Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 29 مئی، 2017

لوگوں کا بچا ہوا کھانا میرا رزق !

خواتین کے ایک   سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا، جلدی سے اُس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا،
" کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟"
اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا،
"میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں" ،
ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔
کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔،
"کیا بات ہے؟ کیوں جھگڑا ہو رہا ہے ؟ "
" مس  "  تلاشی لینے والی طالبہ بولی ،" کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی!"
ٹیچر وہیں تڑک سے بولی ، " پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے!"
کوثر تڑپ کر بولی، "  نہیں۔۔ نہیں ۔ ۔ ۔  مس میں چور نہیں ہوں!"
”چور۔۔۔نہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو" طالبہ بولی ،
”نہیں"   کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا "نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی"
ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی ۔
ٹیچر نے دوسرا تھپڑ کوثر کو   مارنے کے لئے   کےلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ، " ٹہرو "
ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھی نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔
انہوں نے کوثراورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔۔۔
پرنسپل نے پوچھا، "اب بتایئے کیا معاملہ ہے"
ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔
پرنسپل نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا ”تم نے پیسے چرائے؟۔"
”نہیں" کوثر نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔
کوثر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے
 ”بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔" پرنسپل متانت سے بولیں "جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟"
کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔
ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔
اس میں کیا راز ہے ؟پرنسپل سوچنے لگی۔۔
اور پھر کچھ سوچ کر پرنسپل نے ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا!
پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر بولی ، : اپنا بیگ مجھے دو !"
کوثر نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا ، یہ ہاتھ سے بنا ہوا سادہ سا بیگ تھا ، جس پر کچھ سٹکر بھی لگے ہوئے تھے ، پرنسپل نے  کوثر کی طرف ایک نظر دیکھا اور  بیگ  کھول کر ،  بیگ کی چیزیں میز پر نکال کر رکھنا شروع کیں ، کتابوں اور کاپیوں  کے ساتھ ، ایک کالے رنگ کا  شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ باقی بیگ میں کچھ نہیں تھا ۔
پرنسپل نے سوالیہ نظروں سے کوثر کی طرف دیکھا ،
کوثر کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں  آدھےکھائے ہوئے  برگر کے ٹکڑے ، آدھے سموسے، چوتھائی  نان  اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔
سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ، اُس کی آنکھیں دھندھلا گئیں   وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔
کوثر نے  پرنسپل کو بتایا ، " میں گھر میں سب سے  بڑی ہوں ،   3 بہن بھائی  مجھ سے چھوٹے ہیں ،والد صاحب  نائب قاصد ریٹائر ہوئے  ہیں ، لیکن ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے ، اب تو بستر پر لگ گئے ہیں ۔گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا ، امی پاس کے دو گھروں میں کام کرتی ہیں ، کھانا اتنا نہیں ہوتا کہ روزانہ پیٹ بھر کر کھایا جائے ، ہم اکثر بھوکے سوتے تھے ۔  ایک  شام میں نے اور امی نے کچھ نہیں کھا یا ، میں  صبح کھائے بغیر  کالج آرہی تھی  بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔ ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھایا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔

پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں اُسی دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر  حیران ہو گیا ،
پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی ،واپس گیا اور رات کا بچا ہوا کھانا  پیک کر کے لا کردیا ، وہ میں بیگ میں ڈال کر سکول لے آئی ،   وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا،  اب وہ اکثر ہمارے گھر  کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال میرے لئے ، اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔
جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں ، کچھ کھاتی ہوں اور باقی  جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ چھوٹی سی کہانی ، جسے پہلے میں نے  کسی قلم کار کا ہنر سمجھا تھا ، لیکن چند دن پہلے میں نے وزارت داخلہ  کے چپڑاسی کے بارے میں ٹی وی نیوز میں سنا ، جس نے اپنے گھر والوں کو فاقے سے بچانے کے لئے ،  چھت سے کود کر  اِس امید پر خود کشی کرلی کہ شائد سروس کے دوران مرنے والے  ملازم کی اولاد کو وہی نوکری مل جاتی ہے ، اُس خبر نے بھی مجھے غمزدہ کیا لیکن اِس کہانی نے تو رُلا دیا  ، مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے دل پر اِس کہانی نے کیا اثر کیا ؟لیکن ایک درخواست ہے ، کہ
خدا کے واسطے رحم کرو۔۔۔
غریبوں سے ہمدردی کرو ۔۔۔
جو اُس دانے  کے محتاج ہیں جو ہم ، ڈسٹ بِن میں ڈال دیتے ہیں ۔
ہم کتنے افراد کا رزق جو اللہ نے اُن کے لئے پیدا کیا ، پیسے کے بل پر ذخیرہ کرکے اور کھانے کی صورت میں ضائع کر دیتے ہیں،
پھر سوچتے ہیں کہ

اگر اللہ  نے ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر فرض کی ہے تو لوگ بھوکے کیوں مرتے ہیں ؟
اٗن لوگوں کی بھوک کا ذمہ دار میں ہوں ، آپ ہیں اور ہم سب ہیں ۔
یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں !
(مہاجرزادہ)

اتوار، 28 مئی، 2017

یومِ تکبیر 28 مئی 1998

11 مئی 1998ء کی سہ پہر، ساری دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین نیوکلیائی ٹیسٹ کرنے کا اعلان کیا۔ مزید حیرانی تب ہوئی جب اگلے دن دو اور ٹیسٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جوابی پریس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ گوہر ایوب نے کہا کہ ہم ہندوستان کو جواب دینے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔

اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم، میاں محمد نواز شریف پر ایٹمی دھماکے کرنے کیلئے قوم کی طرف سے بے پناہ دباؤ تھا۔ دوسری طرف امریکہ سمیت، کم و بیش تمام اقوامِ عالم پاکستان پر ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اِس کے باوجود، پورے ملک میں یہ نعرہ گونج رہا تھا: ’’میاں صاحب! دھماکہ کردیجئے ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔‘‘
15 مئی 1998ء کے روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا گیا۔ چونکہ ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب بیرون ملک تھے، اس لئے کابینہ کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے اور جوابی پاکستانی تیاریوں کے بارے میں بتانے کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے کاندھوں ہی پر آن پڑی۔
ڈاکٹر ثمر مبارک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 11 مئی کو ہندوستان کا صرف ایک ہی ٹیسٹ کامیاب ہوا تھا؛ اور اگر پاکستان نے دھماکہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن صرف دس دنوں میں ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے بالکل تیار ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کے آر ایل کی طرف سے بتایا کہ اگر انہیں یہ ذمہ داری دی جائے تو وہ تین مہینے کے اندراندر دھماکہ کرسکتے ہیں۔ کے آر ایل اور پی اے ای سی، دونوں تیار تھے لیکن پی اے ای سی کو دو وجوہ سے برتری حاصل تھی: ایک تو یہ کہ پی اے ای سی کے پاس کولڈ ٹیسٹ کا وسیع تجربہ موجود تھا؛ اور دوسری یہ کہ چاغی کی سائٹس، پی اے ای سی نے ہی تیار کروائی تھیں۔
16 مئی کو وزیر خارجہ نے اعلان کیاکہ پاکستان کی طرف سے دھماکہ تو یقینی ہے؛ صرف وقت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ 17 مئی کو میاں نوازشریف نے ڈاکٹر اشفاق احمد اور ڈاکٹر ثمر مبارک کے ساتھ ایک ملاقات میں انہیں ایٹمی دھماکے کیلئے تیار رہنے کو کہا۔ 18 مئی کو چیئرمین پی اے ای سی کو دوبارہ وزیرا عظم ہاؤس بلا کر کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا فیصلہ سنادیا گیا: ’’دھماکہ کردیجئے۔‘‘ چونکہ چاغی میں چھ دھماکے کرنے کی گنجائش تھی، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ چھ ٹیسٹ ہی کئے جائیں گے۔
19 مئی کو پی اے ای سی کے 410 سائنسدانوں کی ایک ٹیم چاغی پہنچ چکی تھی۔ وہاں پہلے ہی سے ڈی ٹی ڈی، تھیوریٹیکل گروپ اور واہ گروپ کے لوگ موجود تھے۔ 24 مئی تک نیوکلیئر ڈیوائس کی تنصیب کرکے تاریں بچھائی جاچکی تھیں۔ 26 مئی تک جگہ کو مکمل طور پر سربند (sealed) کردیا گیا۔
27 مئی کو امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو کی گئی، 25 منٹ تک جاری رہنے والی فون کال میں ان سے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے اس کہ بدلے میں پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن اس سے بہت پہلے ہی 28 مئی 1998ء کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت طے کیا جاچکا تھا۔
چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ گراؤنڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والے علاقے) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹالیا گیا تھا۔ 2 بج کر 30 منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جاوید ارشد مرزا اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے۔ تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جاچکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کو، جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ ڈیزائن کی تھی، بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔
بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔ اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔ دل سہمے ہوئے لیکن دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا؛ لیکن وہ تیس سیکنڈ، باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔ یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔ یہ بے یقینی اور شک کے لمحات سے گزر کر، مشکلات اور مصائب پر فتح پانے کا لمحہ تھا۔
جنرل ذوالفقار نے ایٹمی دھماکے کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک روشن دن تھا، جب وہ ایٹمی دھماکوں کیلئے بلوچستان کے شہر چاغی پہنچے ۔ 28 مئی 1998ء کو وہ اس پہاڑ کے سامنے کھڑے تھے جس کے اندر بنائے جانے والے ایک غار میں دھماکہ کیا جانا تھا ۔ اس ٹنل کی مخالف سمت میں وہ ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے، اٹامک انرجی کمیشن کے ایک جونئیر اہلکار جوعمر میں ان سب سے بڑے تھے، ان سے کامیابی کی دعا کروائی گئی۔ رقت آمیز دعا کے بعد انہی سے بٹن دبانے کی استدعا کی گئی ۔انہوں نے بٹن دبایا ۔ بٹن دبانے اور ایٹمی دھماکے میں گیارہ سیکنڈ کا تاخیری وقت رکھا گیا تھا ۔ یہ گیارہ سیکنڈ اس دن اتنے لمبے ہو گئے کہ انہیں گیارہ ماہ اور گیارہ سال معلوم ہو رہے تھے۔
انہوں نے کہا،’جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو ہمارے پاوں تلے موجود زمین ہل گئی۔ یہ ریکٹر سکیل پر چارسے چھ تک کی شدت کا ایک زلزلہ تھا ۔ ہمارے سامنے موجود کالے
رنگ کا مضبوط گرینائڈ پہاڑ پہلے گرے رنگ میں تبدیل ہوا پھر اس کا رنگ آف وائٹ ہو گیا ۔ اس پہاڑ میں ایک ملین سینٹی گریڈ کا ٹمپریچر پیدا ہوا۔ اس کے باوجود کوئی نیوکلئیر تابکاری وہاں سے خارج نہیں ہوئی۔‘

جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اٹھے، آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔ پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے اپنی جبینیں، سجدۂ شکر بجالاتے ہوئے خاک بوس کردیں۔ اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جب پاکستان، دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکتا تھا۔ یہ لمحات پاکستان کی تاریخ میں عزت، وقار اور شان و شوکت کا تاج بن کر تاریخ میں رقم ہورہے تھے․․․ پاکستان بالآخر مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔

سہ پہر تین بجے میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب کا آغاز کیا: ’’آج ہم نے پانچ کامیاب نیوکلیائی دھماکے کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سنہرا باب ہے۔‘‘ انہوں نے اس پر پوری قوم، پاکستانی سائنسدانوں اور باالخصوص پی اے ای سی اور کے آرایل کے سائنسدانوں کوہدیہ تہنیت پیش کیا۔


ہم نے ایٹم بم تو بنالیا، لیکن ملکی سالمیت آج بھی خطرے میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر وطن عزیزکے دفاع کو مضبوط بنائیں اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے سامنے اسی جذبے کے ساتھ سینہ سپر ہوجائیں، کہ جس جذبے نے ایٹمی دھماکوں کو ناممکن سے ممکن بنادیا تھا۔



ماہنامہ گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2013ء میں شائع شدہ تحریر
بشکریہ :Sanaullah Khan Ahsan

بدھ، 24 مئی، 2017

ہمارا ھیرو :کرنل (ر) عبدالجبار


کرنل( ریٹائرڈ)   عبدالجبار بھٹی ، کٹھمنڈو  کے ایک ہسپتال میں صحت یابی کی طرف-


دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے چوتھے پاکستانی کوہ پیما ء کرنل(ر)عبدالجبار بھٹی کی طبیعت بگڑ گئی تھی   اور اُن کے معاون  ساتھی  کی ، ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد واپس آتے ہوئے آکسیجن ختم ہو جانے کی وجہ سے پاکستانی کوہ پیما کرنل(ر)عبدالجبار بھٹی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ریسکیو ٹیموں کی مدد سے انہیں بیس کیمپ تک لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستانی فوج کے   کرنل(ریٹائرڈ)  عبدالجبار بھٹی دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے والے چوتھے پاکستانی بن گئے ہیں۔انھوں نے یہ کارنامہ اتوار  21 مئی 2017 کو سرانجام دیا ہے۔
الپائن کلب کے مطابق عبدالجبار بھٹی مقامی وقت کے مطابق دوپہر ڈھائی بجے چوٹی پر پہنچے اور چوٹی سر کرنے کے بعد وہ نیچے کیمپ 3 کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
عبدالجبار بھٹی سے قبل نذیر صابر، حسن سدپارہ اور ثمینہ بیگ ماؤنٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔
ان تینوں افراد کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا اور کرنل(ر) بھٹی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پہلے پاکستانی ہیں جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
کرنل (ر) عبدالجبار اس سے قبل پاکستان کی کئی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کرنل (ر) جبار نے پاکستان میں پیرا گلائڈنگ کو مقبول بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔




منگل، 23 مئی، 2017

وسعت نظری

تنقید اور تذلیل میں حد فاصل

خوانین کی داستان کے ابواب !جنسی آزادی ذاتی معاملہ

 خوانین کی داستان کے ابواب ! 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
   خواتین کا استعمال انسانی تاریخ کا بہت پرانا باب ہے ۔خصوصا مسلم حاکموں  کی تاریخ کا ، یہ حکمران ہی تھے جنہوں نے اپنے عشرت کدے سجائے تھے ۔کئی شادیاں ، لونڈیاں تو ایک طرف  ، لونڈیوں کی خرید و فروخت  ، حاکموں کی شریعت میں جائز تھی ۔ عام انسان بھی اِس  سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ، جو اِن کے لئے   مخصو ص محلوں میں دستیاب تھی ، جہاں راتیں جاگتی تھیں ۔ جہاں شہر کے بزدل شرفاء اپنا سکون تلاش کرتے  ، شعراء اپنے شعروں کے داؤ پیچ  سنوارتے ، اور پاکستان میں بھی یہ عام تھی  ،  جنہیں ہیرا منڈی کہا جاتا ، جہاں اِس کام کے لئے تراشے ہوئے ہیروں کی بہتات تھی ، گھر سے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگنے والی  ہیروئینوں کا آخری ٹھکانہ یہ منڈی ہوتی  اِن منڈیوں کے سب سے زیادہ گاہگ اپنے گھروں سے دور فوجی ہوتے یا بزنس مین  ہوتے ، انگریز فوجی اچھے گاہک ہوتے  ، دیسی فوجی بھی کبھی کبھی یہاں کی یاتر اکر لیتے ، شراب پینا یا  ہیرامنڈی میں جانا  ، گویا     پلے بوائز کی جنسی آزادی اُس وقت بھی "ذاتی معاملہ " گردانا جاتا  اور آج بھی یہ "ذاتی معاملہ "  ہے ۔ جب  شوہر باہر گلچھرے اُڑائے تو بیوی کےاپنے "ذاتی معاملہ " پر اُنگلی کون اُٹھاتا؟
ادیب ، شاعر ، مذہبی  پیشواء ، سیاستد دان،  بیورو کریٹس اور ملٹری کریٹس ، سب اِن مردانہ
"ذاتی معاملات  "  میں فخر سے شریک ہوتے اور ذاتی محفلوں میں اپنے قصے فخر سے سناتے  ، اور  " یار تو بڑا حرامی ہے " کا لقب پاتے ۔
افسانوں اور ناولوں کے علاوہ فلموں ، تھیٹر اور ریڈیائی ڈراموں  میں زیادہ مقبول وہ ہوتے جو کسی خوبصورت طوائف کے کردار کی تمثیل ہوتے ۔
1857 کی جنگِ آزادی میں ، شوقِ شہادت میں آنے والے جہادیوں کے بارے میں ،لکھا جاتا کہ افسوس اِس بات کا ہے کہ وہ نہائے بغیر سیدھا جہاد پر جاتے اور شہید ہوجاتے ۔ جہادیوں کے نزدیک عورت کی عمر کی اہمیت نہیں تھی ، بس سانس چلتی ہو کا فارمولا مشہور تھا ۔ مذہبی پیشواؤں نے ، جنس کے اِس کاروبار کو تاریخ کے گمنام عالم کے فتاویٰ  سے سہارا دیا جو لونڈیوں کے بالائی لباس  کو  کپڑے کا ضیاع سمجھتے تھے ۔  
 غرضیکہ نوکری کے لئے دوردراز    علاقوں میں جانے والے ، بیوروکریٹس اور ملٹری کریٹس نے   " متع " کو ایک نئی روایت دی ۔بالکل ایسے جیسے ، عرب شہزادے حیدر آباد دکّن میں " متع "  سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مشرقی پاکستان میں غربت  نے  اِس کاروبار کو مزید ہوا دی ،وہاں آنے والے فوجی وہاں کی بنگالی حُسن کی جنت کے بارے میں ہوشرُباء کہانیاں سناتے ۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد جب ، جب حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، کی موسیقی پاکستان میں گونجنے لگی تو ایسا محسوس ہوا  کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی کُلّی ذمہ داری 
"ذاتی معاملہ "سے شروع ہو کر
"قومی معاملہ " پر ختم ہوتی ۔
مشہور مقولہ ہے ، " کامیابی  کے بے شمار باپ ہوتے ہیں ، اور شکست ایک یتیم بچہ ہوتی ہے "

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔