Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 30 ستمبر، 2021

انسان۔ بچہ اور بیداریِ فکر۔1

آفاقی سچائیاں ۔ انسان۔ بچہ اور بیداری ءِ فکر

تمہید۔

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے دوستو !۔
خالد مہاجر زادہ کا سفر 7 محرّم  ( 16 ستمبر)  1953 کو عصر کے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد اِس دنیا میں شروع ہوتا ہے(بوڑھے کے بچپن میں تواریخ ایسے یاد رکھی جاتی تھیں ) اور اللہ کا احسان ہے کہ اب تک جاری ہے ۔ 28 اگست 2021 کو تقریباً دوپہر 2:00 بجے کے بعد گھر کے ارد گرد  سوکھے پتوں کے  جلانے سے  دھوئیں سے پھیلی ہوئی مسموم فضاء  کی وجہ سے ،
68 سالہ بوڑھے کو اپنی آخری سالگرہ منانے سے 18 دن پہلے ، دمے کا حملہ کھانسی کی صورت میں شروع ہوا ۔جس کو وینٹولین کے بخارات بھی ختم نہ کرسکے ۔ نیبولائزر نے بھی شدت میں کمی نہ آنے دی ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ فضاء میں آکسیجن کم ہوتی جارہی ہے ۔ 2:45 منٹ پر بوڑھا اپسنے پھیپھڑوں پر پڑنے والے پیٹ کے دباؤ کی شدت کو کم کرنے کے لئے کھڑا ہوا ، تاکہ پھیپڑوں میں جانے ولی آکسیجن تھوڑی زیادہ ہوجائے ۔ بوڑھے کو شاید کھانسی سے پسینے آرہے تھے ۔ وہ بڑھیا کو ہدایات دینے ، بہو اور بڑی بیٹی کے سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ دو آیات دھرا رہا تھا ۔ جو کائینات میں سے بوڑھے کے ذہن میں ،سیاچین میں میت خانے میں پڑی ہوئی۔ جولائی 1993  میں ، کیپٹن شفیق آرٹلری (چکوال)اور برف میں دبنے والے 7 پنجاب رجمنٹ کے دو جوانوں کے اکڑے ہوئے جسموں کو دیکھتے ہوئے اُبھریں ۔

 اللّهُ لَا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [3:2]

پہلی آیت۔ بوڑھے کے ذہن میں اُس وقت بیدار ہوئی جب 11 مئی 1991 کو بوڑھے کا بیوی بچوں ، ساس و سسر اور سالے کے دو بچوں  کے ساتھ حیدر آباد سے میرپورخاص جانے والی سڑک پر  کوئی ڈھائی بجے کے لگ بھگ ہوا ۔اُس کے بعد سے   بوڑھے کی عادت  بن گئی ۔

پھر اِس میں ۔ والد کے اللہ کی امان میں جانے کے بعد ۔   دوسری آیت شامل ہو گئی ۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ [14:41]

  تیسری اور آخری آیت ۔جو بوڑھے کو 2000 میں ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد شفٹ   ہونے  پر، مذہبی   میٹنگزاور سوشل میڈیا کے ذریعے ،  قرآنی سوچ  پر پروان چڑھنے والے  دوستوں   کے  ، القرآن  اور غیر از قرآن فہم کے بعد  ملی  ۔

 مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا [33:40]

 اور بوڑھے  نے   کائینات کے خالق رب العالمین (یعنی  معلّم القرآن)    اور رحمت للعالمین  کے درمیا ن  ،کتاب اللہ (اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائینات) اور الکتاب (القرآن) کو رکھ کر ایک حتمی لکیر کھینچ دی کہ اِس  متوازی لائن کے باہر نہیں نکلنا ۔  کیوں کہ لَا إِلَـهَ إِلاَّ اللّهُ  کے درمیان  القرآن جس کو انسانوں تک  بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک پہنچانے کے بعد وہ     مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ   کے منصب پر سرفراز ہو کر  خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ قرار پائے ۔جس پر  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ نےآدھا عمل کیا

 ٭- کتاب اللہ (بوڑھا مرکز اور اُس کو حواسِ خمسہ سے ملنے والی تمام معلومات )   سے بوڑھے کے نفس کو انسان کا بچہ (الانعام نہیں)  رہنے پر مدد ملی   ۔ کیوں کہ آپ ہی کی طرح بوڑھے کے حواس خمسہ کا تعلق بیرونی دنیا سے ہے ۔ جس سے آپ کا اُس وقت رابطہ ختم ہوجاتا ہے ۔ جب آپ نیند کی آغوش یا بے ہوشی میں چلے جاتے ہیں ۔ 

گویا آپ کے اندر کی دنیا  اور آپ کے باہر کی دنیا جس کا مرکز آپ ہیں ، اور اِن دونوں دنیاؤں کے درمیان رابطہ آپ کے حواسِ خمسہ ۔جس کے بارے میں آگے چل کر بات ہوگی ۔

 ٭- القرآن ۔ روح القدّس (جبرائیل) نے مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين کو ، کائینات کے خالق کا ناقابلِ تبدیل حکم ، عربی میں قرءت کرکے صدیوں پہلےتاریخ کے مطابق  ۔اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ تک پہنچایا ۔

 جسے سے سننے والوں نے ، عربی میں ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين (القرآن کے پہلے حافظ ) تک  ایک تسلسل میں ،  حفظ کیا   ۔اور مسلسل حفظ کرتے آرہے ہیں ۔
 کسی ایک نے بھی، جی ہاں کسی ایک نے بھی، تاریخ کی کتابوں  سے نزول   القرآن ۔اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ تک حفظ  نہیں کیا ۔ 
یہ اللہ کے کلام کا حفظ،   جی ہاں ، عربی میں ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے   مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ  تک ،کرہءِ ارض پر انسانوں کے لئے  القرآن کہلایا جاتا  رہا  ۔القرآن  کہا جاتا ہے اور القرآن کہلایا جاتا رہے گا ۔اور ہمیشہ حفّاظ  ( اللہ کے منتخب انسانوں   کے دماغ کی ھارڈ  ڈسک میں  ) ناقابلِ تبدیل رہے گا کیوں کہ یہ ۔۔ ۔  ۔ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ ۔ ۔ ۔ [2:185]

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے پیارے    دوستو !۔

آپ سوچ رہے ہوگے کہ یہ ساری باتیں تو آپ کو بھی معلوم ہیں ، تو یہ بوڑھے کو کیا ہوا  ؟ 

کہ وہ ہمیں رٹّاا ہوا سبق پڑھانے چلا ہے ۔ 

دوستو ،میں آپ کو کوئی سبق نہیں پڑھا رھا  اور نہ ہی اِس بوڑھے کی یہ ہمت و طاقت ہے ۔ کہ کسی بھی انسان  کو  اُس کے دماغ میں موجود ، پڑھائے ہوئے سبق  مزید پڑھا سکے اور یا  تبدیل کر سکے ۔ جو آپ کے دماغوں میں ،حواسِ خمسہ کے ذریعے  مختلف  صفات کی صورت میں الفاظ کا فہم  بن کر ،   پیدائش کے بعد سے اب تک رقم ہو گیا وہ اَن مٹ ہے ۔ 

یہی اِس بوڑھے کا حال ہے ۔

 ہاں البتہ بوڑھا  بھی آپ ہی کی طرح  ،دماغ  کی ھارڈ ڈسک میں ، جمع ہونے والی مختلف صفات کا  اپنے ذہن میں تجزیہ کرکے اپنا ایک فہم بناتا رہتا ہے ۔  

بوڑھے کے نزدیک ہر انسان کا  دماغ ،  ایک ھارڈ ڈسک اور کتاب اللہ کا مرکز(بوڑھے کے  لئے  ، بوڑھے کا دماغ  جس کا مرکز ہے ، چنانچہ بوڑھے کے لئے کتاب اللہ ،بوڑھے کے باہر اور اندر کی دنیا  پر مشتمل مکمل ریکارڈ ہے )   ۔

لہذا بوڑھے کی ، کتاب اللہ  جو اُسے کے دماغ میں، پیدائش   پر ، حواسِ خمسہ کے بیدار ہونے  کے بعد     ،  حواسِ خمسہ سے  ہر سیکنڈ میں ملنے والی تمام معلومات  کا ریکارڈ کتابت ہو چکا ہے  اور ذہن کا کام حواسِ خمسہ سے دماغ  میں  کتابت ہوئی ،    اِن  تمام معلومات کو جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر ہر سیکنڈ  میں  میموری ( شعور) میں لا کر  تجزیہ کرنا اپنے ذہن میں نئی صفا ت بنانا     اور اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا  اور جسے واپس اپنے  دماغ میں دوبارہ محفوظ کر دینا یا  اُس میں اضافہ یا کمی کرکے محفوظ کر دینا ۔اور باقی تمام معلومات کو تحت الشعور میں ڈال دینا  ہے ۔آپ کا ماضی آپ کے تحت الشعور کا حصہ بنتا جا رہاہے ۔ اور آپ کا حال آپ کا شعور ہے ۔

 تحت الشعور اور شعور کے درمیان ربط  صرف اُن معلومات کو رہتا ہے  جن کو آپ  ایک مخصوص سائیکلک  لنک سے جوڑتے ہیں ۔ یہ سائیکلک لنک ، یاداشت کہلاتا ہے ۔ جو سوچ  کی زنجیر پر شعور میں آتا ہے ،اگر اُس معلومات کی آپ کو ضرورت نہیں رہتی تو وہ تحت الشعور میں  شعور سے دور جاتی رہتی ہے ۔   اگر  مہاجرزادہ ،  تصویر کی مدد سے سمجھائے  تو اِس طرح ہوگا ۔

یہ ایک برفانی تودہ ہے  جو گلیشیئر سے ٹوٹ کر سمندر میں تیرتا ہے ۔ اور جس کی ایک معمولی سے چوٹی اُس کا پتہ دیتی ہے ۔ آپ اِسے عارضی طور پر ایک دماغ سمجھیں  ۔ اور اِس کی سمندر سے اوپر تیرتی ہوئی سطح کو ذہن ۔ ذہن جس کا تعلق بیرونی دنیا سے ہے اور جو اندرونی دنیا کو اطلاعات دیتا ہے ۔ اِس میں شعور اور تحت الشعور کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 

آپ کے ذہن میں کوئی سوچ ابھرتی ہے ۔ جوباہر کی دنیا سے ملنے والے پیغام کے سہارے  تحت الشعور سے شعور میں آنے کی کوشش کرتی ہے مگر آپ کا یاداشت کا لنک ٹوٹا ہوا ہے ۔ لہذا آپ کے ذہن میں کہاں اور کب جیسی لہریں اُٹھتی ہیں ۔ 

لیکن یہ لہریں ، یوں سمجھیں کہ تحت الشعور سے اُٹھنے والے یہ  سوچ کے  چھوٹے چھوٹے بلبلے اندازہً  70 ہزار ہوتے  ہیں، جو روزانہ آپ کے ذہن  میں  بنتے ہیں ۔ یہ  اتنے ننھے کہ  سیکنڈوں میں معدوم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن آپ اِ ن بلبلوں کو آپس میں جوڑ کر تھوڑا سا بڑا کر لیں ۔ تو یہ تھوڑا اور اوپر  آجائے گا لیکن پھر بھی شعور کی گرفت میں نہیں آئے گا ۔

ویسے کیا واقعی آپ کے ذہن میں روزانہ 70 ہزار سوچ کے بلبلے جنم لیتے ہیں ؟
آپ بھی کہیں گے کہ مہاجرزادہ نے بہت بڑی گپ لگائی کیا ایسا ممکن ہے  ؟

شعور کی گرفت میں لانے کے لئے آپ اپنے سوچ کے بلبلے کو اتنا بڑا کر لیں کہ یہ تحت الشعور کی تہہ سے اُٹھے اور اُس سوچ کی بلبلوں کو کھینچتا ہوا ایک جوار بھاٹا کی صورت میں آکر  آپ کے شعور میں تمام معلومات اور جزئیات کے ساتھ آکر پھٹے اور وقتی طور پر پورے شعور پر چھا جائے ۔ اور بعض دفعہ تو وہ ننھا سا بلبلہ خود، اُسی قسم کے تمام بلبلوں کو دماغ سے کھینچ کر ، ایک جوار بھاٹا بن جاتا ہے ۔

اِسے بیداری ءِ فکر کہتے ہیں ۔ کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے ؟ 

نہیں نا ۔

لیکن ہو سکتا ہے !۔

مگر کیسے ؟
چلیں آگے بڑھتے ہیں اور اپنی  بیداری ءِ فکر کو ایک ایڑ لگائیں تاکہ وہ سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑنے لگے ۔

اگلا مضمون:   بچہ اور بیداریءِ فکر۔  


٭٭٭٭مزیدمضامین  پڑھنے کے لئے  فہرست پر واپس  جائیں ۔ شکریہ ٭٭٭٭


 پچھلا مضمون :زیرو  پوائینٹ سے آخری پوائینٹ تک 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔