تمام وجود حیات کی لطیف تہوں کے نیچے دائرے میں پیچیدہ
لیکن مطلق ہستی ہے، جو لاوجود ہے لیکن ماورائی ہے۔ یہ نہ توانائی ہے
نہ مادہ۔ یہ خالص ہستی ہے، وجودِ خالص ہے۔ یہ خالص ہستی، تمام
وجود کے نیچے پنہاں ہے۔ تمام اشیاء اس خالص وجود کااظہار ہے، جو تمام حیات
کا اہم جزو ہے۔ ایک ابدی، لاوجود، مطلق ہستی،جو ہر تخلیق میں اپنے وجود کا اظہار
کر رہی ہے۔
”ہستی“ ۔ تمام تخلیق کی قطعی حقیقت۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے مختلف خد و خال جن سے ہم واقف ہیں کو سمجھنے کے لئے’’ہستی“کی پہچان کیسے کریں؟ ہم دنیا کے تناظر میں ”ہستی“ (Being) کو کیسے جانیں؟ اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کے مختلف مظاہر کا ’’ہستی“ سے کیا تعلق ہے؟
ہم موجود کو اور وجود کوکیسے پہچانیں؟
وجود ایک لایعنی،جب کہ موجود پتھر پرلکیر ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وجود حیات ہے جو لگاتار تبدیلی کے دورانیے کا مظہر اور موجودیت کی غیر متبدل حقیقت ہے۔ وجود حیات کی ایک لایعنی، بنیاد ہے،جس پر حیات پتھر پرلکیر کی طرح تعمیر ہوتی ہے۔ جو ایک انفرادی جسم کے تمام جزویات، ذہن، سوچ، قوت گویائی، اداکاری، برتاؤ، تجربات اور ارد گرد کے اثرات کوسمیٹے رکھنے کے ساتھ آفاقی وجودیت سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
خودکو زندگی کے مختلف روپ میں پیش کرتی ہے۔ جوزندہ ہے وہ زندگی کا تاثر ہے اور وجود،موجودکا تاثر ہے۔ جو ہستی کا تاثر ہے ۔
وجود ، زندگی یا ہستی لاوجو د کی حقیقت ہے جو موجود، حیات یا ہے۔ہستی،موجود تھا، ہے یا ہوگا کی حقیقت ہے۔ یہ جاودانی اور قیود سے آزادہے۔ اور تمام آفاقی حیات کی موجودیت کا بنیادی مظہر ہے،جو وقت،جگہ اور اسباب کا منبع ہے۔ یہ تمام موجودیت کی شروعات سے اختتام تک، توانائے کل کی تخلیقی ذہانت کے جاودانی میدان میں شامل ہیں۔ میں وہ جاودانی ہستی ہوں جو تو ہے، اوریہ جاودانی ہستی کی فطرتِ لازم ہے۔
ہستی حیات ہے جو موجودیت ہے اور ہستی نے موجود رہنے کے لئے حیات رہنا ہے ہستی یا موجودیت، حیات کے لئے مختلف تاثر، سوچنا،بولنا،کرنا، تجربہ حاصل کرنا اور محسوس کرنا،کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ حیات کے تمام تاثرات، کی بنیاد ہستی میں ہے۔
ہستی کا علم، جو حیات کے تمام زمروں کے غیر مقیّد تخلیق کا حتمی لازم جزو ترکیبی ہے۔ نسبتی زندگی حتمی مرتبہ حاصل کرتی ہے، جس کا نتیجہ میں نسبتی میدان میں، اس کے توازن اور عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔
توانائی، ذہانت اور تخلیقی خوبیاں اپنے بے حد میعار کی بلندیوں تک جاتی ہیں اور محدود انسانی زندگی، لامحدود آفاقی کے میعار تک پہنچی ہے۔یہ علم کی کامیابی ہے کہ ہستی تخلیق کی حتمی حقیقت ہے۔
تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ، ہستی شعوریت عطا ء (Bliss-Consciousness) ہے۔ جو تمام موجود تخالیق کی سوچ کی بنیاد ہے۔ یہ حیات نسبت سے کہیں دوربستی ہے، جہاں تجربے سے گذرنے والا یا ذہن کسی بھی شئے سے لاتعلق اورمکمل بیدارہوتا ہے۔ شعوری ذہن، خالص شعوریت پر پہنچتا ہے جو تمام سوچوں کی بنیاد ہے۔مطلق کی توانائے کل (Almighty) تخلیقی ذہانت تمام ذہانتوں کی بنیاد ہے۔ ہستی تما م قوتوں کی بنیاد ہے اوریہ فطرت اورفطرت کے قوانین کی بنیاد ہے جو مختلف مظاہر ِ تخلیق کو قائم رکھتا ہے۔
ہستی کی ضروری فطرت، مطلق ،شعوریت ، عطا ء (Absolute-Bliss-Consciousness) اور ہندی میں اسے” سَت چِت آنندا“ کہتے ہیں (سَت (ناقابل تبدیل) چِت (شعوریت) اور آنندا (عطاء) ۔ ہستی شعوریت عطا ء یا ” سَت چِت آنندا“) کو اپنی بنیاد کا علم نہیں۔ ”مطلق شعوریت عطا ء“ بغیر بنیادوں کے ایک عمارت ہے۔تمام حیاتِ نسبت، شعور کی بنیاد کے بغیرایسی ہے جیسا جہاز بغیر پتوار کے جو سمندری موجوں کے رحم و کرم پر اچھلتا پھرتا ہے۔ہواؤں کی قدرت میں اِدھرسے اْدھر اْڑنے والا زمیں پر گرا خشک پتّا ہے، انفرادی زندگی بھی ہستی کی پہچان کے بغیر بے بنیاد، بے مقصداور بے پھل ہے۔
ہستی، حیات کی بنیاد ہے۔ جو اس کو بامعنی اورپھلداربناتی ہے۔ ہستی خدا کی حیاتی موجودگی اورزندگی کی حقیقت ہے۔ یہ صدقِ جاودانی ہے یہ حتمی جاودانی آزادی ہے۔
”ہستی“ ۔ تمام تخلیق کی قطعی حقیقت۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے مختلف خد و خال جن سے ہم واقف ہیں کو سمجھنے کے لئے’’ہستی“کی پہچان کیسے کریں؟ ہم دنیا کے تناظر میں ”ہستی“ (Being) کو کیسے جانیں؟ اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کے مختلف مظاہر کا ’’ہستی“ سے کیا تعلق ہے؟
ہم موجود کو اور وجود کوکیسے پہچانیں؟
وجود ایک لایعنی،جب کہ موجود پتھر پرلکیر ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وجود حیات ہے جو لگاتار تبدیلی کے دورانیے کا مظہر اور موجودیت کی غیر متبدل حقیقت ہے۔ وجود حیات کی ایک لایعنی، بنیاد ہے،جس پر حیات پتھر پرلکیر کی طرح تعمیر ہوتی ہے۔ جو ایک انفرادی جسم کے تمام جزویات، ذہن، سوچ، قوت گویائی، اداکاری، برتاؤ، تجربات اور ارد گرد کے اثرات کوسمیٹے رکھنے کے ساتھ آفاقی وجودیت سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
خودکو زندگی کے مختلف روپ میں پیش کرتی ہے۔ جوزندہ ہے وہ زندگی کا تاثر ہے اور وجود،موجودکا تاثر ہے۔ جو ہستی کا تاثر ہے ۔
وجود ، زندگی یا ہستی لاوجو د کی حقیقت ہے جو موجود، حیات یا ہے۔ہستی،موجود تھا، ہے یا ہوگا کی حقیقت ہے۔ یہ جاودانی اور قیود سے آزادہے۔ اور تمام آفاقی حیات کی موجودیت کا بنیادی مظہر ہے،جو وقت،جگہ اور اسباب کا منبع ہے۔ یہ تمام موجودیت کی شروعات سے اختتام تک، توانائے کل کی تخلیقی ذہانت کے جاودانی میدان میں شامل ہیں۔ میں وہ جاودانی ہستی ہوں جو تو ہے، اوریہ جاودانی ہستی کی فطرتِ لازم ہے۔
ہستی حیات ہے جو موجودیت ہے اور ہستی نے موجود رہنے کے لئے حیات رہنا ہے ہستی یا موجودیت، حیات کے لئے مختلف تاثر، سوچنا،بولنا،کرنا، تجربہ حاصل کرنا اور محسوس کرنا،کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ حیات کے تمام تاثرات، کی بنیاد ہستی میں ہے۔
ہستی کا علم، جو حیات کے تمام زمروں کے غیر مقیّد تخلیق کا حتمی لازم جزو ترکیبی ہے۔ نسبتی زندگی حتمی مرتبہ حاصل کرتی ہے، جس کا نتیجہ میں نسبتی میدان میں، اس کے توازن اور عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔
توانائی، ذہانت اور تخلیقی خوبیاں اپنے بے حد میعار کی بلندیوں تک جاتی ہیں اور محدود انسانی زندگی، لامحدود آفاقی کے میعار تک پہنچی ہے۔یہ علم کی کامیابی ہے کہ ہستی تخلیق کی حتمی حقیقت ہے۔
تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ، ہستی شعوریت عطا ء (Bliss-Consciousness) ہے۔ جو تمام موجود تخالیق کی سوچ کی بنیاد ہے۔ یہ حیات نسبت سے کہیں دوربستی ہے، جہاں تجربے سے گذرنے والا یا ذہن کسی بھی شئے سے لاتعلق اورمکمل بیدارہوتا ہے۔ شعوری ذہن، خالص شعوریت پر پہنچتا ہے جو تمام سوچوں کی بنیاد ہے۔مطلق کی توانائے کل (Almighty) تخلیقی ذہانت تمام ذہانتوں کی بنیاد ہے۔ ہستی تما م قوتوں کی بنیاد ہے اوریہ فطرت اورفطرت کے قوانین کی بنیاد ہے جو مختلف مظاہر ِ تخلیق کو قائم رکھتا ہے۔
ہستی کی ضروری فطرت، مطلق ،شعوریت ، عطا ء (Absolute-Bliss-Consciousness) اور ہندی میں اسے” سَت چِت آنندا“ کہتے ہیں (سَت (ناقابل تبدیل) چِت (شعوریت) اور آنندا (عطاء) ۔ ہستی شعوریت عطا ء یا ” سَت چِت آنندا“) کو اپنی بنیاد کا علم نہیں۔ ”مطلق شعوریت عطا ء“ بغیر بنیادوں کے ایک عمارت ہے۔تمام حیاتِ نسبت، شعور کی بنیاد کے بغیرایسی ہے جیسا جہاز بغیر پتوار کے جو سمندری موجوں کے رحم و کرم پر اچھلتا پھرتا ہے۔ہواؤں کی قدرت میں اِدھرسے اْدھر اْڑنے والا زمیں پر گرا خشک پتّا ہے، انفرادی زندگی بھی ہستی کی پہچان کے بغیر بے بنیاد، بے مقصداور بے پھل ہے۔
ہستی، حیات کی بنیاد ہے۔ جو اس کو بامعنی اورپھلداربناتی ہے۔ ہستی خدا کی حیاتی موجودگی اورزندگی کی حقیقت ہے۔ یہ صدقِ جاودانی ہے یہ حتمی جاودانی آزادی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں