ہم دونوں نے میٹرک تک ساتھ پڑھا ،پھر
ہماری ملاقات ، اتفاقاً ایک شادی کی محفل میں ہو گئی۔ عرفان انجنئیرنگ کے بعد
امریکہ شفٹ ہو گیا میں پاکستان میں رہا۔ مدت کے بعد ملنے کی وجہ سے پرانی یادیں
دہرائیں گئیں دوستوں کے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوا، میں نے پوچھا کہ وہ باہر
کیوں شفٹ ہوا۔
عرفان بولا،”کسی تھرڈ کلاس ملک میں پہلے درجے کا شہری بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ کسی فرسٹ کلاس ملک کا تھرڈ کلاس شہری بن کر رہا جائے“۔
مجھے عجیب سا لگا لیکن کچھ نہ بولا۔ البتہ، اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی تو میں مذاقاً اُسے”تھرڈ کلاس شہری“ کہتا۔ بہرحال وقت پر لگا کر اُڑتا رہا 2005میں میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک جانا پہچانا ہیولا اندر داخل ہوا۔ جو لمبائی اور چوڑائی میں تقریباً برابر تھا، یہ عرفان تھا ماہ و سال نے اُس کے خد وخال پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ چائے پیتے ہوئے میں نے مذاقاً کہا،” تھرڈ کلاس شہری“ کھانا کہاں کھانے چلیں۔ اُس نے دکھی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میرا مذاق اُڑانے کے بجائے اُس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا،”اِس تھرڈ کلاس شہری کو جو کھلانا ہے کھلا دو“۔
تفصیل جاننے پر بتایا،”امریکہ کو لاکھوں ڈالر 29سال تک ٹیکس دینے کے باوجود اُس کا سٹیٹس روزگار الاؤنس میں پلنے والے امریکن شہری سے کم ہے۔ کیوں تمام وعدے وعید، قصے کہانیاں ثابت ہوئے، ”ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے“۔
امریکن آئین کے قسم کھاتے وقت میں بہت پر جوش تھا۔ اُس کے بعد میں نے سوچا ہی نہیں کہ امریکہ میں رہنے کے لئے اپنے آئین اور اپنی دھرتی کو چھوڑ دیا۔
"جب افغان جہاد شروع ہوا تو چندہ دینے والوں میں میں بھی شامل تھا 9/11 کے بعد چندہ دینے والے مجرم بن گئے۔ اُنہوں نے ہم سے ایسے ایسے سوال پوچھے کہ ہم اپنی نگاھوں میں مجرم بن گئے۔ ہم وہاں اب مشکوک لوگ ہیں، وہ جب چاہیں ہمیں یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں کیونکہ ہم حلفِ وفاداری اُٹھانے کے بعد امریکی شہری بن گئے ہیں۔ امریکی بیوی سے ہونے والے بچوں کے زیادہ حقوق ہیں ہمارے بچوں کے کم اور ہم پاکستان میں پیدا ہونے والے اگر اسلام سے دور ہیں تو اچھے امریکن شہری ہیں“۔ عرفان نے اور بہت باتیں بتائیں ۔
کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی ہے اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی ہے، لیکن ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت امریکیوں کو جو حلفِ وفاداری دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔
عرفان بولا،”کسی تھرڈ کلاس ملک میں پہلے درجے کا شہری بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ کسی فرسٹ کلاس ملک کا تھرڈ کلاس شہری بن کر رہا جائے“۔
مجھے عجیب سا لگا لیکن کچھ نہ بولا۔ البتہ، اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی تو میں مذاقاً اُسے”تھرڈ کلاس شہری“ کہتا۔ بہرحال وقت پر لگا کر اُڑتا رہا 2005میں میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک جانا پہچانا ہیولا اندر داخل ہوا۔ جو لمبائی اور چوڑائی میں تقریباً برابر تھا، یہ عرفان تھا ماہ و سال نے اُس کے خد وخال پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ چائے پیتے ہوئے میں نے مذاقاً کہا،” تھرڈ کلاس شہری“ کھانا کہاں کھانے چلیں۔ اُس نے دکھی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میرا مذاق اُڑانے کے بجائے اُس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا،”اِس تھرڈ کلاس شہری کو جو کھلانا ہے کھلا دو“۔
تفصیل جاننے پر بتایا،”امریکہ کو لاکھوں ڈالر 29سال تک ٹیکس دینے کے باوجود اُس کا سٹیٹس روزگار الاؤنس میں پلنے والے امریکن شہری سے کم ہے۔ کیوں تمام وعدے وعید، قصے کہانیاں ثابت ہوئے، ”ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے“۔
امریکن آئین کے قسم کھاتے وقت میں بہت پر جوش تھا۔ اُس کے بعد میں نے سوچا ہی نہیں کہ امریکہ میں رہنے کے لئے اپنے آئین اور اپنی دھرتی کو چھوڑ دیا۔
"جب افغان جہاد شروع ہوا تو چندہ دینے والوں میں میں بھی شامل تھا 9/11 کے بعد چندہ دینے والے مجرم بن گئے۔ اُنہوں نے ہم سے ایسے ایسے سوال پوچھے کہ ہم اپنی نگاھوں میں مجرم بن گئے۔ ہم وہاں اب مشکوک لوگ ہیں، وہ جب چاہیں ہمیں یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں کیونکہ ہم حلفِ وفاداری اُٹھانے کے بعد امریکی شہری بن گئے ہیں۔ امریکی بیوی سے ہونے والے بچوں کے زیادہ حقوق ہیں ہمارے بچوں کے کم اور ہم پاکستان میں پیدا ہونے والے اگر اسلام سے دور ہیں تو اچھے امریکن شہری ہیں“۔ عرفان نے اور بہت باتیں بتائیں ۔
کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی ہے اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی ہے، لیکن ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت امریکیوں کو جو حلفِ وفاداری دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔
Oath of Allegiance for Naturalized Citizens
"I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty of whom or which I have heretofore been a subject or citizen; that I will support and defend the Constitution and laws of the United States of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United States when required by the law; that I will perform noncombatant service in the Armed Forces of the United States when required by the law; that I will perform work of national importance under civilian direction when required by the law; and that I take this obligation freely without any mental reservation or purpose of evasion; so help me God."
Signed by:_________
میں اپنی تمام وفا داری اور
اعتماد جو میں نے، کسی غیر ملکی شہزادے، بادشاہت، ریاست یا خود مختار ریاست کو دی جس کا میں
باشندہ تھا،سے مکمل دستبرداری کا قسمیہ اعلان کرتا ہوں۔اور یہ کہ میں
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قانون اور آئین کی حفاظت اور مدد تمام غیر ملکی اور
ملکی دشمنوں سے کروں گا ۔ اور پر میں پورے ایمان اور خلوص سے عمل کروں گا
اور میں یہ ذمہ داری کسی ذہنی دباؤ یا مجبوری کے بغیر آزادانہ قبول کرتا
ہوں، خدا میری مدد کرے۔ اور میں اِس کا اقرار اپنے دستخطوں کے ساتھ کرتا ہوں
دستخط ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دستخط ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا
اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے
لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر
معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر
معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی
سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا
حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں
حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی
ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے،
انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک
کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔
اِن بکے ہوئے امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں کے بچوں نے جتنی مدد اپنے نئے ملک کی کی اتنی مدد تو اُن کے مٹی کے بچوں نے نہیں کی ۔
وزیراعظم بھٹو نے اِس خطرے کو پہچان کر پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے علیحدہ کر لیا ، یوں ایک عرصہ تک یہ لوگ امریکہ ، برطانیہ و کینیڈا کے تیسرے درجے کے شہری رہے ۔پاکستانی بیویوں کی بطن سے اِن کی اولاد دوسرا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، اور وہاں کی عورتوں سے بغیر نکاح یا نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد ، پہلے درجے کی نسل میں شامل ہوگئی ، کیوں کہ وہ یہودی یا عیسائی ماں کی اولاد تھی ، پاکستانی باپ کی نہیں ،کئی پاکستانیوں نے اِن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو پاکستان لانے کی کوشش کی وہ یاتو ایرپورٹ پر پکڑے گئے یا یہاں آنے کے بعد ان تینوں ملکوں نے پاکستان سے اپنے قوانین کے زور پر یہ لڑکیاں واپس منگوا لیں ۔ کیوں کہ اِن ملکوں کے قوانین میں ، باپ کا نام بچوں کے نام کے ساتھ صرف لاحقے کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔
عرصہ گذرنے کے بعد ، پاکستان پھر دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گیا ۔
کیوں ؟
کن فائدوں کے لئے ؟
اُن کے ثمرات ہم نے 1987 کے بعد دیکھے ، جب اِن ملکوں کے شہریوں کو پاکستان کے سب سے اونچے منصب دئیے جانے لگے کیوں کہ صرف ایک ، شناختی کارڈ دینے کے بعد وہ " دہری شخصیت " بن گئے ۔
کہا جاتا کے کہ اِن کے ڈالروں سے ملک ترقی کے راستے پر دوڑنے لگا ۔
حالانکہ کہ یہ غیر ملکی شہریت والے لوگ تو ہنڈیوں کے ذریعے پاکستا ن اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو رقم اُن کی ترقی کے لئے بھجواتے ، ہماری عمر کے لوگوں کے والدین اپنی عمر گذارنے کے بعد اِس دنیا سے رخصت ہونے لگے، تو رقم کی ترسیل میں کمی واقع ہونے لگی ۔
اِن امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں نے دوسرے مسلمان ممالک میں بھی وہی کردار ادا کیا جو پاکستان میں کیا ۔ اسلام فرقوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ جہادیوں میں تقسیم ہونے لگااور اِن جہادیوں کے اکاونٹ میں پیسہ ، غیر ملکی شہریت لوگوں کے پاس سے آنے لگا جن کا امام و جنگی پیشوا اسامہ بن لادن بن چکا تھا ۔ یوں اِن جہادیوں کے ہاتھ میں امریکن اسلحہ آنے لگا ، یہاں تک کہ مغربی سرحدوں کے ساتھ رہنے والے ، توپوں اور ٹینکوں سے بھی لیس ہونے لگے ۔
پاکستان کے ایٹمی توازن کو برقرار رکھنے اور ایک محب الوطن فوج رکھنے کی وجہ سے ، ٹینکوں اور توپوں سے لیس ، اِن ڈالروں کی بنیاد پر جہاد کرنے والوں کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ یہاں ایسی کوئی کوشش نہ کریں جو انہوں نے مشرق وسطیٰ میں جاری رکھی ہوئی ہے ۔
اِن امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں نے ایک نیا رخ اختیار کیا کہ پاکستان میں عوام کے ووٹوں سے آئی ہوئی جمہوریت کو ایک ایسی حکومت سے تبدیل کر دیا جائے ، جس جس کا سربراہ اِن میں سے کوئی ہو اور وہ ٹیکنوکریٹ کے نام سے پہچانی جائے ۔
ہمارے ایک سینئیر ریٹائرڈ بریگیڈئر محمد طارق ارشد نے آج اپنا بہترین تجزیہ دیا ۔ جس کے خدو خال نمایاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔
پڑھئیے ۔
اِن بکے ہوئے امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں کے بچوں نے جتنی مدد اپنے نئے ملک کی کی اتنی مدد تو اُن کے مٹی کے بچوں نے نہیں کی ۔
وزیراعظم بھٹو نے اِس خطرے کو پہچان کر پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے علیحدہ کر لیا ، یوں ایک عرصہ تک یہ لوگ امریکہ ، برطانیہ و کینیڈا کے تیسرے درجے کے شہری رہے ۔پاکستانی بیویوں کی بطن سے اِن کی اولاد دوسرا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، اور وہاں کی عورتوں سے بغیر نکاح یا نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد ، پہلے درجے کی نسل میں شامل ہوگئی ، کیوں کہ وہ یہودی یا عیسائی ماں کی اولاد تھی ، پاکستانی باپ کی نہیں ،کئی پاکستانیوں نے اِن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو پاکستان لانے کی کوشش کی وہ یاتو ایرپورٹ پر پکڑے گئے یا یہاں آنے کے بعد ان تینوں ملکوں نے پاکستان سے اپنے قوانین کے زور پر یہ لڑکیاں واپس منگوا لیں ۔ کیوں کہ اِن ملکوں کے قوانین میں ، باپ کا نام بچوں کے نام کے ساتھ صرف لاحقے کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔
عرصہ گذرنے کے بعد ، پاکستان پھر دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گیا ۔
کیوں ؟
کن فائدوں کے لئے ؟
اُن کے ثمرات ہم نے 1987 کے بعد دیکھے ، جب اِن ملکوں کے شہریوں کو پاکستان کے سب سے اونچے منصب دئیے جانے لگے کیوں کہ صرف ایک ، شناختی کارڈ دینے کے بعد وہ " دہری شخصیت " بن گئے ۔
کہا جاتا کے کہ اِن کے ڈالروں سے ملک ترقی کے راستے پر دوڑنے لگا ۔
حالانکہ کہ یہ غیر ملکی شہریت والے لوگ تو ہنڈیوں کے ذریعے پاکستا ن اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو رقم اُن کی ترقی کے لئے بھجواتے ، ہماری عمر کے لوگوں کے والدین اپنی عمر گذارنے کے بعد اِس دنیا سے رخصت ہونے لگے، تو رقم کی ترسیل میں کمی واقع ہونے لگی ۔
اِن امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں نے دوسرے مسلمان ممالک میں بھی وہی کردار ادا کیا جو پاکستان میں کیا ۔ اسلام فرقوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ جہادیوں میں تقسیم ہونے لگااور اِن جہادیوں کے اکاونٹ میں پیسہ ، غیر ملکی شہریت لوگوں کے پاس سے آنے لگا جن کا امام و جنگی پیشوا اسامہ بن لادن بن چکا تھا ۔ یوں اِن جہادیوں کے ہاتھ میں امریکن اسلحہ آنے لگا ، یہاں تک کہ مغربی سرحدوں کے ساتھ رہنے والے ، توپوں اور ٹینکوں سے بھی لیس ہونے لگے ۔
پاکستان کے ایٹمی توازن کو برقرار رکھنے اور ایک محب الوطن فوج رکھنے کی وجہ سے ، ٹینکوں اور توپوں سے لیس ، اِن ڈالروں کی بنیاد پر جہاد کرنے والوں کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ یہاں ایسی کوئی کوشش نہ کریں جو انہوں نے مشرق وسطیٰ میں جاری رکھی ہوئی ہے ۔
اِن امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں نے ایک نیا رخ اختیار کیا کہ پاکستان میں عوام کے ووٹوں سے آئی ہوئی جمہوریت کو ایک ایسی حکومت سے تبدیل کر دیا جائے ، جس جس کا سربراہ اِن میں سے کوئی ہو اور وہ ٹیکنوکریٹ کے نام سے پہچانی جائے ۔
ہمارے ایک سینئیر ریٹائرڈ بریگیڈئر محمد طارق ارشد نے آج اپنا بہترین تجزیہ دیا ۔ جس کے خدو خال نمایاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔
پڑھئیے ۔
If the Current Drama is Scripted ?
One has been hearing about government of technocrats since Zardari
times. It was thought that execution of the plan had started when TUQ
visited Islamabad last time but mercifully it was postponed .
Now same rumours are being echoed on various channels. Outline of the rumoured and whispered plan may be
a. Current agitation continues, government does not concede much and there is a deadlock
b. Army approaches Supreme Court which authorizes it to intervene
c. Present setup is packed. Army does not take over, instead it puts up a caretaker government and stays in the background but retains controlling position
d. A caretaker setup of technocrats/non political persons is put in place to conduct across the board accountability and fresh elections within the constitutional timeframe. Present agitators will not be part of this setup as they would be contesting next elections
e. After a month or so the caretaker government approaches SC and requests that as the electoral and other reforms and accountability require much more than the stipulated time to accomplish the assigned task.. SC willingly grants three more years
f. After three years most of the systems are cleansed and reformed and country is put on the road to progress and prosperity
g. General elections are announced, candidates are pushed through a very tight sieve of Sections 62 and 63 and most of the current contenders may be weeded out
h. Absolutely free and fair elections are conducted; government is handed over to the elected government and democracy restored
b. Army approaches Supreme Court which authorizes it to intervene
c. Present setup is packed. Army does not take over, instead it puts up a caretaker government and stays in the background but retains controlling position
d. A caretaker setup of technocrats/non political persons is put in place to conduct across the board accountability and fresh elections within the constitutional timeframe. Present agitators will not be part of this setup as they would be contesting next elections
e. After a month or so the caretaker government approaches SC and requests that as the electoral and other reforms and accountability require much more than the stipulated time to accomplish the assigned task.. SC willingly grants three more years
f. After three years most of the systems are cleansed and reformed and country is put on the road to progress and prosperity
g. General elections are announced, candidates are pushed through a very tight sieve of Sections 62 and 63 and most of the current contenders may be weeded out
h. Absolutely free and fair elections are conducted; government is handed over to the elected government and democracy restored
Very well scripted and rosy plot with a
promising and happy ending. Present agitators are nowhere, they just
have a supporting/extra’s role in the drama. Who wins the ultimate
battle, no one knows .
Allah knows the best
May Allah have mercy on our beloved Pakistan
May Allah have mercy on our beloved Pakistan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں