وہ بھی کیا دن تھے جب میرا گھر ہنسی مذاق اور لڑائی جھگڑے کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ہر طرف بکھری ہوئی چیزیں ۔ ۔ ۔
بستر پر پنسلوں اور کتابوں کا ڈھیر ۔ ۔ ۔
پورے کمرے میں پھیلے ہوئے کپڑے۔
جوتا یہاں تو جراب وہاں ۔ ۔ ۔
میرا پورا دن ان کو کمرہ صاف کرنے اور چیزیں سلیقے سے رکھنے کے لیے بچوں کو ڈانٹنے میں گزرتا۔
صبح کے وقت بیٹی جاگتے ہی کہتی :
ماما مجھے ایک کتاب نہیں مل رہی!
بڑا بیٹا چیختا:
میرے جوتے کہاں ہیں؟ میں نے یہاں اتارے تھے ۔
دوسرا بیٹا رندھی آواز میں کہتا :
ماما میں ہوم ورک کرنا بھول گیا ۔ پلیز چھٹی کر لوں !
چھوٹی بیٹی منمناتی :
ماما میری ہوم ورک والی ڈائری!
ہر کوئی اپنا اپنا رونا رو رہا ہوتا۔
اور میں چیختی کہ آپ کی چیزوں کا خیال رکھنا میری ذمہ داری نہیں ۔ ۔ ۔
اب آپ بڑے ہو گئے ہو، خود سنبھالو! ذمہ داری کا احساس کرو ۔
میں کچن سے آوازلگاتی ۔
کتاب ، اپنی الماری میں دیکھو وہاں ہے ۔
جوتے ، میں نے پالش کرکے دروازے کے پاس رکھے ہیں وہاں سے لے لو ،
اور تم سکول جاؤ گے ، کیوں یاد نہیں رہا ہوم ورک کرنا ، کھیل میں زیادہ دھیان ہے۔
چھوٹی تم اپنی ڈائری ٹی وی کے اوپر دیکھو!
ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ لگا کر کہتی ۔
چلو ناشتہ کرو ، بس آنے والی ہے ۔ ڈرائیور ہارن پر ہارن بجا کر دماغ خراب کرے گا ۔
یہ روز کا معمول تھا معلوم نہیں 20 سال کیسے پلک جھپکتے گذر گئے ۔
آج میں ان کے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوں۔
بستر خالی ہیں. الماریوں میں صرف چند کپڑے ہیں۔
جو چیز باقی ہے، وہ ہے ان کی خوشبو۔
اور میں ان کی خوشبو محسوس کر کے اپنے خالی دل کو بھرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
اب صرف ان کے قہقوں، جھگڑوں اور منانے کے لئے ، میرے گلے لگنے کی یاد یں ہے۔
آج میرا گھر صاف ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے۔
یہ پرسکون، پرامن اور خاموش ہے ۔ ۔ ۔
زندگی سے خالی ایک صحرا کی طرح۔
وہ ان کا دروازے کھلے چھوڑ کر بھاگ جانا اور میرا چیختے رہنا کہ دروازے بند کرو۔
آج سب دروازے بند ہیں اور انہیں کھلا چھوڑ جانے والا کوئی نہیں۔
سب زندگی کے سفر میں پرندوں کے بچوں کی طرح اپنی منزل کی طرف اُڑ گئے ۔
بیٹیاں اپنے گھر کی ہوگئیں اور بیٹے ، ایک دوسرے شہر چلا گیا ہے اور دوسرا ملک سے باہر ملک۔ دونوں زندگی میں اپنا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہر بار وہ آتے ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ دن گزارتے ہیں۔ جاتے ہوئے جب وہ اپنے بیگ کھینچتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے میرا دل بھی ساتھ کھنچ رہا ہے۔
میں سوچتی ہوں کہ کاش میں ان کا یہ بیگ ہوتی تو ان کے ساتھ رہتی۔
لیکن پھر میں دعا کرتی ہوں کہ وہ جہاں رہیں آباد رہیں۔
اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو انہیں انجوائے کریں۔ ان کو گدگدائیں، ان کی معصوم حیرت کو شیئر کریں اور ان کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کا مداوا کریں۔
گھر گندا ہے، کمرے بکھرے ہیں اور دروازے کھلے ہیں تو رہنے دیں۔ یہ سب بعد میں بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن بچوں کے ساتھ یہ وقت آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا۔
بستر پر پنسلوں اور کتابوں کا ڈھیر ۔ ۔ ۔
پورے کمرے میں پھیلے ہوئے کپڑے۔
جوتا یہاں تو جراب وہاں ۔ ۔ ۔
میرا پورا دن ان کو کمرہ صاف کرنے اور چیزیں سلیقے سے رکھنے کے لیے بچوں کو ڈانٹنے میں گزرتا۔
صبح کے وقت بیٹی جاگتے ہی کہتی :
ماما مجھے ایک کتاب نہیں مل رہی!
بڑا بیٹا چیختا:
میرے جوتے کہاں ہیں؟ میں نے یہاں اتارے تھے ۔
دوسرا بیٹا رندھی آواز میں کہتا :
ماما میں ہوم ورک کرنا بھول گیا ۔ پلیز چھٹی کر لوں !
چھوٹی بیٹی منمناتی :
ماما میری ہوم ورک والی ڈائری!
ہر کوئی اپنا اپنا رونا رو رہا ہوتا۔
اور میں چیختی کہ آپ کی چیزوں کا خیال رکھنا میری ذمہ داری نہیں ۔ ۔ ۔
اب آپ بڑے ہو گئے ہو، خود سنبھالو! ذمہ داری کا احساس کرو ۔
میں کچن سے آوازلگاتی ۔
کتاب ، اپنی الماری میں دیکھو وہاں ہے ۔
جوتے ، میں نے پالش کرکے دروازے کے پاس رکھے ہیں وہاں سے لے لو ،
اور تم سکول جاؤ گے ، کیوں یاد نہیں رہا ہوم ورک کرنا ، کھیل میں زیادہ دھیان ہے۔
چھوٹی تم اپنی ڈائری ٹی وی کے اوپر دیکھو!
ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ لگا کر کہتی ۔
چلو ناشتہ کرو ، بس آنے والی ہے ۔ ڈرائیور ہارن پر ہارن بجا کر دماغ خراب کرے گا ۔
یہ روز کا معمول تھا معلوم نہیں 20 سال کیسے پلک جھپکتے گذر گئے ۔
آج میں ان کے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوں۔
بستر خالی ہیں. الماریوں میں صرف چند کپڑے ہیں۔
جو چیز باقی ہے، وہ ہے ان کی خوشبو۔
اور میں ان کی خوشبو محسوس کر کے اپنے خالی دل کو بھرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
اب صرف ان کے قہقوں، جھگڑوں اور منانے کے لئے ، میرے گلے لگنے کی یاد یں ہے۔
آج میرا گھر صاف ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے۔
یہ پرسکون، پرامن اور خاموش ہے ۔ ۔ ۔
زندگی سے خالی ایک صحرا کی طرح۔
وہ ان کا دروازے کھلے چھوڑ کر بھاگ جانا اور میرا چیختے رہنا کہ دروازے بند کرو۔
آج سب دروازے بند ہیں اور انہیں کھلا چھوڑ جانے والا کوئی نہیں۔
سب زندگی کے سفر میں پرندوں کے بچوں کی طرح اپنی منزل کی طرف اُڑ گئے ۔
ہر بار وہ آتے ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ دن گزارتے ہیں۔ جاتے ہوئے جب وہ اپنے بیگ کھینچتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے میرا دل بھی ساتھ کھنچ رہا ہے۔
میں سوچتی ہوں کہ کاش میں ان کا یہ بیگ ہوتی تو ان کے ساتھ رہتی۔
لیکن پھر میں دعا کرتی ہوں کہ وہ جہاں رہیں آباد رہیں۔
اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو انہیں انجوائے کریں۔ ان کو گدگدائیں، ان کی معصوم حیرت کو شیئر کریں اور ان کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کا مداوا کریں۔
گھر گندا ہے، کمرے بکھرے ہیں اور دروازے کھلے ہیں تو رہنے دیں۔ یہ سب بعد میں بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن بچوں کے ساتھ یہ وقت آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں