Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 28 فروری، 2015

میں مکینک بننا چاھتا تھا

پاکستان میں سب والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے انگلش پڑھ کر بابو بنیں ۔ لیکن انگلش پڑھانے والے جس طرح انگریزی کرتے ہیں اُس سے وہ بچے ، چپڑاسی بھی نہیں بن سکتے ۔
پرانی بات ہے ، میرے ایک بنکر دوست کا بھائی بی اے پاس ہے ۔ میں بنک گیا تواُس سے ملاقات ہوئی ۔
اُس نے کہا ، "میجر صاحب کوئی سفارش لڑاؤ اور اِسے نوکری دلواؤ یہ بے چارا ، بی اے پاس ہے "۔

میں نے چائے پینے کے دوران نوجوان کو ایک کاغذ اور بال پوائینٹ دیا اور کہا ،
" چیف آف آرمی سٹاف کے نام انگلش میں مضمون لکھو اور اُس سے کہو کہ تمھیں فوج میں ، کلرک کی نوکری چاھئیے ۔ لیکن اگر لفٹین کی مل جائے تو اعلیٰ ۔"
اُس نے جو درخواست لکھی وہ میں نے پڑھے بغیر دوسرے کیبن میں بیٹھی ہوئی ، بنک آفیسر خاتون کو دی ، اور کہا ،
" یہ درخواست چیف آف آرمی سٹاف کے پاس جانی ہے ، اِس درخواست کو دیکھتے ہوئے اِس کے لئے فوج میں کسی ایک نوکری کی سفارش کرو یہ دیکھے بغیر کہ یہ کیا مانگ رہا ہے ۔"

پڑھ کر ، اُس نے لکھا ۔
" گارڈ یا چپڑاسی "
وہ درخواست میں نے اُس کے بھائی کے سامنے رکھ دی ۔
سر ! یہ گاؤں کا پڑھا ہوا ہے ، " وہ شرمندہ ہوتے بولا ۔
"ویسے جوان تم کیا بننا چاھتے تھے " میں نے درخواست گذیدہ جوان سے پوچھا
" جی میں مکینک بننا چاھتا تھا ، لیکن گھر والوں نے منع کر دیا " وہ دکھی لہجے میں بولا ۔
میں بنک آفیسر سے مخاطب ہو کر بولا ، " آپ کے گھر والوں نے اِس کے اٹھارہ قیمتی سال گنوا دئے "
" اِس نے تعلیم نہیں حاصل کی بلکہ بھگتائی ہے " ۔ میں نے جواب دیا ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  


جمعرات، 26 فروری، 2015

بلاگرز بڑے چل لاک ہوتے ہیں

بلاگرز  بڑے چل لاک ہوتے ہیں بالکل شاعروں کی طرح زبردستی اپنی ، قلم کاریاں پڑھواتے ہیں ۔
اور ہم تو ویسے بھی فوجی ہیں ، پڑھیں نہ پڑھیں ۔ "کلک" ضرور کردیتے ہیں ، کہ ہمارا ننھا سا قطرہ ، دل کی لگی آگ بجھانے کے شاید کام اجائے ۔ کیوں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔
 ہم بھی بلاگ کا کنڈا ڈالے بیٹھے تھے ، اور حسرت سے سوچتے تھے کہ ہمارا اتنی اچھی تحریر (ہمارے خیال) میں لوگ کیوں نہیں پڑھتے ۔کئی مہینے تک پڑھنے والے پچاس سے اوپر نہیں گئے-
بلاگ سے ہمارا پہلا صحیح تعارف ، بھائی مصطفی ملک نے کروایا تھا ۔یہ 2013 اکتوبر کی بات ہے ہماری پرسنل ونڈو پر پیغام آیا ۔ میرے بلاگ کو پسند کریں ۔ ہم نے گھٹی میں پڑی ہوئی عادت کہ مطابق کہا " حاضر جناب" اور بلاگ پر چلے گئے ۔ جب اُن کے پڑھنے والوں کو دیکھا تو بہت رشک آیا کہ بلاگ ہو تو ایسا ۔ کہ پڑھنے والوں کی بھرمار ہو ۔
پھر
فیس بک کی ایک بھتیجی نے نے مدد کی اور ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔
پھر
مصطفی ملک کاپرسنل ونڈو پر پیغام ِ ٹیوٹر آیا ۔ ہمارا کمپیوٹر پر ٹیوٹر اکاونٹ بنا لیکن ، ہماراموبائل ٹیوٹر کے قابل نہیں تھا ، خیر سمارٹ موبائل لیا ۔ لیکن وہ ہمارے قابو ہی نہیں آتا تھا ۔ انگلیاں کہیں رکھتے پڑتی کہیں ۔ بیوی کو دے دیا ۔ کہ تمھاری انگلیاں ذرا پتلی ہیں ۔ لو یہ اچھا ہے ۔ اُس نے بھی تنگ آ کر چھوڑ دیا کہ یہ قابو ہی نہیں آتا ۔ کبھی سکرین ادھر بھاگتی ہے کبھی ادھر-
  ہم مری میں تھے کی ایک دن چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ ۔ چم چم  (نواسی) کی پکچر اور وڈیو دیکھیں کتنی پیاری ہیں ۔ تو ہم دونوں میاں بیوی نے بہت انجوائے کی ا۔ پوچھا یہ کیسے آئیں ۔ تو معلوم ہوا کہ معلومات میں ہم چھ مہینے پیچھے رہ گئے ہیں ویسے بھی اُس کا موبائل 60 ہزار والا تھا اور ہمارا صرف 7 ہزار والا۔ پھر یہ عقدہ ایسے کھلا کہ
ہمارے پاس جو موبائل ہے اُس میں بھی وٹس ایپ چلتا ہے ۔ کیوں کہ وہی موبائل بڑی بیٹی کی نند کے پاس تھا ۔ اتوار کو اسلام آباد آئے ۔ موبائل ڈھونڈا مل گیا آن کیا تو خاموش کیوں کہ اُس کی بیٹری مر چکی تھی ۔ بیٹری ڈلوائی ۔ اور بوبو (چم چم کی پھوپو) سے موبائل کی ٹریننگ لی ۔اور یوں ہم سمارٹ موبائل اپنی چیچی (چھنگلیا ) سے آپریٹ کرنے کے ماہر ہو گئے ۔

جب ماہر ہوئے تو ، وٹس ایپ کیا ۔ ٹوٹر کی دنیا میں داخل ہو گئے ۔ ہم حیران ہوتے کہ بلاگ کے مضمون ٹیوٹر پر کیسے آتے ہیں ۔ کیوں کہ پہلے ہم بلاگ کا لنک ٹوٹر پر ٹویٹ کرتے تو کوئی پڑھتا تو کیا دیکھتا بھی نہیں تھا ۔ 
پھر فیس بک پر ہمیں ایک اور خضر راہ ملا ۔جس نےٹویٹر سے عام موبائل فون تک ۔۔۔ مائکرو بلاگنگ   تک کی ترکیب بتائی ۔ اور ہمارے نہ معلوم پڑھنے والوں یا کلک کرنے والوں کی تعدادبڑھنے لگی - جی آپ بالکل صحیح سمجھے ہیں ۔ ٹویٹر پر  لنک  آتا ہے ۔ لہذا ۔ موبائل پر ٹویٹر دیکھنے والے اُسے لازمی کلک کرتے ہیں  

یہ تھی راز کی دوسری بات بلاگرز کے لئے ۔ کیا سمجھے ؟



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  


بدھ، 25 فروری، 2015

فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی


فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی


سیدمصطفیٰ حسین زیدی کی پیدائش 12اکتوبر1930ء کو ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلی افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اور صرف 19سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”موج مری صدف صدف“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور فراق صاحب نے ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی کلیات کلیاتِ مصطفی زیدی کے نام سے شائع ہوئیں۔

 مصطفیٰ زیدی 1951ء میں کراچی چلے گئے تھے۔ کچھ دن وہ اسلامیہ کالج پشاور میں بطور استاد تعینات رہے۔ وہاں سے نکالے گئے ۔ پھر انہوں نے سی ایس پی کا امتحان دیا جس میں کامیابی حاصل کی اور اہم عہدوں پر کام کیا۔ لیکن بار بار کے مارشل آزادیِ فکر کا گلا گھونٹ دیا تھا جس کی باز گشت ان کے اشعار میں سنی جا سکتی ہے۔

جس دن سے اپنا طرزِ فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دلِ شاہانہ چھٹ گیا
مصطفیٰ زیدی کو جس درد و کرب سے گزرنا پڑا اس کی باز گشت ان کی غزلوں کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر ان کی مشہور غزل میں تو یہ کرب بار بار اتر آتا ہے:

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے

کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفیٰ زیدی اپنی جرمن بیوی اور بچوں کے ساتھ

جمعرات، 19 فروری، 2015

بلاگرز کی مقبولیت کا گُر

بلاگرز کے گرو نجیب عالم نے میرے اِس معلوماتی تجزئے پر لکھا :
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی سب تحریریں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں یہ الگ بات ہے کہ کسی کوئی اور کسی کوئی زیادہ پسند آتی ہے.اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر کسی نے تبصرہ نہیں کیا تو اسے پسند نہ ہو بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہم پاکستانی لوگ اپنی ازلی سستی کی وجہ سے تبصرہ نہیں کرتے-نجیب جی : جو میں نے تجزیہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ کتنے لوگوں تک آپ کا پیغام یا تحریر پہنچی ہے ۔ 
فیس بک پر میرے کوئی 4،800 دوست ہیں ۔ جن میں سے کئی کسی بھی قسم کا لائک یا کمنٹس نہیں دیتے ۔ بلاگر پر ڈائریکٹ بہت کم لوگ جاتے ہیں ۔
میرا مختصر مضمون "بد نصیب شخص" جب میں نے فیس بک پر پوسٹ کیا تو ، فیس بک کی ایک بھتیجی نے ، جس کا تعلق آرمی بیک گراونڈ سے ہے اس نے بہت پسند کیا. اُس نے مجھ سے اجازت مانگی،
"انکل میں بہت گروپس کی ممبر ہوں ، اُن پر یہ شیئر کر دوں "
" بیٹی مجھے بہت خوشی ہو گی " میں نے جواب دیا
 کوئی دو دن بعد پرسنل چیٹ پر ، پیغام دیا ۔"انکل : ذرا اپے بلاگ پر کاونٹ دیکھیں ؟"
میں نے کاونٹ دیکھا - تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون کوئی 32 ہزار لوگوں نے پڑھا ۔
میں نے اُس معلوم کیا -"یہ کیسے ہوا ؟"
 اُس نے، مجھے تعلیم دی ،کہ ای میل استعمال کرتے ہوئے ۔ فیس بک پر بزریعہ ای میل اپنے تمام گروپس میں یہ مضمون شیئر کر دیا ۔ اور مجھے ای میل کا طریقہ بتایا ۔ اور اُس نے مجھے بھی جن گروپس میں شامل کیا تھا اُس کے ای میل دے دئے ۔
یوں دیکھتے ہی دیکھتے ، کاؤنٹ 50 ہرار کو کراس کر گیا ، تو میں نے ریاض شاہد کو بتایا ۔ تو انہوں نے رائے دی کہ مختلف بلاگ بنانے کے بجائے ۔ اپنے تمام مضمون ایک ہی بلاگ پر دیں اور لنک دے دیں ۔ میں نے ایسا ہی کیا - لیکن پھر سستی اور مصروفیت کی وجہ سے لنک چھوڑ دیا ۔ اور سامنے نظر آنے والے دوتین بلاگ میں ۔ مضمون پوسٹ کر دیتا یوں بھر کچھوے کی چال سے کاونٹ بڑھتا رہا ۔
فروری 16 کو لکھے ہوئے میرے مضمون 
کو غالباً پسندیدگی ملی ، کئی دوستوں نے پرسنل چیٹ پر دوسرے مضمون 
کا پوچھا تو میں نے مراقبہ کے باقی مضامین کو لنک دے دئے ۔ جس سے پڑھنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ۔
نئے اردو بلاگرز کے لئے چند تجاویز(اساتذہ محترم سے معذرت) :
1- اپنے مختلف موضوعات میں ڈالے ہوئے مضمون کو لنک کریں -
2- فیس بک پر آپ جتنے گروپس کے ممبر ہیں ، اُن پر ضرور ڈالیں ۔
3- اپنے مضمون کی دلچسپ لائن کو ، فیس بک پر ڈالتے ہوئے ، مختصر تعارف میں ڈالیں ۔
یاد رکھئیے ، آج کے دور میں بلکہ سب سے اہم تصویر ہوتی ہے جو ، پوسٹ کی بہترین تشریح بنتی ہے ۔
یہ تصویر ہی ہے جس نے
پر زیادہ  پڑھنے والوں کو کھینچا ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭   


سجدہ-1

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿يس: 60

اے بنی آدم ! کیا عہد نہیں لیا گیا تمھاری طرف ، یہ کہ تم الشیطان کی عبادت نہ کرنا بے شک وہ تمھارا مبیّن عدو ہے ۔

"بچہ دینِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور ماں باپ ، اُس کا مذھب تبدیل کردیتے ہیں" - 
میں یہ الفاظ اپنے لڑکپن سے سن رہا ہوں ۔ کبھی سمجھ آتے اور کبھی میں خود پریشان ہوجاتا ، جب میں اپنے ہندو اور عیسائی دوستوں کے بچوں کو دیکھتا ۔ جب سال دوسال کے بچے وہ مذھبی عمل دھراتے جو اُن کے دادا دادی یا نانا نانی اور یا والدین کرتے ۔ میرے بچوں نے بھی وہی مشہور عمل کیا ، جن گھرانوں میں گھروں میں ، دادی ، نانی اور ماں (اب شائد) بھی کرتیں ۔ یعنی زمین، جاء نماز یا قالین پر کرتیں ۔ سیا چین میں جب میں سو فیصد عملی مسلمان ہوا ، الکتاب اور کتاب اللہ سے اپنا رشتہ جوڑا ۔ تو الکتاب اور کتاب اللہ کے درمیان مجھے ایسے ایسے مضبوط رشتے ملے کہ میری روح تک سرشار ہو گئی ۔
میں آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتا ۔ لیکن میں پہلے آپ کو کتاب اللہ اور الکتاب کا اپنا مفہوم سمجھا دوں ۔
  کتاب اللہ :
اللہ کے علاوہ کائینات میں پھیلی ہوئی ۔ اللہ کی وحی " کتاب اللہ " کا حصہ ، "کن" جو اللہ کا کلام ہے ۔ "کن" جو اللہ کی آیات کی ابتداء کو "یکن" کی انتہا تک پہنچاتا ہے ۔
"اللہ کی آیات " جو انسان کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے ، جو حاضر بھی ہے اور ہماری نظروں سے غائب بھی ۔ سب خالق کائینات کے "کن" سے اس کے "امر" کی ابتداء اور پھر آیات کا سلسلہ اتنا طویل ہے ۔ کہ اللہ کے "کلمات" کا شمار نہیں ۔ ناممکنات میں سے ہے ۔

تو پھر فانی انسان ، نا ممکن کو ممکن کیسے بنا سکتا ہے ؟

ہمارے جسم کا ایک ایک خلیہ اللہ کے "کن" کا مرھون منت ہے ، انسانی جسم ، ایک مکمل کتاب ہے ، اسی طرح کائینات کی ہر شئے ایک قیم کتاب ہے ۔ :کتاب اللہ " کا حصہ ہے ۔ انسانی حواس خمسہ اسے محسوس کرتے ہیں ۔ ان کی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں ۔ جس سے انسان کو بصیرت آتی ہے اور وہ " کتاب اللہ " کی مدد سے اپنے لئے نئی راہیں دریافت کرتا ہے ۔

غور کریں کتنی" قیم کتب " ہمارے ارد گرد موجود ہیں ۔ یہ سب وحی (کلام اللہ ) کی کرشمہ سازیاں ہیں ، ان سب کے لئے فلاحی ریاست قائم ہے ۔ جس میں یہ رہ رہے ہیں ۔ اور فلاح پارہے ہیں ۔ ہر جاندار اپنی ذات میں ایک مکمل ، حیات ہے اپنے کام سے آگاہ ہے ۔ اور "کتاب اللہ" سے راہنمائی حاصل کر رہا ہے ۔ اور اپنی فلاحی ریاست کو خوب سے خوب تر بنا رہا ہے ۔ جو رزق مل جائے ، کھا لیتا ہے ، پیٹ بھر جائے تو بچا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اپنی فلاحی ریاست کی چہار دیواری جو اس نے بنائی ہے ۔ اس کی حفاظت کرتا ہے ، ہمت نہیں پاتا تو ھجرت کر جاتا ہے ۔ کیوں کہ اس کے لئے اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ۔

ہمارے پیروں تلے کچلی جانے والی جیونٹی یا تالی کی زد میں مسلا جانے والا مچھر ، اللہ کی فلاحی ریاست کے مقیم ہیں
۔
" وحی کے بغیر آپ انسان کے لئے ایک فلاحی ریاست قائم نہیں کرسکتے ، البتہ حیوانی فلاحی ریاست آپ بنا سکتے ہیں "

الکتاب :
"الحمد" سے لے کر "والناس" تک وحی کا خزانہ ، " کتاب اللہ " کی تصدیق ۔ کائینات کے خالق کی پہچان ، اس کے احکامات ، اس کے ممنوعات ، اور ، خود انسان کی اپنی ذات کے لئے "الکتاب " تکمیل کا ایک خزانہ ہے ۔ جس پر عمل کر کے وہ ، حیوانی حیات سے بلند ہوتا جاتا ہے ۔


لازمی نہیں کہ آپ میرے مفہوم سے متفق ہوں ۔ لیکن یہ مضمون آپ کو سجھنے میں آسانی ہوگی ۔ جس کا آغاز ، آج میرے پوتے ، کی ایک حرکت پر ہوا-


میں اور بیوی ، کم و بیش روزانہ اپنی بہو اور پوتے سے سکائیپ پر بات کرتے ہیں اور میں "یہودی و عیسائیوں" کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جواُن کے ربّ کی راہنمائی سے ہمیں پتھر کے دور سے جدید دور میں لے آئے ۔ ھاں تو بات ہورہی تھی سکائپ پر پاکستان سے دوبئی میں بات چیت کی ۔
ہمارا پوتا ، اپنی من موہن شرارتوں سے ہمارا دل خوش کر رہا تھا اور ہم تینوں اُس کی معصوم حرکتیں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے ، میں " اللہ ہی اللہ کیا کرو ۔ دکھ نہ کسی کو دیا کرو" پڑھ رہا تھا اور وہ پنڈولم کی طرح ہماری طرف بیٹھا ہوا جھوم رہا تھا ۔ لیکن اُس سے پہلے وہ اپنے دائیں طرف پڑے ہوئے ۔ پلاسٹک کے برتن میں اپنی ماما ے قبضہ کئے ہوئے چمچے سے کھانا بنا رہا تھا ۔ اُس سے پہلے دائیں طرف پڑے ہوئے کھلونے کے بٹن دبا کر مختلف انگریزی بچوں کی نظموں کا میوزک سن رھا تھا ۔
بیوی ، بہو سے کھانا پکانے کی ترکیبوں کی بات کر رہی تھی ۔ غرض میرا اور پوتے کا ، بیوی اور بہو کے چینل چل رہے تھے ۔ اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے ،" اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر " آذان کی طرح پڑھا ۔
پوتے نے کھانا بنانا چھوڑا اور سجدے میں چلا گیا ۔


مجھے اور بیوی کو بے حد پیار آیا ۔ ہم نے ہوائی بوسوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ بیوی نے بہو سے پوچھا ،
" انعم : کیا آپ نے اِسے سجدہ کرنا سکھایا ہے ؟"
" آنٹی: میں نماز پڑھتی ہوں ۔ تو یہ بھی میری کاپی کرتا ہے " ۔
  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭   جاری ہے




منگل، 17 فروری، 2015

تاریخی کے سچے جھروکے جھوٹے مکان میں !



ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ 
پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ خوجہ تھے۔ 
کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔
کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹس رہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔


کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟
اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔
اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔
جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تو احمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ 

(وسعت اللہ خان، ۲۳ ستمبر ۲۰۱۳، روزنامہ ایکسپریس)

17 فروری 2015 بوڑھے کی ڈائری - سیہہ: جھگڑے کا خوف

آج پھر ہم واک پر نکلے ، وہیں پہنچے جہاں سیہہ کچلا گیا تھا ۔ دائیں طرف دیکھا ۔ رات کی بارش نے اُس کے کانٹے ، نالی میں بہا دئے تھے ۔ میں نے موبائل سے تصویر لی ۔ بیوی نے دیکھا،
" یہ کیا   کر رہے ہیں " وہ بولیں۔
" بھئی تصویر لے رہا ہوں ۔ اِس سے جھگڑا تو نہیں ہو گا نا " میں نے تصویر لیتے ہوئے کہا ۔ تصویر لینے کے بعد مڑ کر بیوی کی طرف دیکھا ۔ تو وہ پچاس ساٹھ قدم دور تیز چل کر جا رہی تھیں ۔
آگے جا کر رکیں ۔ میں بھی تیز  اُن کی طرف چلا ۔ راستے میں مجھے بال پوئینٹ کا خالی ریفل پڑا دکھائی دیا وہ اٹھا لیا ۔ اور ھاتھ میں چھپا کر بیوی کے پاس پہنچا۔ بھئی یہ یا بات ہے میرا انتظار تو کرتیں !
" میں اِن کانٹوں کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاھتی " وہ تنک کر بولیں ۔
خیر ہم واک کر کے پارک میں پہنے اور بنچ پر بیٹھ گئے ۔ مختلف باتیں کرنے کے بعد ہم نے پوچھا ۔
" یہ آپ سیہہ کے کانٹوں سے اتنا کیوں ڈرتی ہیں ؟" میں نے پوچھا ۔
" گبا سا " وہ بولیں ۔
" گبا سا " کرناٹک کی زبان میں "چپ رہو" کو کہتے ہیں ۔ جو ہماری ساس اور سسر ، جب بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کے لئے انجان بن کربولتے تھے ۔  بیوی نے بھی " شٹ اَپ " کروانے کا یہی طریقہ شروع کیا ۔ تاکہ دوسروں کے سامنے ہماری عزتِ سادات کا بھرم رہے ۔ ویسے بھی شریف شوہر بیوی سے ڈرتے نہیں اُس کی ریسپیکٹ کرتے ہیں ۔
خیر میں چپ ہو گیا ۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد جیب سے بال پوائینٹ کا ریفل نکالا ۔ اور آگے بڑھاتے ہوئے کہا
" اچھا ، یہ دیکھو ذرا"
اُن کے ذہن میں ،غالباً سیہہ گردش کر رہی تھی ۔ میری طرف دیکھا ۔ میں حیران کہ اِس بڑھاپے میں اتنی پھرتی کہاں سے آگئی ، وہ بجلی کی تیزی سے کھڑی ہوئی اور پانچ دس قدم پر جاکر غصے میں کھڑی ہوگئیں۔
" میں نے آپ کو کہا تھا کہ اِس بارے میں بات نہیں کرنی !"
" میں تو یہ دکھا رہا تھا " میں نے معصومیت سے کہا ۔ 
اُنہوں نے غور سے دیکھا ،" میں سمجھی، کہ آپ اُس کا کانٹا جیب میں ڈال کر لے آئے ہیں "
توہمات سے مشرقی خواتین کا پیچھا چھڑانا مشکل ہے پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 پچھلامضمون

سیہہ۔ لڑائی کروانے کی ماہر


پیر، 16 فروری، 2015

16 فروری 2015 بوڑھے کی ڈائری - سیہہ۔ لڑائی کروانے کی ماہر

آج صبح واک کرتے ہوئے ۔ یہ کچلا ہوا ہمیں سڑک پر ملا ، اس کے کانٹے سڑک پر بکھرے ہوئے تھی ۔ بیوی نے دیکھتے ہی یک دم روک دیا ۔
"واپس چلیں "۔ وہ بولیں
" کیوں ؟ " میں نے پوچھا 
" آپ دیکھ نہیں رہے کیا پڑا ہوا ہے !" وہ بولیں
" کانٹے ہیں سیہہ کے اور کیا ہیں ۔ بے چاری رات کو کسی کی گاڑی سے کچلی گئی ہے " میں نے وضاحت کی ۔
اور آگے بڑھنے لگا ۔
" رک جائیے ، رک جائیے ۔" وہ تقریباً چلاتے ہوئے بولیں ،
" ورنہ یہیں لڑائی شروع ہو جائے گی "
زندگی کے آخری سالوں میں شیر بوڑھا ہو کر نیک ہو جاتا ہے ۔ لہذا میں چپکے سے واپس مڑ گیا ۔ اور اگلی سڑک سے پارک گئے ۔ اور وہاں بنچ پر بیٹھ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد خواتین کی آمد شروع ہوئی ، تو میں اُٹھ کر اکیلا مارکیٹ کی طرف چل پڑا، وہاں جاکر آفس میں بتایا کہ 7 نمبر سٹریٹ میں ، کچلی ہوئی سیہہ پڑی ہے وہ اٹھوا دیں ۔ کچھ جاننے والوں سے ملا آدھے گھنٹے کے بعد سکری مالٹے اور کینو لے کر واپس ہوا ۔
بیوی نے دیکھا ، تو عورتوں سے اجازت لے کر کھڑی ہوگئی ۔ میں سٹریٹ 7 کی طرف مڑا تو بولیں ۔
" یہاں سے نہیں جانا "
" بھئی میں نے صفائی والوں کو بتایا تھا انہوں نے صفائی کر دی ہوگی " میں نے بتایا ۔
" ہاں میں نے اُن کا ٹریکٹر دیکھا تھا " وہ بولیں ۔
لیکن ہمیں مجبوراً دوسری سڑک سے واپس آنا پڑا ۔ اتفاقاً اس سڑک پر مجھے بارش کے پانی کی نالی میں دو سیہہ کے کانٹے نظر آئے ، میں رک گیا ۔
" یہ دیکھو "
ہنس کر بولا،" اب کس راستے سے گھر جائیں؟ "
بیوی چونکی ،" چھوڑو اِسے آگے بڑھو "۔
میں نے پوچھا ، " بھئی کیا ہوتا ہے ۔ اِس جانور کے کانٹوں سے "
" آپ کو نہیں معلوم ، اس سے گھروں میں لڑائی ہوتی ہے " انہوں نے معلومات دی
" تو یہ جس گھر میں جاتی ہوگی ، وہاں یک دم محلے میں شور مچ جاتا ہوگا " میں نے معصومیت سے پوچھا ۔
" محلے میں کیوں ؟ " وہ بولیں ۔
" دو گھروں میں لڑائی ہونے کی وجہ سے !" میں نے کہا
" ارے نہیں ، اس سے میاں بیوی میں لڑائی ہوتی ہے محلے والوں میں نہیں " انہوں نے کہا
" گھر والوں میں تو کم ہوتی ہے ، پڑوسیوں میں زیادہ ۔" میں کہا
"وہ کیسے ؟ " انہوں نے پوچھا ۔
میں نے بتایا ، کہ میرپور خاص میں ، میں ، چھوٹا بھائی، سعادت اور ناصر صبح صبح میرواہ روڈ پر دوڑنے جاتے تھے کوئی تین میل جانا اور واپس آنا ہوتا تھا ۔ کبھی کبھی ناصر اپنا کتا بھی ساتھ لے لیتا تھا ۔ ایک دفعہ واپسی پر ، کتے نے بھونکتے ہوئے جھاڑیوں میں چھلانگ لگائی اور قیاوں قیاؤں کرتا واپس ہماری طرف آیا تو دیکھا کہ اُس کے جسم پر بیس پچیس کانٹے چبھے ہوئے تھے ۔ ناصر نے کانٹے نکالے ۔ سعادت نے بتایا کہ ان کانٹوں کو اگر گھروں میں ڈال دیا جائے تو میاں بیوی میں لڑائی ہو جاتی ہے ۔ ہم تینوں نے وہ کانٹے اٹھا لئے ۔ جھاڑیوں سے بھی کافی کانٹے ملے ، واپسی پر سورج نکل آیا تھا ۔ لہذا اب تو خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا ۔ اب کانٹے کہاں رکھے جائے ۔
چھوٹے بھائی نے رائے دی ، کہ ابا تو کوئیٹہ میں ہیں ، لہذا ہمارے گھر میں جھگڑے کا کوئی خطرہ نہیں ۔
صبح واک پر جانے کے لئے آذان سے پہلے اٹھ گئے اور پوری گلی کے ہر گھر کے صحن میں ایک ایک کانٹا پھینک کر دوڑنے چلے گئے واپس آئے تو گلی میں سب باہر نکلے ہوئے تھے ۔ صورت حال معلوم ہوئی ، میاں بیوی تو نہیں لڑے البتہ پڑوسن پڑوس  سے لڑیں ۔ کہ
"یہ کانٹا تو نے میرے گھر پھیکنا ہے " ایک بولی
" نہیں تو نے پھینکا ہے ، تیرا شوھر تجھ سے جھگڑتا ہے اور تو مجھ سے جلتی ہے "

" بس لڑائی تو ہو گئی نا" بیوی اپنے یقین ناپختہ کو پختہ کرتے ہوئے بولیں ۔ 
" میاں بیوی میں ہو یا محلے والوں میں "

  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 آگے پڑھیئے

سیہہ: جھگڑے کا خوف

 

 

جمعرات، 12 فروری، 2015

سلطانہ ڈاکو !


  سلطانہ ڈاکو انگریز دور کا ایک مشہور ڈاکو، جو سلطانہ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اسکا اصل نام سلطان تھا اور مذھباً مسلمان تھا۔ انگریز دور کا ایک مشہور ڈاکو جسے7 جولائی 1924 کو پھانسی دے دی گئی وہ صوبہ اتر پردیش انڈیا کا رہنے والا تھا۔ وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں پر خرچ کرتا تھا۔ سلطانہ انگریز راج سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے اپنے کتے کا نام "رائے بہادر" رکھا ہوا تھا اور اس کے گھوڑے کا نام "چیتک" تھا۔
سلطانہ ڈاکو جو  بھنتو قبیلے کا ایک ڈاکو تھا  ۔
لیفٹنٹ کرنل  سیموئل پیرز    کے ہاتھوں گرفتار ہوا ۔ جیل کے دوران ایک نوجوان انگریز جیل آفیسر کیپٹن  فریڈی ینگ ،  اُس کا اچھا دوست بن گیا اور اس نے سلطانہ کو بچانے کے لیے قانونی جنگ بھی لڑی۔ پھانسی سے قبل  فریڈی  نے سلطانہ ڈاکو سے اُس کی آخری  خواہش پوچھی تو اُس نے کہا،
"  صاحب میرا ایک بیٹا ہے اُسے آپ اپنی حفاظت میں لے لو اور اپنی طرح صاحب بناؤ !" 
۔ سلطانہ کی پھانسی کے بعد فریڈی نے اس کے بیٹے کو برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا اور افسر بنا کر اپنا وعدہ پورا کیا اور سلطانہ ڈاکو کے خاندان کو  بھوپال میں آباد کیا ، اُس کی اولاد  آج بھی بیلاوادو  میں عبیداللہ گنج میں رہتے ہیں ۔فریڈی میں جیل خانہ جات محکمہ سے انسپکٹر  جنرل بن کر بھوپال میں  ریٹائر ہوا اور مرنے کے بعد وہیں دفن ہو ا!

سلطانہ وڈیروں جاگیرداروں کو لوٹتا اور غریبوں میں وہ دولت تقسیم کر دیتا تھا۔ایک انگریز لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی اور یہ عشق سلطانہ کی موت تک چلتا رہا۔ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کو وہ عورتوں کا رسیا تھا اور کافی امیر عورتوں کو اس نے ریپ کر کے مار بھی دیا تھا۔ اس سب کے باوجود لوگوں میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا شائد اس کی ایک وجہ اس کی انگریز دشمنی اور امیروں سے لوٹا ہوا مال غریبوں میں تقسیم کرنا تھا۔
 جب اسے پھانسی کے تختہ پہ لایا جا رہا تھا تو لوگوں کا ہجوم باہر اکٹھا ہو گیا جو اس کی شانِ بہادری کے قصیدے اور ترانے پڑھ رہے تھے۔
سلطانہ ڈاکو  کے قصے گانوں میں سنائے جاتے جو ہندوستان میں مقبول ہوئے ، اِس پر 1972 میں  فلم بھی  " سلطانہ ڈاکو  " بنی جس میں ٹائیٹل رول دارا سنگھ نے کیا تھا ۔
جس کا مشہور گانا " مجھ کو منّا دلادے اوپر والے "  محمد رفیع    نے گایا ۔

اتوار، 8 فروری، 2015

زندگی کا فن-ہستی، جاودانی حیات کا میدان -4

 ہستی، جاودانی حیات کا میدان

 حاضر و ناظر، تخلیق کا اہم جزو، ہر شے کی جڑ میں موجود ہستی، تمام موجودات نسبتی، تمام اقسام اور مظاہر سے بالا تر، کیوں کہ اس کی خالص اور مکمل حیثیت ماورائی ہے۔ یہ وقت کی حقیقت، جگہ اور تسبیب، ہر وقت تبدیل ہونے والی حدیں، تخلیق کے میدانِ مظاہرسے بالا تراس کا ٹھکانہ ہے۔ہستی، مطلق خالص ہے اوراپنی اس حیثیت سے محظوظ ہوتی ہے، یہ اپنی ناقابل تبدیل جاودانی حیثیت سے بھی محظوظ ہوتی ہے۔ حتمی ہستی اور اس کی کائیناتی نسبت کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہستی ایک لاانتہا پرسکون سمندر ہے، جو ہمیشہ ایک جیسا ہے۔ تخلیق کے مختلف رخ، اقسام اور مظاہراور دنیا میں ہر وقت تبدیل ہونے والی حیات، اس بڑے سمندر کی لہریں اور موجیں ہیں۔ ہستی کا جاودانی سمندر، اِس فرق کے ساتھ اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کی خالص حیثیت تمام وجودِ نسبتی (Relative Existence) سے بالا تر ہے، یہ خالص وجود یا خالص شعور کی بے انتہا وسعت ہے، حیات کے ضروری جزو اور حصے ہیں۔ یہ لامحدود، غیر محیط، جاودانی، خالص ذہانت، خالص وجود اور حتمی میدان ہے خلاصہ یہ کہ ہستی، جاودانی حیات کا میدان ہے اور یہ بتانا اہم ہے کہ ہستی جاودانی حیات کا میدان، حیات کے روزمرہ مظاہر کے ادوار، حیات جاودانی کی لاانتہا قوت سے مدد پاتے ہیں


  زندگی ہماری روزمرہ زندگی کا مجموعہ ہے، ہستی جو تخلیق کا اہم جزو اور تمام عوامل کی بنیاد ہے اور مطلق میدان میں پائی جاتی ہے۔ ہستی تمام انفرادی عوامل کی بنیاد، قائم کرتی ہے اور اس کی اپنے اندر کی تحریک،روزمرہ زندگی کے تمام پیچیدہ اور مختلف النوع میدان میں برقرار رہتی ہے۔
ہماری زندگی سانس لینے اورسوچنے سے شروع ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے لاوجود اورماورائی ہستی سب سے پہلے روح (پرنا) اورذہن میں ظاہر ہوتی ہے۔ تحریک کا انحصار سوچ پر ہے، کسی بھی کام کرنے سے پہلے ہم سوچتے ہیں۔ ہماری سوچ کا انحصار کس پر ہے ہیں اس کا خیال نہیں رکھتے، سوچ عمل کی بنیاد ہے اور سوچ کی بنیاد کیا ہے؟ سوچنے کے لئے ہمیں کم از کم ہونا چاہئیے۔ ہستی سوچ کی اساس ہے، اور سوچ عمل کی اساس ہے، ہستی تمام حیات کی اساس ہے۔ جیسے عرق حیات (Sap) کے بغیر کوئی جڑ نہ ہو اورنہ کوئی درخت اسی طرح ہستی کے بغیر کوئی سوچ نہ ہو اور نہ عمل، ہستی کے بغیر سوچ، عمل یا حیات ممکن نہیں۔ اگر ہم عرق حیات (Sap) کی دیکھ بھال کریں تو پورا درخت پھلے پھولے گا۔ اسی طرح اگر ہم ہستی کی حفاظت کریں تو سوچ اور عمل کا مکمل میدان پروان چڑھے گا اور مکمل میدان ِحیات ہستی کے شعوری دیکھ بھال سے جگمگائے گا۔
لہذا ہم ہستی کو تمام عوامل، برتاؤ اور مختلف طریقوں اور حیات کی اقسام کی بنیاد دیکھتے ہیں۔ ہستی،تمام حیات کی بہت شاندار، بہت قیمتی اور قابل ستائش بنیاد ہے۔ ہستی، آفاقی قوانین کی سطح ہے، تمام قوانین فطرت ہی اساس جو ہر تخلیق اور ارتقاء کی جڑ میں رہتی ہے ۔
یہ ممکن ہے کہ حیات کے تمام میدانوں کو اور زندگی کو شتائشی کرنے کے لئے،ہستی کی فطرت کو شعوری طور پر پھونکتے ہوئے عمل اور برتاؤ کے مختلف میدانوں میں جلاء بخشی جائے -

منگل، 3 فروری، 2015

تو ، تم اور آپ

عرصہ ہوا کہتے ہیں کہ ھلاکوخان  انپے گھوڑے  کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر تلوار اپنے دائیں بائیں گھماتا  ،  قتل و غارت کا طوفانِ بدتمیزی برپا کرتا  ۔ مختلف پہاڑی علاقوں سے گزرتا بغداد پہنچا  تو بڑھاپے اور کثرتِ ازواج کے باعث اِس کی ہمت جواب دے گئی ۔ منگولوں کی انسانوں سروں کا مینار بنانے والی " ریلے ریس" کی کمانڈ  ھلاکو جونئیرز کے ہاتھوں میں آگئی    ، یہ کمانڈ یکے بعد دیگرے آگے بڑھتی گئی یہاں تک کہ یہ منگولوں کی خوبصورت ترک النسل  ، زبردستی تصرف میں لائی گئی   خواتین کی اولادوں کو  ،" منغول "کہلانا شروع  کیا جو   مختصر ہو کر مغل میں تبدیل ہو گیا ۔ تو  مزید فتوحات کے لئے ، یورپ سے تحفے میں لی ہوئی  نیلی آنکھوں والے مغل سپاہیوں نے ، برصغیر کا رخ   ظہیر الدین بابر  کے ساتھ   کیا اور جہاں جہاں گذرے ، نیلی آنکھوں کا تحفہ بخشتے ہوئے  ۔ غزنی و کابل سے ہوتے ہوئے ، خیبر کے راستے   پنجاب میں وارد ہوئے  اور مشرقی بنگال تک جا پہنچے ۔ سرداروں کے ساتھ سر دینے والوں کی فوج ظفر موج سو ، دوسو ، چار سو اور آٹھ سو کلومیٹر کی اِس ریس میں شامل ہوجاتی – یوں گرینڈ ٹرنک روڈ کے دائیں بائیں  مارشل ریس وجود میں آنے لگیں ۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ  اِس ریس میں سب سے زیادہ ذوق و شوق کا اظہار  دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے لے کر ترکستان کے مرغزاروں  میں بسنے والوں نے کیا ۔ اور سنتِ فاتحین  پر برضا و رغبت  عمل کرتے ہوئے مفتوح والدین کے کندھوں کا بوجھ ھلکا کیا ۔ گر اُن کو سب سے مشکل مرحلہ جو پیش آیا وہ حرف مدعا بیان کرنے کا تھا ، کہتے ہیں محبت کی زبان نہیں ہوتی ، چنانچہ اشاروں کنایوںکی بین الاقوامی زبان کو  حرم میں زبان ملی ۔ لیکن  صرف محبت پیٹ نہیں بھرتی  ، چنانچہ تیری زُبان ، میری زَبان ، میری زَبان اور تیری زُبان  کی بدولت زُبانوں کے ملاپ سے بننے والی زَبان حرموں سےنکل کر   لشکریوں کے طفیل  ، برصغیر کے بازاروں سے ہوتی ہوئی شعراء کی محفل بزم و ادب میں جا پہنچی ۔ مختصر یہ کہ ، پہلے تو یہ شدید قسم کی بے ادبی کا شکار ہوئی کیوں کہ  ، ھندوستان میں بولی جانے والی ھندی  نے اِسے" ھندکو " تو نہیں  البتہ ترکی اَردو    ، یعنی ترکی لشکر کی زَبان بنادیا ، لیکن امیر خسرو  نے  اپنی گائیکی کی وجہ سے  اسے گنگنانے والوں میں مشہور کر دیا ۔ 
ھندی ، فارسی اور عربی کے ملاپ نے اِسے ، اَردو سے اُردو کر دیا ۔  یوں  اِس کی مقبولیت کا یہ عالم  ہوا کہ اِس نے شہنشاہوں اور امراءِ  ماوروالنہر  کی زبان کو تزکِ بابری تک محدود کر دیا  اور روساء کی زَبانِ فارسی کو پچھاڑ کر اُسے داخل دفتر  کر دیا  ۔ لشکریوں کی یہ زبان ، ڈھاکہ ہوٹل میں پاکستان کی قومی زبان بن گئی یہ اور بات  کہ چھاگلے کی دھن پر حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے قومی ترانے میں اِس کا صرف ایک لفظ ہے اور وہ صرف " کا"  ہے ۔ اوراب تک ہماری قومی زَبان کا یہ فقط یہ  لفظ ہی قومی رہا ، انگریزی نے اِس کے خلاف پوری قوت سے زور لگا کر  اِسے قومی زَبان نہیں بننے دیا ۔
یہاں تک کہ  1969 میں ہمارے اُن تمام ہم عصروں  کو میٹرک کے امتحان میں مرزا رجب علی بیگ سرور  کا مضمون  " جان عالم کا پیدا ہونا اور ماہ طلعت سے شادی "  کے کسی پیرائے کی جب سلیس اردو بنانا پڑتی ، تو جان عالم کو بلا نقط سنائی جاتیں ، کہ نہ موصوف پیدا ہوتے ، نہ ماہ طلعت سے شادی ہوتی اور نہ ہمیں ، قطار مین مرغا ب کر ایک دوسرے کے پیچھے چلنا پڑتا ۔
لیکن اِس کے باوجود اُردو زَبان کے سمندر میں دیگر  زَبانوں   کے ندی نالے اور دریا گرتے رہے ،  برصغیر کی مقبول ترین زَبان اِس سے قبل تلخ ہوتی ۔ اہل لکھنو نے اِس میں  ، اپنی گُل قندی  ادائیگی حروف   کی چاشنی  زعفرانی  لہجوں میں ملائی  ،  تُو اور تَڑاخ سے شروع ہونے والی زُبانوں کے حلق میں ، تم اور آپ کا اَمرت گھولا ۔ متکلّم نے طرزِ کلام کو ایک نُدرت عطا کی ، جس کا لُطف صرف صاحبِ ادراک ہی اٹھا سکتے ہیں ۔
بھولیئے منجھے  تُو کیا جانے انارکلی دیاں شاناں
طرز، کلام ایک طرف تو اظہارِ قربت بنا ۔
آپ سے تم ہوئے اور تُو کا عنواں ہو گئے
اور دوسری طرف اظہارِ دوری بنا ۔
آپ سے تُم اور تُم سے تُو ہونے گی
جب بھی  ، کھمبیوں کی طرح اُگنے والے ٹی وی چینلز پر ، صاحبِ طرزِ کلام کہلانے والوں کی زُبان سے  اَردو زَبان سننے کو ملتی ہے  اور  ہمارے ادیب اور کالم نگار الفاظوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے نعرہ ماریں
 غنچے لانا ہمارا قلمدان
تو سمجھیں کہ ادب  کا زوال شروع ہو چکا ہے ، کیوں کہ بےادبوں کی محفل  اب "رنج کی گفتگو "شروع ہونے کو ہے ۔




خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔