تو اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے دوستو !
اب ہم آگے چلتے ہیں ۔
بیداریءِ فکر کی پہلی منزل کی طرف جہاں بوڑھا ، آپ ہی کی طرح ایک ننھا مُنّا گوگو گاگا یا غوں غوں اور غاں غاں تھا ، خوشی میں ہاتھ اور پیر چلاتا تھا ۔ جس اُسے ملنے والی تعلیم (سوائے لکھنے او رپڑھنے کے ) باقی پانچوں حواسات سے اُس کے دماغ کی ھارڈ ڈسک میں،ہر پلک جھپکنے پر سیکنڈوں کے حساب سے تصویریں ، آوازیں اور کئی معلومات جمع کرتےجارہے تھے ۔
1-ناک میں گھسنےوالی مہک ۔
2۔جسم پر چھونے والے لمس ۔
3-سنائی دینے والی آوازیں ۔
4۔زبان سے حلق تک محسوس ہونے والے ہر منہ میں ڈالی جانے والی چیز کے ذائقے ۔
5۔ آنکھوں سے دماغ میں جانے والی ،ہر پلک جھپکنے پر سیکنڈوں کے حساب سے تصویریں ۔
یہ سب نمو کے دماغ میں لکھی جارہی تھیں اور یہ پانچوں بیرونی دنیا سے ملنے والی معلومات ، بوڑھے کے جسم حصوں ۔ناک ، کھال ،کان، زبان اور آنکھوں سے ، نمّو کے دماغ کی بلکل صاف تختی (ھارڈ ڈسک ) پر تحریر یعنی کتب ہو رہی تھیں، نمو جو اِن کا مرکز تھا ہے اور اپنی موت تک رہے گا اور یہ سب معلومات سب ایک دوسرے سے منسلک تھیں ۔
تو اُفق کے پار بسنے والے ، آج کے دن اِس دنیا میں آنکھیں کھولنے والے نمّو کے پیارے دوستو ۔
ذرا سوچیں کہ پہلا کردار تو نمّو خود ہوا اور دوسرا اہم کردار کون تھا ۔ جن کے درمیان اِن معلومات کا تبادلہ ہورہا تھا ؟
مشکل نہیں !
آئیں ایسا کرتے ہیں کہ نمّو کے ساتھ ، آپ اپنے اُس دور میں چلیں جہاں آپ کو آپ کے خالق نے نمّو ہی کی طرح آپ کو اِس دنیا میں بھیجا ۔
جاؤ بچے موج کرو !
بس یہ سوال یاد رکھنا : ۔ ۔ ۔ ۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۔ ۔ ۔ [7:172]
تمھارا جواب یہ ہی رہنا چاھئیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بَلَى شَهِدْنَا ۔ ۔ ۔ [7:172]
آسان لفظوں میں ۔ میرا ربّ ۔رَبِّ الْعَالَمِينَ ہے ۔ جو مجھے۔ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔تک پہنچا دے گا ۔ جس کی اہم صفات شَاهِدًا اور مُبَشِّرًا اور نَذِيرًا ہے اور وَكِيلاً و حَفِيظًا نہیں ۔ جن کا اکثر انسانوں کو علم نہیں کہ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ۔ کا کام صرف الْبَلاَغُ الْمُبِينُ ہے ۔
ہاں تو بوڑھا بتا رہا تھا کہ اِس فلم کی اہم کردار ۔نمّو کی امی تھیں ۔جس سے نمّو کو اُس کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا میں امن مل رہا تھا ۔ ہاں خوف کی لہر اُسے ضرور رُلاتی جب وہ بھوکا ہوتا یا گیلا ہوجاتا ۔ یاد آیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ۔ کیوں کہ سب اُمی بچوں کی تربیت اُن کی امی ہی کرتی ہیں ، جو ذہن کی صاف سلیٹ پر اپنی محبت کے نقش و نگار بکھیرتی ہیں ۔ کبھی ہنس کر اورکبھی اپنے بچے کو گدگداکر ۔یہ تمام سین بچے کے دماغ میں ریکارڈ ہورہے ہوتے ہیں ۔سوتے وقت یہ سین اُسے مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں کیوں کہ اُس کا اُس وقت مکمل تعلق اُس کی اندرونی دنیا سے جڑا ہوتا ہے ۔
جس میں پیار اور محبت کی دنیا آباد ہوتی ہے ۔ خوف اُسے چھو کر بھی نہیں گذرتا ۔ لیکن اُسے خوف سے تعارف جلد ہی ہوجاتا ہے ۔ یہ اُس کی بھوک و پیاس اور بستر میں اُس کا گیلا رہنا نہیں ہوتا بلکہ اُس کی بیرونی دنیا کی ایک ہستی ہوتی ہے ۔
جس کا تعارف شائد ماں کراتی ہے ۔ مت رو ،ورنہ بابا آجائے گا ۔گویا اُس کی پر امن زندگی میں اُس کے لئے خوف کا احساس پیدا کروادیا گیا ۔یہ خوف اُس نومولود کے امن کا قاتل ہے ۔
نمّو کو اچھی طرح یاد ہے کہ اُس سے بڑی بہن تھی او ر چھوٹا بھائی ۔ نمّو شاید ڈھائی سال تھا ، کھڑکی کے ساتھ رکھی ہوئی بنچ پر نمو چڑھا کہ باہر دیکھے ، کھڑکی کے ساتھ گذرنے والی سڑک پر بھیڑ بکریاں جا رہی تھیں ، نمو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا کہ اُسے کتا نظر آیا جو بھڑبکریوں سے تین چار گنا فاصلے پر تھا ۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا اور بنچ سے فرش پر گر کر بے ہوش ہوگیا ۔معلوم نہیں بھیڑ بکریوں سے لطف اندوز ہونے والا نمو ، اُن ہی کی طرح ایک جانور ، کتُے سے کیوں خوفزدہ ہوا ؟
یہ خوف کیسے اُس کے ذہن میں داخل ہوا یا کس نے اُس کے ذہن میں بٹھایا ؟
جس نے اُس کی زندگی کے امن و سکون کو ،خوف میں تبدیل کر دیا اور اُس کا پر امن سافٹ وئر تبدیل ہو گیا ۔
یہاں تک کے جب وہ اپنی امی ،ابو ، چچا ، بڑی بہن اور چھوٹے بھائی کے ساتھ 1955 کی گرمیوں کی چھٹیوں(مئی ، جون ،جولائی ) میں لاہور سے نوابشاہ پہنچا ۔تو ماموں کے "کالو "نامی گرانڈیل کتُّے کی وجہ سے وہ کمرے سے باہر نہیں نکلتا ۔ لیکن ماموں زاد بہن بھائیوں کے کتُّے کے ساتھ پیار کرنے اُسے گدگدانے اور کھیلنے کی وجہ سے، نمو کے ذہن سےبھی کتے کا خوف نکل گیا ۔یہ سب مناظر اُس کے دماغ میں پانچوں حواس سے فلم کی صورت میں جمع ہورہے تھے اور تصویر کے ساتھ منسلک ہوتے جارہے تھے ۔ اب معلوم نہیں کہ اِس دنیا میں پہلی بار اپنی موجودگی کا احساس دلوانے کے بعد نمو کے دماغ میں دادی کے گھر پہنچنے تک کتنے گھنٹے کی تصویریں ریکارڈ ہو چکی ہوں گی ۔کیا اُن کو ریوائینڈ کرکے دیکھا جا سکتا ہے ؟ کیوں نہیں بوڑھے کے فہم کے مطابق اُن کا ریموٹ کنٹرول آپ کے دماغ میں پوشیدہ ہے ، بس آفاقی بیٹری چارج کرنے کی ضرورت ہے ۔
بلکہ جو روزانہ کے حساب سے 70 ہزار سوچوں کے جو بلبلے ذہن میں بن رہے ہیں اُن کا کیا ہوگا؟
تو اُفق کے پار رہنے والے میرے پیارے دوستو !
دماغ میں جو وڈیو ریکارڈ ہو رہی ہے ۔ پانچوں حواس کی معلومات سے بن رہی ہے اور سوچوں کے جو بلبلےبن رہے ہیں وہ اِن حواسی معلومات سے خود بخود بن رہے ہیں ۔
آپ کی صبح صبح ، امی کی آواز سے یا گھڑی کے الارم سے یا کسی اور وجہ سے آنکھ کھلی ۔ اندازہً سوچوں کے کتنے بلبلے بنے ہوں گے ؟
علماءِ الابدان کے مطابق تقریباً 70ہزار سوچ کے" یعنی یا لایعنی " بلبلے بننےاوردماغ کے کسی خانے میں محفوظ ہوگئے ۔ وہ معلومات جو پانچوں حواس سے آپ کے دماغ میں پہنچی سوچ کا ایک بلبلہ نہیں بنائے گی ، اُس معلوم یا نامعلوم لہر نے بلبلوں کا ڈھیر جنم دیا ہوگا۔۔
ناشتہ بننے کی خوشبو ۔منہ میں پانی آنا۔گھڑی کی طرف دیکھنا اور ، آپ کے دیر سے پہنچنے پر خجالت کا گذشتہ منظر، سرزنش ، راستے کی طوالت ۔ راستے میں ملنے والے لوگ ، راستے سے گذرنے والے مناظر ، پرندوں ، جانوروں کی آوازیں ، پولیس کانسٹیبل کی وسل ۔سوچتے جائیں ۔ تو سوچ کے بلبلوں کا جم غفیر کے ذہن میں بن رہا ہوگا جو شاید پہلے سے موجود واقعے سے لنک ہوتا جائے گا ۔ اور آپ اُسے جھٹک دیں گے یہ کہہ کر۔ تو کیا ؟
اور پیارےدوستو ، رات کو آنکھیں بند کرکے نیند کی وادیوں میں کھونے سے پہلے ، کتنے بلبلے بنے ہوں گے نہیں معلوم نہ ؟؟
بتاتا ہوں ذرا ٹہریں ابھی تو وہ بلبلے باقی ہیں جو آپ کی بیرونی دنیا اور اندرونی دنیا سے تعلق رکھتے ہوئے آپ کو نیند کے جھولے پر خواب کی وادیوںمیں لے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ کی اندرونی دنیا کا آپ کی بیرونی دنیا سے مکمل رابطہ کٹ جاتا ہے ۔ اور آپ ۔ ۔ ۔ ۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۔ ۔ ۔ [7:172] کے مقامِ ہست (Being)کے زیرو پوائینٹ پر پہنچ جاتے ہو ۔
صبح یہ رابطہ جڑے یا نہ جڑے یہ آپ کے خالق (ہستی) کی مرضی ہے ۔ کیا سمجھے؟؟
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [39:42]
ہستی (اللہ) کیا ہے ؟
تمام وجود حیات کی لطیف تہوں کے نیچے دائرے میں پیچیدہ ,لیکن مطلق ہستی ہے، جو لاوجود ہے لیکن ماورائی ہے۔ یہ نہ توانائی ہے نہ مادہ۔ یہ خالص ہستی ہے، وجودِ خالص ہے۔ یہ خالص ہستی، تمام وجود کے نیچے پنہاں ہے۔ تمام اشیاء اس خالص وجود کااظہار ہے، جو تمام حیات کا اہم جزو ہے۔ ایک ابدی، لاوجود، مطلق ہستی،جو ہر تخلیق میں اپنے وجود کا اظہار کر رہی ہے۔
ہستی ہر جاہ موجود (Omani-presence)اور ”ہستی“ہر تخلیق کی حتمی حقیقت ہے اورتخلیق کی تمام پرتوں میں موجودہے۔یہ الفاظ، شامعہ (Smell) ، ذائقہ(Taste) ، لمسہ (Touch) ، تجربہ، حسِ اندازہ، عمل اعضاء ، تمام مظاہر ِعامل اور افعال نیز تمام سمت میں خو ش قسمتی سے موجود ہوتی ہے۔ یہ انسان کے سامنے، پشت پر، اس کے دائیں و بائیں، اوپر اور نیچے، یہاں تک کہ اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہر جگہ اور ہرحالت میں ”ہستی“ تخلیق کا اہم جزو ہے اور اس میں داخل ہے، خدا کی ہر جاہ موجودگی ان کے لئے ہے جو اسے سمجھتے ہیں، محسو س کرتے ہیں اور اسے اپنی زندگیوں میں زندہ رکھتے ہیں۔
ہستی کی پہچان اصل میں بیداریءِ فکر کا پہلا اور بنیادی جُزو ہے یہ اُس پیچیدہ اور طویل دھاگے کا سرا ہے ، جس کا کہیں راستے میں آپ کی حیات کا خاتمہ اور ہستی سے ارتکاز کے تعلق کی بتداء ہے ۔
اِس سے پہلے اپنی اندورنی دنیا کی پہچان !!
اگلا مضمون : اندرونی دنیا کی پہچان
٭٭٭٭مزیدمضامین پڑھنے کے لئے فہرست پر واپس جائیں ۔ شکریہ ٭٭٭٭
پچھلا مضمون : انسان۔ بچہ اور بیداریءِ فکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں