اُفق کے پار بسنے والے ، خالد مہاجر زادہ کے دوستو !۔قلم کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ۔
آپ بھی پڑھیں :۔ شکریہ
سوال: کیا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق اب بیٹیاں یا انکے بچے اپنے حق وراثت سے محروم ہو جائیں گے؟
جواب : دو روز قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کم از کم پندرہ سے زائد دوستوں نے یہی سوال مختلف طریقوں سے پوچھا ہے. میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر ایک پوسٹ شئیر کر دی جائے. پہلے میں مختصراً اس دلچسپ کیس کا پس منظر سمجھانے کے کوشش کرتا ہوں۔
عیسیٰ خان نامی شخص نے سن 1935 میں اپنی تمام جائیداد اپنی زندگی میں ہی اپنے دونوں بیٹوں کے نام منتقل کر دی بیٹیوں کو کچھ بھی نہ دیا۔اس وقت عیسیٰ خان کی زندگی میں کسی بیٹی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
اب پچاس ساٹھ برس گزرنے کے بعد چند برس قبل متوفی عیسیٰ خان کے نواسے اور نواسیوں نے یہ کہتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ انکے نانا یعنی عیسیٰ خان نے اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹوں کو دے کر اپنی بیٹیوں کو انکے حصہ سے محروم کر دیا ہے۔ اپنی ماؤں کے توسط سے اب وہ یعنی عیسی خان کے نواسے نواسیاں جائیداد کے حقدار ہیں۔ اس کیس میں سول کورٹ اور دیگر اپیلوں سے لیکر ہائی کورٹ میں بھی نواسے نواسیوں کے خلاف فیصلہ آیا. نواسے نواسیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔
کیس کی سماعت کے بعد دو روز قبل سپریم کورٹ نے بھی لوئر کورٹس کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مختصر تحریری فیصلہ میں قرار دیا کہ بیٹیوں کو اپنی زندگی میں ہی یہ اعتراض اٹھانا چاہیے تھا اور عدالت جانا چاہیے تھا۔
لیں اتنی سی بات ہے۔
اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے میں ہمارے قانون وراثت کا کچھ حصہ شریعت سے متصادم ہے لیکن یہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ قانون، آئین اور شریعت کے عین مطابق ہے جس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے۔
اب
عیسی خان کے معاملے کو میں حالیہ قوانین کے تناظر میں ایک مثال کے ذریعے
سمجھاتا ہوں. فرض کریں کہ دو سال قبل عیسی خان زندہ ہوتا اور وہ اپنی تمام
جائیداد کسی ایک بیٹے کے نام منتقل کر کے باقی تمام بیٹے بیٹیوں کو محروم
کر دیتا۔ جائیداد منتقل کرنے کے چند ماہ بعد وہ وفات پا جاتا پھر بھی اس کے
وارثان اس جائیداد کو کلیم کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتے جو کہ متوفی اپنی
زندگی میں ہی کسی کے نام منتقل کر گیا. ضروری نہیں کہ عیسی خان نے اپنے
کسی بیٹے کے نام ہی منتقل کی ہو. اگر اس نے اپنی زندگی میں بغیر کسی دباؤ
کے اپنی مرضی سے اپنی تمام اولاد کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی دیگر شخص کے
نام اپنی تمام جائیداد منتقل کر دی تو پھر بھی شریعت اور قانون کی رو سے اس
کی زندگی میں یا اس کی وفات کے بعد اس کے شرعی وارثان اس منتقل شدہ یا
فروخت شدہ جائیداد میں کوئی حق نہیں رکھتے. یاد رکھیں ایک شخص اپنی زندگی
میں جب چاہے جتنی چاہے جس قدر چاہے اپنی جائیداد کسی بھی شخص کے نام منتقل
کر سکتا ہے. اس پر کوئی قدغن نہیں ہے. وراثت کے قانون کا اطلاق صاحب
جائیداد کی وفات کے بعد اس قدر جائیداد پر ہوتا ہے جتنی جائیداد چھوڑ کر وہ
فوت ہوا. اس جائیداد پر قطعاً نہیں ہوتا جو وہ اپنی زندگی میں ہی کسی کے
نام کر گیا. امید ہے کہ اب آپ عیسیٰ خان کے کیس اور حالیہ فیصلے کی صورتحال
کچھ سمجھ گئے ہوں گے۔
قانون
اور شریعت کی رو سے بیٹیوں کو انکے حق وراثت سے محروم نہ ماضی میں کیا جا
سکتا تھا اور نہ آج کیا جا سکتا ہے. ہاں یہ اپنے ہی ہیں جو انکو محروم کرتے
ہیں۔
تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائی کورٹ. ....... قلم کٹہرا........ ٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- پڑھیں ۔ آفاقی سچائیاں اور قوانینِ انسانی ۔
نوٹ: یاد رہے کہ آفاقی سچائی کا ایک گھونسہ قوانینِ انسانی پر چڑھائی ہوئی ملمع سازی کو ایسے جھاڑتا ہے ۔ جیسے سوکھے درخت ہو ہلانے سے پتے گرتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں