1857 کی بات ہے ، ہندوستان کی آزادی یا انقلاب کی تحریک وہاں کے "ڈی چوک " میں چلی اور میذیا کی عدم موجودگی کے باوجود ، ابلاغی میڈیا نے مبلغین کے ذریعے پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔ بالآخر وہی ہوا کہ آزادی یا انقلاب کی یہ تحریک ، غدر میں تبدیل ہوگئی ، محلوں کے محلے اُجڑ گئے ۔
اجڑے دیار کے لوگوں نے اُس وقت کے اسلام آباد ، دلّی کی طرف رُخ کرنا شروع کر دیا ۔
ایک فصیح البیان اور قادر الکلام ، ملبغ و شاعر نےدلّی کے قلعہ کے کنٹیروں سے مضبوط ۔ بلند و بالا دروازے پر پہنچا ۔ جہاں سرکاری گماشتے ، سپاہیوں کی وردی میں آراستہ و پیراستہ ، چاک و چوبند کھڑے سے ۔ اُن کے اعلیٰ عہدیدار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی وہ نہ ہوسکی کیوں کہ اعلیٰ عہدیدار برصغیر پر پھیلی ہوئی حکومت کے شہنشاہ کے حضور اپنے کارہائے نمایاں بباتِ مہاجراں بیان کر رہا تھا ۔ فصیح البیان اور قادر الکلام ، ملبغ و شاعر نے اپنا حدود اربعہ بتانے کے بعد چوبدار کو کہا ،
" اے نابغہء روزگار، ہر گا نگاہِ عقاب رکھنے والے سروقد ، اور پہلوان نما ،راجوں ، مہاراجوں اور شاہوں کے شہنشاہ کے مقربِ خاص دربان ، جاؤ اور شہنشاہ سلامت کی قدم بوسی کے بعد سات عدد فرشی سلام ادا کرنے کے بعد ، شاہوں کے شہنشاہ کی خدمت اقدس میں عرض کر نا کہ حَسرت، بڑی امیدوں کے ساتھ آئے ہیں اور دل میں جگہ چاہتے ہیں"
دربان قلعہ کی سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی سڑکوں پر چلتا ، محل کی رہداریوں سے گذرتا دیوانِ خاص میں پہنچا اور شہنشاہ کو جان کی امان پانے کے بعد اطلاع دی ،
" عالم پناہ ، شاہی قلعہ کے دوازہ پر ، حسرت آئے ہیں اور دل میں جگہ پانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔"
بادشاہ نے دختر عُنّاب کو لبوں سے ہٹایا ،
" جاؤ دیکھو کتنے ہیں ؟"
دربان نے الٹے قدموں ، قلعہ کے دورازہ کی راہ لی اور واپس آکر ،
" جہاں پنا ہ ، کوئی ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہیں !"
بادشاہ نے عُنّاب کے خُوشوں سے چند دانے منہ میں ڈالے ، اچھی طرح چبا کر نگلنے کے بعد گویا ہوئے ۔
اجڑے دیار کے لوگوں نے اُس وقت کے اسلام آباد ، دلّی کی طرف رُخ کرنا شروع کر دیا ۔
ایک فصیح البیان اور قادر الکلام ، ملبغ و شاعر نےدلّی کے قلعہ کے کنٹیروں سے مضبوط ۔ بلند و بالا دروازے پر پہنچا ۔ جہاں سرکاری گماشتے ، سپاہیوں کی وردی میں آراستہ و پیراستہ ، چاک و چوبند کھڑے سے ۔ اُن کے اعلیٰ عہدیدار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی وہ نہ ہوسکی کیوں کہ اعلیٰ عہدیدار برصغیر پر پھیلی ہوئی حکومت کے شہنشاہ کے حضور اپنے کارہائے نمایاں بباتِ مہاجراں بیان کر رہا تھا ۔ فصیح البیان اور قادر الکلام ، ملبغ و شاعر نے اپنا حدود اربعہ بتانے کے بعد چوبدار کو کہا ،
" اے نابغہء روزگار، ہر گا نگاہِ عقاب رکھنے والے سروقد ، اور پہلوان نما ،راجوں ، مہاراجوں اور شاہوں کے شہنشاہ کے مقربِ خاص دربان ، جاؤ اور شہنشاہ سلامت کی قدم بوسی کے بعد سات عدد فرشی سلام ادا کرنے کے بعد ، شاہوں کے شہنشاہ کی خدمت اقدس میں عرض کر نا کہ حَسرت، بڑی امیدوں کے ساتھ آئے ہیں اور دل میں جگہ چاہتے ہیں"
دربان قلعہ کی سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی سڑکوں پر چلتا ، محل کی رہداریوں سے گذرتا دیوانِ خاص میں پہنچا اور شہنشاہ کو جان کی امان پانے کے بعد اطلاع دی ،
" عالم پناہ ، شاہی قلعہ کے دوازہ پر ، حسرت آئے ہیں اور دل میں جگہ پانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔"
بادشاہ نے دختر عُنّاب کو لبوں سے ہٹایا ،
" جاؤ دیکھو کتنے ہیں ؟"
دربان نے الٹے قدموں ، قلعہ کے دورازہ کی راہ لی اور واپس آکر ،
" جہاں پنا ہ ، کوئی ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہیں !"
بادشاہ نے عُنّاب کے خُوشوں سے چند دانے منہ میں ڈالے ، اچھی طرح چبا کر نگلنے کے بعد گویا ہوئے ۔
کہہ دو ، اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
اتني جكًه كهان هي دل داغدار مين "" شعر كي وجه تسميه بيان كي هي مجهي يقين هيكه ابكا مطالعه بهت وسيع هي اور روحانيئيت وانشراح بهي غظيم هي مكًر اشاره كدهر هي ؟ دهرنون بر " يا دوسري طرف هيج نمي دانم تشريح بفرمائي
جواب دیںحذف کریں