Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 26 اکتوبر، 2019

یوتھیائی فسانہ - چھوٹا پانی اور کالا پانی

بہت دنوں سے  داستانِ نمک  کے ساتھ دیو سائی پلین کا ،  یوتھیائی فسانہ  چھوٹا پانی اور کالا پانی  بھی وٹس ایپ کی زینت بن رہا تھا ۔ 
بوڑھا فوجی ، اِسے علم ِناقص و فساد  کے باعث توجہ نہیں دیتا تھا ۔ اکیس اکتوبر کو ہمارے ایک انجنیئر دوست نے ، شائد معلومات عامہ کے لئے اِسے گروپ میں گھما دیا ۔ 


کئی نادان  دوستوں نے اِس سے صرفِ نظر  کیا  کیوں کہ اُن کا پسندیدہ ٹاپک  ، وہ تمام یوتھیائی پوسٹ جو گرم مصالحوں کے ساتھ  وٹس ایپ پر ناچتی پھر رہی ہیں ۔باعثِ کمنٹس بنتی ہیں ۔
 لیکن  ایک دا و بینا  دوست نے کمنٹ لکھا :
Pls have a proper look at some decent map and you will be embarrassed to have shared this absurd post.
 اِس کمنٹ نے بوڑھے فوجی کو مجبور کیا کہ وہ اپنی  معلومات کا ااظہار کرے ۔ بوڑھا سیاچین کے محاذ پر پورا  ایک سال اور دو مہینے رہا  ،   اگست  1993کے پہلے ہفتے میں سیاچین سے سکردو آیا اور  والنٹیئرز کے ایک گروپ کے ساتھ دیوسائی پلین  کے مسحور حسن سے لطف اندوز ہونے روانہ ہوا ۔ واقعی پہاڑی نالوں اور دریاؤں سے اَٹی ہوئی دنیا کی سب سے بلند وادی ، حسین وادیوں میں سے ایک ہے ، جہاں تا حدِ نظر  پھولوں کے بستر نے آنکھوں کو عجیب تراوٹ بخشی ۔  سیر کے علاوہ فوجی نقطہءِ نگاہ سے وادی سے دریائے شگر کے ساتھ سفر کیا ، این ایل آئی کے نوجوانوں سے بھی ملاقات کی اور ہفتے کا ٹور لگا کر واپس سکردو پہنچا ، ایک رپورٹ بنائی اور  20دن کی چھٹیاں گذارنے کوئٹہ روانہ ہو گیا ۔ 
اب پورے کوئی  26 سال بعد  ، تحت الشعور سے معلومات کا خزانہ نکالا اور ایک نقشے پر انڈیل دیا آپ بھی پڑھیں ۔ 
 دیو سائی وادی میں آنے والا پانی نانگا پربت پر پڑنے والہ مشرقی برف و بارش سے آتا  ہے مختلف ندی اور نالوں  سے دریائے شگر ، دریائے چھوٹا پانی اور دریائے کالا پانی میں آکر  دریائے شگر میں مل جاتا ہے ،
 پہلے چھوٹا پانی دریائے شگر میں ملتا ہے اور اُس کے بعد کالا پانی ۔
دریائے شگردیوسائی وادی سے  کنٹرول لائن تک تمام  پانیوں کو لئے انڈیا میں داخل ہوتا ہے
 کالا پانی  اور دریائے شگر کے سنگم  سے کنٹرول لائن تک کا فضائی فاصلہ  60 کلومیٹر ہے لیکن دریائے شگر کے ساتھ ہم نے یہ فاصلہ  10 گھنٹوں میں جیپوں پر طے کیا تھا ۔ 
کنٹرول لائن کراس کرنے کے بعد دریائے شگر ، دریائے شنگو میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں سے یہ کارگل کی وادی سے گذرتا ہوا ، دوبارہ کنٹرول لائن کراس کر کے پاکستان میں داخل ہو کے دریائے شگر کا نام دوبارہ  حاصل کر لیتا ہے  ۔ 
اور کنٹرول لائن کے پار سے سے آنے والے دریائے سند ھ سے بغلگیر ہوجاتا ہے ۔
حسین آباد کے پاس  کے  سیاچین سے آنے والے  تمام پانی دریائے خپلو سے آکر دریائے شیوک میں ملتے ہیں اور دریائے شیوک دریائے سندھ کی آغوش میں پناہ لیتا ہے ۔
 آگے تو آپ جانتے ہیں کہ دریائے سندھ کی آخری منزل کہاں ہے ۔ 

بہر حال  فسانہ گروں کے مطابق اگر ہم کنٹرول لائن سے  سے 30 کلومیٹر 3 پہاڑوں کی کٹائی کر کے ، اں کا پانی دریائے سندھ میں ڈالیں ، تو انڈیا تباہ و برباد ہو سکتا ہے ۔ 
سوچیں ذرا ، احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کا مشورہ ، کیا قابلِ عمل ہے ؟ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ماں کی آپ بیتی

وہ بھی کیا دن تھے جب میرا گھر ہنسی مذاق اور لڑائی جھگڑے کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ہر طرف بکھری ہوئی چیزیں ۔ ۔ ۔ 
بستر پر پنسلوں اور کتابوں کا ڈھیر ۔ ۔ ۔
 پورے کمرے میں پھیلے ہوئے کپڑے۔
جوتا یہاں تو جراب وہاں  ۔ ۔ ۔ 
 میرا پورا دن ان کو کمرہ صاف کرنے اور چیزیں سلیقے سے رکھنے کے لیے بچوں کو  ڈانٹنے میں گزرتا۔
صبح کے وقت بیٹی  جاگتے ہی کہتی :
ماما مجھے ایک کتاب نہیں مل رہی!
بڑا بیٹا چیختا:
میرے جوتے کہاں ہیں؟ میں نے یہاں اتارے تھے ۔ 

دوسرا بیٹا رندھی آواز میں کہتا :
ماما میں ہوم ورک کرنا بھول گیا ۔ پلیز چھٹی کر لوں !

چھوٹی بیٹی منمناتی :
ماما میری ہوم ورک والی ڈائری!
ہر کوئی اپنا اپنا رونا رو رہا ہوتا۔ 

اور میں چیختی کہ آپ کی چیزوں کا خیال رکھنا میری ذمہ داری نہیں ۔ ۔ ۔ 
اب آپ بڑے ہو گئے ہو، خود سنبھالو! ذمہ داری کا احساس کرو ۔
میں کچن سے آوازلگاتی ۔
کتاب ، اپنی  الماری میں دیکھو  وہاں ہے ۔

جوتے ، میں نے پالش کرکے  دروازے کے پاس رکھے ہیں وہاں سے لے لو ،
اور تم سکول جاؤ گے ، کیوں یاد نہیں رہا ہوم ورک کرنا ، کھیل میں زیادہ دھیان ہے۔
چھوٹی تم اپنی ڈائری  ٹی وی کے اوپر دیکھو!
ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ لگا کر کہتی ۔
چلو ناشتہ کرو ، بس آنے والی ہے ۔ ڈرائیور  ہارن پر ہارن بجا کر دماغ خراب کرے گا ۔ 
یہ روز کا معمول تھا معلوم نہیں  20 سال کیسے پلک جھپکتے  گذر گئے ۔

آج میں ان کے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوں۔

بستر خالی ہیں. الماریوں میں صرف چند کپڑے ہیں۔ 
 جو چیز باقی ہے، وہ ہے ان کی خوشبو۔
اور میں ان کی خوشبو محسوس کر کے اپنے خالی دل کو بھرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
اب صرف ان کے قہقوں، جھگڑوں اور منانے کے لئے ، میرے گلے لگنے کی یاد یں ہے۔

آج میرا گھر صاف ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے۔ 

یہ پرسکون، پرامن اور خاموش ہے ۔ ۔ ۔
 زندگی سے خالی ایک صحرا کی طرح۔

وہ ان کا دروازے کھلے چھوڑ کر بھاگ جانا اور میرا چیختے رہنا کہ دروازے بند کرو۔

آج سب دروازے بند ہیں اور انہیں کھلا چھوڑ جانے والا کوئی نہیں۔

سب زندگی کے سفر میں پرندوں کے بچوں کی طرح   اپنی منزل کی طرف اُڑ گئے ۔

بیٹیاں اپنے گھر کی ہوگئیں  اور بیٹے ، ایک دوسرے شہر چلا گیا ہے اور دوسرا  ملک سے باہر ملک۔ دونوں زندگی میں اپنا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہر بار وہ آتے ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ دن گزارتے ہیں۔ جاتے ہوئے جب وہ اپنے بیگ کھینچتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے میرا دل بھی ساتھ کھنچ رہا ہے۔
میں سوچتی ہوں کہ کاش میں ان کا یہ بیگ ہوتی تو ان کے ساتھ رہتی۔

لیکن پھر میں دعا کرتی ہوں کہ وہ جہاں رہیں آباد رہیں۔


اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو انہیں انجوائے کریں۔ ان کو گدگدائیں، ان کی معصوم حیرت کو شیئر کریں اور ان کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کا مداوا کریں۔

 گھر گندا ہے، کمرے بکھرے ہیں اور دروازے کھلے ہیں تو رہنے دیں۔ یہ سب بعد میں بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن بچوں کے ساتھ یہ وقت آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 25 اکتوبر، 2019

ایتھوپیا - نصابِ مصالحہ جات

جب آپ کسی ایسے ملک جاتے ہیں ، جہاں کی زُبان آپ کے لئے اجنبی ہوتی ہے تو سب سے پہلے انسان سوچتا ہے ۔کاش اِن کو انگلش آتی یا مجھے یہ زُبان ۔
سب سے زیادہ مشکل جو پیش آتی ہے وہ کھانے پینے اور دیگر اشیاءِ ضروریہ کی ہے ،جن کی آپ کو  اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ 
بوڑھے اور بڑھیا کے ساتھ بھی یہی پریشانی لگی ، ایسٹ تِمور میں تو گذارا ہوگیا لیکن یہاں عدیس ابابا (ایتھوپیا) میں بوڑھے نے سوچا کہ سب سے پہلے یہاں کی زُبان کے کچھ الفاظ سیکھے جائیں ۔
دُکان پر سودا لینے جاتا ، جو مشہور آئیٹم ہیں وہ   اُٹھانے اور وزن کروا کر پیسے  دینے میں کوئی تامل نہ  تھا ، سب سے بڑا مسئلہ، بُڑھیا کی خریداری میں تھا  اور وہ بھی اِس لئے ، کہ بڑھیا کی خواہش کے مطابق وہ اپنی بیٹی اور یہاں پر رہنے والے پاکستانیوں  کو اپنے کھانے کھلا کر انگلیاں چٹوائے ۔ پہلے تو وہ اپنا ٹریڈ مارک  کھانے کا12مصالحے  کا آمیزہ بنوا کر پاکستان سے ساتھ لائی ، ساتھ کچھ اور مصالحے تھے ۔ 
ایسٹ تِمور میں زردے کا رنگ کافی سٹورز یعنی سُپر سٹورز میں ڈھونڈا ، مگر نہ پایا تو ایبٹ آباد کے خواتین کے ملبوسات بنانے والے نوجوان پاکستا نی  حسن زیب کی مدد لی اور زردے  کے رنگ کو تِموری نام پوچھا  جو اُس نے " پوَارنا مکانا"  بتایا ۔ یہ بتانے پر بھی کامیابی نہ ہوئی  ، تو بوڑھے نے  زردے کی اور سادے چاولوں کی تصویر   اکٹھی لگا کر  اپنے موبائل میں ڈالی

لیٹا سٹور میں قسمت آزمائی کی اور ایک تِموری خاتون سے  پوچھا کہ ، چاولوں کو ایسا رنگ کیسے کرتے ہیں ؟
اُس  
نے تصویر دیکھی اور کہا " کم "
بوڑھا اُس کے پیچھے چل پڑا ، بڑھیا نے جب یہ دیکھا تو پوچھا ، " کہاں جارہے ہو ؟"
بوڑھے نے کہا، " کم " 
بڑھیا بھی لپکتی جھپکتی ، پیچھے  چل پڑی ۔
اُس نیک بخت نے لے جاکر ایک  بھرے ریک کے سامنے جا کر کھڑا کردیا ۔ 
 "یو وانٹ دِس   ؟  پیوارنا  مکانان" وہ بولی ۔
" یس  " بوڑھے نے جواب دیا  ، یہ وہی  حسن زیب کا " پوَارنا مکانا"تھا ۔
تمام انڈین  کھانوں میں ڈالنے والے رنگ اور ایسنس موجود تھے اور نہیں موجود تھا۔ تو ، " کیوڑہ "  خیر وہ بھی مل گیا اور عرقِ گلاب  ، بڑھیا نے گلاب جامن اور شاہی ٹکڑے بنا کر ، چم چم کی ماما کی سہیلیوں کو کھلائے ۔ 
 پچھلے تجربے کی بنیاد پر ، ضروری چیزیں تو بوڑھا پاکستان سے ڈھو کر  اپنے سامان میں لے آیا ، جب کھانوں کا وقت آیا تو معلوم ہوا ، کہ سفید زیرہ  اور املی لانا بھول گئے ۔ 
بوڑھے نے سوچا کہ کیوں نہ تصویری زُبان سے مدد لی جائے اور دیکھنے والے کے لئے آسانی پیدا کرتے ہوئے خود بھی امھاری (Amharic) زُبان میں شُدھ بُدھ پیدا کی جائے ۔ 
بوڑھا انڈے لینے گیا جو جہاں  5 بِر(Birr) کا ایک ملتا ہے ، یعنی  پاکستانی 27 روپے کا ایک  اور درجن انڈے ہوئے، مبلغ    321 روپے !!
پوچھا انڈے کو  امھاری زُبان میں کیا کہتے ہیں "
کم عمر    سیلز خاتون  نے  بتایا ۔ " اِنکو لال "
  ہوٹل میں آتے آتے بوڑھا بھول گیا ، کہ اِنکو لال تھا  یا  اُنکو لال ۔ خیر گھر میں کام کرنے والی خاتون سے پوچھا  ، اُس نے بتایا ، وہ بھی بھول گیا ۔ نئی زبان سیکھنا بہت مشکل ہے  ۔ لیکن بوڑھے نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک ایسا نصابِ تعلیم ، چاچی  گوگل  کی مدد سے بنایا کہ  اب بے شک بھول جائے کوئی بات نہیں ۔
سب سے پہلے نصابِ  ناشتہ جات ۔
پھر نصابِ مصالحہ جات ! 
ارے بوڑھا یہ تو بتانا ہی بھول گیا ، کہ دکاندار سے کلام کیسے شروع کیا جائے ؟
چلیں یہ اگلے سبق میں پڑھیں گے  ۔

 ٭- امھاری (Amharic)بول چال 
٭٭٭٭واپس ٭٭٭


ہفتہ، 19 اکتوبر، 2019

ڈینگی کا دم و درود سے علاج



مچھر اللہ کی آیت ، جو اللہ کے کلمہ کُن سے وجود میں خون چوس کر زندہ رہنے کی لئے وجود میں آکر کتاب اللہ کی ایک آیت بن گئی ۔ کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوائیوں سے یا ہاتھ سے ہی مارا جاسکتا ہے ۔ دم درود سے مچھر کے کاٹے کا علاج ہوتا ۔تو مچھر انسانوں کے خون پر نہ پلتا ۔
ڈینگی جراثیم اللہ نے مچھروں میں نہیں ڈالے اگر ایسا ہوتا تو ہمارے کیا ہم سے پہلے بزرگ بھی ڈینگی جراثیم کا شکار یقیناً ہوتے ، افریقہ کو دریافت کرنے والے ، تاجر ضرور ڈینگی ساری دنیا میں پھیلا دیتے ۔
لیکن ایسا نہیں تھا ،

لہذا صرف دم و درود سے ڈینگی کا علاج ممکن نہیں ۔ اُس خبیث کو ڈھونڈھیں جس نے انسانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے گھاس کے مچھروں میں پلنے والے اور  سوزش پیدا کرنے والے جراثیموں میں ڈینگی وائرس پروان چڑھایا ۔ 
اور انسانوں کے لئے ضرر انسانوں ہی کے ہاتھوں سے پھیلا۔
روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی سنت بتائی:
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا [4:79]

ڈینگی کے علاج کے لئے ۔ اللہ کی کتاب اللہ سے آیات ، انسانی جسم سے ضرر ہٹانے میں مدد کر سکتی ہیں ۔
1- پپیتے کے  سبز پتوں  کا نچوڑا ہوا عرق ۔
2- بکری کا دودھ ۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منگل، 15 اکتوبر، 2019

سفر نامے - ایتھوپیا کا سفر

اُفق کے پار رھنے والے دوستو !
چم چم ، بڑھیا اور بوڑھے نے ،کوئٹہ سے  براعظم افریقہ کے ملک ایتھوپیا جانے کا پروگرام بنایا ۔
 ایتھوپیا کو اسلامی تاریخ میں حبشہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ دراصل جزیرہ ءِ عرب کے لوگوں کے لئے تمام افریقہ حبشہ کہلاتا تھا اور وہاں کے رہنے والے حبشی سے موسوم کئے جاتے تھے ۔
بوڑھے نے مختلف مضامین میں ایتھوپیا میں اپنے گذارے ہوئے دنوں میں ہونے والے واقعات کی  مختلف مضامین میں روداد لکھی ہے - 
   ٭-کرونا ایک بھیانک وباء ٭-نکما وائرس - 
٭-سحرانہ  اور بڑھیا کا شور مچانا٭- ایتھوپیا  میں بوڑھے کی آوارہ گردی






 فروری میں کرونا کرونا کے شور نے 14 مارچ  2020 چم چم کی گیارھویں  سالگر ہ کے بعد  ایتھوپیا  سے   واپسی کی فلائیٹ تا حکم ثانی بند  ،   بوڑھا اور بڑھیا پھنس گئے ، چم چم کا سکول بند ، اب کیا کیا جائے ، چنانچہ چم چم اور  بوڑھے نے کچن سنبھال لیا ۔چم چم تو نہیں البتہ بوڑھا چٹخاروں بھرے پکوان    کا ماہر شیف بن گیا ۔ 
اگر آپ بھی شیف بننا چاھتے ہیں ، توڑھے کے ہم قدم سفر اور  SUFFERکریں .
پہلا سبق:
   ٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 14 اکتوبر، 2019

اگر آپ نے:

٭اگر آپ نے:
گولی والی بوتل پی ہوئی ھے،
ریڑھی سے تازہ لچھے بنوا کر کھائے ہوئے ہیں،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ہے،
 رات کے وقت کالا دھاگہ باندھ کر لوگوں کے گھروں کی کنڈیاں "کھڑکائی" ہوئی ہیں ،
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے،
استاد سے مار کھائی ہوئی ھے،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ھے،
عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے،
گھر سے آٹا لے جا کر تنور سے روٹیاں لگوائی ہوئی ہیں،
سکول کی دیوار پھلانگی ہوئی ھے،
میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،
کتاب کے لیے ابا جی سے پیسے لیکر عمران سیریز خریدی ہوئی ھے،
بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں،
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو،
رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو،
گھر کی چھت پر مٹی کا لیپ کیا ہو،
گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو،
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو،
پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ،
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ھے،
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سائیکل پر لڑکیوں والے تانگے کا پیچھا کیا ہوا ھے،
لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ھے،
ہاتھ والا نلکا چلا کر بالٹیاں بھری ہیں،
یسو پنچو کھیلا ھے،
ہوائی چپل میں "ودریاں" ڈلوائی ہوئی ہیں،
تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ھے،
خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ھے،
ہولڈر استعمال کیا ھے،
زیڈ اور جی کی نب خریدی ھے،
فلاوری انگلش لکھی ھے،
گھی کے خالی "پیپے" کو تار سے باندھ کر لوکل گیزر کا لطف لیا ھے،
سر پر تیل کی تہہ اور سرما لگا کر خوبصورت لگنے کی کوشش کی ھے، 
رف کاپی استعمال کی ھے،
کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے،
مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں،
کلاس میں مرغا بنے ہیں،
ہمسائیوں کے گھر سے سالن مانگا ھے،
مہمان کی آمد پر خوشیاں منائي ہیں،
سائیکل کی قینچی چلائي ھے،
والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں،
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ھے،
چھپ چھپ کر سگرٹوں کے سوٹے لگائے ہیں،
کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ھے،
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر پانچ وقت نماز کے منصوبے بنائے ہیں، 
صبح سویرے ڈول پکڑے گوالے سے دودھ لینے جاتے رھے ہیں،
 برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ھے،
لاٹری میں کنگھی نکلی ھے،
رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں،
سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ھے،
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ھے، 
ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ھے،
شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ھے،
مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ھے،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نائٹ رائیڈر، ایئر وولف سیریز دیکھی ہوئی ھے،
ایک روپے کے نوٹ پر پٹرول لگا کر وی سی آر کا ہیڈ صاف کیا ہوا ھے،

شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے،
دو روپے والا نیلا نوٹ استعمال کیا ہوا ھے،

جمعرات کو پی ٹی وی پر اردو فلم دیکھی ہوئي ھے،
سہ پہر چار بجے "بولتے ہاتھ" دیکھا ہوا ھے،
پی ٹی وی پر کشتیاں دیکھی ہوئي ہیں،
چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کیا ہوا ھے،
بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھا ہوا ھے،
اپنے لینڈ لائن فون کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے،
نیشنل کے ٹیپ ریکارڈر پر "شادمانی شادمانی " سنا ہوا ھے،
پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو،
سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو،
سردیوں میں رضائی میں گھس کر ڈراؤنے قصے سنے ہوں،
سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں،
کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال ستی ہو،
 سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں قومی نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے دیکھا ہو،

پینٹ پہن کر محلے والوں کی طنزیہ نظروں کا سامنا کیا ہو،
ٹی وی پر غلاف چڑھایا ھے،
ایک روپے میں کریم کی خالی شیشی ری فل کروائی ھے،
لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ھے،
ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ھے،

ون ٹین کیمرہ استعمال کیا ھے،
ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ھے،
اپنے گھر کی سفیدی کی ھے،
آگ میں کاغذ جلائے ہیں،
بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں،

گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ھے،
الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں،
بلی مارکہ اگر بتی خریدی ھے ،

 امتحانوں کی راتوں میں " گیس پیپرز" کے حصول کے لیے دوستوں کے گھروں کے چکر کاٹے ہیں،
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہیں ،
 چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں،
 فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ھے،

سردیوں کی تراویح میں پنکھے چلا کر مسجد سے فرار ہوئے ہیں،
 اور صبح سویرے گلی میں کسی کے درود شریف پڑھتے ہوئے گزرنے کی آواز سنی ھے اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رھے ہیں۔
 کیونکہ یہ ساری چیزیں اسوقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ مجھے فخر ھے کہ میرا تعلق اس دور سے ھے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا
جہاں بہت کچھ آیا وہاں بہت کچھ انمول  کھو بھی دیا.افسوس
٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 11 اکتوبر، 2019

شگفتگو کی چودھویں ماہانہ محفلِ مزاح

چم چم کے ایتھوپیا جانے کے بعد ، اسلام آباد میں  تنہائی سے گھبرا کر 31 اگست کو بوڑھے اور بڑھیا  نے اپنے گھر کا سارا سامان  تقسیم کردیا  اور اپنی اگلی زندگی سفر میں رہنے کا فیصلہ کیااور  عازمِ کوئٹہ  ہوئے  یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئٹہ کی سردیاں ۔ اللہ کی پناہ !
یکم ستمبر سے 9 اکتوبر تک چھوٹی پوتی ، برفی کی پیاری باتوں کے مزے لئے اُس کی ننھی شرارتوں سے لطف اُٹھایا  ۔ شگفتگو وٹس ایپ فور پر    محفل کے دوستوں سے رابطہ ، اُن کی پر لطف باتوں ، مزاحیہ چٹکلوں سے  رہا ۔ 
 پھر سردیاں گذارنے  ،  ایتھوپیا جانے  ، کا پروگرام بنا ، 9  اکتوبر کو  کوئٹہ سے اسلام آباد  اور 12 اکتوبر  یعنی ہفتہ کی صبح  3:00  ،  بوڑھے اور بڑھیا   کو  عدیس ابابا  کے لئے روانہ ہونا تھا -
شگفتگو کی چودھویں بزم مناثرہ   زعفرانی نشست، جناب آصف اکبر نے اپنے گھر برپا کرنے کا پروگرام بنایا ۔ 
اب بوڑھا پریشان ، کہ 12 اکتوبر کو تو وہ سفر میں ہوگا اور  بزم مناثرہ کے    زعفرانی دوستوں  کی قہقہہ آور محفل میں اُن سے ملاقات بھی فرض اولین میں سے ایک ہے ۔ پھر نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ۔
 بزرگِ کبیر جناب آصف اکبر   سے اِس بزرگِ صغیر نے دست بستہ وٹس ایپ پر درخواست کی کہ اگر صرف ایک دن پہلے ، یعنی 11 اکتوبر کو یہ  محفل منعقد کر دی جائے تو تا حیات ممنون و مشکور رہوں گا ۔ کا فی رد و قد و خیالاتِ منفرادانہ کے اظہار کے بعد دوستوں نے سوچا  ، کہ چلو اپنے جمعہ کو  برباد کرنے کے بجائے  پانچ بجے   ۔ اِس محفل کو مقیم کردیا جائے ۔
تو احبابِ  و قارئین ، بزم مناثرہ کے    زعفرانی دوستوں  کی قہقہہ آور محفل کا انعقاد   ڈی ایچ اے ون میں جناب آصف اکبر کے دولت کدہ  میں ہوا-

میزبان کے ہاتھوں سے محفل  کے شروع    کرنے  کا اختیار ڈاکٹر   عزیز فیصل  نے لے لیا 
 
اور  اپنا مضمونِ لطافت  کی ابتداء کرکے  بلند قہقہوں، دبی دبی  ہنسی اور صرف مسکراہٹ  کا انبار تقسیم کرنا شروع کر دیا  -
اگلی  ترتیب ، اینٹی   کلاک وائز کے اعتبار  ،  انداز و بیابان کا بوجھ بوڑھے پر ڈال دیا کیا ۔ بوڑھے نے اپنا   آئی پیڈ نکالا   اور   " برفی اور سر کی مالش " سنایا -

بوڑھے کے بعد جناب ظہیر قندیل نے، اپنا ہنستا مسکراتا  مضمون سنایا ۔ 
 
ظہیر قندیل کے بعد نئے ممبر اعجاز جعفری صاحب نے بھی   قہقہو ں کی برسات شروع کر دی -

 محترمہ حبیبہ طلعت  نے بھی محفل  کو قہقہوں اور مسکراہٹوں کی طرف لے گئیں  ۔


 آصف صاحب  ،  بمبئی ، دلی  ،  حیدرآبادی     دے لبریز انواع و اقسام  کے دسترخوان کی وسعت سے بوڑھا  تو کیا کئی احباب لطف اُٹھا چکے ہیں - لہذا  اِس بار بھی  سب نے خوب لطف اٹھایا ۔

اور یوں بوڑھے کو احسان بار کرکے ،     زعفرانی دوستوں  کی قہقہہ آور محفل کی یادوں کے خزانوں کے ساتھ  احباب نے دعاؤں کے ساتھ  رخصت کیا اور بوڑھا رات 11 بجے ، بڑھیا کے ساتھ اسلام آباد نئے ائرپورٹ پر پہنچ گیا -

(مبصّر -  بقلم خود)
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔