے بار بار واش روم جانا شروع کیا ۔ جنہیں "غص البصر "کی مہارت نہیں تھی وہ لاحول پڑھتے اور جنہیں "غص البصر"کی عادت تھی تو وہ ماحول سے بے پرواہ تھے ۔ میرے خیال میں شاید سعودی ایرلائن کا یہ جہاز مدینہ سے ہوتا ہوا یورپ جا رہا تھا ، بہر حال جب مدینہ اترنے کا اعلان ہوا تو ، گُل نے اُٹھایا ، انہیں خواتین کی سیٹ پر نظر پڑی تو وہاں مکمل حجاب میں سر نظر آئے ۔ میں سمجھا کہ شاید میرے سوتے ہوئے کوئی بات ہوئی ہو گی ، تو ائر ہوسٹس نے اُن کی سیٹ حاجیوں کے کہنے پر تبدیل کروادی ہوگی ۔ لیکن گُل نے بتایا ، کہ اِن خواتین نے حجاب پہن لیا ہے ۔
کیوں کہ مدینہ ائر پورٹ کا استاد بہت سخت ہے ۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ ، خواتین اپنے گھر میں کیا لباس پہنتی ہیں ، لیکن وہ خواتین کو یہ لباس پہن کر باہر نکلنے نہیں دیتا ۔
کچھ دوست کہیں گے کتنے ظالم ہیں یہ سعودی ، عورت کی آزادی چھین لیتے ہیں ۔وہ مسلمان عورت کی آزادی نہیں چھینتے وہ "کفر" کرنے والی عورت کو مسلمانوں میں نہیں آنے دیتے ۔ ہر مذھب کا اپنا رواج ہے اور اللہ کے الدین کے اپنے اصول ۔ لیکن اِس کے باوجود:
انقلاب گھر سے شروع ہوتا ہے اور گھر پر ختم ہوتا ہے ۔