خوانین کی داستان کے ابواب !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خواتین کا استعمال انسانی تاریخ کا بہت پرانا باب ہے ۔خصوصا مسلم حاکموں کی تاریخ کا ، یہ حکمران ہی تھے جنہوں نے اپنے عشرت کدے سجائے تھے ۔کئی شادیاں ، لونڈیاں تو ایک طرف ، لونڈیوں کی خرید و فروخت ، حاکموں کی شریعت میں جائز تھی ۔ عام انسان بھی اِس سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ، جو اِن کے لئے مخصو ص محلوں میں دستیاب تھی ، جہاں راتیں جاگتی تھیں ۔ جہاں شہر کے بزدل شرفاء اپنا سکون تلاش کرتے ، شعراء اپنے شعروں کے داؤ پیچ سنوارتے ، اور پاکستان میں بھی یہ عام تھی ، جنہیں ہیرا منڈی کہا جاتا ، جہاں اِس کام کے لئے تراشے ہوئے ہیروں کی بہتات تھی ، گھر سے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگنے والی ہیروئینوں کا آخری ٹھکانہ یہ منڈی ہوتی اِن منڈیوں کے سب سے زیادہ گاہگ اپنے گھروں سے دور فوجی ہوتے یا بزنس مین ہوتے ، انگریز فوجی اچھے گاہک ہوتے ، دیسی فوجی بھی کبھی کبھی یہاں کی یاتر اکر لیتے ، شراب پینا یا ہیرامنڈی میں جانا ، گویا پلے بوائز کی جنسی آزادی اُس وقت بھی "ذاتی معاملہ " گردانا جاتا اور آج بھی یہ "ذاتی معاملہ " ہے ۔ جب شوہر باہر گلچھرے اُڑائے تو بیوی کےاپنے "ذاتی معاملہ " پر اُنگلی کون اُٹھاتا؟
ادیب ، شاعر ، مذہبی پیشواء ، سیاستد دان، بیورو کریٹس اور ملٹری کریٹس ، سب اِن مردانہ"ذاتی معاملات " میں فخر سے شریک ہوتے اور ذاتی محفلوں میں اپنے قصے فخر سے سناتے ، اور " یار تو بڑا حرامی ہے " کا لقب پاتے ۔
افسانوں اور ناولوں کے علاوہ فلموں ، تھیٹر اور ریڈیائی ڈراموں میں زیادہ مقبول وہ ہوتے جو کسی خوبصورت طوائف کے کردار کی تمثیل ہوتے ۔
1857 کی جنگِ آزادی میں ، شوقِ شہادت میں آنے والے جہادیوں کے بارے میں ،لکھا جاتا کہ افسوس اِس بات کا ہے کہ وہ نہائے بغیر سیدھا جہاد پر جاتے اور شہید ہوجاتے ۔ جہادیوں کے نزدیک عورت کی عمر کی اہمیت نہیں تھی ، بس سانس چلتی ہو کا فارمولا مشہور تھا ۔ مذہبی پیشواؤں نے ، جنس کے اِس کاروبار کو تاریخ کے گمنام عالم کے فتاویٰ سے سہارا دیا جو لونڈیوں کے بالائی لباس کو کپڑے کا ضیاع سمجھتے تھے ۔
ادیب ، شاعر ، مذہبی پیشواء ، سیاستد دان، بیورو کریٹس اور ملٹری کریٹس ، سب اِن مردانہ"ذاتی معاملات " میں فخر سے شریک ہوتے اور ذاتی محفلوں میں اپنے قصے فخر سے سناتے ، اور " یار تو بڑا حرامی ہے " کا لقب پاتے ۔
افسانوں اور ناولوں کے علاوہ فلموں ، تھیٹر اور ریڈیائی ڈراموں میں زیادہ مقبول وہ ہوتے جو کسی خوبصورت طوائف کے کردار کی تمثیل ہوتے ۔
1857 کی جنگِ آزادی میں ، شوقِ شہادت میں آنے والے جہادیوں کے بارے میں ،لکھا جاتا کہ افسوس اِس بات کا ہے کہ وہ نہائے بغیر سیدھا جہاد پر جاتے اور شہید ہوجاتے ۔ جہادیوں کے نزدیک عورت کی عمر کی اہمیت نہیں تھی ، بس سانس چلتی ہو کا فارمولا مشہور تھا ۔ مذہبی پیشواؤں نے ، جنس کے اِس کاروبار کو تاریخ کے گمنام عالم کے فتاویٰ سے سہارا دیا جو لونڈیوں کے بالائی لباس کو کپڑے کا ضیاع سمجھتے تھے ۔
غرضیکہ نوکری کے لئے دوردراز علاقوں میں جانے والے ، بیوروکریٹس اور ملٹری کریٹس نے " متع " کو ایک نئی روایت دی ۔بالکل ایسے جیسے ، عرب شہزادے حیدر آباد دکّن میں " متع " سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مشرقی پاکستان میں غربت نے اِس کاروبار کو مزید ہوا دی ،وہاں آنے والے فوجی وہاں کی بنگالی حُسن کی جنت کے بارے میں ہوشرُباء کہانیاں سناتے ۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد جب ، جب حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، کی موسیقی پاکستان میں گونجنے لگی تو ایسا محسوس ہوا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی کُلّی ذمہ داری "ذاتی معاملہ "سے شروع ہو کر
"قومی معاملہ " پر ختم ہوتی ۔
مشہور مقولہ ہے ، " کامیابی کے بے شمار باپ ہوتے ہیں ، اور شکست ایک یتیم بچہ ہوتی ہے "
مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد جب ، جب حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، کی موسیقی پاکستان میں گونجنے لگی تو ایسا محسوس ہوا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی کُلّی ذمہ داری "ذاتی معاملہ "سے شروع ہو کر
"قومی معاملہ " پر ختم ہوتی ۔
مشہور مقولہ ہے ، " کامیابی کے بے شمار باپ ہوتے ہیں ، اور شکست ایک یتیم بچہ ہوتی ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں