سر نے پھر یاد کرایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ ای ڈی سی نے ناگواری سے چھوٹے افسر کی طرف دیکھا اور اسے کہا کہ امام کو بتادو کہ جماعت صاحب کے آنے کے بعد ہی ہوگی۔
چھوٹا افسر الٹے قدموں لوٹ گیا اور چند ہی لمحوں میں واپس آکر اے ڈی سی کو بتایا کہ امام نے نماز میں تاخیر سے انکار کر دیا ہے۔ اب اے ڈی سی کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔
ابھی اے ڈی سی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ نماز کے لیے صفیں سیدھی کرلی جائیں، لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ چند لمحوں بعد نماز شروع ہوگئی۔
قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔اے ڈی سی پریشانی کے عالم میں مرکزی دروازے کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سربراہ مملکت کی سرکاری گاڑی عید گاہ کے مرکزی گیٹ پر موجود تھی وہ فوراً حفاظتی عملے کے انچارج کی جانب بڑھا اور پوچھا سربراہ مملکت کہاں ہیں؟ اس نے آخری صفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں۔ سربراہ مملکت آخری صف میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ اے ڈی سی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ نماز ختم ہونے کا انتظار کیا۔
قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہُوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔
نماز ختم ہونے کے بعد اے ڈی سی ، سربراہ مملکت کی جانب بڑھا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امام سے استدعا کی گئی تھی کہ نماز آپ کے آنے کے بعد شروع کی جائے لیکن وہ نہیں مانے۔ اے ڈی سی، کو امید تھی کہ اب امام کی خیر نہیں۔ انہیں اس فیصلے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ سربراہ مملکت نے ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے امام کی تعریف کی کہ انھوں نے ان کا انتظار نہیں کیا۔
نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی پوری عید گاہ قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
یہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی عید تھی۔ سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور نماز پڑھانے والے امام کا نام ظہور الحسن درس تھا۔
ظہور الحسن درس 9 فروری 1905 کو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ آپ 1940 سے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قائداعظم آپ کو سندھ کا بہادر یارجنگ کہا کرتے تھے۔ مولانا ظہور الحسن درس نے 14 نومبر 1972 کو کراچی میں وفات پائی اور قبرستان مخدوم صاحب نزد دھوبی گھاٹ میں آسودۂ خاک ہوئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں