جو گیلی لکڑیوں کو
پھونک کے ،چولھا جلاتی تھیں
جو سِل پر سرخ مرچیں
پیس کر، سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف
،لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر
اپنا ڈھک کر،ملنے آتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر،دیر
تک رسمیں نبھاتی تھیں
پلنگوں پر نفاست سے،
نئی چادر بچھاتی تھیں
بصد اسرار مہمانوں
کو،سرہانے بٹھاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں
کو، جو بستر پر سلاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک
دے، اسے کھانا کھلاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
؟
جو رشتوں کو برتنے
کے، کئی نسخے بتاتی تھیں
محلے میں کوئی مر جائے
تو، آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے،
تو اُس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو
خوب، مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
؟
اُنھیں میں ڈھونڈتا
پھرتا ہوں ،گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں، جزدان
میں، تسبیح کے دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق
پر، باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ
لےکر،کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری، سو گئی ہیں وہ
وہ کیسی عورتیں تھیں
؟
یہ نظم شاعرہ اسنی بدر کی ہے جو ان کے شعری مجموعے منظر نامہ میں شامل ہے اور یہ کتاب ریختہ پر موجود ہے۔
جواب دیںحذف کریں