Pages
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
اتوار، 18 فروری، 2024
سلائی مشینوں کی خریداری
ملت ابراھیم حنیف پراجیکٹس
جنوری میں قران فہم مکتب کے ، ملت ابراہیم حنیف گروپ کے دوست میرے گھر پر اکٹھے ہوئے ۔ نوجوان سلیمان ایسے نظام کا دلدادہ تھا جو علامہ پرویز احمد کے نظام (سوشل کمیونسٹ) سے مطابقت رکھتا تھا ۔ جس کے فلسفے سے میں متفق نہیں ۔
بوڑھے کو علم تھا کہ علی ابراہیم کا ایک بھائی ٹیلرنگ کا کام کرتا ہے ۔ میں نے اُس کو علی منور کا آئیڈیاپیش کیا ، اُس نے بتایا کہ اُس کی چھوٹی بہن بھی سلائی کرتی ہے وہ عورتوں اور لڑکیوں کو ٹریننگ دے سکتی ہے ۔ اور اُس کے گھر میں ایک کمرہ خالی بھی ہے وہاں یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔ بوڑھے نے کہا الحمد للہ ۔
بوڑھے نے علی ابراہیم سے معلومات لیں ۔
ایک ٹیلر ، دن میں کتنے لباس تیار کر سکتا ہے ؟
کام پر منحصر، ایک دن میں 5 لباس اور اگر کام کم ہو تو 2 لباس ایک ٹیلر تیار کرسکتا ہے ۔ ہاتھ کی مشین میں یہ کم ہو جاتے ہیں ۔ 1000 روپے فی سوٹ لیا جاتا ہے ۔ 270 روپےکل خرچ آتا ہے ۔ اگر سینے والے کو 300 روپے دیا جائے تو 430 روپے منافع بنتا ہے ۔جس میں لازمی اخراجات نکالنے کے باوجود مزید بچت ہو سکتی ہے ۔یوں مشین اپنی قیمت خود ادا کر سکتی ۔ اور اُس قیمت سے ایک مشین اور خریدی جا سکتی ہے یا اگر بجلی ہو تو بجلی کی موٹر تربیت یافتہ خواتین کو دی جاسکتی ہے یوں سلائی کی رفتار تیز ہوجائے گی اور اضافی سوٹ سے بجلی کا خرچہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اگر ایک گھر میں تین سلائی مشینیں ہوں تو اُس گھر کی ماہانہ آمدنی بڑھ سکتی ہے ۔
چنانچہ یہ چارٹر بنایا گیا ۔
بوڑھے کی ایک کمپنی کی رقم کے مبلغ 84 ہزار روپے ایک بنک کے کرنٹ اکاونٹ میں 2011 سے پڑے تھے ، جن کے لئے بنک اکاونٹ ایکٹو کروا کر نکلوانے تھے ، وہ بوڑھے نے ملت ابراہیم حنیف پراجیکٹ کو دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ جب بنک جا کر اکاونٹ ایکٹو کرواناچاہا تو معلوم ہو کہ وہ بوڑھے اور اُس کے بڑے بیٹے کا جائینٹ اکاونٹ ہے اور وہ بڑی عید پر اپنے بچوں کے ساتھ آئے گا ۔
30 جنوری 2024 کو بڑھیا شدید بیمار ہوگئی، چلنے سے قاصر ، درد ریح نے بے حال کردیا ۔ بوڑھے نے یکم فروری کوائر جناح سے کوئیٹہ جانا تھا ، 31 تاریخ کو وہ 12 فروری کی تاریخ کروائی۔ شعبان کا مہینہ، لگنے والا تھا ، بوڑھے کو خیال آیا کہ سلائی کا کام عید کی وجہ سے زیادہ ہوجائے گا لہذا پراجیکٹ کو شروع کردینا چاھئیے ،
9 فروری کو علی ابراہیم سے بات ہوئی اور اُسے تین نئی مشینیں خریدے کے لئے کہا ۔11 فروری کو اُس کا بھائی اسرار مشین محلہ راجہ بازار گیا ۔وہاں اُس کی ملاقات، وقار سے ہوئی ۔ جس نے کل مشینیں دینے کاوعدہ کیا۔ اور 12 تاریخ کو بوڑھا ، کوئٹہ جا پہنچا ۔
ماضی کے دیو قامت انسان!
ڈارون کی تھیوری نے ۔ افریقہ کی لوسی کو جنم دیا جس سے بوڑھے کی ملاقات عدیس ابابا (ایتھوپیا) کے نیشنل میوزیم میں ہوئی ، بوڑھے نے اپنی محدود معلومات کے مطابق مسجد ذوالقبلتین کی طرح اِسے بھی مسترد کردیا ۔ کیوں کہ جھوٹ پھیلانے سے کئی سوالات اُٹھتے ہیں ۔کیوں حق کا ایک گھونسہ جھوٹ کے اُس بُت کو پاش پاش کردیتا ، جو جاہل اپنے سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں ۔
بوڑھے کو بچپن سے ماضی کے قرستان میں جھانکنے کا بہت شوق تھا ۔ سب سے پہلے بوڑھے نے ، نڑیا میں اپنے سکول کے پیچھے جھانکا ۔ جہاں قبروں پر کتبےایستادہ تھے۔ لیکن اُسے سب سے اچھا قبرستان۔ایف ایف سنٹر کے ساتھ برٹش سپاہیوں اور افسروں کا ہے اُس کے نزدیک ایف ایف کے گورکھا سپاہیوں /افسروں کے لئے ایک ٹمپل بھی ہے۔ اِس قبرستان میں ایک سگنل آفیسر کی قبر بھی تھی ۔ جس کے اوپر سگنل بیج کا مجسمہ آویزاں تھا۔
تو اُفق کے پار بسنے والے بوڑھے کے ذہین دوستو: انٹر نیٹ پر تاریخ کا قبراستا ڈھونڈھتے ہوئے بوڑھے کو ایک عجیب تصویرملی ۔ پہلے تو بوڑھا یہ سمجھا کہ یہ فوٹو شاپ کا کرشمہ ہے لیکن بھر کئی تصاویر ڈھونڈھنے کے بعد ۔احسن الخالقین کی تخلیق کے بعد ڈارون کی تھیوری فرسودہ لگی ۔
ماہر آثار قدیمہ نے زمین کے مختلف علاقوں سے کئی کھوپڑیاں نکالی ہیں ۔ جو وہاں کے کسانوں نے کھدائی کے دوران اتفاقاً دریافت کیں ۔
جمعرات، 8 فروری، 2024
الیکشن 2024 ، بوڑھا اور الیکشن کمیشن
اُفق کے پار بسنے والے دوستو !۔
بوڑھے نے اپنےموبائل پر الیکشن کمیشن کو شناختی کارڈ کا نمبر بھیجا وہاں سے پیغام آیا کہ آپ اب قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 46کےبجائے ،حلقہ نمبر 55 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 15 میں ووٹ ڈالیں گے۔کیوں کے آپ اب اسلام آباد ، جی نائین ون کے بجائے، راولپنڈی میں ہجرت کر کے سکونت اختیار کر چکے ہیں ۔ بوڑھے نے پہلے یہ ہجرت 2013 کے انتخابات کےبعد ،جون 2014 میں ڈی ایچ اے ون اسلام آبادمیں کی تھی اور 2018 کے انتخابات بوڑھے اور بڑھیا نے ، اسلام آباد میں زبردستی شامل کئے مورگاہ۔1 سے جاکر ، جی نائین ون سابقہ رہائش سے 100 گز دور گرلز مڈل سکول میں ڈالے ۔جہاں 2008 کے انتخاب میں پہلی بار بوڑھے اور بڑھیا نے ووٹ ڈالا تھا۔
پھر بوڑھا 2020 میں برفی کے بابا کےہاں شفٹ ھو گیا ۔ 2023 میں الیکشن کمیشن سرگرم ہوا اُس کے نمائیندے ہاتھ میں لیپ ٹاپ اٹھائے گھر گھر جانا شروع ہوگئے ۔ بوڑھے کا شناختی کارڈ ڈالا اور بتایا کہ کیا آپ اپنا حلقہءِ انتخاب پرانا رکھیں گے یا تبدیل کریں گے کیوں کہ شناختی کارڈ کے مطابق آپ کا عارضی ایڈریس ڈی ایچ اے ون یعنی مورگاہ 1 کا ہے ۔ لیکن آپ کی رہائش یہاں یعنی طارق آباد کی ہے اور یہ قومی اسمبلی کے حلقہ 55میں آتا ہے ۔ بوڑھےنے سوچا ، چلو اب حلقہ 46 کے بجائے حقلہ 55 میں ووٹ ڈالتے ہیں ۔
آج صبح جب بوڑھا ، الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لئے عسکری 14 سے نکلا ، تو اڈیالہ روڈ پر موجود پولنگایجنٹ سے جاکر پوچھے کہ اُس کا پولنگ سٹیشن کسِ علاقے میں ہے تاکہ وہاں جا کر بڑھیا کے ساتھ جاکر ووٹ ڈالا جائے ۔
وہاں ایک نوجوان نے پوچھا کہ کیا آپ نے 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ڈال کر وہاں سے چیک کیا ہے ۔
بوڑھے نے اپنے موبائل سے الیکشن کمیشن سے آیا ہوا ایس ایم ایس دکھایا ۔
شماریاتی بلاک کوڈ: 111030301
سلسلہ نمبر: 349
گھرانہ نمبر: 218
قومی اسمبلی حلقہ نمبر: 55 - راولپنڈی
صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر: 15 - راولپنڈی
انتخابی علاقہ: راجہ اکرم روڈ ریس کورس حاجی روڈ اکبر روڈ عسکری14 ٹریفک کالونی،تحصیل راولپنڈی کینٹ،ضلع راولپنڈی۔
وہ انتخابی علاقہ دیکھ کرپریشان ہو گیا ۔ بولا حلقہ نمبر 55 لال کرتی کا علاقہ ہے ۔ آپ وہاں جاکر معلوم کریں بوڑھا ، بھٹہ چوک پر پہنچا وہاں سینٹ کیتھرین گرلز سکول کے سامنے پولنگ ایجنٹ بیٹھے تھے اُنہوں نے بڑی کوشش کی لیکن پولنگ سٹیشن کا معلوم نہیں ہورہا تھا ۔ خیر ایک نوجوان نے بتایا کہ لال کرتی بازار کے شروع میں لیپ ٹاپ سے پرنٹ لے کر آئیں ، بوڑھا وہاں پہنچا ، اُس نے بتایا کہ آپ کا پولنگ سٹیشن ایف جی بوائز سیکنڈری سکول محفوظ شہید روڈ پر ہے ۔جو جیٹی روڈ سے ملٹری ہسپتال کے سامنے ریلوے سٹیشن کو جاتی ہے ۔
بوڑھا حیدر روڈ سے بتائی ہوئی جگہ پہنچا ۔ پولنگ سٹیشن میں داخل ہوااور 11:30 پرپولنگ بوتھ 301 سے سامنے جاکر لائن میں کھڑا ہو گیا ۔12:00 بجے ووٹ ڈالا ، جس نوجوان نے پولنگ سٹیشن میں ھاتھ پر سیاہی کا نشان لگایا اُس کو بتایا کہ اب وہ عسکری 14 سے اپنی بڑھیا کو لے کر آئے گا۔ لیکن بہتر یہ ہوتا کہ طارق آبادکے علاقے میں پولنگ بوتھ دیا جاتا ۔
اُس نوجوان نے مشورہ دیا کہ کئی لوگوں کا ووٹ درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے دور کے پولنگ سٹیشن کا انتخاب کر دیا گیا لیکن حلقہ وہی ہے آپ باہر چیک کر لیں ۔
بوڑھا، ایک سنسان پولنگ کیمپ کے پاس پہنچا ۔ جس کی جماعت کو بڑھیا کا ووٹ ڈالنے کا پکا ارادہ ہے ، ویسے بھی بڑھیا گذشتہ ، تین انتخابات میں اپنا ووٹ اِس سنسان ، جماعت کے سربراہ کو ڈال کر ضائع کر چکی ہے ۔ خیر ۔ وہاں ایجنٹ نے کاپیاں کھنگالیں ، جو نام، اُن میں بڑھیا کا نام نہیں ۔ بوڑھا واپس لاکرتی پہنچا لیپ ٹاپ والے نوجوان کو شناختی کارڈ نمبر بتایا ، اُس نے کہا کہ یہ پی پی 10 کا حلقہ میں پولنگ بوتھ ہے ۔ لیکن یہ کہاں ہے ؟
بولا شائد اسلام آباد ۔
لیکن وہاں تو پی پی نہیں صرف این اے ہے ۔
معلوم نہیں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ نوجوان بولا ۔بوڑھا اداس گھر آگیا کہ بڑھیا اپنا ووٹ پھر ضائع نہ کر سکی ۔
آہ، بوڑھے نے مزید چیک کیا تو معلوم ہوا کی 1 سے لیکر 7تک ضلع راولپنڈی سے کل 13 ایم این اے منتخب ہوں گے ، یعنی 51، 52، 53، 54 ،55، 56 اور 57 ۔ گویا پی پی -10 حلقہ 53 یا 54 میں ہو سکتی ہے ۔یوں پی پی 5 سے پی پی 19 تک پنجاب اسمبلیوں26 ایم پی اے راولپنڈی ڈویژن سے منتخب ہوں گے ۔
خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔