طبری:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ باغیوں کی جماعت پر ہمیں اختیار
حاصل نہیں ، اس وقت ان کا غلبہ ہے ، اس دوران بعض صحابہ کی کوشش سے طالبینِ قصاص
اور حضرت علی میں مفاہمت کی شکل پیدا ہوئی،اور حضرت علی جب صلح کی غرض سے روانہ
ہوے تو یہ اعلان کیا کہ جس شخص نے عثمان کی بابت کچھ کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ
چلے،( طبری جلد 5 صفحہ 194 .)
طبری: یہ سن کر سبائیوں نے جن میں ابن سبا اس کا خاص ایجنٹ الاشتر
اور دوسرے باغی اور قاتل شامل تھے خفیہ میٹنگ کر کے طے کیا کہ اس صلح اور مفاہمت
کو ناکام بنا دیا جائے کیونکہ صلح کی صورت میں ہماری خیر نہیں مورخین کا متفقہ
بیان ہے کہ عبدللہ بن سبا کی تجویز کے مطابق ان لوگوں نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے جن
کی تعداد ڈھائی ہزار بیان کی گئی ہے رات کو شب خون مار کر آتش جنگ روشن کر دی.حضرت
علی نے اس جنگ اور برادر کشی کو روکنے کے لئے قران شریف دکھا دکھا کر کہا کہ یہ
کلام الله ہمارے تمھارے درمیان ہے اس کے مطابق فیصلہ ہو.( طبری جلد 5 صفحہ 204
)
شیطان:
لیکن سبائیوں کا تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا ہر فریق نے اس غلط فہمی میں قتال کیا کہ دوسرے نے شرائط صلح میں غداری کی ہے.اس سانحہ کے بعد بھی سبائیوں کی ریشہ دوانیوں کا خاتمہ نہ ہوا ،اہل شام سے لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں .
سبائیوں کی من مانی کاروائیاں دیکھ کر کہ وہ جو چاہتے ہیں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے حضرت علی سے کروا لیتے ہیں ان کے بعض عزیز بھی حضرت علی سے بیزار ہو گئے.حضرت علی کے برادر بزرگ حضرت عقیل کی دور بین نگاہوں نے اس صورت حال کا جائزہ لے لیا تھا اور سمجھ گیے کہ ان کے بھائی کے ارد گرد جو لوگ ہیں (سبائی پارٹی ) وہ ملت کا بیڑہ غرق کیے بغیر نہ رہیں گے ، اس ضمن میں وضاعین نے کتنے ہی لطیفے اور کتنی بھبتیاں کسی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علی کے سگے بڑےبھائی حضرت عقیل جو خاندان کے بزرگ بھی تھے اپنے بھائی سے علیحدہ ہو کر ان کے مد مقابل حضرت معاویہ کے پاس چلے گئے جو حضرت عثمان کے طالب قصاص تھے،صفین کی جنگ کے میدان میں وہ ان کے کیمپ میں موجود رہے انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ وفا داری اسی میں سمجھی کہ ان کی سیاست پر جو لوگ قابض ہیں وہ اپنے کیفرِکردار کو پہنچیں .
حضرت علی کے بڑے بھائی کا ان کے خلاف ہو کر حضرت معاویہ کے ساتھ صفین کے میدان جنگ میں ان کے ساتھ ہونے کا شیعہ مورخ نے بھی اعتراف کیا ہے.
لیکن سبائیوں کا تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا ہر فریق نے اس غلط فہمی میں قتال کیا کہ دوسرے نے شرائط صلح میں غداری کی ہے.اس سانحہ کے بعد بھی سبائیوں کی ریشہ دوانیوں کا خاتمہ نہ ہوا ،اہل شام سے لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں .
سبائیوں کی من مانی کاروائیاں دیکھ کر کہ وہ جو چاہتے ہیں کسی نہ کسی حیلے بہانے سے حضرت علی سے کروا لیتے ہیں ان کے بعض عزیز بھی حضرت علی سے بیزار ہو گئے.حضرت علی کے برادر بزرگ حضرت عقیل کی دور بین نگاہوں نے اس صورت حال کا جائزہ لے لیا تھا اور سمجھ گیے کہ ان کے بھائی کے ارد گرد جو لوگ ہیں (سبائی پارٹی ) وہ ملت کا بیڑہ غرق کیے بغیر نہ رہیں گے ، اس ضمن میں وضاعین نے کتنے ہی لطیفے اور کتنی بھبتیاں کسی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علی کے سگے بڑےبھائی حضرت عقیل جو خاندان کے بزرگ بھی تھے اپنے بھائی سے علیحدہ ہو کر ان کے مد مقابل حضرت معاویہ کے پاس چلے گئے جو حضرت عثمان کے طالب قصاص تھے،صفین کی جنگ کے میدان میں وہ ان کے کیمپ میں موجود رہے انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ وفا داری اسی میں سمجھی کہ ان کی سیاست پر جو لوگ قابض ہیں وہ اپنے کیفرِکردار کو پہنچیں .
حضرت علی کے بڑے بھائی کا ان کے خلاف ہو کر حضرت معاویہ کے ساتھ صفین کے میدان جنگ میں ان کے ساتھ ہونے کا شیعہ مورخ نے بھی اعتراف کیا ہے.
عمدہ الطالب:
عقیل اپنے بھائی امیر المومنین علی سے ان کے ایام خلافت میں جدا ہو گئے اور معاویہ کے پاس بھاگ گئے اور ان ہی کے ساتھ صفین کی جنگ میں موجود رہے.
عمدہ الطالب صفحہ 15 متبح لکھنو .
مُفتی :
کیا
آپ جانتے ہیں ؟؟؟
حضرت
جعفر طیار کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما کے ایک بیٹے کا نام معاویہ ہے
، معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر کی شادی حضرت امام حسن رض کی پوتی حضرت امام حسن
مثنی کی بیٹی فاطمہ رض کے ساتھ ہوئی -
عمدہ
الطالب فی انساب آل ِ ابی طالب ، علامہ جمال الدین ابن عنبہ الشیعی ، تحت ذکر عقب
جعفر طیار ، ص 38
ناسخ
التواریخ ، علامہ طراز مظفری ص 395 ، ج 9 ، در احوال زینب کبریٰ ، طبع قدیم ایران
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں