Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 15 مئی، 2017

بدنصیب پرویز!


1982 سے تو میں بھی دیکھتا اور سنتا آرہاہوں ۔ لوگ پرویز کا نام لیے بغیر اُن کے افکار و خیالات بیان کرتے اور محفل در محفل اپنی علمی دھاک بٹھاتے چلے آرہے ہیں۔ ایک مرتبہ 25 بی گلبرک ، دفتر طلوع اِسلام میں منیجر  طلوع ِ اسلام جناب حسین قیصرانی (جو خیر سے اب میرے فیس بک فرینڈ بھی ہیں) 
 اُن کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک رجسٹر دکھایا ۔ یہ وہ رجسٹر تھا جس میں آؤٹ گوئنگ کتابوں کے اندراجات تھے۔ انہوں نے مجھے دکھایا کہ زیادہ تر کتب مسجدوں کے خطیبوں نے منگوائی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ پرویز کی مشہور کتاب ’’شاہکار رسالت‘‘ پڑھ پڑھ شان عمر بن خطابؓ پر تقریریں کرتے ہیں۔ یہی نہیں، ٹی وی پر درس دینے والے بڑے بڑے نامور مفکرین ِ اسلام پرویز کے سالن میں لقمہ ڈبو ڈبو کر کھاتے ہیں۔ اور تو اور علامہ طاہرالقادری جیسے جغادری مصنفین کی کتب اور بیانات اُن دلائل سے سرتاسر بھرے ہیں جو پرویز نے عمر بھر کی محنت شاقہ سے تلاش کیے۔
گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی میں (نام نہیں لونگا)۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبالیات پر لیکچرز سنتے ہوئے ایک بہت بڑے ماہر ِ اقبال کی ہر ہر اصطلاح پرویز کی اصطلاح تھی، ہر ہر لفظ پرویز کا لفظ تھا، ہر ہر بات پرویز کی بات تھی۔ لیکن انہوں نے ایک بار بھی پرویز کا نہ نام لیا نہ ان کی کسی کتاب کا ذکر کیا۔ اور مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آتارہا کہ،
ؔ ہرلفظ میں اُس کے مری باتوں کی جھلک تھی
اِک لفظ بھی اس کا مرے بارے میں نہیں تھا
مجھ سے انہوں نے کوئی سوال پوچھا تو میرے منہ سے نکل گیا کہ ، ’’جی! یہ بات میں پرویز کی کتاب ’اسباب زوال ِ امّت‘ میں پڑھ چکاہوں‘‘
بس پھر کیا تھا ، انہوں نے باقی پورا پیریڈ یہ ثابت کرنے میں صرف کردیا کہ پرویز تو منکر حدیث ہے۔
بڑی بڑی یونیورسٹیز کے نامور پروفیسرز کو میں نے دیکھا کہ پرویز کا نام لیے بغیر اس کی پوری فکر یوں پیش کردیتے ہیں جیسے اُس پر انہوں نے سالہا سال محنت کی ہو۔ غرض ہر جدت پسند سکالر پرویز سے بے دریغ استفادہ کرتاہے لیکن اُن کا نام کبھی نہیں لیتا۔ کیوں؟
کیونکہ پرویز کو ’’منکر ِ حدیث ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے اور اُن کی شہرت اہل اسلام کے نزدیک بہت خراب ہے۔ اگر آپ ان کی کوئی کتاب پڑھ کر اس سے کوئی بیان نقل کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ان کا نام لیے بغیر ایسا کریں ورنہ آپ پر ’’پرویزیت‘‘ کی چھاپ لگ جائیگی۔

 پڑھیں :  کیا منکرینِ حدیث ، مسلمانوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں ؟ ؟ ؟ ...
 
پرویزیت کے نام پر ہمارے شہر کے ایک سائنس ٹیچر کافی لمبی جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ پرویز کی کیسیٹیں چلا کر طلبہ کو ان کا درس ِ قران سناتے ہیں۔ ایٹیز(80s) میں ایک مرتبہ جنرل ضیاالحق نے پرویز سے پی ٹی وی پر درس ِ قران دلوایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غلطی سے نام کے ساتھ یہ الفاظ لکھ دیے،
درس ِ قران :مفکر قران جناب غلام احمد پرویز
اگلے دن ملک بھر میں احتجاج ہوا اور پھر غالباً پرویز صاحب دوسرا درس نہ دے سکے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی نفرت کیوں؟ یا تو پرویز کی کتب کو بالکل ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ بڑی بڑی تحریکوں کے بانیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ پرویز سے بے دریغ استفادہ کرتے ہیں۔
 لوگوں نے ’’دو اسلام‘‘ اور ’’دوقران‘‘ کے رائٹر ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو معاف کردیا ہے تو پرویز کو ان کی کتاب ’’مقام ِ حدیث‘‘ کی وجہ سے معاف کرنا کیوں کر ممکن نہیں۔ اگرچہ مقام حدیث میں بھی پرویز نے گستاخی تو کہیں بھی نہیں کی۔ پوری کتاب کا خلاصہ دولفظوں میں یہ نکلتاہے کہ
’’یہ باتیں رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نے نہیں کہی ہونگی۔ یہ بعد کی روایات ہیں اور اِن میں ایسے سُقم ہیں کہ انہیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تسلیم کرنے کو دل نہیں مانتا۔
واقعہ یہ ہے کہ کراچی کے مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے 1935 میں ایک فتویٰ جاری کیا کہ ’’سپیکر میں آذان دینا حرام ہے، کیونکہ اس میں آواز کا عکس ہوتاہے۔ اصل آواز نہیں ہوتی‘‘۔
 اس پر پرویز نے ان کے خلاف ایک دو مضامین لکھ دیے۔ سات سال بعد یعنی 1942 میں مولانا مفتی شفیع نے دوبارہ ایک فتویٰ دیا کہ، 
’’ میں نے ایک سائنس ٹیچر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سپیکر میں آواز کا عکس نہیں ہوتا، چنانچہ آذان دینا جائز ہے‘‘۔
 اس رجوع پر پرویز صاحب نے اور بھی زیادہ مذاق اُڑانے والا آرٹیکل لکھ مارا۔ تب ان دونوں صاحبین کے درمیان خطوط کا سلسلہ شروع ہوا ۔ غالبا پچاس کے قریب خطوط ہیں۔ جن میں مفتی شفیع  کا رویہ اور تخاطب بے پناہ سخت ہے، جبکہ پرویز کا معقول ہے۔ آخری خط میں مفتی صاحب نے گویا بہت ہی زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے تو پرویز نے جواب دینا بند کردیا اور بعد میں یہ خطوط شائع بھی کردیے۔
پڑھیں :  آپ کا مسلک کیا ہے؟
خطوط کے اس واقعہ اور ان کی اشاعت کے بعد  مفتی شفیع   نے ایک کتابچہ لکھا۔ جس میں انہوں نے پرویز کی کتابوں سے چن چن کر مختلف نکات ایک جگہ جمع کردیے اور دنیا بھر کے ایک ہزار علمأ کو بھیج دیے تاکہ اُن سے کفر کا فتویٰ منگوایا جاسکے۔ میرے داد جان   بھی ان علمأ میں سے ایک تھے جن کے پاس وہ کتابچہ پہنچا۔ چنانچہ وہ کتابچہ اب تک میری لائبریری میں ہے۔ خیر تو اس میں جو نکات درج ہیں ، ان کا تعلق قطعاً پرویز کے عقائد کے ساتھ نہیں بنتا۔ زیادہ تر باتیں سیاق و سباق کے بغیر لی گئی ہیں، مثال کے طور،
۱۔ یہ شخص خانہ کعبہ کو مقام عبادت کی بجائے فقط مرکز ملت مانتاہے۔
۲۔ یہ شخص خدا کی ذات کو قانون ِ مشیتِ ایزدی کے ساتھ تبدیل کردیتاہے۔
وغیرہ وغیرہ۔ غرض سیاق و سباق سے بالکل الگ کرکے کچھ نکات علمائے اُمت کو بھیجے گئے اور جواب میں سب نے اپنے اپنے دستخط کرکے انہیں فتویٰ بھیج دیا۔
تب ایک اور کتابچہ شائع ہوا جس کا عنوان ہے،
 ’’ایک ہزار علمأ کا متفقہ فتویٰ’’ ۔ اور یہ متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ پرویز کافر ہے۔
اور ہر وہ شخص جو اس کی باتوں کو مانتاہے وہ پرویزی فرقے سے تعلق رکھتاہے۔ 
 پڑھیں  :   فرقے کیوں بنتے ہیں ؟
اس فتوے کی شہرت کے ساتھ ہی پرویز صاحب سے لوگ ڈرنے لگے۔ یہاں تک کہ خود طلوع اسلام والے بھی ڈرنے لگے۔ ایک مرتبہ میں مجھے یاد ہے کہ طلوع اسلام کی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پرویز کی کتابیں تو شائع کی جائیں، لیکن کسی اور نام سے۔ اور پھر اس فیصلے پر عمل بھی ہوا۔ پرویز کی کتابیں کسی فرضی شخص کے نام سے شائع ہوتی رہیں۔ مدعا یہ تھا کہ پرویز کی باتیں تو بہت کام کی ہیں ، ان سے قوم کو محروم نہ رکھا جائے بس صرف ان کے نام سے سب کو بچایا جائے۔
یقیناً کوئی غلطی تو پرویز میں بھی تھی۔ ورنہ کسی کی تحریک سے اُس کا نام اتنی بے دردی کے ساتھ نہیں ہٹایا جاتا۔ پرویز کے ساتھ جتنے بھی لوگ اٹیچڈ تھے سب نے بڑے بڑے نام پائے۔ بطور خاص ڈاکٹر عبدالودود (مرحوم) جنہوں نے ایک عظیم کتاب ’’مظاہر فطرت اور قران‘‘ ہردو زبانوں اردو اور انگریزی میں لکھ کر قوم بلکہ اُمت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ ہمارے ہاں، یہاں جوہرآباد میں رہ کر گئے ہیں۔ اب تک ایک بڑے مفکر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح علامہ رحمت اللہ طارق، علامہ تمنّا عمادی، ڈاکٹر غلام رسول ازہر وغیرہ۔
طاہرالقادری اور غامدی صاحب پرویز کے بعد نمودار ہوئے۔ ان لوگوں نے یہ سیانا کام کیا کہ حدیث پر اپنے خیالات فقط اپنے تک ہی محدود رکھے اور قدرے قابل ِ قبول زبان میں پھر وہی ساری باتیں کہہ دیں جو پرویز نے اتنی زیادہ کتابوں میں پہلے سے لکھ رکھی ہیں۔
میں جس گھرانے کا فرد ہوں وہاں پرویز کا نام لینا سلمان رشدی کا نام لینے کے برابر تھا اور اب بھی ہے۔ اسی طرح غامدی کا نام لینا بھی بہت بڑا جرم ہوا کرتا تھا۔

 لیکن جب سے انہیں پتہ چلا کہ عمار خان ناصر جو زاہد الراشدی کے فرزند ِ ارجمند ہیں اور  سرفراز خان صفدرؒ کے پوتے ہیں جبکہ  سرفراز خان صفدرؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفسرقران (معالم العرفان کے مدرس)   عبدالحمید سواتیؒ کے بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میرے اہل ِ خاندان نے اب عمار خان ناصر کی وجہ سے غامدی کے بارے میں بھی بہت معمولی سا لیکن قدرے نرم گوشہ اختیار کرلیا ہے۔ گزشتہ دنوں نے میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ عمار خان ناصر پر آپ لوگ اعتراض کیوں نہیں کرتے تو فرمانے لگے،
’’اُن کے والد (زاہد الراشدی صاحب) نے تو اپنے بیٹے کی حمایت میں بیان دیے ہیں۔ ہم تو زاہدالراشدی صاحب کی بات مان رہے ہیں۔ ہم عمار کو نہیں جانتے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے یہ پوسٹ لگائی تو راجہ سمرہ (پیارے دوست) نے یہ کمنٹ کیا۔ میں سمجھتاہوں۔ اس کمنٹ کو بھی پوسٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مسلمانوں کی من حیث القوم عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنے مکتبہِ فکر کی آغوش میں بے خبر رہ کر زندگی گذار دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر ہمارے
اکابرین پر دوسرے مکاتبِ فکر کی شخصیات کی علمی برتری روزِ روشن کی طرح عیاں ہو، تو ہم اٹکل پچو سے کام چلا کر بھی اپنے اکابرین کو ان سے ارفع ثابت کرتے ہیں۔ یقین جانیے اسی کو علم دشمنی کہتے ہیں۔
میں قرانسٹ نہیں ہوں ، حدیث کے تشریعی حیثیت کا قائل ہوں، لیکن مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ برِ صغیر میں تمام اہل القرآن کے علماء کی فہرست بنا لیجیے، تمام ہی جینئس تھے۔
منکرینِ حدیث (جیسا کہ ان کو سوادِ اعظم نےنام دیا) میں نے پرویز کی کتب کو نہیں پڑھا ، البتہ نیاز فتح پوری اور غلام جیلانی برق کو بہت پڑھا ہے اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عظیم علمی شخصیات تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ برصغیر میں انکارِ حدیث کی راہ ہموار کرنے میں مدارس کے رجعی رویے کو بہت دخل ہے۔ مدراس نے انگریزی بشمول جدید سائنس ایسے علوم کو گناہِ کبیرہ کا ٹائٹل دے
رکھا تھا۔
 جدید تعلیم سے شغف رکھنے والا طبقہ جب مغرب میں حصولِ تعلیم کے لیے جاتا تو لا محالہ اسلام پر اعتراضات سن سن کر تذبذب کی کیفیت سے دوچار ہوتا، پھر جب انکو علماء کی طرف سے بھی راہبری نہ ملتی تو اشخاص خود تحقیق کرتے اور اعتراضات کا جواب تلاش کرتے ۔ 
عنائت اللہ مشرقی، غلام جیلانی برق ، سید امیر علی سب جدید تعلیم سے آراستہ ہوئے، حتٰی کہ سر سید کا سفرِ یورپ ہی ان کے افکار میں تبدیلی کا موجب بنا۔ ان کی کوتاہیوں سے قطعِ نظر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ جو کام مدارس کا فرض تھا وہ ان حضرات نے نبھایا۔
 چلیں اچھا ہی ہوا ان حضرات کی کاوشوں سے مولوی کو " اسلام اور جدید سائنس " پر بات کرنے کے لیے مٹیریل تو مل گیا۔ آپ نے صحیح نشاندہی کی کہ سرقہ بھی انہی کی کتب سے کرتے ہیں اور پھر انہی کو کفر کی مشین گن سے ہلاک بھی کرتے ہیں،،، 
(نامعلوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ پرویز کی بدنصیبی میں سب سے بڑا ہاتھ ، جماعت اسلامی کا ہے جو علامہ کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتی تھی اور ہے ۔
پڑھیں :
       فتنہ ءِ مودودیت !

اور دوسرا ہاتھ نوجوانانِ  مداحینِ پرویز ہے ، جو اپنے جیسے جوانوں کو ضعیف احادیث تمسخر کے انداز میں سنا کر اُن کے نظم و ضبط کا امتحان لیتے ، جب وہ اپنے اکابرین کے پاس شکایت لے کر جاتے تو اُن کا ایک ہی ، جواز و جواب تھا ،
" پرویز منکرِ حدیث ہے 1000 علماء  کا فتویٰ ہے کہ وہ کافر ہے  اور مرزائیت کا عکس ہے ، پرویزیوں اور مرزائیوں سے بچو ، وہ گھما پھرا کر قران کی آیات ایسے آگے پیچھے کر کے  بتاتے ہیں ، کہ مفہوم ہی الٹ دیتے ہیں اور نوجوانوں کو  نہ صرف نماز اور روزے سے گمراہ  کرتے ہیں بلکہ بے دینی میں دھکیل د یتے ہیں ۔"

(مہاجرزادہ)



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مزید پڑھیں :
مہاجرزادہ کے مذہبی اساتذہ
حسبنا الکتاب اور مذہبی فکری غلام 
کیا منکرینِ حدیث مسلمانوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں ؟

مرکزِ ملّت کی تلاش !

 کتاب اللہ کیا ہے ؟
الکتاب اور القرآن 
الکتاب  ، ام الکتاب اور متشابھات

آیات اللہ پر انسانی ردِ عملبائبل کس قسم کی کتاب ہے؟



کمپیوٹر سے آیات فوراً   ڈھونڈیں




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔