Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 28 نومبر، 2019

دلچسپ عربی حکایت

اُفق کے پار رہنے والے دوستو :
کہتے ہیں ایک بدّو کسی شہری بابوکا مہمان ہوا۔
 میزبان نے ایک مرغی ذبح کی جسے اُس کی بیوی نے مصالحوں کے ساتھ گھی میں خوب بھونا ۔ جب دسترخوان بچھ گیا تو سب آموجود ہوئے۔ 
میزبان اور اُس کی بیوی، دو  بیٹے اور دو بیٹیاں۔ گویا دسترخوان پر کل 7 افراد بیٹھے تھے ۔
 میزبان بہت کائیاں تھا اور حسب مراتب ، اپنے مہمانوں کے مذاق میں کوئی کسر نہ چھوڑتا تھا ۔ 
چنانچہ اُس نے اپنے  بدّو ، مہمان کا بھی مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا۔

میزبان: آپ ہمارے مہمان ہیں۔ کھانا آپ تقسیم کریں۔
بدّو :   مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں لیکن اگر آپ کا اصرارہے تو کوئی بات نہیں۔ لائیے! میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں۔

بدّو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی، 
اس کا سرکاٹا اور میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،
 ”آپ گھر کے سربراہ ہیں لہذا مرغی کا سر، ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے“۔ 
اس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا ،
”یہ گھر کی بیگم کے لیے“۔ 
پھر مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا۔
 ”بیٹے اپنے باپ کے بازو ہوتے ہیں۔ پس بازوبیٹوں کے لیے“۔ 
بدّو نے بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا ،
”بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں اورسارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے“۔ 
یہ کہہ کر مرغی کے دونوں پاؤں کاٹے اورمیزبان کی بیٹیوں کو دے دیے۔
 پھر مسکراکر کہنے لگا ۔ ”جو باقی بچ گیا ہے وہ مہمان کے لیے“۔
میزبان کا شرمندگی سے برا حال تھا۔
 اگلے دن اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرنی ہیں۔ بیوی نے ایسا ہی کیا اور جب دسترخوان لگا تو اس پر ایک تھال میں  پانچ بھُنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں۔ میزبان نے سوچا کہ دیکھتے ہیں کہ،  آج یہ بدّو پانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا؟
میزبان : میرے معزز مہمان ، ان مرغیوں کو سب افراد میں برابر تقسیم کردو۔
 بدّو:جفت یا طاق؟
میزبان : طاق انداز میں تقسیم کرو۔
بدّو نے میزبان کی بات سن کر سرہلایا، تھال سے ایک مرغی اٹھائی، میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا ،
”آپ اور آپ کی بیوی دو اور ایک یہ مرغی، کل ملا کے تین۔
 پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا،
“ آپ کے دو نوں بیٹے اور ایک مرغی، کل ملا کے یہ بھی تین ”۔
 اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا،
“ آپ کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ کل ملا کریہ بھی تین ہوگئے ”۔ 
اب تھال میں دو مرغیاں باقی تھیں۔ اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا،
“ یہ دو مرغیاں اور ایک میں ؛ یہ بھی تین ہو گئے ”۔ 
میزبان،  بدّو کی یہ  تقسیم دیکھ کر ہکابکا رہ گیا۔ 
خیر ہار ماننے والا وہ بھی نہ تھا ۔اس نے اگلے دن پھر، بیوی سے کہہ کر پانچ مرغیاں روسٹ کروائیں ۔ جب سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدّو کے سامنے رکھیں۔

میزبان: اے میرے مہمان ، آج بھی تقسیم تم ہی کرو گے، لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے۔
بدّو : لگتا ہے کہ آپ لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہو۔
میزبان: ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ تقسیم شروع کریں۔
بدّو  نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی۔ اس میں ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا،
 ”ماں، اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ یہ ہوئے کل ملا کر چار“۔
 یہ کہہ کرپہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی۔ اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے کہا
 ”آپ، آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی؛ یہ بھی کل ملا کر چارہوئے“۔
 پھر تھال میں موجود باقی تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا
 ”میں اوریہ تین مرغیاں ؛ یہ بھی کل ملا کر ہو گئے چار“۔ اس کے بعد مسکرایا، 

بے بسی کی تصویر بنے اپنے میزبانوں کی طرف دیکھا اورآسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا،
 ”یا اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تونے مجھے تقسیم کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے..!!

(بشکریہ  آفتاب احمد۔ وٹس ایپ گروپ ۔ یاریاں سدا بہار )
٭٭٭٭٭٭

بدھ، 27 نومبر، 2019

بیرون ممالک ڈاکٹری کریں اور لاکھوں کمائیں

اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ میڈیکل کالجز کے داخلے مکمل ہو چکے ہیں ۔پرائیویٹ میڈیکل کالجز بھی ایک ہفتے تک یہ سارا عمل مکمل کر لیں گے۔ اس کے بعد ڈاکٹر بننے والے "خوش نصیبوں" کی قسمت کا فیصلہ مکمل ہو جائے گا ۔لیکن وہ نوجوان جنہوں نے اپنے یا اپنے والدین کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ڈاکٹر بننے کا  ہر قیمت پہ ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا تو ایف ایس سی  Repeat کریں گے یا پھر   دوسرے مضامین لے کر گریجوئشن کرنے کی کوشش کریں گے ۔
نوجوان دوستو ! ہمت مت ہاریں ! آپ کے ڈاکٹر بننے کا بہترین  مشورہ ہمارے پاس ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان بچے اپنا مستقبل اپنی پسند کی فیلڈ میں بنائیں 
۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر آپ کا پاکستان کے کسی میڈیکل  کالج میں داخلہ نہیں ہوا تو کیا ہوا ، بیرونِ ملک MBBS کرنے کے بہت سے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں ، جہاں بے شمار میڈیکل کالج آپ کو داخلہ دینے میں بالک نہیں ہچکچائیں گے ۔ 
 بیرونِ ملک  سے MBBS  کرنا ،  پاکستان کی نسبت    MBBS کرنے سے بہت آسان ہے  اور پاکستان سے خرچہ بھی بہت کم آتا ہے، بس پاکستان میں آکر ایک چھوٹا سا امتحان PMDC  کا پاس کرنا ہوتا ہے ، اِس امتحان کیا پاکستان کے ہر امتحان کے لئے  " سفارش" چلتی ہے ، بس پھر پاکستان میں لاکھوں روپیہ مہینہ کمائیں  ۔
پاکستانی سٹوڈنٹس کے لئے خرچ تعلیم کے لحاظ سے ، تائیوان ، ہنگری ، پولینڈ ، ملائشیاء ، جرمنی ، ارجنٹینا ،  چین اور میکسیکو  ہیں ۔ اگر آپ وہاں محنت کریں تو آپ کی فیس بھی کم ہوجاتی ہے ۔ 
آپ ہمارے سٹڈی ایجنٹ سے رابطہ کریں وہ آپ کو  فارم بھرنے ، سٹوڈنٹ ویزہ کے لئے ایپلائی کرنے ، میڈیکل کالج کی فیس جمع کروانے تک  مکمل معلوما ت نہ صرف فراہم کرے گا بلکہ آپ کو میڈیکل کالج میں پہنچنے تک پورا ساتھ دے گا ۔ 
ہمارے سٹڈی ایجنٹ کا موبائل نمبر 923XXXXXX+ ہے آپ بس ایس ایم ایس کریں وہ آپ سے خود رابطہ کرے گا ۔ 
میں چونکہ خود ایک فارن میڈیکل گریجوایٹ ہوں لہذا اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں ایسے لوگوں کو کچھ حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ 
یہ راستہ اتنا آسان نہیں جتنا عام طور پہ 19,18 سال کی جذباتی عمر میں دکھائی دیتا ہے۔اِس راستے میں آپ کو پہلا ہمدرد جو ملے گا وہ  "سٹڈی ایجنٹ" کہلاتا ہے ۔
یہ  آپ کے ڈاکٹر بننے کے لیے واحد امید ہوتا ہے ، یوں سمجھیں کہ گہرے تاریک سمندر  میں روشنی کا مینار ہوتا ہے۔
لہذا یہ آپ کو اپنے والدین سے بھی زیادہ خیر خواہ محسوس ہونے لگتا ہے، یہ آپ کو ہر قسم کے جھوٹے خواب دکھاتا ہے. یونیورسٹی کی غلط معلومات دیتا ہے اور انتہائی کم فیس بتاتا ہے. یہ بندہ آپ کو آپ کے علم کے مطابق انفارمیشن دیتا ہے۔
 یہ آپ کو بتاتا ہے کہ پاکستان واپس آ کر PMDC کا ایک معمولی سا ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے جو تھوڑے بہت پیسے دے کر ہو جاتا ہے اور میرے پاس اندر تک ذرائع موجود ہیں اور میں آپ کا یہ کام بھی کروا دوں گا۔
 مگر یاد رکھیں! یہ تمام باتیں جھوٹ اور فراڈ پہ مبنی ہیں. ان کا مقصد صرف آپ کو شیشے میں اتارکر اور  آپ کو داخلہ دلوا کر اپنا کمیشن کھرا کرنا ہے ۔
 پاکستان واپسی پر مختلف وقفے سے PMDC کے تین امتحان لیے جاتے ہیں، جو کافی مشکل ہوتے ہیں اور وہاں پیسے دے کر پاس ہونا ناممکن بات ہے۔
میرے بہت سے کلاس فیلوز اور سینیئرز کئی مرتبہ امتحان میں ناکام ہو کر ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا چھوڑ چکے ہیں اور واپس اپنے آبائی پیشے سے منسلک ہو کر  مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
 PMDC کا  امتحان پاس نہ ہونے کی وجہ سے اِن لوگوں کے پانچ سال اور والدین کے لاکھوں روپے ضائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹری کے لحاظ سے ، ان کا مستقبل مکمل تاریک ہے۔جب تک  PMDC کا امتحان پاس نہ ہوں ، یہ پریکٹس بھی نہیں کر سکتے ۔
یہی وجہ ہے کہ اِن میں بہت سے لوگ نقسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر خود ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ کبھی کبھار خودکشی کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
موجودہ ڈالر کے ریٹ کی وجہ سے ۔  ٹیوشن فیس چین کے لئے  4500 ڈالر سالانہ  (70 لاکھ روپے ) بنتی ہے اور  4000 ڈالر سالانہ  (62 لاکھ روپے ) بنتی ہے۔ وہاں کی رہائش  دیگر اخراجات اور ہوائی سفر کا ٹکٹ ، ایجنٹ کی فیس  شامل نہیں ۔ 
ممکن ہے بہت سے والدین بیٹے کے شوق کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔اور کہیں نہ کہیں  سے  قرض لے کر بیٹے کو باہر بھیج دیں ۔ 
یہ بھی ممکن ہے کہ بیٹا اپنی خواہشات کے مطابق اپنی روش تبدیل کرکے بہت محنت کرے ، لیکن اِس کے لئے اُس کو اپنا رات دن پڑھائی کے لئے ایک کرنا ہوگا ۔ جس کے 10 سے 20 فیصد چانس ہوسکتے ، 80 سے 90 فیصد طلباء والدین کا پیسہ ضائع کرکے واپس آجاتے ہیں ۔ 
تصویر  دوسرا رخ، جو "سٹڈی ایجنٹ" آپ کو کبھی نہیں بتائے گا۔
آپ کو بغیر تنخواہ ہاؤس جاب اور ہر میرٹ پہ مقابلے کے لیے دوسروں سے زیادہ محنت کرنا ہو گی۔  آپ سرکاری نوکری سے ساری زندگی وہ خرچ پورا نہیں کر سکیں گے جو آپ کی تعلیم پہ ہو چکا ہو گا۔ 

اگر آپ  میڈیکل کالج میں داخلہ کم  میرٹ کی بنیاد پر نہیں لے سکے  اور آپ  اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہتے ہیں  ، تو کسی اور شعبے میں اپنی قسمت آزمائیں ۔
اپنے ایجوکیشنل Apptitude سے ہم آہنگ  کوئی دوسری ڈگری حاصل کریں یا بزنس  کے طرف توجہ دیں ۔ 
پانچ سے چھ سال بعد جب آپ کا کوئی دوست واپس آ کر PMDC کے امتحان میں خوار ہو رہا ہوگا ۔ تب تک آپ اپنا کاروبار establish کر چکے ہوں گے۔
 کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔ کیونکہ اپنے کسی بھی فیصلے کے ذمہ دار صرف آپ خود ہوں گے۔  کوئی "سٹڈی ایجنٹ" آپ کی ناکامی پر ذمہ داری قبول نہیں  کرے گا۔
 (ڈاکٹر مصعب فرقان گوجرانوالہ DHQ ۔ )
٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر صاحب سے معذرت ، کہ تحریر کی بلاگ کے لئے کچھ تبدیلی اور اضافہ کیا ہے ۔مہاجرزادہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منگل، 26 نومبر، 2019

موجودہ جمہوری ایتھوپیا

آکسفورڈ ، جرمنی، اٹلی  ، لندن اور امریکہ میں حاصل کی گئی تعلیم نے ، کمیونزم  سے دیوملائی دیوتاؤں کا یہ طلسم توڑا اور بالآخر سوشلزم پسپا ہوکر ، جمہوریت کے لئے جگہ چھوڑ گیا ۔ایک کروڑ سے کم آبادی والے  اِس جمہوری ملک میں   13 صوبے تھے۔
 1996 کے بعد   ، لسانی تعصب اور ہنگاموں کے بعد ، ایتھوپیا کو انتظامی بنیادوں پر 9 لسانی   زون (کیلیلی)میں  بدل کر خودمختیار ریاست بنا دیا اور دو  شہری انتظامیہ  عدیس ابا با اور ڈائر داویٰ   بنائے گئے ۔
 آئین علاقائی ریاستوں کو وسیع اختیار تفویض کرتا ہے ، جو وفاقی حکومت کے آئین کے مطابق ہونے تک اپنی حکومت اور جمہوریت قائم کرسکتی ہے۔ ہر خطہ اپنے عروج پر ایک علاقائی کونسل رکھتا ہے جہاں ممبران براہ راست اضلاع کی نمائندگی کے لئے منتخب ہوتے ہیں اور کونسل کو اس خطے کے اندرونی معاملات کو براہ راست رکھنے کا قانون سازی اور انتظامی اختیار حاصل ہوتا ہے۔
ایتھوپیا کے آئین کا آرٹیکل 39 مزید ہر علاقائی ریاست کو ایتھوپیا سے الگ ہونے کا حق دیتا ہے۔ تاہم یہ بحث جاری ہے کہ آئین میں کتنی طاقت کی ضمانت دی گئی ہے جو حقیقت میں ریاستوں کو دی جاتی ہے۔ کونسلیں اپنے مینڈیٹ کو ایک ایگزیکٹو کمیٹی اور علاقائی سیکٹرل بیورو کے ذریعے نافذ کرتی ہیں۔ کونسل ، ایگزیکٹو ، اور سیکٹرل عوامی اداروں کے اس طرح کے وسیع ڈھانچے کو اگلی سطح وریدہ  (woreda) میں تیار کیا گیا ہے ،  مقامی حکومت کے زیر انتظام ایتھوپیا کا انتظامی ڈویژن   وریدہ  (woreda) کہلاتا ہے ۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ایتھوپیا کی کل آبادی  94،351،001 ہے ۔ 
وریدہ  (woredaعام طور پر ایک ساتھ ان خطوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، جو ایک خطہ بنتے ہیں۔ اضلاع جو کسی زون کا حصہ نہیں ہیں ، کو خصوصی ڈسٹرکٹ نامزد کیا جاتا ہے اور وہ خود مختار اداروں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ اضلاع پر ایک وریدہ  (woreda کونسل کی حکومت ہوتی ہے جس کے ممبران ضلع میں ہر ایک کیبلے (kebele) کی نمائندگی کے لئے براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔
کیبلے (kebele) جسے کسان ایسوسی ایشن بھی کہا جاتا ہے ، فوجی انقلاب کی سوشلسٹ انتظامیہ ، ڈِرگ(Derg)نے 1975 میں ترقی کو فروغ دینے اور زمینی اصلاحات کے انتظام کے لئے تشکیل دیا تھا۔ وہ ایک کلیدی عنصر بن گئے کہ حریف ایتھوپیا کی عوامی انقلابی پارٹی اور MEISON نے ایتھوپیا کے سرخ دہشت گردی (Ethiopian Red Terror)کے دوران قابو پانے کے لئے ایک دوسرے اور حکمران ڈِرگ سے لڑائی لڑی۔
ایتھوپیا میں تقریباً 670 دیہی وریدہ  (woreda)  اور 100 کے قریب شہری وریدہ  (woreda) ہیں۔ نئی نافذ کی جانے والی اصطلاحات عموماً عوام میں  کنفیوژن پیدا کرتی ہیں ،جیسے  کچھ لوگوں نے شہری اکائیوں کو وریدہ  (woreda)  سمجھا ہے ، جبکہ دیگر صرف دیہی اکائیوں کو  وریدہ  (woreda)   خیال کرتے ہیں ، جبکہ دوسروں کو شہری یا شہر کی انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ 
ایتھوپیا کے 9  انتظامی لسانی   ریجن (صوبوں)  جنہیں کیلیلی کہا جاتا ہے    کو  68 زون  (ڈسٹرکٹ ) میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ہر زون میں  سب ڈسٹرکٹ   ہیں اور اِن سب ڈسٹرکٹ کی انتطامی کونسل  ، وریدہ  (woreda)  کہلائی جاتی ہے ، گویا سیاسی اور سماجی اختیار  انتہائی نچلی سطح  پر تقسیم کردئے گئے ہیں ۔ 

میرے لئے ،بلکہ اُفق کے پار رہنے والے دوستو ! آپ کے لئے بھی یہ حیران کن ہوگا کہ ہر لسانی ریجن (صوبے)  کا الگ جھنڈا ہے ، الگ قانون ہے اور یہ الگ گورنر کے ماتحت  ہیں :
1- عدیس ابابا  ۔  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
2- افار ریجن (صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
3- امھارا   ریجن(صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
4- بینیشانگ گومزریجن  (صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔
5- ڈائر داویٰ    ۔  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
6- گمبیلا  ریجن(صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
7- ہرارے  ریجن(صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔
8- اورومیا   ریجن(صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔
9- صومالی   ریجن(صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
10- جنوبی قومیتی  ریجن  (صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
11- تیگرے ریجن (صوبے)  کے ڈسٹرکٹ  تفصیل   ۔  
٭٭٭٭واپس ٭٭٭

پیر، 25 نومبر، 2019

ناروے میں قران کریم جلانے کے واقعہ پر تفصیل

ہفتہ ۱۶ نومبر کو ناروے کے جنوبی شہر کرسچئین سینڈ (Kristiansand)میں قران جلانے کی مذموم کوشش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کے بعد جذباتی نعرے، جہادی پوسٹس اور جلا دو، مٹا دو، تعلقات ختم کردو، ایمبیسی کو جلا دو وغیرہ جیسی کچھ پوسٹس وٹس ایپس اور فیس بک کے گروپس میں دیکھی۔ 
راقم (محمد الیاس ) چونکہ اسی شہر (Kristiansand)کا رہائشی ہے، سوچا اس بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دوستوں کی نظر کر دوں۔ 
یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جو صرف قران جلانے تک محدود نہیں۔ اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر پوری تحریر پڑھیئے گا  تاکہ ٓاپ کو تصویر کے دونوں رخ نظر ٓاسکے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس واقعے  کے محرّکات سمجھنے سے پہلے تھوڑا سا بیک گراونڈ اور محرکات پر روشنی ڈالی جائے ۔
 کرسچئین سینڈ (Kristiansand کی آبادی تقریبا 80 ہزار ہے جس میں 2 ہزار کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ واحد جامع مسجد کےعلاوہ شہر کے اطراف میں کچھ مصلے بھی ہیں۔ مسلمانوں  میں تیس سے زیادہ اقوام کے لوگ آباد ہیں، جن میں زیادہ تعداد صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین کی ہے۔ 
مسلمان نوجوانوں کی تعداد قابل ذکرہے  اور  بہت سے نوجوان یہاں کی معاشرتی اقدار میں رنگے ہوئے ہیں۔ نارویجن قانون کے مطابق آپ کو مذہبی ٓازادی ہے۔ پورے ناروے میں تبلیغی جماعتیں سفر کرتی ہیں، ان کے اجتماعات ہوتے ہیں، اور یورپ کے گنے چنے ملکوں میں  سے ناروے ایسا ملک ہے جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حّجت ویزے جاری کرتا ہے۔
ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد، سٹی کونسل میئر، پولیس اور باقی ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کو قانون کے مطابق پورا کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی ان سے کسی بھی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی، بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازوں کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کے ہمارے لئے نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔ 
اب آتے ہیں اصل واقعے کے محرکات کی طرف۔
ایک ستاسی سالہ جرنلسٹ ، اخبار کا ایڈیٹر  اور سیاست دان     ،"آرنے تھومیر (Arne Tumyr) نے یورپ کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک تنظیم بنائی، 
 متشدد خیالات کے یہ لوگ اسلام کے خلاف مختلف فورمز میں کافی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کرتے ہیں  اور کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو جوابی ہنگامے پر اُکسائیں ، تاکہ اسلام کو جبر و طاقت کے زور پر پھیلایا ہوا مذہب اورمسلمانوں کوبطور دہشت گرد  ثابت کیا جائے ۔ 
چونکہ ان لوگوں کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہیں۔ لہذا ان کے کسی مظاہرے میں قابل ذکر لوگ شامل نہیں ہوتے۔
جرنلسٹ اور اخبار کا ایڈیٹر   ہوانے کی وجہ سے ، میڈیا  ان کے مظاہروں کو  کوریج دیتا ہے۔ ناروے میں اظہاررائے کی آزادی ہے، آپ  مذہب ، سیاست ، یہاں تک کہ کسی انسانی رویے پر کھلی تنقید کر سکتے ہیں ۔ قانون تب حرکت میں ٓائے گا جب کوئی شخص نفرت، دہشت اور نسل پرستانہ تقریر کرے۔ اس کے علاوہ اپنی ائے کے اظہار کے لئے وہ آزاد ہے  جو مرضی کہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔  

پچھلے ہفتے آرنے تھومیر نے جب مظاہرے کا اعلان کیا تو ایک جرنلسٹ نے اس مظاہرے کا عنوان دریافت کرنے کی غرض سے انٹرویو کیا، جس میں آرنے تھومیر نے اعلان کیا، " ہم قران کو جلائیں  گے"۔ 
اس بات نے شہر کے سکون میں ایک ارتعاش پیدا کردیا اور فورا مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ ایکٹو ہوگئے کہ ایسی کسی بھی انہونی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے شہر کے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ سے منسلک لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی، جس میں پوری سٹی کونسل نے یک زبان کہا ،
" ہم اس مظاہرے کے سخت خلاف ہیں اور ایسی کسی بھی حرکت کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی"۔ 
حتیٰ کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اعلان کیا،
"  وہ قران کریم کو جلانے والی کسے عمل کو سپورٹ نہیں کریں گے"۔
 اسی میٹینگ کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے قانونی نقطہ اٹھایا ،
"قانون کے مطابق ہم مظاہرے کو نہیں روک سکتے جب تک وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتے جو قابل گرفت ہو"۔
لیکن چونکہ سیان کا یہ اعلان نفرت پھیلانے کے زمرے میں ٓاتا تھا تو پولیس کمشنر نے کچھ پیرامیٹرز طے کروائے جس میں سیان تنظیم کو یہ کہا گیا کہ مظاہرہ کرنا ٓاپ کا حق ہے لیکن ٓاپ قرٓان کریم کو نہیں جلا سکتے اور ایسا کرنے پر قانون کی گرفت میں ہونگے۔ 
یہاں میں یہ عرض کردوں کہ سیان تنظیم کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ،
٭-  وہ مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کریں اور ثابت کریں  کہ یہ لوگ نارویجن معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں،
٭-  ان کا رویہ پرتشدد اور مجموعی طرز عمل ہمارے معاشرے سے مطاقت نہیں رکھتا۔
٭ - مسلمانوں کو ناروے سے باہر نکالا جائے۔
 لہذا یہ ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اشتعال انگیزی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ حکمت اور بٖصیرت کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ ڈائیلاگ اور کانفرنسز میں بہت جاتے ہیں اور شہر کے سب آڈیٹوریمز میں کوئی نہ کوئی کانفرنس یا مکالمہ چل رہا ہوتا ہے۔ آرنے تھومیر نے پہلے پہل تو کوشش کی کہ اپنی پر نفرت باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جس میں وہ نبی ﷺ پر بھی رکیک حملے کرتا تھا، اس کی باتوں کو الحمداللہ بڑے مدلل انداز میں رد کیا گیا،جس کو پبلک نے پسند کیا اور اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ اسی وجہ سے ہماری مسجد میں الحمداللہ ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک نارویجین اسلام قبول کرتا ہے۔ ٓارنے تھومیر کی بے بنیاد باتوں اور نفرت پر مبنی تقریروں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور یہاں کے چرچ نے پابندی لگا دی کہ اس کو کسی تقریب میں نہیں بلانا تاکہ یہ اسلام سے متعلق اپنی نفرت کو پھیلانے کے لئے ہمارا فورم استعمال نہ کر سکے۔
لوکل انتظامیہ اور ادبی حلقوں سے کٹنے کے بعد اس تنظیم کے پاس صرف ایک ہی ٓاپشن رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرے کرے۔ جس میں آزادی اظہاار رائے کی آڑ میں ، اسلام و محمد ﷺ کو ٹارگٹ کیا جاسکے ۔ 
یہ اپنے مظاہرے میں باقاعدہ کیمرے اور میڈیا کے لوگوں کو ایڈجسٹ کرتے کہ اگر کوئی مشتعل شخص ان کو زَدوکُوب کرے تو اس کی تصاویر و ویڈیو کو وائرل کروا کر لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرےکی روایات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ 
ناروین اکابرین ، جن میں سب سے زیادہ متحرک جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی صاحب نے اس بات کو بہت پہلے سے بھانپ لیا تھا، لہذا وہ پہلے دن سے کہتے تھے کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اس کو قابو کر لے گا۔ لہذا ہم مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگخیتہ نہ ہوں اور اپنے جذباتی پن سے ،اس کے کسی مقصد کو کامیاب نہ کریں۔
اس مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر ٓارنے تھومیر نے قرٓان کریم کی بے حرمتی کی تو اس کو ایسی کسی حرکت سے روکنے کے لئے پولیس موجود ہوگی لہذا انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اشتعال میں آکر کوئی کاروائی نہ کی جائے۔
 ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف ٓاٹھ لوگ تھے، جبکہ چار سو سے زیادہ لوگ، جن میں نارویجنز کی قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی، اس کے مظاہرے کے خلاف موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند رکھا ہوا تھا کہ لڑائی کی صورت نہ بن سکے۔ ٓارنے تھومیر نے تقریر کے دوران قرآن  کریم کی ایک کاپی باربی کیو گرل کے اوپر رکھی ہوئی تھی، جس کو پولیس نے فورا اپنے قبضہ میں لے لیا۔ 
اس دوران سیان تنظیم کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخہ کو نکال کرآگ لگا دی ۔

 انہی لمحوں میں ترکی کا نوجوان عمر دھابہ  نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو دھکا دیا ، اِسی دھکم پیل میں جلتا ہوا قرآن   لارس تھورسن کے ہاتھ سے گر گیا 
 ٓاگ کو بجھانے کے لئے پولیس فورا دوڑی، لارس کو فورا سول پولیس نے اس حرکت پر گرفتار کر لیا اور عمر دھابہ کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ 
 اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے اور ٹھڈے مارے، کہ وہ لارس تک پہنچ سکے۔ عمر اور دیگر کچھ اور ساتھیوں کی مداخلت نے آرنے تھومیر کو وہ فراہم کر دیا جو اس کو چاہئیے تھا، یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کروانا کہ یہ لوگ یہاں کے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، آج ان نوجوانوں کی ویڈیو اور تصاویر پورے ناروے میں وائرل  ہیں، جو صرف ایک طرف کی ہے،
  " مسلمان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں "
 اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعے پر قانونی طریقے سے گرفت کی جاسکتی تھی، اگرچہ اس کی کوشش جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کر لیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن دوسری طرف ہمارا کیس کچھ کمزور ہو گیا ہے کہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں، چونکہ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا جو قابل گرفت حرکت ہے۔
ہمیں اس سارے واقعے کو ایک لارج پرسپیکٹو میں دیکھنا پڑے گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتطامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی تاثر کافی مثبت ہے۔ نارویجنز بھی آرنے تھومیر کی تقاریر کو ریجیکٹ کرتے ہیں اور اس کی یہاں کوئی سنائی نہیں ہے۔
 میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نناوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کے ساتھ ہے، لیکن یہ سب ملیا میٹ ہو سکتا ہے اگر ہمارے نوجوان، یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں۔ یہ یہاں کا قانون ہی ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
 اس اندہناک واقعے کے بعد  پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان بھی اس مسئلہ پر مسلمانوں ساتھ متفق ہیں۔ لیکن ان سب کی سپورٹ صرف قانون کےدائرے میں رہ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم جذبات میں ٓاکر جلاو، گھیراو، سڑکوں پر ٹائر جلانے، قتل کی دھمکیاں اور دیگر جذباتی نعروں سے پرھیز کریں اور حکمت اور دانش کے ساتھ اس مسئلے کو حل کی طرف لے کر جائیں تو قانون اتنا طاقتور ہے اور معاشرہ اتنا باشعور ہے کہ ایسی باتیں یہاں زیادہ دیر پنپ نہیں سکتیں لیکن اگر قانون کو ہاتھ میں لے کر اس مسئلے کو خود حل کرنے گے تو جو حاصل وصول ہے وہ بھی جائے گا۔  
اس واقعے کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگ اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے یکجہتی کے اظہار کے لئے ٓاج جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔
دوستوں سے درخواست ہے کہ اگر مناسب لگے تو شیئر کر دیجیے گا تاکہ واقعہ کے اصل احوال لوگوں تک پہنچ سکے۔ جزاک اللہ۔ 
(Muhammad Ilyas , Kristiansand, Norway )
پس تحریر ایک بات عرض کردوں کہ 
ہمارے لئے یہ بات ٓاسان ہے کہ کسی بھی نوجوان کو تیار کر کے بھیجے اور وہ اس شرپسند کو مار آئے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ شر پسند تو مرنے کے لئے بھی تیار بیٹھا ہے، آرنے تھومیر خود کہتا ہے کہ اگر کوئی مجھے گولی مارے تو اچھی بات ہے، اس سے کم از کم مسلمانوں کو تو نقصان ہوگا، اور میری بات سچ ثابت ہوگی کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ لہذا جذبات کو ایک طرف رکھ کر اس معاملے کو دانش و حکمت عملی سے حل کرنا ہے، اور قانون اس کا راستہ ہمیں دیتا ہے، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ 
آپ سب بھائیوں کے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن چونکہ زمینی حقائق بلکل مختلف ہے، لہذا اس کو مشتعل ہو کر حل نہیں کیا جا سکتا۔.  میں ہر پوسٹ پر فردا فردا کمنٹ کا جواب نہیں دے سکتا، کیونکہ بہت سےجذباتی دوست ایک رو میں بہہ رہے ہیں، لہذا ان کو جواب دینا مناسب بھی نہیں۔

پوسٹ میں عمردھابہ کو بلکل بھی پر تشدد نہیں کہا، بلکہ اس کا عمل جذبہ ایمانی کے عین مطابق تھا، اور کوئی ادنی سے ادنی مسلمان بھی قران کی بے حرمتی پر ایسا ہی عمل کرتا۔ لیکن اس کے ٓافڑ رزلٹس بتا رہا ہوں کہ ٓارنے تھومیر کو دو سو فیصد اندازہ تھا کہ وہ اشتعال دلا کر مسلمانوں مین  انتشار کی کیفیت کو پیدا کرے، جو اس کا ہدف تھا، وہ اس نے پا لیا۔ وہ ایک شکاری ہے اور اشتعال دلانا اس کا ہتھیار ہے۔ ہم اس کو کافی عرصے سے جانتے ہیں اور اس کا ہمیں بہت اچھا اندازہ تھا کہ وہ ایسی گھٹیا حرکت کیوں کر رہا ہے، اسی لیے پولیس و انتظامیہ سے اس سلسلے میں بات بھی کی تھی، اس کو پولیس لیپس کہہ سکتے ہیں کہ ان کے رسپانس ٹائم میں سستی تھی اور اس کو پولیس کمشنر نے اس واقعہ کے بعد مانا بھی ہے کہ ہماری پولیس اس کو پوری طرح کوپ نہیں کرسکی۔ اسی وجہ سے ٓارنے تھومیر کو اب فلوقت بین کر دیا ہے کہ وہ مظاہرے والی جگہ نہیں ٓاسکتا۔ جبکہ لارس جس نے قران جلانے کی ناپاک جسارت کی اس کی جیل کسٹڈی میں پروسیڈنگ شروع کریں گے۔ اب جبکہ اس شخص نے میڈیا کی توجہ حاصل کر لی، اتنا ہی زیادہ اس کو باہر سے فنڈنگ ہوگی، کیونکہ یہاں کی پولیس نے بتایا تھا کہ اس تنظیم کی فنڈنگ اسرائیل اور امریکہ سے ہورہی ہے۔ 
ہمیں ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہمارے اس ردعمل کے بعد کیا وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگیا کہ اس کا تیر ہدف پر لگا ہے؟ حکومت نے اس کو قران جلانے کی اجازت نہیں دی تھی،اور غیر قانونی عمل پر وہ گرفت میں بھی آیاہے۔ ہم اس کو قانونی طور پر بین کروانے کے لئے پوری طرح کوشش کریں گے اور ٓاخر تک جائیں گے، جس میں ہمارے ساتھ یہاں کے سیاست دان اور دیگر سوسائیٹیز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس پر پابندی لگنے سے ایک سد باب تو یہ بھی ہوگا کہ دوبارہ کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ ایسی حرکت کر سکے۔ دوسری طرف اگر قانون ہاتھ میں لے کر ہی معاملہ حل کروانا چاہتے ہیں پھر یہ بھی جان لیجئے کہ ایسے متشدد لوگ بے تحاشہ ہیں اور ابھی تو ایک نے ایسی مذموم حرکت کرنے کی کوشش کی، بعد میں کوئی دوسرا اٹھے گا اور وہ بھی یہی کرے گا۔ ہم اس کو اگر مار بھی دیں تو بھی نقصان مسلمانوں کا ہے کہ ان کو اپنی اسلامی  شعائر کی ادائیگی میں مسائل ہوں گے اور میڈیا اس کو جس طرح اچھالے گا، ٓاپ لوگ وہاں بیٹھ کر تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کا واحد حل قانون سازی ہے، جس کے لئے ہمیں سیاست دانوں کی زہن سازی بھی کرنی پڑے گی اور ان سب کے لئے جذباتیت سے نکل کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
باقی ٓاپ دوستوں کے جذبات کی قدر ہے۔ اللہ ہمیں اپنے دین پر قائم رکھے اور قرٓان کی حرمت پر ہم جتنے جذباتی ہیں، کاش اس کے اوپر عمل کرنے میں بھی جذباتیت کا مظاہرہ کریں۔ ٓامین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

ہفتہ، 23 نومبر، 2019

اسرار کے پردوں میں لپٹا ایتھوپیا

ایتھوپیا کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔کتنی 24 نومبر 1974 میں ایتھوپیا کے افار مثلث(Afar Triangle) میں وادیءِ اواش (Awash Valley)کے علاقے ھدار(Hadar) میں ، آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے ایک ڈھانچےکی ہڈیوں کی عمر پوٹاشیم آرگن ریڈیو میٹرک سے تقریباً 3,200,000سال نکالی گئی ہے۔
 گویا بن مانس سے انسان بننے کی طرف ارتقائی سفرایک 1.2 میٹربندریا، یا اِس کے قبیل کے جانوروں نےہاتھوں اور پیروں پر چلنے کے بجائے دونوں ٹانگوں پر چلنے کا ارادہ کیا ۔ اور یو ں ایتھوپیائی انسانی نسل کا سراغ، قدیم حیاتِ انسانی کی تحقیق کرنے والوں نے ڈارون کی تھیوری سے 1974 میں جوڑ دیا گیا ۔
اگر ہم اِس افسانے کو صحیح تسلیم کر لیں ، تو نسلِ “ لوسی “ جو وقت کے ساتھ ارتقائی منازل سے گذرتی موجودہ ایتھوپیائی خاتون تک پہنچی ، جن کے بارے میں بڑھیا کی رائے ہے کہ یہاں کی خواتین ، ہندوستانی اداکاراؤں سے جسمانی طور پر زیادہ حسین ہیں۔ پتلی کمر اور ناقابلِ یقین کولہوں کا پھیلاؤ یقیناً ارتقائی عمل کا حصہ رہا ہوگا۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی افریقہ میں ارتقائی عمل سے گذرنے والی نسلِ “ لوسی “حسن کی اِس دوڑ کا حصہ کیوں نہیں بنیں ، شاید یہ اُن کے “لوسوں “ کا نقص رہا ہو گا ۔

قدیم حیاتِ انسانی کی تحقیق کرنے والوں نے یقیناً بہت محنت کی اور ہم اُن کی محنت پر رائے زنی کر رہے ہیں اور ایسے ہی ہوتی رہی ، لیکن کیا کیا جائے کہ جب ہم انسانی ارتقائی عمل سے گذرنے والی نسلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ، نسلِ “ لوسی “ کی جدا جدا رنگت اور خد و خال ہمیں بھی شیرٹن ہوٹل کے سوئمنگ پول پر جا کر پریشان کردیتے ہیں ۔جہاں نومبر کے 26 ڈگری موسم    میں  بین الاقوامی  نسل  ِ انسانی ،پیراکی  سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ جس میں یہ نسلِ برصغیر بھی چم چم  کے ساتھ  ایک کونے میں پول  کے کنارے گرم  پانی میں  گردن تک بیٹھی لطف اندوز تھی ۔
اپنے پاس پانی میں لطف اندوز ہوتی ایک نیلی آنکھوں والی اطالوی حسینہ نے جب ایک ایتھوپیئن بچے کو سہارا دے کر گود میں اُٹھا یا تو بوڑھا چپ نہ رہ سکا پوچھا،
"آپ کا بے بی ہے ؟”
 اُس مہ لقا نے ،بے بی کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ، “ یس “ 
 ابھی ابتدائی تعارف ہو رہا تھا ، کہ برصغیر کا یہ کھچڑی نما سفید بالوں والا بوڑھا ، انڈیا کا ہے یا پاکستان کا ، کہ ایک گھنگریالے بالوں والا ہمارے ہی قدکا ، کٹّر ایتھوپئین نوجوان، پانچ سالہ نیلی آنکھوں والی شہزادی نما بچی کو گود میں اٹھائے اُس اطالوی حسینہ کے پاس آیا ، بچی کو اُسے تھمایا اور ایتھوپیئن بچے کو گود میں لیا ، اطالوی حسینہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
 “ مسٹر کالید فرام پیکسٹن “
 گھنگریالے بالوں والے نوجوان نے بوڑھے سے ہاتھ ملایا ، جو ڈنمار ک میں ڈپلومیٹ ہے اور چھٹیاں گذارنے عدیس ابابا آیا ہوا ہے ۔اور ہمارے ہی فلور پر رہائش پذیر ہے ۔
چھ سال پہلے اُس کی محبت کی شادی اطالوی حسینہ سے ہوئی اور محبت کی ابتدا اطالوی حسینہ کی طرف سے ہوئی ، یوں اطالوی حسینہ کے سوئیٹ بکس میں “گلاب جامن اوربرفی “ کی مٹھاس بھری ہوئی ہے ۔یقیناً نسلوں کا یہ ملاپ ، خالقِ کائینات کی نشانیاں ہیں ۔ شائد گلاب جامن اپنے پردادا کے خاندان پر چلا گیا ۔
 بوڑھا سوچ رہا تھا ، کہ اگر یہ ایتھوپیئن ڈپلومیٹ کی شادی ( کزن نہیں بلکہ )حمار (Hamer) قبیلے کی کسی خاتون سے زبردستی کروائی جاتی ، نسلِ “ لوسی “ اپنے ارتقائی مدار سے نہ نکلتی ۔لیکن سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ اطالوی نسلِ “ لوسی “ میں دودھیا رنگت کہاں سے آئی ؟
 اب یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ ، دودھیا ئی رنگت والے انسان کے بچے تھے اور گلاب جامنی رنگت والے بندر کے بچے ۔
 بوڑھے کی فلسفیانہ رائے (جس سے آپ کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں) ،یہ حتمی نتیجہ اخذ کرتی ہے ، کہ” ایڈم (Adam)“ گلاب جامنی تھا اور “ ایو (Eve) “ دودھیائی رنگت لیے ہوئے ، نیلی آ نکھوں والی ایک خوبصورت تخلیق ، جبھی تو “ ایو “  کے اُبھرتے  معصومانہ جذبات نے اُسے “ کاٹھ کا اُلّو” سمجھ کر “ پھل چکھنے پر “ مجبور کردیا ، یوں دونوں کو لات مار کر گارڈن سے باہر نکال دیا گیا ۔کہ اب جاؤ اور رنگ برنگی نسلِ انسانی کوفروغ دو ۔
اور پھر جب  گلاب جامنی رنگت والی  نسل کی بہتات ہوگئی ، تو   دودھیائی رنگت والوں نے لات مار کر ، جا منی رنگت والوں کو سرخ سمندر (قلزم)کے پار جنوب میں دھکیل دیا ۔
 لیکن کیا کیا جائے نسل انسانی کی تنوع پسندی کا ، دودھیائی رنگت والے ،سرخ سمندر (قلزم) عبور کرتے اور گلاب جامنی رنگت والی لوسیوں کو لوسوں سمیت کو اٹھا کر شمال کی طرف لے آتے ،جہاں لوسیوں کو خوابگاہ کی زینت بناتے اور لوسوں کو خدمت گذار ، جواب میں گلاب جامنی رنگت والے ، کثیر الازواج ، شوہر کی ترسی ،دودھیائی رنگت والی لوسیوں کو اٹھاتے اور سرخ سمندر (قلزم) کے جنوب میں لے آتے ۔ یو ں سرخ سمندر (قلزم) کے دونوں طرف مٹیالی رنگت ، اور ہلکی بھوری ، شربتی اور کرنجی  آنکھوں ، والی لوسیاں اور لوسے جنم لینے لگے ۔

جِس کے نتیجے میں خالقِ کائینات کے مٹھائی کے ڈبے (کرہ ارض) میں مختلف النوع رنگت والی مٹھائیوں کی گردان(تصریف)  بننا شروع ہوگئی ۔
لوسی سے لوسیوں کی طرف بوڑھے نے اِس لئے قدم اُٹھایا کہ پرسنل میسج پر ایک دوست نے لکھا ،
" مہاجر زادہ صاحب : پہلے آپ کے مضمون دلچسپ ہوتے تھے ،   اب بالکل بور ، آپ غیر ملکی سفر کر رہے ہیں ، مستنّصر حسین تارڑ کی طرح   مزیدار مضمون لکھیں "
بوڑھے نے جواب دیا "
" نوجوان ، پہلی بات تو یہ ہے ، کہ مستنّصر صاحب  نے ، جب بیرون ملک تنہا سفر کیا، تو اُن کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑکا کرتی تھیں ۔
دوئم ، گو کہ وہ   منڈی بہاؤالدین  کی پیداوار تھے ، مگر لاہوریئے بن چکے تھے اور نظر باز اتنے کہ بیٹے کے ساتھ شمالی علاقوں کا سفر کرتے  اُنہیں جرسیوں میں خرگوش پُھدکتے نظر آتے ۔
بوڑھا بے چارہ   ایک تو بڑھیا کے ساتھ سفر کر رہا ہے ، وہ بھی جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے ، توبڑھیا کے ڈرسے لیپ ٹاپ بند کئے بغیر چپل پہن کر باہر سبزی لینے یا چم چم کو سکول سے لانے نکل جاتا ہے۔جب سڑک پر نکلتا ہے تو اچانک خیال آتا ہےکہ وہ  تو پڑھنے والی عینک  لگا کر باہر نکل آیا ہے ۔ ویسے بھی  بوڑھا عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکا ہے ۔  جہاں  پچاس سالہ میک اَپ زدہ  ایتھوپیئن حسینہ بھی  بوڑھے کو " پاپا " کہہ کر بلاتی ہے ۔ ایسے میں خدوخال پر شاعری  بَھک  سے ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے ۔ اور بوڑھا  ایتھوپیئن حسینہ کے یہ کہنے پر،"پاپا اتنے بوڑھے ہو کر بھی ہینڈ سم ہیں "، خود کو محل میں شیشے کے گھر میں کھڑی ہوئی ، شہنشاہِ ایتھوپیا کی کار کی مانند سمجھتا ہے ، جو استعمال کے قابل نہ ہونے کے باوجود اب بھی قابلِ قدر ہے ،
 لہذا تھوڑے کو بہت سمجھو  ، لیکن یہ خیال رہے کہ بوڑھا اقبال کے  غُنچہ بائی کو بالا خانے پر ، اپنے طپنچے سے قتل کرنے سے پہلے کہے جانے والےشعر   سے متفق ہے ۔ یعنی 
وجودِ زَن سے ہے تصویر کائینات میں رنگ ۔
تو ذکر ہو رہا تھا ،  اسرار کے پردوں میں لپٹے ایتھوپیا کا ، چم چم کے تعاقب میں عدیس ابابا آنے کے بعد بوڑھے کہ ذہن پر چھائے ہوئے ایتھوپیا کی پر اسراریت کے پردے یکے بعد دیگرے اترنا شروع ہو گئے ۔ 
کوئی ایتھوپیاً نوجوان ، بوڑھے کو نہ زرد بخار میں مبتلاء نظر آیا اور نہ ہیضے یا ایبولا کا شکا ر ۔  جن کے ٹیکے بوڑھے اور بڑھیا نے  یکم اکتوبر میں کوئٹہ میں لگوا کر انٹرنیشنل ویکسینیشن کارڈ  پر بطورِ ثبوت  تحریر بمع مہر کروا لئے تھے ۔ نہ ہی فضاء میں  گھٹن تھی اور نہ ہی  موسم کا وہ جبر  جس کے لئے افریقہ مشہور ہے ۔
چھ چھ منزلہ عمارتوں اور وسیع سڑکوں میں  گھرا ہو اعدیس ابابا   ، امھارک دیوتا  حائلی سلاسی  کے عدیس ابا سے قطعی مختلف ہے ۔ 
امھارک دیوتا کے نام پر آپ یقیناً چونکے ہوں گے ۔ کیوں کہ شاید آپ کو علم نہیں ، کہ ماؤں   کے نام سے چلنے والی اولاد جو خود کو نبیوں سے منسوب کرواتی  اور درباری کلا کار ،ایسی ایسی درفتنیاں چھوڑتے ہیں جس کے باعث عوام الناس اُن  اولادوں کو سجدہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں سیّدوں اور شاہ نامی  مجاوروں کا ہے ۔ 
برصغیر کے بادشاہوں نے اُن کے  چھوٹے دماغوں کی وجہ سے اُنہیں ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا ، لہذا وہ خود ساختہ ، اولادِ انبیاء کے مجاور بن کر عوام میں مقبول ہوگئے، افریقہ  میں چونکہ بائبل کا راج تھا ، لہذا بائیبل کے دیومالائی کرداروں  سے خود کو منسلک کرنے کے بعد اپنی راجدھانی میں  دیوتا بن کر سجدے کروانے لگے ۔ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگلا مضمون : 
6- موجودہ جمہوری ایتھو پیا   
٭٭٭٭واپس ٭٭٭


پیر، 18 نومبر، 2019

اُفق کے پار ، تصوّرات کی دُھند میں لپٹا ایتھوپیا

جب انسان تجارت کی غرض سے زمین پر پھیلے تو خطہ عرب کے تاجر بھی یمن کے علاقے  سے  جہاں سے بحیرہ قلزم دونوں سرزمین کے درمیان 20 میل  کی سرحد بناتا ہے ، وہاں سے کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے  عبور کرکے افریقہ کی سرزمین (موجودہ جبوتی) میں داخل ہوئے، کب ؟
تاریخ کے مطابق   یہ تقریباً   1000 قبل مسیح   کے  لگ بھگ کا واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ کشتیاں گہرے سمندر کے بجائے  ساحل کے نزدیک چلتی تھیں ، جیسے  کولمبس ہندوستان کے سفر پر چلا تھا مگر  ریڈ انڈین کے دیس جاپہنچا ،   ویسے یمنیوں کی کشتی ہوا کے زور پر افریقی سرزمین جا لگی ہو  اور  جبوتی کے راستے صومالیہ پہنچے اور وہاں  سے  یمنی   اریٹیریا اور پھر شائد ایتھوپیا تک پہنچے ہیں ۔
تو ذکر ہو رہا تھا  عربوں، بلکہ یمنیوں کی آمد کا  ۔ 1000 قبلِ مسیح میں  جنوبی عرب   کے کچھ  قبیلوں  کے افراد، بحیرہ احمر  کا 20 میل کا پاٹ عبور  کرکے موجودہ جبوتی سے ہوتے ہوئے   اریٹیریا میں جاکر آباد ہو گئے۔
  زبانِ شوخِ من ترکی  کے باوجود ،مقامی باشندوں کے ساتھ، ان کے اختلاط سے ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے حیباشا کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعد ازاں عرب اس تمام علاقے کو جو اب ایتھو پیا میں شامل ہے۔ حیباشان  کہنے لگے اور یہاں کے رہنے والوں کو حیباشی  (حباشان)  ۔ حبش  ،  ٹرکی (مرغ) کو کہا جاتا ہے جو یہاں پایا جاتا ہے ۔
 بہر حال   دو اقوام  کا ملاپ وجود  میں آیا ۔  لیکن ایک بات طے ہے کہ قوموں کے اِس اختلاط سے  خوبصورت  ناک و خد و خال والی نئی قوم شمالی افریقہ  کے علاقوں میں وجود میں آئی ۔
 مہاجر زادہ اور اُس کی بیوی مارننگ والک کرتے ہوئے اپنے ٹھکانے کے نزدیک  کوئی 50 گز کے فاصلے پر چھوٹی چھوٹی دکانیں دیکھیں  تو معلومات کے لئے ، دکاندار بچوں سے بات کی ، ایک عربی دکاندار  خاتون سے  بھی ملاقات ہوئی ، جو جدہ سے شادی ہو کر کوئی 40 سال پہلے عدیس ابابا پہنچی ۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ گروسری شاپ چلاتی ہے ۔
 سنا تھا کہ ایتھوپیئن پاکستانیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ہیں کیوں کہ E-VISA کھلنے پر تمام کھیپئے ،  بیگ میں چائینیز موبائل اُٹھائے  عدیس ابابا کے گلی کوچوں میں پھیل گئے کئی گرفتار ہوئے ، بالآخر ایتھوپیئن گورنمنٹ نے  پاکستانیوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی ۔
اب ایتھوپیا کا ویزہ ملنا امریکہ کے ویزے سے بھی مشکل ہے ، کیوں ؟
کہ پاکستان میں ایتھوپیئن ایمبیسی ہی نہیں ہے !
بوڑھا  ،  چم چم کو صبح سکول چھوڑنے جا رہا تھا ، کہ آواز آئی ،" نمستے"
بوڑھےنے نوجوان کی طرف دیکھا وہ ، موبائل کارڈ لئے ہاتھ میں کھڑا تھا ۔
جواب دیا ،" او حالیگان بانا "
وہ حیرت سےبوڑھے کا منہ تکنے لگا ۔
بوڑھے  نے حملہ کیا ، انٹار کے بنٹار کے چمبوترا ، گھباچو "
 وہ ہوّنق سا مونہہ لے کر چل پڑا ، کہ اِس" انجان بولی والے  بوڑھے کو کیا بیچنا  ؟"۔ 
بوڑھا اور چم چم ، آگے بڑھے تو چم چم نے پوچھا ،
" آوا ، آپ کون سی لینگوئج بول رہے تھے ؟"
بوڑھے نے جواب دیا  ،" سواحلی "
بولی،" آپ کو تو فلوئینٹ آتی ہے "
بوڑھے  نے کہا ،" آن چی گوچاں ، چی چاں چیاؤں چیاؤں"
وہ کھلکھلا کر ہنسی ۔ بولی ، " آوا آپ نے اُسے فول بنا دیا "
چم چم جب سکول میں چائینی سیکھ رہی تھی تو بوڑھے کو سکھاتی ، بوڑھا  تنگ آکر، 
"چیاؤں ، میاؤں چی چاں چو ں چوں"  بولتا ۔وہ کھلکھلا کر  ہنستی
 ایسٹ تِمور میں جب تمام جتن کے بعد بھی   دکاندار لڑکی ، بوڑھے  کی  انگلش نہیں سمجھتی ، تو  بوڑھا  چینی بولنا شروع کر دیتا ۔ 
ایک دفعہ ، ہوٹل میں سوئمنگ کے لئے گئے ، وہاں بوڑھے نے یہی ترکیب دھرائی ، تو ویٹرس نے پوچھا ،" یہ کون سی زُبان ہے؟ "
چم چم نے  مسکراتے  ہوئے کہا ،" چینی "
وہ بولی ،" یہ چینی نہیں "
بوڑھے نے چم چم کو مشکل سے نکالتے ہوئے کہا  ،" یہ منگولیئن ہے "
اس نے سر ہلایا اور ہماری جان چھوٹی ۔ بعد میں معلوم ہوا اُس تِموری خاتون کا شوہر چینی ہے ۔ 
ارے ہاں تو ذکر ہورہا تھا ، تاریخ کی دُھند میں چھپے ہوئے ایتھوپیا کا ۔

ہماری واقفیت ایتھوپیا سے آٹھویں جماعت  کے جغرافیہ  کے ذریعے ہوئی  ، اور مزید معلومات وزیر اعظم پاکستان اور یہاں کے بادشاہ   ہائل سلاسی  کی اخباروں میں چھپنے والی تصاویر سے ہوئی۔ 

جب بوڑھا اور بڑھیا ، چم چم کے تعاقب میں  اسلام آباد سے ایتھوپیا براستہ  دوبئی 12 اکتوبر کو  پہنچے تو  ، عدیس ابابا  کے وقت کے مطابق  1:35 پر اور پاکستان کے مطابق  3:35 پر  بول انٹرنیشنل ائر پورٹ پر  امارات ائرلائن کا جہاز لینڈ کر گیا ۔ اب   پاسپورٹ پر ویزہ لگوانا تھا ۔ 
اپروول چونکہ وٹس ایپ ہوگئی تھی اُس  کی فوٹو کاپی کروائی  ، لہذا بوڑھے اور بڑھیا کے پاسپورٹ  سمیت ، امیگریشن کی ونڈو سے باری آنے پر ، دیگر کاغذات کے ساتھ پکڑا دیں ،
" پاکستانی"  امیگریشن خاتون نے پوچھا۔

" الحمد للہ  ، یس "  بوڑھے نے جواب دیا ۔
بوڑھے اور بڑھیا کی تصویریں اتاری گئیں  ۔
" یو ویٹ " ، خاتون نے روکھے منہ سے کہا ۔

دونوں کے پاسپورٹ لے کر ، امیگریشن آفیسر  ، غائب ہوگیا ، آدھے گھنٹے بعد آیا  اور بولا ،
" بنک کاونٹر پر جاؤ اور ویزہ فیس جمع کروادو " اور اشارہ کرکے بتایا کہ بنک کاونٹر کہاں ہے ؟
بوڑھا بڑھیا کو وہیں چھوڑ کر ، فیس جمع کروانے چلا گیا ۔

ویزہ کیا تھا ایک ربڑ سٹیمپ  جو پاسپورٹ پر تاریخ  لکھ دی اور 50 ڈالر  فی کس وصول کرلئے 
لگوایا ۔اور سامان لینے کے لئے  بوڑھا اور بڑھیا  ، ٹرانزٹ گیٹ سے باہر نکلے ، تو بوڑھے کو دور سے اپنے بیگ  ریمپ پر نظر آئے -وہ کیسے ؟
وہ ایسے کہ چم چم نے ، ایسٹ تِمور جاتے وقت کیبن  بیگز اور   لگیج بیگز پر گلابی ربن لگا ئے  تاکہ بیگ دور سے نظر آجائیں ۔ لیکن عدیس ابابا ائر پورٹ پر یہ ٹیکنیک فیل ہو گئی ۔ کیوں؟

" آوا،  مسافروں نے اپنے بیگ  لینے کے لئے ہمارے بیگ ریمپ سے گرا دئے اور سب کے بیگ ہمارے بیگ کے کلرز کے تھے ۔آپ بڑے ٹیگ سائن لگائیں تاکہ آپ کو دور سے  نظر آجائیں " چم چم نے ہدایات دیں ۔
بات درست تھی ، ہمارے تمام سفروں میں چم چم ہماری گائیڈ تھی اب وہ پریشان کہ بوڑھا نانا اور بوڑھی ننا کیسے آئیں گے ؟
لہذا بوڑھے نے صفائی کے پیلے 4 عدد کپڑے بازار سے خریدے ، جب اُنہیں پلاسٹک  چڑھا کر ، اسلام آباد ائر پورٹ پر  رکھا تو یوں لگ رہا تھا کہ یہ بھکشوؤں کا سامان ہے جو اُن کے ہی کپڑوں میں لپیٹا گیا ہے ۔ 
آخری وقت میں بوڑھے کو معلوم ہوا کہ  فی کس 35 کلو گرام کے بجائے   30 کلو گرام  لے جانے کی اجازت ہے ۔ بوڑھے اور بڑھیا کی دوائیاں اور مصالحہ جات کا کل وزن  10 کلو گرام تھا ۔ بڑھیا کے انسولین کے انجیکشن (3 ماہ کا کوٹہ) وہ الگ ۔
بوڑھے نے اپنے اور بڑھیا کے 10 کلوگرام  کے کپڑے ، پاکستان پوسٹ سے مبلغ 10 ہزار روپے میں ایتھوپیا بھجوادئے ۔ اگر یہ جہاز سے اضافی بیگج میں بھجوائے جاتے تو بہتر تھا کہ یہ کپڑے یہیں چھوڑ جائیں اور عدیس ابابا سے نئے کپڑے خرید لیں ۔ 


چنانچہ ، بوڑھا   بڑے آرام سے  اپنا اور بڑھیا کا کیبن بیگج  گھسیٹتا ہوا چلتا رہا ، خواہ ٹرالی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ 
بوڑھے نے اپنے تینوں بیگز  ، اُٹھائے اور ٹرالی پر رکھ  کر سامان  چیکنگ کی لائن میں کھڑا ہوگیا ۔ ابھی 5 منٹ ہوئے تھے کہ کالج کی 6 چلبلی افریقی لڑکیوں نے   ایک   اور لائن بنا لی جو بوڑھے  کے آگے کھڑی ہوئی لڑکی سے مل گئی ۔
بڑھیا نے کہا ، " اِنہیں پیچھے ہٹائیں یہ کہا بیچ میں گھس گئیں ؟"

بڑھیا کوجلدی تھی باہر چم چم اور اُس کی ماما انتظار کر رہی تھیں ۔اور سامان چیکنگ کر کے ٹیگ اتارنے والا بڑے آرام سے اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا ۔
" میرا خیال ہے ، کہ یہ ایک گروپ ہے ، پہلے سے کھڑی لڑکی سے جڑ گیا ہے " بوڑھے نے کہا۔
" معاف کرنا نیک دل خاتون ، آپ جوان ہیں ، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ سب اِس بڑھیا کے پیچھے کھڑی ہوجائیں " 
بوڑھے کے آگے جو خاتون کھڑی تھی وہ بولی ،" یہ میرے ساتھ ہیں "
" ٹھیک ہے ، یہ سامان لے کر بعد میں آئی ہیں ، یہ پیچھے جائیں  اور اگر یہ آپ کے ساتھ ہیں تو آپ اِن کے ساتھ ہوجائیں " بوڑھے نے ترکیب بتائی ۔

اُس نیک دل خاتون نے ، امھارک میں کچھ کہا ، تو وہ  چھ کی چھ لڑکیاں  پیچھے چلی گئیں  ، یو ں بڑھے اور بڑھیا کی باری  6 جلدباز لڑکیاں سے پہلے مگر 40 منٹ بعد آئی ۔  بوڑھا ٹرالی کو دھکا دیتے ہوئے جب بلڈنگ سے باہر نکلا تو سامنے بڑی سے پودوں کی باڑ ،  بائیں طرف ایک لمبی سے راہ داری نظر آئی ۔ جب بوڑھا اور بڑھیا  راہداری کے آخر میں گئے  ، تو یو ٹرن لیا ،اب دائیں طرف ایک لمبی سی راہ داری   تھی ، بڑھیا کو چم چم نظر آئی ، بوڑھے کو نظر آئی ، بوڑھے نے ٹرالی سمیت دوڑ لگا دی اور بڑھیا سے پہلے پہنچ گیا۔
 چم چم اور اُس کی ماما کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ، کیوں کہ بوڑھا اور بڑھیا بخیریت عدیس ابابا پہنچ گئے ۔ گھر پہنچنے تک ہماری چم چم چہچہاتی رہی ۔ 
گھر پہنچ کر بوڑھے اور بڑھیا نے روشن اور ہوادار فلیٹ سے عدیس ابا با کا نظارہ کیا ۔ تا حدِ نظر کئی منزلہ بلڈنگز ، ہوٹل اور سرکاری عمارات کا جنگ ہے ۔ 
یقین نہیں آتا کہ ایتھوپیا کا یہ شہر اتنا خوبصورت ،گرم بگولوں سے پاک ،  ٹھنڈا اور  2000 میٹر کی بلندی پر ہوگا ۔
چم چم نے اپنا مکمل پلان بتایا ، کہ وہ ہمیں ایتھوپیا کیسے گھمائے گی ؟  
" آوا ، یہاں آتش فشاں بھی ہے  اور سالٹ لیک بھی ، اور ننا   یہاں آپ کو معلوم ہے کہ بہت خوبصورت چرچ ہیں  ، لیکن پہلے آپ میرے سکول جائیں گے اور  کل میں نے آپ لوگوں کے آنے کی خوشی میں اپنے دوستوں کو پیزا  پارٹی دی ہے۔"
چم چم  نے بلا تھکان بولتے ہوئےکہا ،"  شام کا کھانا ماما انڈین ریسٹورینٹ سے منگوائیں گی ،ننا  وہاں کی بریا نی بہت اچھی ہوتی ہے "
" میری بریانی سے بھی اچھی" بڑھیا نے پوچھا 

" نہیں ننا ، آپ کی بریانی سے اچھی نہیں ، آپ بریانی مصالحہ لائی ہیں ۔ اچھا میرے لئے کیا چیزیں لائی ہیں ؟" چم چم نے پوچھا ۔
اور بڑھیا اپنا سوٹ کیس کھول کر بیٹھ گئی ۔
٭٭٭٭واپس ٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔