Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 نومبر، 2019

ناروے میں قران کریم جلانے کے واقعہ پر تفصیل

ہفتہ ۱۶ نومبر کو ناروے کے جنوبی شہر کرسچئین سینڈ (Kristiansand)میں قران جلانے کی مذموم کوشش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کے بعد جذباتی نعرے، جہادی پوسٹس اور جلا دو، مٹا دو، تعلقات ختم کردو، ایمبیسی کو جلا دو وغیرہ جیسی کچھ پوسٹس وٹس ایپس اور فیس بک کے گروپس میں دیکھی۔ 
راقم (محمد الیاس ) چونکہ اسی شہر (Kristiansand)کا رہائشی ہے، سوچا اس بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دوستوں کی نظر کر دوں۔ 
یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جو صرف قران جلانے تک محدود نہیں۔ اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر پوری تحریر پڑھیئے گا  تاکہ ٓاپ کو تصویر کے دونوں رخ نظر ٓاسکے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس واقعے  کے محرّکات سمجھنے سے پہلے تھوڑا سا بیک گراونڈ اور محرکات پر روشنی ڈالی جائے ۔
 کرسچئین سینڈ (Kristiansand کی آبادی تقریبا 80 ہزار ہے جس میں 2 ہزار کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ واحد جامع مسجد کےعلاوہ شہر کے اطراف میں کچھ مصلے بھی ہیں۔ مسلمانوں  میں تیس سے زیادہ اقوام کے لوگ آباد ہیں، جن میں زیادہ تعداد صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین کی ہے۔ 
مسلمان نوجوانوں کی تعداد قابل ذکرہے  اور  بہت سے نوجوان یہاں کی معاشرتی اقدار میں رنگے ہوئے ہیں۔ نارویجن قانون کے مطابق آپ کو مذہبی ٓازادی ہے۔ پورے ناروے میں تبلیغی جماعتیں سفر کرتی ہیں، ان کے اجتماعات ہوتے ہیں، اور یورپ کے گنے چنے ملکوں میں  سے ناروے ایسا ملک ہے جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حّجت ویزے جاری کرتا ہے۔
ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد، سٹی کونسل میئر، پولیس اور باقی ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کو قانون کے مطابق پورا کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی ان سے کسی بھی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی، بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازوں کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کے ہمارے لئے نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔ 
اب آتے ہیں اصل واقعے کے محرکات کی طرف۔
ایک ستاسی سالہ جرنلسٹ ، اخبار کا ایڈیٹر  اور سیاست دان     ،"آرنے تھومیر (Arne Tumyr) نے یورپ کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک تنظیم بنائی، 
 متشدد خیالات کے یہ لوگ اسلام کے خلاف مختلف فورمز میں کافی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کرتے ہیں  اور کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو جوابی ہنگامے پر اُکسائیں ، تاکہ اسلام کو جبر و طاقت کے زور پر پھیلایا ہوا مذہب اورمسلمانوں کوبطور دہشت گرد  ثابت کیا جائے ۔ 
چونکہ ان لوگوں کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہیں۔ لہذا ان کے کسی مظاہرے میں قابل ذکر لوگ شامل نہیں ہوتے۔
جرنلسٹ اور اخبار کا ایڈیٹر   ہوانے کی وجہ سے ، میڈیا  ان کے مظاہروں کو  کوریج دیتا ہے۔ ناروے میں اظہاررائے کی آزادی ہے، آپ  مذہب ، سیاست ، یہاں تک کہ کسی انسانی رویے پر کھلی تنقید کر سکتے ہیں ۔ قانون تب حرکت میں ٓائے گا جب کوئی شخص نفرت، دہشت اور نسل پرستانہ تقریر کرے۔ اس کے علاوہ اپنی ائے کے اظہار کے لئے وہ آزاد ہے  جو مرضی کہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔  

پچھلے ہفتے آرنے تھومیر نے جب مظاہرے کا اعلان کیا تو ایک جرنلسٹ نے اس مظاہرے کا عنوان دریافت کرنے کی غرض سے انٹرویو کیا، جس میں آرنے تھومیر نے اعلان کیا، " ہم قران کو جلائیں  گے"۔ 
اس بات نے شہر کے سکون میں ایک ارتعاش پیدا کردیا اور فورا مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ ایکٹو ہوگئے کہ ایسی کسی بھی انہونی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے شہر کے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ سے منسلک لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی، جس میں پوری سٹی کونسل نے یک زبان کہا ،
" ہم اس مظاہرے کے سخت خلاف ہیں اور ایسی کسی بھی حرکت کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی"۔ 
حتیٰ کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اعلان کیا،
"  وہ قران کریم کو جلانے والی کسے عمل کو سپورٹ نہیں کریں گے"۔
 اسی میٹینگ کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے قانونی نقطہ اٹھایا ،
"قانون کے مطابق ہم مظاہرے کو نہیں روک سکتے جب تک وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتے جو قابل گرفت ہو"۔
لیکن چونکہ سیان کا یہ اعلان نفرت پھیلانے کے زمرے میں ٓاتا تھا تو پولیس کمشنر نے کچھ پیرامیٹرز طے کروائے جس میں سیان تنظیم کو یہ کہا گیا کہ مظاہرہ کرنا ٓاپ کا حق ہے لیکن ٓاپ قرٓان کریم کو نہیں جلا سکتے اور ایسا کرنے پر قانون کی گرفت میں ہونگے۔ 
یہاں میں یہ عرض کردوں کہ سیان تنظیم کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ،
٭-  وہ مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کریں اور ثابت کریں  کہ یہ لوگ نارویجن معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں،
٭-  ان کا رویہ پرتشدد اور مجموعی طرز عمل ہمارے معاشرے سے مطاقت نہیں رکھتا۔
٭ - مسلمانوں کو ناروے سے باہر نکالا جائے۔
 لہذا یہ ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اشتعال انگیزی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ حکمت اور بٖصیرت کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ ڈائیلاگ اور کانفرنسز میں بہت جاتے ہیں اور شہر کے سب آڈیٹوریمز میں کوئی نہ کوئی کانفرنس یا مکالمہ چل رہا ہوتا ہے۔ آرنے تھومیر نے پہلے پہل تو کوشش کی کہ اپنی پر نفرت باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جس میں وہ نبی ﷺ پر بھی رکیک حملے کرتا تھا، اس کی باتوں کو الحمداللہ بڑے مدلل انداز میں رد کیا گیا،جس کو پبلک نے پسند کیا اور اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ اسی وجہ سے ہماری مسجد میں الحمداللہ ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک نارویجین اسلام قبول کرتا ہے۔ ٓارنے تھومیر کی بے بنیاد باتوں اور نفرت پر مبنی تقریروں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور یہاں کے چرچ نے پابندی لگا دی کہ اس کو کسی تقریب میں نہیں بلانا تاکہ یہ اسلام سے متعلق اپنی نفرت کو پھیلانے کے لئے ہمارا فورم استعمال نہ کر سکے۔
لوکل انتظامیہ اور ادبی حلقوں سے کٹنے کے بعد اس تنظیم کے پاس صرف ایک ہی ٓاپشن رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرے کرے۔ جس میں آزادی اظہاار رائے کی آڑ میں ، اسلام و محمد ﷺ کو ٹارگٹ کیا جاسکے ۔ 
یہ اپنے مظاہرے میں باقاعدہ کیمرے اور میڈیا کے لوگوں کو ایڈجسٹ کرتے کہ اگر کوئی مشتعل شخص ان کو زَدوکُوب کرے تو اس کی تصاویر و ویڈیو کو وائرل کروا کر لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرےکی روایات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ 
ناروین اکابرین ، جن میں سب سے زیادہ متحرک جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی صاحب نے اس بات کو بہت پہلے سے بھانپ لیا تھا، لہذا وہ پہلے دن سے کہتے تھے کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اس کو قابو کر لے گا۔ لہذا ہم مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگخیتہ نہ ہوں اور اپنے جذباتی پن سے ،اس کے کسی مقصد کو کامیاب نہ کریں۔
اس مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر ٓارنے تھومیر نے قرٓان کریم کی بے حرمتی کی تو اس کو ایسی کسی حرکت سے روکنے کے لئے پولیس موجود ہوگی لہذا انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اشتعال میں آکر کوئی کاروائی نہ کی جائے۔
 ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف ٓاٹھ لوگ تھے، جبکہ چار سو سے زیادہ لوگ، جن میں نارویجنز کی قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی، اس کے مظاہرے کے خلاف موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند رکھا ہوا تھا کہ لڑائی کی صورت نہ بن سکے۔ ٓارنے تھومیر نے تقریر کے دوران قرآن  کریم کی ایک کاپی باربی کیو گرل کے اوپر رکھی ہوئی تھی، جس کو پولیس نے فورا اپنے قبضہ میں لے لیا۔ 
اس دوران سیان تنظیم کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخہ کو نکال کرآگ لگا دی ۔

 انہی لمحوں میں ترکی کا نوجوان عمر دھابہ  نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو دھکا دیا ، اِسی دھکم پیل میں جلتا ہوا قرآن   لارس تھورسن کے ہاتھ سے گر گیا 
 ٓاگ کو بجھانے کے لئے پولیس فورا دوڑی، لارس کو فورا سول پولیس نے اس حرکت پر گرفتار کر لیا اور عمر دھابہ کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ 
 اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے اور ٹھڈے مارے، کہ وہ لارس تک پہنچ سکے۔ عمر اور دیگر کچھ اور ساتھیوں کی مداخلت نے آرنے تھومیر کو وہ فراہم کر دیا جو اس کو چاہئیے تھا، یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کروانا کہ یہ لوگ یہاں کے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، آج ان نوجوانوں کی ویڈیو اور تصاویر پورے ناروے میں وائرل  ہیں، جو صرف ایک طرف کی ہے،
  " مسلمان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں "
 اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعے پر قانونی طریقے سے گرفت کی جاسکتی تھی، اگرچہ اس کی کوشش جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کر لیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن دوسری طرف ہمارا کیس کچھ کمزور ہو گیا ہے کہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں، چونکہ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا جو قابل گرفت حرکت ہے۔
ہمیں اس سارے واقعے کو ایک لارج پرسپیکٹو میں دیکھنا پڑے گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتطامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی تاثر کافی مثبت ہے۔ نارویجنز بھی آرنے تھومیر کی تقاریر کو ریجیکٹ کرتے ہیں اور اس کی یہاں کوئی سنائی نہیں ہے۔
 میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نناوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کے ساتھ ہے، لیکن یہ سب ملیا میٹ ہو سکتا ہے اگر ہمارے نوجوان، یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں۔ یہ یہاں کا قانون ہی ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
 اس اندہناک واقعے کے بعد  پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان بھی اس مسئلہ پر مسلمانوں ساتھ متفق ہیں۔ لیکن ان سب کی سپورٹ صرف قانون کےدائرے میں رہ کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم جذبات میں ٓاکر جلاو، گھیراو، سڑکوں پر ٹائر جلانے، قتل کی دھمکیاں اور دیگر جذباتی نعروں سے پرھیز کریں اور حکمت اور دانش کے ساتھ اس مسئلے کو حل کی طرف لے کر جائیں تو قانون اتنا طاقتور ہے اور معاشرہ اتنا باشعور ہے کہ ایسی باتیں یہاں زیادہ دیر پنپ نہیں سکتیں لیکن اگر قانون کو ہاتھ میں لے کر اس مسئلے کو خود حل کرنے گے تو جو حاصل وصول ہے وہ بھی جائے گا۔  
اس واقعے کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگ اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے یکجہتی کے اظہار کے لئے ٓاج جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔
دوستوں سے درخواست ہے کہ اگر مناسب لگے تو شیئر کر دیجیے گا تاکہ واقعہ کے اصل احوال لوگوں تک پہنچ سکے۔ جزاک اللہ۔ 
(Muhammad Ilyas , Kristiansand, Norway )
پس تحریر ایک بات عرض کردوں کہ 
ہمارے لئے یہ بات ٓاسان ہے کہ کسی بھی نوجوان کو تیار کر کے بھیجے اور وہ اس شرپسند کو مار آئے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ شر پسند تو مرنے کے لئے بھی تیار بیٹھا ہے، آرنے تھومیر خود کہتا ہے کہ اگر کوئی مجھے گولی مارے تو اچھی بات ہے، اس سے کم از کم مسلمانوں کو تو نقصان ہوگا، اور میری بات سچ ثابت ہوگی کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ لہذا جذبات کو ایک طرف رکھ کر اس معاملے کو دانش و حکمت عملی سے حل کرنا ہے، اور قانون اس کا راستہ ہمیں دیتا ہے، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ 
آپ سب بھائیوں کے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن چونکہ زمینی حقائق بلکل مختلف ہے، لہذا اس کو مشتعل ہو کر حل نہیں کیا جا سکتا۔.  میں ہر پوسٹ پر فردا فردا کمنٹ کا جواب نہیں دے سکتا، کیونکہ بہت سےجذباتی دوست ایک رو میں بہہ رہے ہیں، لہذا ان کو جواب دینا مناسب بھی نہیں۔

پوسٹ میں عمردھابہ کو بلکل بھی پر تشدد نہیں کہا، بلکہ اس کا عمل جذبہ ایمانی کے عین مطابق تھا، اور کوئی ادنی سے ادنی مسلمان بھی قران کی بے حرمتی پر ایسا ہی عمل کرتا۔ لیکن اس کے ٓافڑ رزلٹس بتا رہا ہوں کہ ٓارنے تھومیر کو دو سو فیصد اندازہ تھا کہ وہ اشتعال دلا کر مسلمانوں مین  انتشار کی کیفیت کو پیدا کرے، جو اس کا ہدف تھا، وہ اس نے پا لیا۔ وہ ایک شکاری ہے اور اشتعال دلانا اس کا ہتھیار ہے۔ ہم اس کو کافی عرصے سے جانتے ہیں اور اس کا ہمیں بہت اچھا اندازہ تھا کہ وہ ایسی گھٹیا حرکت کیوں کر رہا ہے، اسی لیے پولیس و انتظامیہ سے اس سلسلے میں بات بھی کی تھی، اس کو پولیس لیپس کہہ سکتے ہیں کہ ان کے رسپانس ٹائم میں سستی تھی اور اس کو پولیس کمشنر نے اس واقعہ کے بعد مانا بھی ہے کہ ہماری پولیس اس کو پوری طرح کوپ نہیں کرسکی۔ اسی وجہ سے ٓارنے تھومیر کو اب فلوقت بین کر دیا ہے کہ وہ مظاہرے والی جگہ نہیں ٓاسکتا۔ جبکہ لارس جس نے قران جلانے کی ناپاک جسارت کی اس کی جیل کسٹڈی میں پروسیڈنگ شروع کریں گے۔ اب جبکہ اس شخص نے میڈیا کی توجہ حاصل کر لی، اتنا ہی زیادہ اس کو باہر سے فنڈنگ ہوگی، کیونکہ یہاں کی پولیس نے بتایا تھا کہ اس تنظیم کی فنڈنگ اسرائیل اور امریکہ سے ہورہی ہے۔ 
ہمیں ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہمارے اس ردعمل کے بعد کیا وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگیا کہ اس کا تیر ہدف پر لگا ہے؟ حکومت نے اس کو قران جلانے کی اجازت نہیں دی تھی،اور غیر قانونی عمل پر وہ گرفت میں بھی آیاہے۔ ہم اس کو قانونی طور پر بین کروانے کے لئے پوری طرح کوشش کریں گے اور ٓاخر تک جائیں گے، جس میں ہمارے ساتھ یہاں کے سیاست دان اور دیگر سوسائیٹیز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس پر پابندی لگنے سے ایک سد باب تو یہ بھی ہوگا کہ دوبارہ کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ ایسی حرکت کر سکے۔ دوسری طرف اگر قانون ہاتھ میں لے کر ہی معاملہ حل کروانا چاہتے ہیں پھر یہ بھی جان لیجئے کہ ایسے متشدد لوگ بے تحاشہ ہیں اور ابھی تو ایک نے ایسی مذموم حرکت کرنے کی کوشش کی، بعد میں کوئی دوسرا اٹھے گا اور وہ بھی یہی کرے گا۔ ہم اس کو اگر مار بھی دیں تو بھی نقصان مسلمانوں کا ہے کہ ان کو اپنی اسلامی  شعائر کی ادائیگی میں مسائل ہوں گے اور میڈیا اس کو جس طرح اچھالے گا، ٓاپ لوگ وہاں بیٹھ کر تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کا واحد حل قانون سازی ہے، جس کے لئے ہمیں سیاست دانوں کی زہن سازی بھی کرنی پڑے گی اور ان سب کے لئے جذباتیت سے نکل کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
باقی ٓاپ دوستوں کے جذبات کی قدر ہے۔ اللہ ہمیں اپنے دین پر قائم رکھے اور قرٓان کی حرمت پر ہم جتنے جذباتی ہیں، کاش اس کے اوپر عمل کرنے میں بھی جذباتیت کا مظاہرہ کریں۔ ٓامین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔