Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 23 نومبر، 2019

بون سائی بودے

  ہر انسان کا خواب ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں چھوٹا سا گارڈن ہو، جس میں اس کے من پسند پودے لگے ہوں، لیکن شہروں میں زمینیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگ چھوٹے گھروں اور فلیٹس میں رہنے کے لئے مجبور ہیں۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کا گارڈن بنانے کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے، مگر اس میں مایوس ہونے کی بات نہیں ہے۔ ایسے لوگ گھر میں چھوٹے گارڈن اور بونسائی پودے لگاکر اپنی یہ خواہش پوری کر سکتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ آم، جامن، نیم، شیشم، املی، پیپل اور برگد وغیرہ کے دیوہیکل درخت بالکل چھوٹے سائز میں آپ کے ڈرائنگ روم میں سجے نظر آئیں تو کیسا لگے گا؟ یقینا اچھا لگے گا، کیونکہ بونسائی کے ذریعہ ایسا ممکن ہے۔ بڑے درختوں کی چوٹی آپ کھڑے کھڑے یا بیٹھے بیٹھے چھو سکتے ہیں۔ بونسائی کے ذریعہ آپ بڑے درختوں کو چھوٹے قد و قامت میں اپنے گھر آنگن، کمرے، برآمدے اور بالکونی میں لگا سکتے ہیں۔ بونسائی، چھوٹا ہی سہی لیکن ہوم گارڈن بنانے کے لئے بہترین آئیڈیا ہے۔ اس میں لاگت کم اور دلچسپی کا سامان زیادہ ہے، خاص طور سے ان لوگوں کے لئے جو شجرکاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
 
بونسائی کا  مطلب ہے ’’بونے پودے‘‘ یا پودوں کو چھوٹا بنانا۔ یعنی شاخوں اور جڑوں کی مسلسل تراش خراش کرکے اس قدر چھوٹا بنانا کہ وہ دیکھنے میں ایک مکمل درخت نظر آئے لیکن سائز میں بالکل چھوٹا ہو، بونسائی کہلاتا ہے۔ اس طرح کسی بھی پودے کا بیج سے یا قلمی پودے کے ذریعہ بونسائی تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ٹہنیوں، پتیوں اور جڑوں کی کٹائی چھنٹائی کے علاوہ گملوں کی تبدیلی ایک مقررہ مدت پر کی جاتی ہے۔
اگر ہم بونسائی کی تاریخ کی بات
کریں تو اس کی ابتداء چین میں ایک ہزار سال قبل ہوئی۔ چینی زبان میں اسے ’’پنسائی‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور جب یہ فن جاپان میں پہنچا تو جاپانی زبان میں ’’بونسائی‘‘ ہوگیا۔ چینی لوگ بونسائی کے ذریعہ الگ الگ جانوروں اور پرندوں کی شکل دیا کرتے تھے۔ اس کے پیچھے ان کے کچھ رسم و رواج اور دیومالائی کہانیاں وابستہ تھیں۔ جاپان میں اس کا داخلہ زین بدھ ازم کے ذریعہ 12ویں صدی میں ہوا، لیکن جلد ہی یہ بدھ بھکشوئوں کے پاس سے نکل کر اعلیٰ ذات کی عزت و وقار کی علامت بن گیا۔ 19ویں صدی کے وسط تک جاپان میں یہ فن اپنے عروج پر تھا اور اس دوران وہاں پہنچنے والے بیرونی سیاحوں کے ذریعہ بونسائی‘ جاپان سے باہر کی دنیا میں متعارف ہوا۔

بونسائی
 کی ترقی یافتہ دور کا تعلق جاپان سے ہے۔
جس میں پودوں کو چھوٹے سائز میں  ہی پرکشش شکل دی جاتی ہے۔ اس ماڈرن دور کی بات کریں تو اب بونسائی پودوں کو سجاوٹ اور تفریح طبع کے مقصد سے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ٹھیک سے دیکھ بھال کی جائیں تو بونسائی پودے آرام سے سو سوا سو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
درختوں کی بونسائی شکل دیکھتے ہی سب سے پہلا سوال جو ہمارے دماغ میں آتا ہے، وہ یہ کہ آخر درخت بونے کیسے ہوتے ہیں ؟
آئیے سب سے پہلے ہم خلاصہ کے طور پر اس کے طریقہ کار کو سمجھ لیتے ہیں۔
حقیقت میں بونسائی‘ سائنس اور باغبانی کے علم کا سنگم ہے۔

٭یہ تھوڑی محنت، تھوڑی کوشش اور زیادہ توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ نئے قلمی پودے کو بونسائی بنانے کے لئے کوکوپٹ، ریت اور گوبر کی کھاد ملاکر خاص بھربھری بنائی گئی مٹی اور اتھلے برتن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بونسائی درخت کا سائز: بونسائی پودے کی ہیئت اور سائز پر مت جائیے، ان کو پودے سے پیڑ بننے میں عام درختوں سے تو کم وقت لگتا ہے لیکن پھر بھی برسوں لگ جاتے ہیں۔ ایک عام درخت بڑا ہونے کے بعد قریب 5میٹر یا اس سے بھی اونچا ہوتا ہے۔ وہیں سب سے بڑے ہیئت کے بونسائی درخت کی اونچائی زیادہ سے زیادہ ایک میٹر رکھی جاسکتی ہے۔ بہت چھوٹا بونسائی 15سینٹی میٹر، اس بڑا 15 سے 30 سینٹی میٹر، درمیانی بونسائی 30 سے 60 سینٹی میٹر اور بڑا بونسائی 60سینٹی میٹر سے اونچا ہوتا ہے۔
 پودوں کا انتخاب: 
سدا بہار درختوں میں جن کا شمار ہوتا ہے ان میں انار، آم، املتاش، آکاش، نیم، برگد، سنترہ، گولر، پیپل، برگد، چیکو، لیچی، چیڑ، کیشیا، لیمو، املی، جامن و انجیر وغیرہ ہیں۔
 اسی طرح کچھ دوسرے درخت بھی ہیں جن کو پت جھڑ والے درخت کہتے ہیں، ان میں اوک، بیر، برچ، دیودار، پھر، ناشپاتی، اڈوسا، آنولا، امرود، چائنیس نارنگی، پلاش، دیودار، چنپا، چیری، سیمل، چنار، شمّی، سیمل، گڑہل، بوگنویلیا اور گل موہر وغیرہ ہیں۔
 ان درختوں کے انتخاب کے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ یہ ہیں : 
٭ منتخب پودوں کی عمر کئی سالوں کی ہونی چاہیے۔ 
٭ پودا سخت حالات برداشت کرنے والا ہونا چاہیے۔
 ٭ پودوں کی پتیاں، پھول اور پھل دیکھنے میں خوبصورت ہوں۔ 
٭ پودا کیڑوں مکوڑوں کو متوجہ کرنے والا نہ ہو۔

٭ پودے کی دیکھ بھال کرنے اور اسے اپنی پسند کے مطابق شکل دینے کا الگ ہی مزہ ہے۔ آپ ایسا پودا منتخب کریں جس کی ہیئت اچھی ہو اور جو کٹائی چھنٹائی کے بعد آسانی سے آپ کی خواہش کے مطابق خوبصورت لگے۔ خیال رہے کہ اگر آپ بیج سے پودے اگانا چاہتے ہیں تو آپ پودے کی نمو اور بڑھوتری کے ہر مرحلے میں جس طرح چاہیں کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو دیکھ ریکھ کرنا اچھا لگتا ہے تو آپ تیار شدہ پودے ہی خریدیں۔
 قلم سے بونسائی بنانا ایک دوسرا طریقہ ہے۔ آپ درختوں کی کٹی ہوئی ٹہنیوں کو الگ سے مٹی میں لگا کر پودے اگا سکتے ہیں۔ بیج کے بجائے کٹی ٹہنی سے اگائے گئے پودوں کو بڑھانے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اس طریقے میں بھی پودے کی بڑھوتری کے ہر مرحلے میں اسے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ 
بونسائی کیسے بنائیں :۔
 بونسائی پودے آپ دو طریقوں سے بنا سکتے ہیں۔ 
 (۱) چھوٹے قلمی پودے سے 
(۲) بیج کے ذریعہ۔ 
لیکن بیج سے بونسائی بننے میں کافی وقت لگ سکتا ہے، اس لئے آپ چھوٹے قلمی پودے سے ہی بونسائی بنانا شروع کریں۔ سب سے پہلے احتیاط سے پودے کو مٹی سے الگ کریں اور اس کی جڑوں پر لگی مٹی کو برش سے ہٹائیں۔ اب اس کے تنوں اور جڑوں کی تھوڑی تھوڑی کٹائی کریں تاکہ وہ پودا بونسائی گملے میں فٹ بیٹھ سکے۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پودے کو رکھتے وقت گملے کے کنارے سے لگ بھگ ایک دو انچ کی مٹی جڑوں سے دور ہونی چاہیے۔ اب گملے میں مٹی ڈالیں اور دو تین انچ موٹی مٹی کی پرت بناکر پودے کو رکھیں۔ پھر جڑوں کی چاروں طرف مٹی پھیلاکر دھیرے دھیرے دبائیں۔ اس کے بعد مٹی کے اوپر بجری اور کنکری پھیلائیں تاکہ گملا صاف ستھرا لگے۔
 کچھ دنوں بعد جب پودا گملے میں اچھی طرح جم جائے تو اس کی ٹہنیوں پر دھاتو کی تار لپیٹ کر اسے عام درخت جیسی شکل دیں۔ ویسے ٹہنیوں کو نیچے کی طرف جھکانے کے لئے کچھ لوگ وزن بھی باندھتے ہیں۔ درخت کو خوبصورت اور من پسند شکل دینے کے لئے اس کی ٹہنیوں اور شاخوں کو بڑھتے ہی لگاتار کاٹتے جانا ہوگا۔ 
جتنی اونچائی کا بونسائی آپ چاہتے ہیں، اتنی اونچائی حاصل کر لینے کے بعد آپ اس پر آنے والی نئی کوپلوں کو کاٹتے جا ئیں تاکہ وہ مزید اونچا نہ ہو، بلکہ اسی اونچائی پر پھیلتا جائے اور خوبصورت دکھے۔ اس طرح درخت کی لمبائی میں رکاوٹ ہوتی لیکن چوڑائی میں وہ پھیلتا جاتا ہے۔ جڑیں اور ری پاٹنگ (Repoting): ۔
بونسائی کے عمل میں پودوں کو وقفے وقفے سے نئے برتنوں میں منتقل کرنا ہوتا ہے جسے ری پاٹنگ (Repoting) کہتے ہیں۔ یہ ری پاٹنگ الگ الگ پودوں کے لئے چھ مہینے سے لے کر ایک سال، دو سال، تین سال یا چار سال تک میں کی جاتی ہے۔ ری پاٹنگ کے عمل میں پودے کی جڑوں کی کٹائی بھی کی جاتی ہے اور اسے کسی بڑے برتن میں منتقل کیا جاتا ہے۔ درختوں کی بہتر نشوونما میں جڑ وں کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ غذائیت کے لئے پتیوں کے ساتھ ساتھ جڑیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس لئے بونسائی کے عمل میں شاخوں کو منظم اور کنٹرول کرنے کے ساتھ مسلسل جڑوں پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔
 جب پودا بڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کی جڑیں بھی بڑھتی ہیں۔ ایسے میں ان کے برتن بدلنے کے دوران جڑوں کی بھی چھنٹائی کرتے جاتے ہیں۔ اس طرح جڑیں لمبی ہونے کی بجائے گھنی اور پیوستہ ہوتی جاتی ہیں۔ دونوں سروں، یعنی جڑ اور تنے کو لگاتار کاٹتے رہنے سے تنا لمبا ہونے کی بجائے چوڑا اور پیوستہ ہوتا جاتا ہے۔ اب تک آپ جڑوں کو چھانٹ چھانٹ کر اتنا چھوٹا کر چکے ہوتے ہیں کہ اسے ایک چھوٹے اور اتھلے برتن میں لگایا جا سکے۔ اتھلا برتن اس لئے تاکہ گہرائی میں وہ من مانے طور پر نہ بڑھ سکیں۔ 
جب ہم درخت کو ان محدود دائروں میں بڑھاتے ہیں تو ان کے نمو کا یہ طریقہ ہی ان کی فطرت بن جاتی ہے۔ جڑیں نئے طریقے سے ساخت ہونے لگتی ہیں۔ تنے میں بہت کم فاصلے سے نئی شاخیں نکلنے لگتی ہیں۔ شاخوں کی دوریاں کم ہونے سے وہ ایک گھنا درخت بنتا جاتا ہے۔ اور وہ انہی محدود دائروں میں ایک عام اور مکمل درخت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ لگاتار پتیوں کو ہٹاتے (Defoliation) اور چھانٹتے رہنے کے وجہ سے جب بونسائی تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے سائز کے مطابق پتیاں بھی تھوڑی چھوٹی آنے لگتی ہیں۔ پتیاں سائز میں چھوٹی مگر تعداد میں بڑھ جاتی ہیں اور اس سے درخت گھنا دکھنے لگتا ہے۔ ان سب کے باوجود بونسائی کے پھولوں کے سائز میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ بڑے درخت میں آنے والے پھولوں کے سائز کے ہی ہوتے ہیں۔ 
اگر کبھی آپ نے بونسائی درختوں کو پھل سے لدے ہوئے دیکھا ہو تو آپ چونکے بنا نہیں رہے ہوں گے کیونکہ ان میں پھل بھی عام سائز کے ہی آتے ہیں، پھر چاہے لیچی ہو یا آم۔ حالت تو یہاں تک پہنچتی ہے کہ پھلوں کے سبب ان کی ڈالیاں ہی جھک جاتی ہیں۔ ایک بات ضرور ہے، چونکہ ان درختوں کے سائز محدود ہوتے ہیں اس لئے ان میں پھلوں کی تعداد محدود ہی ہوتی ہے۔ کسی درخت کے بونسائی میں پھل اور پھول کا موسم عام درخت کی طرح ہی ہوتا ہے۔
 موسم کے مطابق پودوں کی دیکھ بھال:
 سردی کے دنوں میں بونسائی کی دیکھ ریکھ پر زیادہ دھیان دینا پڑتا ہے، کیونکہ بونسائی اتھلے برتوں میں لگایا جاتاہے اور بڑے پیڑوں کی طرح اس کی جڑیں زمین کے نیچے دبی نہیں ہوتیں، لہٰذا سردیوں کے موسم میں درجہ حرارت بہت کم ہو، تو بونسائی کو اندر کمروں میں رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس گرمی کے دنوں میں جب دن کے وقت درجہ حرارت بہت زیادہ ہو، تو بونسائی کو صرف صبح اور شام کی دھوپ لگنے دیں اور دوپہر کے وقت اسے سایے میں رکھیں۔ ان دنوں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس لئے پودوں میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔ 
بونسائی کے فائدے 
 ٭… بونسائی ایک اچھا روزگار بھی ہے۔ اس کی دیکھ بھال فارغ افراد کے ذریعہ اچھی طرح سے کی جا سکتی ہے۔ 
٭… جگہ کی کمی کی وجہ سے جو پودے گھر میں لگانا ممکن نہیں تھا، وہ بھی اب ہم اپنے گھروں میں لگا سکتے ہیں۔ 
٭… بونسائی بے حد خوبصورت اور دلکش ہوتاہے۔ یہ گھر کی خوبصورتی بڑھاتا ہے۔ 
٭… عام فصلیں خراب موسم کی وجہ سے کئی بار خراب ہو جاتی ہیں اور کسانوں کو نقصان ہو جاتا ہے، لیکن بونسائی کو خراب موسم سے بچایا جا سکتا ہے۔
 ٭… دیگر فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کی طرح اسے وقت مقررہ پر کاٹنا اور بیچنا نہیں پڑتا۔ 
٭… پھل، پھول اور سبزیوں کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کئی بار کسانوں کو صحیح قیمت نہیں مل پاتی اور خراب ہوجانے کے ڈر سے کسان انہیں کم قیمت پر بیچ دیا کرتے ہیں، لیکن بونسائی کی صحیح دیکھ بھال اس کی قیمت کو بڑھاتی ہے۔ 
٭… باغبانی ذہنی تنائو کو دور رکھنے میں مدد کرتی ہے، لیکن شہروں میں باغبانی ممکن نہیں ہو پاتی، ایسے میں بونسائی ایک اچھا ذریعہ ہے۔
 ٭… بزرگ حضرات جن کا وقت نہیں کٹتا، وہ بونسائی لگا کر اپنے آپ کو مصروف رکھ سکتے ہیں۔ 
٭… جن کسانوں کے پاس کھیتی کے کم رقبے ہیں، ان لوگوں کے لئے بونسائی ایک اچھا ذریعہ آمدنی ہے۔
 ٭… اگر گھر میں بونسائی لگایا جائے، تو گھر کے بچے بھی درختوں کے اہمیت کو سمجھیں گے اور ان کے رکھ رکھاؤ کو بے حد آسانی سے سیکھ جائیں گے۔ 
بونسائی کیلئے کچھ ضروری باتیں : 
٭… بونسائی بنانے سے پہلے باغ باغیچوں میں درختوں کے صحیح ہیئت و شکل کو دیکھ لیں۔ اس سے آپ کو بونسائی کے صحیح شکل دینے میں مدد ملے گی۔ 
٭… بونسائی پودوں کو ضرورت کے مطابق پانی اور دھوپ دیتے رہیں تاکہ اس کی نشوونما میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ مکمل پودے کی شکل دینے کے لئے وقفے وقفے سے کاٹ چھانٹ کرتے رہیں۔ 
٭… کچھ سال بعد گملے کی مٹی ضرور بدلیں کیونکہ اس میں پودوں کی غذائیت کم ہو جاتی ہے۔ 
٭… پودوں کو گملوں میں ٹھیک طرح سے لگانا چاہئے۔ 
٭… پودوں کو لگاتے وقت جڑوں کے بیچ میں ہوا نہ رہے، لہٰذا پودے کو اچھی طرح سے دبا دینا چاہئے۔ 
٭… بونسائی کو کھلی ہوا میں رکھیں اور اس بات کا دھیان رکھیں کہ دھوپ چاروں طرف سے لگے۔ 
٭… بونسائی کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اسے روزانہ پانی دیں اور تب تک دیں، جب تک کہ پانی برتن سے بہنے نہ لگے۔ 
٭… بونسائی کو ویسا ہی قد و قامت دیں، جیسا کہ وہ قدرتی طور پر ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔