ننکانہ صاحب میں ابا کی پوسٹنگ ہوئی . چھوٹی سی خوبصورت آفیسرز کالونی تھی جس میں تمام ایک سے ڈیزائن کے گھر پہلو بہ پہلو ایستادہ تھے. ہمارا گھر قطار میں پہلا تھا یعنی کارنر پلاٹ . ان گھروں کے سامنے ہرے بھرے کھیت تھے . جن میں کہیں کہیں اکا دکا درخت کھڑے ہوتے. گھر اور سامنے کے کھیتوں کے درمیان صاف نہری پانی کا ایک کھالا بہتا .گھروں کے عقب میں وسیع میدان تھا جس میں بڑے بڑے گڑھے پڑے تھے . یہ گڑھے اینٹیں بنانے کے لیے مٹی نکالنے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے. اسی میدان کے پرلے کنارے اینٹوں کا بھٹا تھا جس کے عقب میں بھٹا مزدوروں کی جھونپڑیاں ہوتی تھیں. ہمیں عام طور پر اس طرف جانے کی اجازت نہ تھی۔
گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک بائیں طرف ذرا آگے جا کر دائیں ہاتھ مڑتی اور نیم قصباتی کیفیت کے حامل شہر کی طرف بڑھ جاتی. یہ شہر سکھوں کے مقدس گردواروں کی وجہ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے . اس سڑک کے دائیں ہاتھ پر مالٹوں کا باغ تھا اور بائیں ہاتھ پر آٹا اور گندم پیکنگ فیکٹری تھی. اس طرف بھی ہم کم ہی جاتے.
ننکانہ صاحب پہنچنے کے پہلے روز ، ہمارے ہم عمر لڑکا اور لڑکی ساتھ والے گھر سے ہمارے گھر آئے . امی سے ملے اور کہنے لگے آنٹی ہم آپ کے ساتھ والے گھر سے آئے ہیں امی کہہ رہی ہیں آپ تھکے ہوں گے اور سامان بھی سیٹ کرنا ہوگا سو آپ کا کھانا ہماری طرف سے آ جائے گا آپ آرام سے باقی کام سمیٹ لیں. جو اصحاب ٹرانسفرز کے عادی ہیں وہی اس دعوت شیراز کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں. دوپہر میں مزیدار گھر کا بنا کھانا آ گیا جس سے خوب انصاف کیا گیا. برتن واپس کرنے کے لیے میں اور بھیا گئے. یہ انکل شاہ ،آنٹی سیدہ اور ان کے تین بچوں سے ہماری پہلی ملاقات تھی. یہ خوبصورت اور خوب سیرت خاندان اہل تشیع سید ہیں. آنٹی ہمیں آواز دیتیں بچو ٹھوٹھیاں کھا لو اور ہم بھاگے جاتے. ٹھنڈی ٹھار گیلی سرخ مٹی کی ٹھوٹھیاں میں جمی برف سی سفید میٹھی کھیر سے تو محبت پونی ہی تھی اس کھیر کے بنانے والوں سے آج بھی ایسی انسیت ہے جیسی اپنے والدین سے ہوتی ہے. ان تینوں بچوں سے بچپن کی بےفکر دوستی اور انسیت ویسی ہی ہے جیسی اپنے ماں جائے ہوں. اسی گھر سے اہل تشیع کا حسن جانا اور اس خاندان کی اہل بیت سے محبت کا مشاہدہ کیا. دونوں طرف کے ابو اور ڈیڈی بہترین دوست ٹھہرے .مائیں جلد ہی گہری سہیلیاں بن گئیں .ہم عمر بچے دوست ہوئے . لڑکیاں اکٹھے تختی مارکہ گورنمنٹ سکول میں جایا کرتیں. میں درجہ چہارم میں تھی اور آنٹی فاخرہ کی بڑی بیٹی درجہ پنجم میں . آنٹی کا بڑا بیٹا بھی چہارم میں اور چھوٹا منا میرے چھوٹے بھیا کی طرح سکول نہیں جاتا تھا. یہ دونوں چھوٹے کاکے تمام دن کبھی اس گھر اور کبھی اس گھر گھومتے پائے جاتے اور اگر گھروں میں نہ ملتے تو گھر کے سامنے بہتے کھالے سے ننھے ننھے مینڈک کے بچے پکڑا کرتے۔ دو ہاتھوں کی پاکٹ سی بنا کر مینڈکوں کو گھر لے آتے جنہیں بعد میں ہم پر اچھال کر ہمیں ڈرایا کرتے۔
انگریزی میڈیم سکول سے ٹرانسفر ہو کر اردو تختی مارکہ سکول جس کی مس ، استانی کہلاتیں اور پنجابی میں اردو پڑھایا کرتیں ۔ایسی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ، انکل نور حسین شاہ صاحب کے مشورے سے ابا نے ایک پرائمری سکول ٹیچر ،محترم جناب سر نسیم صاحب سے بات کی اور یوں وہ شام کے وقت ہمیں ٹیوشن پڑھانے کے لیے آنے لگے."مار نہیں پیار" تو بعد کی بات ہے. مجھے ابا اور سر نسیم کا مکالمہ یاد ہے ابا نے ہمیں سر کے حوالے کرتے ہوئے کہا
" سر کھال آپ کی ہے۔ہڈی میری ہے"
اس جملے کے بعد آنے والے دن خاصے سخت ثابت ہوئے. مولا بخش تو پرائمری اسکول کے اساتذہ کا اصولی ساتھی ہوتا تھا. جس کو ہاتھ میں پکڑنے کی ان کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اگر کبھی کہیں اس اس کے بغیر جانا پڑے تو انہیں اپنا آپ ادھورا لگتا ہو گا. والدہ نے ہمیں سمجھا رکھا تھا کہ سر کے ساتھ ایک صوفے پر نہیں بیٹھنا . اس لیے ہماری کرسیاں صوفے کے مقابل درمیانی میز کے دوسری طرف ہوتیں. عموما کتاب پر الفاظ کی نشاندہی کے لیے بھی مولابخش کی نوک استعمال ہوتی اور کتاب پر جھکے ہمارے سر سے جڑی ریڑھ کی ہڈی میں مولابخش کی پہلی دید سے ہی پھریری دوڑ جایا کرتی.
لیکن مولا بخش ہی واحد تعلیمی ہتھیار نہ تھا. یہ صرف پہلا ہتھیار تھا. سرکنڈے سے بنا قلم یا پنج پہلو پیلا پیانو بال پوائنٹ دو انگلیوں کے درمیانی جوڑ کے درمیان دبا کر انگلیوں کے ناخن والے سرے دبا کر پکڑ لیے جاتے اور قلم کو یوں گھمایا جاتا جیسے کیسٹ کی ریل ٹائٹ کی جا رہی ہو . قلم گھومتا تھا اور اذیت ناک درد کے ساتھ انگلیاں سرخ ہوتی جاتیں. لگتا ابھی ٹوٹی کہ تبھی. لیکن ٹوٹی کبھی نہیں. ٹوٹ جاتیں تو سر استاد نہ کہلاتے پولیس کے حوالاتی ڈرائنگ روم کے تفتیشی افسر کہلاتے. بس ان دو عہدوں میں اتنا فرق ہے کہ ہڈی توڑ دینے والا "نالائق" پولیس میں اور ہڈی بچا کر تشدد کر سکنے والا "ماہر" پرائمری اسکول کا ٹیچر بھرتی ہو جایا کرتا تھا۔
مثل مشہور ہے کہ پرائمری اسکول ٹیچر کی مار ہاتھی سے بھی چوہا ہونے کا اقرار کروا سکتی ہے. اور جہاں سی آئی اے موساد یا را ،کی تفتیش ناکام ہو جائے وہاں پاکستانی پرائمری اسکول ٹیچر کی پانچ منٹ کی تفتیش سارے راز اگلوا سکتی ہے . ہم بےچارے بھلا کس کھیت کی مولی تھے۔
تیسرا ہتھیار چمڑے کا کھسہ نما جوتا تھا جس کا تلوا بھی لچکدار ربڑ اور چمڑے کے ملاپ سے تیار کیا جاتا یا جوتا پنجے کی طرف سے بوٹ نما اور ایڑھی کی طرف سے چپل ہوتا اور " پولا " کہلاتا . سرخی مائل براؤن رنگ کا یہ جوتا استاد کے جوتے کی حیثیت سے بصد احترام سر آنکھوں پر لیکن اس پولےکی چوٹ بڑی ظالم تھی. جہاں پڑتا یونہی لگتا کہ جلد اتر گئی ہے اور گرما گرم مرچیلی سرخی نمودار ہوتی جو بالکل ایسی حساس ہوتی جیسے متاثرہ جگہ جل گئی ہو. ایسا نہیں تھا کہ ہم ایسے تابعدار شاگرد تھے جو چپ کر کے مار کھا لیتے . ہائے وائے، سی سی، تو کرتے ہی تھے اور اونچی آواز میں کیا کرتے کہ گھر کے اندر کچن میں مصروف امی تک آواز چلی جائے. لیکن امی بھی ابا کی بات کا ایسا احترام کرتیں کہ مجال ہے کبھی ایسے وقت میں ڈرائینگ روم میں داخل ہوں ہاں خاموشی چھانے کے بعد سر کے لیے چائے اور ہمارے لیے شربت بھجوا دیا کرتیں. ملازم چائے کی ٹرے لے کر اندر آتا تو کھلے دروازے سے ہمارے حالات کا جائزہ لیتیں کہ اب ٹیوشن کے بعد کس بچے کو کتنا بہلانا اور کسے کتنی ٹکور کرنی پڑے گی. ساتھ ہی ساتھ ہماری آنسو بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنا چہرا ایسے سخت بنا لیا کرتیں کہ ہمیں سر کی شکایت لگانے کی ہمت ہی نہ رہتی. لیکن راتوں کو جب ذرا نیند میں کسمساتی آنکھ کھولتی تو امی کو ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نہ کسی کی ٹکور کرتے پاتی۔
ایک روز حساب کا سوال حل کرنے میں غلطی پر میری" پولا افزائی" ہو رہی تھی۔بہن بھائی چونکہ اس وقت سزا یافتگان میں شامل نہ تھے ،سو وہ بھی اس پولا افزائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے. اپنی غلطی کو مجھے تسلیم کرنے سے انکار تھا کیونکہ میں سر کی لکھائی سمجھ نہیں پائی تھی جو سمجھا تھا اس کے مطابق سوال درست حل کیا تھا. لیکن سر میرے بحث کرنے پر مزید سیخ پا ہو رہے تھے. اکیلے پن کی کیفیت اور خود کو غلط نہ سمجھنے پر اصرار مجھے باغی کر رہا تھا .جو سر کو مزید غیض میں مبتلا کر رہا تھا .اس روز استادانہ تشدد کا اگلا لیول دیکھا۔
دورانِ مار، ابا ڈرائینگ روم کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے. ڈیوٹی سے جلد واپسی ہو گئی تھی یا تشدد کا دورانیہ طویل ہونے کی وجہ سے ابا کی واپسی کا وقت ہو گیا تھا. بہرحال میرے اندر کی بغاوت، بہن بھائیوں کی چھیڑ چھاڑ اور استاد کی مار نے مجھے حوصلہ دیا .امید بھی تھی . کہ ابا کی لاڈلی ہوں .میری جان بخشی کروائینگے. بلکہ آب تو سر کو ڈانٹ پڑتے دیکھنا چاہتی تھی . میں ابا سے سر کی شکایت لگا بیٹھی.
"ابو جی دیکھیں اتنی سی غلطی ہوئی تھی اور سر اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں"۔
سر بھی سہم سے گئے تھے کہ آج تو خیر نہیں شاید درانی صاحب کو برا لگے . ابا کا رسپانس میرے لیے اس وقت مایوس کن تھا،اور سر کے لیے حوصلہ افزا. ابا نے مجھے جواب نہیں دیا بلکہ سر سے کہا ،
" سر اس نے آپ کی شکایت کیسے لگائی ہے اسے اور سزا دیں " ۔
سر کِھل سے گئے اور میں مرجھا سی گئی۔
سر نے میرے بڑے بھیا سے گھر سے ایک رسی لانے کا کہا. بھیا نے امی سے ڈوری مانگی. امی نے وجہ پوچھی تو بس اتنا جواب دیا ،
" سر منگوا رہے ہیں !"
امی نے اسٹور سے ڈوری نکال کر تھما دی. ڈرائینگ روم میں ، میں مولا بخش کے بعد پولے کے نشانے پر تھی. کہ ڈوری آ گئی. اب سر نے میرے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں پر اس طرح رکھوائے کہ دایاں ہاتھ بائیں کندھے پر اور بایاں دائیں پر. بھیا سے میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے پکڑ کر رکھنے کو کہا اور ڈوری سے کس کر میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے باندھ دیے. فورا سے تو کچھ نہ ہوا زرا دیر میں مسلسل کھنچاؤ سے کندھے کے جوڑ سے اکھڑنے والے ہو گئے..
سر نے جانے سے پہلے میرے بہن بھائیوں کو میری رسی کھولنے سے منع کیا. اسی دم گھوٹتی درد سے بےحال حالت میں امی کے پاس پہنچی . امی نے میری جان رسی سے چھڑوائی ،بہن بھائیوں کو ڈانٹا ،
" تم لوگوں نے بہنا کا خیال نہیں کیا"۔
ابا سے گلہ کیا تو ابا کا جواب تھا.
"آج اگر میں رابعہ کو حوصلہ دیتا تو تمام عمر میرے بچے میرے دیے غلط حوصلے کی وجہ سے استاد کی عزت نہ کرتے . میں مانتا ہوں کہ بچی کی غلطی کی سزا بڑی تھی لیکن استاد کی شکایت کر کے اس نے بڑی غلطی کر لی تھی"۔
امی نے اپنے طور پر سر کو سمجھا دیا تھا کہ بیٹیوں پر اتنی سختی نامناسب ہے۔
سر نے بھی بعد میں ہاتھ ہولا ہی رکھا . بہت مشکل سے بہت عرصے بعد ابا کا یہ سبق سمجھ پائی۔
کئی ٹرانسفرز اور کتنے ہی سالوں کے بعد جب میرے ابا کی وفات کی خبر ٹی وی پر سن کر سر نسیم اپنی بیٹی کے ساتھ ابو کے جنازے پر ہمارے گھر تعزیت کے لیے آئے. اس روز ان کی زبان پر ابا کی تعریفیں تھیں اور اپنی بیٹی کو پڑھنے کی تلقین وہ میری مثالیں دے کر کہا ۔
"دیکھو میری شاگرد ڈاکٹر بن گئی ہے . دیکھو تم بھی رابعہ کی طرح پڑھو"۔
نومبر 12 میں ابا کو دنیا سے پردہ کئے آٹھ سال مکمل ہو جائیں گے۔
سر نسیم سے تبھی ملاقات ہوئی تھی. اللہ سے امید ہے کہ سر ابھی صحت مند اور مقید حیات ہوں۔
اگر ننکانہ صاحب کا کوئی قاری اس تحریر کو پڑھ رہا ہے اور سر تک میرا سلام پہنچا سکتا ہے تو پلیز میرا شکریہ اور سلام ان تک پہنچا دے ۔
سر ،کی " پولا فیکیشن " نے میری ڈاکٹری کی بنیاد بہت مضبوطی سے بھری ہے .
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک بائیں طرف ذرا آگے جا کر دائیں ہاتھ مڑتی اور نیم قصباتی کیفیت کے حامل شہر کی طرف بڑھ جاتی. یہ شہر سکھوں کے مقدس گردواروں کی وجہ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے . اس سڑک کے دائیں ہاتھ پر مالٹوں کا باغ تھا اور بائیں ہاتھ پر آٹا اور گندم پیکنگ فیکٹری تھی. اس طرف بھی ہم کم ہی جاتے.
ننکانہ صاحب پہنچنے کے پہلے روز ، ہمارے ہم عمر لڑکا اور لڑکی ساتھ والے گھر سے ہمارے گھر آئے . امی سے ملے اور کہنے لگے آنٹی ہم آپ کے ساتھ والے گھر سے آئے ہیں امی کہہ رہی ہیں آپ تھکے ہوں گے اور سامان بھی سیٹ کرنا ہوگا سو آپ کا کھانا ہماری طرف سے آ جائے گا آپ آرام سے باقی کام سمیٹ لیں. جو اصحاب ٹرانسفرز کے عادی ہیں وہی اس دعوت شیراز کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں. دوپہر میں مزیدار گھر کا بنا کھانا آ گیا جس سے خوب انصاف کیا گیا. برتن واپس کرنے کے لیے میں اور بھیا گئے. یہ انکل شاہ ،آنٹی سیدہ اور ان کے تین بچوں سے ہماری پہلی ملاقات تھی. یہ خوبصورت اور خوب سیرت خاندان اہل تشیع سید ہیں. آنٹی ہمیں آواز دیتیں بچو ٹھوٹھیاں کھا لو اور ہم بھاگے جاتے. ٹھنڈی ٹھار گیلی سرخ مٹی کی ٹھوٹھیاں میں جمی برف سی سفید میٹھی کھیر سے تو محبت پونی ہی تھی اس کھیر کے بنانے والوں سے آج بھی ایسی انسیت ہے جیسی اپنے والدین سے ہوتی ہے. ان تینوں بچوں سے بچپن کی بےفکر دوستی اور انسیت ویسی ہی ہے جیسی اپنے ماں جائے ہوں. اسی گھر سے اہل تشیع کا حسن جانا اور اس خاندان کی اہل بیت سے محبت کا مشاہدہ کیا. دونوں طرف کے ابو اور ڈیڈی بہترین دوست ٹھہرے .مائیں جلد ہی گہری سہیلیاں بن گئیں .ہم عمر بچے دوست ہوئے . لڑکیاں اکٹھے تختی مارکہ گورنمنٹ سکول میں جایا کرتیں. میں درجہ چہارم میں تھی اور آنٹی فاخرہ کی بڑی بیٹی درجہ پنجم میں . آنٹی کا بڑا بیٹا بھی چہارم میں اور چھوٹا منا میرے چھوٹے بھیا کی طرح سکول نہیں جاتا تھا. یہ دونوں چھوٹے کاکے تمام دن کبھی اس گھر اور کبھی اس گھر گھومتے پائے جاتے اور اگر گھروں میں نہ ملتے تو گھر کے سامنے بہتے کھالے سے ننھے ننھے مینڈک کے بچے پکڑا کرتے۔ دو ہاتھوں کی پاکٹ سی بنا کر مینڈکوں کو گھر لے آتے جنہیں بعد میں ہم پر اچھال کر ہمیں ڈرایا کرتے۔
انگریزی میڈیم سکول سے ٹرانسفر ہو کر اردو تختی مارکہ سکول جس کی مس ، استانی کہلاتیں اور پنجابی میں اردو پڑھایا کرتیں ۔ایسی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ، انکل نور حسین شاہ صاحب کے مشورے سے ابا نے ایک پرائمری سکول ٹیچر ،محترم جناب سر نسیم صاحب سے بات کی اور یوں وہ شام کے وقت ہمیں ٹیوشن پڑھانے کے لیے آنے لگے."مار نہیں پیار" تو بعد کی بات ہے. مجھے ابا اور سر نسیم کا مکالمہ یاد ہے ابا نے ہمیں سر کے حوالے کرتے ہوئے کہا
" سر کھال آپ کی ہے۔ہڈی میری ہے"
اس جملے کے بعد آنے والے دن خاصے سخت ثابت ہوئے. مولا بخش تو پرائمری اسکول کے اساتذہ کا اصولی ساتھی ہوتا تھا. جس کو ہاتھ میں پکڑنے کی ان کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اگر کبھی کہیں اس اس کے بغیر جانا پڑے تو انہیں اپنا آپ ادھورا لگتا ہو گا. والدہ نے ہمیں سمجھا رکھا تھا کہ سر کے ساتھ ایک صوفے پر نہیں بیٹھنا . اس لیے ہماری کرسیاں صوفے کے مقابل درمیانی میز کے دوسری طرف ہوتیں. عموما کتاب پر الفاظ کی نشاندہی کے لیے بھی مولابخش کی نوک استعمال ہوتی اور کتاب پر جھکے ہمارے سر سے جڑی ریڑھ کی ہڈی میں مولابخش کی پہلی دید سے ہی پھریری دوڑ جایا کرتی.
لیکن مولا بخش ہی واحد تعلیمی ہتھیار نہ تھا. یہ صرف پہلا ہتھیار تھا. سرکنڈے سے بنا قلم یا پنج پہلو پیلا پیانو بال پوائنٹ دو انگلیوں کے درمیانی جوڑ کے درمیان دبا کر انگلیوں کے ناخن والے سرے دبا کر پکڑ لیے جاتے اور قلم کو یوں گھمایا جاتا جیسے کیسٹ کی ریل ٹائٹ کی جا رہی ہو . قلم گھومتا تھا اور اذیت ناک درد کے ساتھ انگلیاں سرخ ہوتی جاتیں. لگتا ابھی ٹوٹی کہ تبھی. لیکن ٹوٹی کبھی نہیں. ٹوٹ جاتیں تو سر استاد نہ کہلاتے پولیس کے حوالاتی ڈرائنگ روم کے تفتیشی افسر کہلاتے. بس ان دو عہدوں میں اتنا فرق ہے کہ ہڈی توڑ دینے والا "نالائق" پولیس میں اور ہڈی بچا کر تشدد کر سکنے والا "ماہر" پرائمری اسکول کا ٹیچر بھرتی ہو جایا کرتا تھا۔
مثل مشہور ہے کہ پرائمری اسکول ٹیچر کی مار ہاتھی سے بھی چوہا ہونے کا اقرار کروا سکتی ہے. اور جہاں سی آئی اے موساد یا را ،کی تفتیش ناکام ہو جائے وہاں پاکستانی پرائمری اسکول ٹیچر کی پانچ منٹ کی تفتیش سارے راز اگلوا سکتی ہے . ہم بےچارے بھلا کس کھیت کی مولی تھے۔
تیسرا ہتھیار چمڑے کا کھسہ نما جوتا تھا جس کا تلوا بھی لچکدار ربڑ اور چمڑے کے ملاپ سے تیار کیا جاتا یا جوتا پنجے کی طرف سے بوٹ نما اور ایڑھی کی طرف سے چپل ہوتا اور " پولا " کہلاتا . سرخی مائل براؤن رنگ کا یہ جوتا استاد کے جوتے کی حیثیت سے بصد احترام سر آنکھوں پر لیکن اس پولےکی چوٹ بڑی ظالم تھی. جہاں پڑتا یونہی لگتا کہ جلد اتر گئی ہے اور گرما گرم مرچیلی سرخی نمودار ہوتی جو بالکل ایسی حساس ہوتی جیسے متاثرہ جگہ جل گئی ہو. ایسا نہیں تھا کہ ہم ایسے تابعدار شاگرد تھے جو چپ کر کے مار کھا لیتے . ہائے وائے، سی سی، تو کرتے ہی تھے اور اونچی آواز میں کیا کرتے کہ گھر کے اندر کچن میں مصروف امی تک آواز چلی جائے. لیکن امی بھی ابا کی بات کا ایسا احترام کرتیں کہ مجال ہے کبھی ایسے وقت میں ڈرائینگ روم میں داخل ہوں ہاں خاموشی چھانے کے بعد سر کے لیے چائے اور ہمارے لیے شربت بھجوا دیا کرتیں. ملازم چائے کی ٹرے لے کر اندر آتا تو کھلے دروازے سے ہمارے حالات کا جائزہ لیتیں کہ اب ٹیوشن کے بعد کس بچے کو کتنا بہلانا اور کسے کتنی ٹکور کرنی پڑے گی. ساتھ ہی ساتھ ہماری آنسو بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنا چہرا ایسے سخت بنا لیا کرتیں کہ ہمیں سر کی شکایت لگانے کی ہمت ہی نہ رہتی. لیکن راتوں کو جب ذرا نیند میں کسمساتی آنکھ کھولتی تو امی کو ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نہ کسی کی ٹکور کرتے پاتی۔
ایک روز حساب کا سوال حل کرنے میں غلطی پر میری" پولا افزائی" ہو رہی تھی۔بہن بھائی چونکہ اس وقت سزا یافتگان میں شامل نہ تھے ،سو وہ بھی اس پولا افزائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے. اپنی غلطی کو مجھے تسلیم کرنے سے انکار تھا کیونکہ میں سر کی لکھائی سمجھ نہیں پائی تھی جو سمجھا تھا اس کے مطابق سوال درست حل کیا تھا. لیکن سر میرے بحث کرنے پر مزید سیخ پا ہو رہے تھے. اکیلے پن کی کیفیت اور خود کو غلط نہ سمجھنے پر اصرار مجھے باغی کر رہا تھا .جو سر کو مزید غیض میں مبتلا کر رہا تھا .اس روز استادانہ تشدد کا اگلا لیول دیکھا۔
دورانِ مار، ابا ڈرائینگ روم کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے. ڈیوٹی سے جلد واپسی ہو گئی تھی یا تشدد کا دورانیہ طویل ہونے کی وجہ سے ابا کی واپسی کا وقت ہو گیا تھا. بہرحال میرے اندر کی بغاوت، بہن بھائیوں کی چھیڑ چھاڑ اور استاد کی مار نے مجھے حوصلہ دیا .امید بھی تھی . کہ ابا کی لاڈلی ہوں .میری جان بخشی کروائینگے. بلکہ آب تو سر کو ڈانٹ پڑتے دیکھنا چاہتی تھی . میں ابا سے سر کی شکایت لگا بیٹھی.
"ابو جی دیکھیں اتنی سی غلطی ہوئی تھی اور سر اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں"۔
سر بھی سہم سے گئے تھے کہ آج تو خیر نہیں شاید درانی صاحب کو برا لگے . ابا کا رسپانس میرے لیے اس وقت مایوس کن تھا،اور سر کے لیے حوصلہ افزا. ابا نے مجھے جواب نہیں دیا بلکہ سر سے کہا ،
" سر اس نے آپ کی شکایت کیسے لگائی ہے اسے اور سزا دیں " ۔
سر کِھل سے گئے اور میں مرجھا سی گئی۔
سر نے میرے بڑے بھیا سے گھر سے ایک رسی لانے کا کہا. بھیا نے امی سے ڈوری مانگی. امی نے وجہ پوچھی تو بس اتنا جواب دیا ،
" سر منگوا رہے ہیں !"
امی نے اسٹور سے ڈوری نکال کر تھما دی. ڈرائینگ روم میں ، میں مولا بخش کے بعد پولے کے نشانے پر تھی. کہ ڈوری آ گئی. اب سر نے میرے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں پر اس طرح رکھوائے کہ دایاں ہاتھ بائیں کندھے پر اور بایاں دائیں پر. بھیا سے میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے پکڑ کر رکھنے کو کہا اور ڈوری سے کس کر میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے باندھ دیے. فورا سے تو کچھ نہ ہوا زرا دیر میں مسلسل کھنچاؤ سے کندھے کے جوڑ سے اکھڑنے والے ہو گئے..
سر نے جانے سے پہلے میرے بہن بھائیوں کو میری رسی کھولنے سے منع کیا. اسی دم گھوٹتی درد سے بےحال حالت میں امی کے پاس پہنچی . امی نے میری جان رسی سے چھڑوائی ،بہن بھائیوں کو ڈانٹا ،
" تم لوگوں نے بہنا کا خیال نہیں کیا"۔
ابا سے گلہ کیا تو ابا کا جواب تھا.
"آج اگر میں رابعہ کو حوصلہ دیتا تو تمام عمر میرے بچے میرے دیے غلط حوصلے کی وجہ سے استاد کی عزت نہ کرتے . میں مانتا ہوں کہ بچی کی غلطی کی سزا بڑی تھی لیکن استاد کی شکایت کر کے اس نے بڑی غلطی کر لی تھی"۔
امی نے اپنے طور پر سر کو سمجھا دیا تھا کہ بیٹیوں پر اتنی سختی نامناسب ہے۔
سر نے بھی بعد میں ہاتھ ہولا ہی رکھا . بہت مشکل سے بہت عرصے بعد ابا کا یہ سبق سمجھ پائی۔
کئی ٹرانسفرز اور کتنے ہی سالوں کے بعد جب میرے ابا کی وفات کی خبر ٹی وی پر سن کر سر نسیم اپنی بیٹی کے ساتھ ابو کے جنازے پر ہمارے گھر تعزیت کے لیے آئے. اس روز ان کی زبان پر ابا کی تعریفیں تھیں اور اپنی بیٹی کو پڑھنے کی تلقین وہ میری مثالیں دے کر کہا ۔
"دیکھو میری شاگرد ڈاکٹر بن گئی ہے . دیکھو تم بھی رابعہ کی طرح پڑھو"۔
نومبر 12 میں ابا کو دنیا سے پردہ کئے آٹھ سال مکمل ہو جائیں گے۔
سر نسیم سے تبھی ملاقات ہوئی تھی. اللہ سے امید ہے کہ سر ابھی صحت مند اور مقید حیات ہوں۔
اگر ننکانہ صاحب کا کوئی قاری اس تحریر کو پڑھ رہا ہے اور سر تک میرا سلام پہنچا سکتا ہے تو پلیز میرا شکریہ اور سلام ان تک پہنچا دے ۔
سر ،کی " پولا فیکیشن " نے میری ڈاکٹری کی بنیاد بہت مضبوطی سے بھری ہے .
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں