وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
﴿2/222﴾
بیکن ہاوس یونیورسٹی لاہور کے طلبہ و طالبات کی طرف سے ایام حیض اور اس سے جڑے "ٹےبوز" ( taboos ) پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے موافقت اور مخالفت کا بازار گرم ہے. میں ایک ڈاکٹر اور ایک عورت اور ایک سماجی مصنفہ کی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھنا چاہتی ہوں.( ڈاکٹر رابعہ خرم درانی )
***************************************
ہر ماہ عورت کی دو انڈے دانیوں (بیضہ دانی) میں انڈے تیار ہوتے ہیں. .اور عموما ایک ماہ میں ایک انڈا خارج ہوتا ہے. اس انڈے سے فرٹیلائزیشن (عمل تولید) کے زریعے سے ایمبریو بنتا ہے. یہ عمل تولید رحم اور بیضہ دانی کو ملانے والی ٹیوب (fallopian tube ) میں سر انجام پاتا ہے. اس دوران فرٹیلائزڈ اووم (fertilized ovum/egg ) کو سنبھالنے اور آنے والے دنوں میں خوراک مہیا کرنے کے لیے قدرت رحم کی اندرونی جھلی (endometrium ) کو بڑھاتی ہے اور اس کی موٹائی (thickness ) زیادہ کرتی ہے
اس جھلی میں سپرنگ کی شکل (spiral arterioles )کی باریک خون کی نالیوں کا جال بچھ جاتا ہے جو آکسیجن اور خوراک سے بھرپور خون سے لدا ہوتا ہے ..
یہ اسپنج سے ملتے جلتے کنیکٹو ٹشو (connective tissue ) میں ادھر سے ادھر آ جا رہی ہوتی ہیں
یہ خون ایمبریو کے لیے آب حیات کا کام کرتا ہے اور دبیز جھلی ایک نرم گرم بستر کا ..جہاں کا موزوں ماحول ایمبریو کو بڑھنے پھولنے کے لیے سازگار ہوتا ہے .
اب اگر فرٹیلائزیشن نہ ہو یا ایمبریو نارمل نہ ہو تو یہ انڈہ/ایمبریو ٹھہرتا نہیں ضائع ہو جاتا ہے . اور رحم کی اندرونی جھلی کی بڑھوتری رک جاتی ہے .. اندرونی غدود (ہارمونز) کا نظام اب ایسے کام کرتا ہے کہ خون کی نالیاں سکڑنے لگتی ہیں اور جھلی جھڑنے لگتی ہے . جھلی کے جھڑنے سے خون کی نالیاں کھل جاتی ہیں جن سے خون جاری ہوتا ہے. غیر ضروری مردہ جھلی , مردہ انڈے اور اضافی ڈیڈ سیلز خون کے بہاو کے ساتھ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں. . اس دوران رحم کی ہلکی پھلکی دردیں (contractions ) بھی اس جھلی اور خون کو خارج کرنے میں ویسے ہی مددگار ثابت ہوتی ہیں. جیسے بچہ پیدا کرنے میں .
سو حیض کا آنا ایک عورت کے لیے خوش بختی اور صحت مندی کی علامت ہے کہ وہ ایک عمدہ کار آمد تولیدی نظام کی مالک ہے.
ہمارا مشرقی معاشرہ اس کو کس نظر سے دیکھتا ہے ؟
شرم و حیا ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار ہیں بالکل محبت اور خلوص کی مانند.
حیض ایک سو فیصد نارمل فزیالوجیکل عمل ہے ایسے ہی جیسے تھوک کا بننا .. پیشاب پاخانے اور گیس کا بننا . مرد کو احتلام ہونا.
لیکن کیا ہم اپنے تھوک آلود نیپکن سینے پر سجاتے ہیں کہ یہ ایک نارمل بات ہے اس لیے میں اس پر شرمندہ نہیں . . یا پیشاب آلود گیلی شلوار لیے گھومتے ہیں .
کیا قضائے حاجت کے لیے ہم اوٹ تلاش نہیں کرتے . جبکہ یہ اس قدرتی عمل سے مرد و زن میں سے کوئی بھی مبرا نہیں.
اگر معمولی ترین مقدار میں پاخانہ لباس پر لگ جائے تو اللہ یا اللہ کے بندوں کے سامنے با اعتماد طور پر کھڑے رہ سکتے ہیں . جبکہ یہ قدرتی چیز ہے اس کا آنا نعمت اور نہ آنا زحمت ہے.
تو ماہواری پر بھی تو یہی اصول و قواعد لاگو ہیں نا . . یہ تھوک بلغم پیشاب پاخانہ تو ماہواری یا احتلام سے بہت پہلے سے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں نا تو صرف آپ کو مہینے میں ایک بار ہونے والا عمل ہی احتجاج کے لیے کیوں یاد آیا. ..؟
اب اس کا جواب بھی دیے دیتی ہوں
ہمارا معاشرہ مرد کا معاشرہ کہلاتا ہے.. بےشک لیکن پردہ تو مرد بھی رکھتے ہیں. اپنے گندے کپڑے لے کر وہ بھی معاشرے کے سامنے نہیں آتے.
ایک جگہ پڑھا تھا. کہ بیٹے کے جوان ہونے کا پتا تب چلتا ہے جب وہ غسل کے ساتھ اپنی شلوار بھی خود ہی دھو دیتا ہے ..
اس معاشرے میں مرد کو بھی بہت کچھ چھپانا پڑتا ہے. . صرف عورت کو ہی نہیں. کچھ مسائل جو اس پردہ پوشی کی وجہ سے عورتوں کو بھگتنے پڑتے ہیں وہ یہ ہیں..
1. عورت کی تربیت اور فطری جھجھک کی وجہ سے وہ حیض سے متعلق مسائل پر بات کرتے ہچکچاتی ہے
2. بےشمار عورتیں شدید ترین مرض کا شکار ہو کر بھی اپنی شرمیلی زبان بندی کی عادت کے ہاتھوں شدید اینیمیا کا شکار ہو جاتی ہیں
3. ماہواری میں استعمال ہونے والا سینٹری پیڈ/کپڑا چھپا کر پھینکنے کی کوشش میں اپنے گھر کے مرد کی نظر میں مشکوک ٹھہرتی ہیں. . ایک خاتون اس مقصد کے لیے گہرے رنگ کے لفافے منگوانے کی گناہگار ٹھہری اور طلاق ہوتے ہوتے بچی .
اس معاملے میں ماں/ساس کا کردار یہ ہے کہ وہ بیٹی اور بہو کے معاملے کو سلجھائے اور بیویاں اپنے شوہر سے اس چیز کا پردہ نہ رکھیں. یاد رکھیں آپ کا شوہر آپ کا لباس ہے ..
4..... جیسے غیر مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے لیے نماز کا کمرہ مختص کیا جاتا ہے اسی طرح ہر معاشرے میں ورک پلیس /کالج /یونیورسٹی میں گرلز روم کا قیام ازبس ضروری ہے.
5. حیض نفاس احتلام اور طہارت کو ایک مضمون کی طرح نصاب میں شامل کیا جائے.
تاکہ یہ دوستوں سہیلیوں کے سینہ گزٹ سے سیکھنے سمجھنے کی چیز نہ بنے.
6. ماؤں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنی اولاد (لڑکا/لڑکی) کے مسائل کو سمجھ کر انہیں سمجھا سکیں ۔
7. ہر علاقے میں ہیلتھ ایجوکیشن کو فروغ دیا جائے اس کام کے لیے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے مل کر کام کریں
8. سینٹری پیڈ ایجیٹیشن غلط نہیں صرف اس کا طریقہ اظہار نامناسب ہے.
9. جب ہم اپنے بچوں کو تعلیم مغربی اداروں سے دلوا رہے ہیں تو ان سے مشرقی اقدار کی توقع صرف تبھی کی جائے اگر گھر میں والدین نے ان کی تربیت ان اقدار پر کی ہو
10 آفاقی سچ . . حیض اور مباشرت
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿2/222﴾
اور یہ لوگ تجھ سے ایام حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ :
وہ اذیت ہے، پس حائضہ عورتوں سے (اِن ایام میں) عارضی اختیار کرو !
اور جب تک وہ (الحیض سے) پاک نہ ہو جائیں تو تم اُن کی قربت اختیار مت کرو!
جب وہ وہ (الحیض سے) پاک ہوجائیں تو اُن کے پاس آؤ جیسا أَمَرَاللَّـهُ تم کو ہے!
بے شک اللہ التَّوَّابِينَ اورالْمُتَطَهِّرِينَ سے محبت کرتا رہے گا!
دوران حیض اگر خواہش (libido ...horny ) زیادہ بھی ہے تب بھی یہ صریح غیر اسلامی اور گناہ کبیرہ ہے، اس سے اجتناب فرمایے.
یہ میڈیکلی بھی شدید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے آپ پی آئی ڈی, اینڈومیٹریوسس اور انفرٹیلیٹی جیسی خطرناک بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں.
11. حائضہ عورت کو گھریلو کام کاج کے لیے ناپاک تصور کرنا غلط ہے. آپ دل اور زبان سے آیات و اذکار بھی پڑھ سکتی ہیں اور کھانا بھی پکا سکتی ہیں
12. بس نماز روزہ حج اور قرآن کے لیے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق ان مخصوص دنوں میں آپ ان عبادات سے مستثنی ہیں. اور ان دنوں کی نماز کا ثواب بغیر نماز ادا کئے ملے گا ..
بیکن ہاوس یونیورسٹی لاہور کے طلبہ و طالبات کی طرف سے ایام حیض اور اس سے جڑے "ٹےبوز" ( taboos ) پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے موافقت اور مخالفت کا بازار گرم ہے. میں ایک ڈاکٹر اور ایک عورت اور ایک سماجی مصنفہ کی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھنا چاہتی ہوں.( ڈاکٹر رابعہ خرم درانی )
***************************************
سن بلوغت کو پہنچتے ہی ہر لڑکی میں مختلف بیرونی اور اندرونی تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے .. اس کی نشانی جسمانی ظاہری تبدیلیوں کے ساتھ ہر ماہ رحم سے کچھ مقدار میں خون کا اخراج بھی ہے. یہ خون کیوں آتا ہے. .
ہر ماہ عورت کی دو انڈے دانیوں (بیضہ دانی) میں انڈے تیار ہوتے ہیں. .اور عموما ایک ماہ میں ایک انڈا خارج ہوتا ہے. اس انڈے سے فرٹیلائزیشن (عمل تولید) کے زریعے سے ایمبریو بنتا ہے. یہ عمل تولید رحم اور بیضہ دانی کو ملانے والی ٹیوب (fallopian tube ) میں سر انجام پاتا ہے. اس دوران فرٹیلائزڈ اووم (fertilized ovum/egg ) کو سنبھالنے اور آنے والے دنوں میں خوراک مہیا کرنے کے لیے قدرت رحم کی اندرونی جھلی (endometrium ) کو بڑھاتی ہے اور اس کی موٹائی (thickness ) زیادہ کرتی ہے
اس جھلی میں سپرنگ کی شکل (spiral arterioles )کی باریک خون کی نالیوں کا جال بچھ جاتا ہے جو آکسیجن اور خوراک سے بھرپور خون سے لدا ہوتا ہے ..
یہ اسپنج سے ملتے جلتے کنیکٹو ٹشو (connective tissue ) میں ادھر سے ادھر آ جا رہی ہوتی ہیں
یہ خون ایمبریو کے لیے آب حیات کا کام کرتا ہے اور دبیز جھلی ایک نرم گرم بستر کا ..جہاں کا موزوں ماحول ایمبریو کو بڑھنے پھولنے کے لیے سازگار ہوتا ہے .
اب اگر فرٹیلائزیشن نہ ہو یا ایمبریو نارمل نہ ہو تو یہ انڈہ/ایمبریو ٹھہرتا نہیں ضائع ہو جاتا ہے . اور رحم کی اندرونی جھلی کی بڑھوتری رک جاتی ہے .. اندرونی غدود (ہارمونز) کا نظام اب ایسے کام کرتا ہے کہ خون کی نالیاں سکڑنے لگتی ہیں اور جھلی جھڑنے لگتی ہے . جھلی کے جھڑنے سے خون کی نالیاں کھل جاتی ہیں جن سے خون جاری ہوتا ہے. غیر ضروری مردہ جھلی , مردہ انڈے اور اضافی ڈیڈ سیلز خون کے بہاو کے ساتھ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں. . اس دوران رحم کی ہلکی پھلکی دردیں (contractions ) بھی اس جھلی اور خون کو خارج کرنے میں ویسے ہی مددگار ثابت ہوتی ہیں. جیسے بچہ پیدا کرنے میں .
سو حیض کا آنا ایک عورت کے لیے خوش بختی اور صحت مندی کی علامت ہے کہ وہ ایک عمدہ کار آمد تولیدی نظام کی مالک ہے.
ہمارا مشرقی معاشرہ اس کو کس نظر سے دیکھتا ہے ؟
شرم و حیا ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار ہیں بالکل محبت اور خلوص کی مانند.
حیض ایک سو فیصد نارمل فزیالوجیکل عمل ہے ایسے ہی جیسے تھوک کا بننا .. پیشاب پاخانے اور گیس کا بننا . مرد کو احتلام ہونا.
لیکن کیا ہم اپنے تھوک آلود نیپکن سینے پر سجاتے ہیں کہ یہ ایک نارمل بات ہے اس لیے میں اس پر شرمندہ نہیں . . یا پیشاب آلود گیلی شلوار لیے گھومتے ہیں .
کیا قضائے حاجت کے لیے ہم اوٹ تلاش نہیں کرتے . جبکہ یہ اس قدرتی عمل سے مرد و زن میں سے کوئی بھی مبرا نہیں.
اگر معمولی ترین مقدار میں پاخانہ لباس پر لگ جائے تو اللہ یا اللہ کے بندوں کے سامنے با اعتماد طور پر کھڑے رہ سکتے ہیں . جبکہ یہ قدرتی چیز ہے اس کا آنا نعمت اور نہ آنا زحمت ہے.
تو ماہواری پر بھی تو یہی اصول و قواعد لاگو ہیں نا . . یہ تھوک بلغم پیشاب پاخانہ تو ماہواری یا احتلام سے بہت پہلے سے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں نا تو صرف آپ کو مہینے میں ایک بار ہونے والا عمل ہی احتجاج کے لیے کیوں یاد آیا. ..؟
اب اس کا جواب بھی دیے دیتی ہوں
ہمارا معاشرہ مرد کا معاشرہ کہلاتا ہے.. بےشک لیکن پردہ تو مرد بھی رکھتے ہیں. اپنے گندے کپڑے لے کر وہ بھی معاشرے کے سامنے نہیں آتے.
ایک جگہ پڑھا تھا. کہ بیٹے کے جوان ہونے کا پتا تب چلتا ہے جب وہ غسل کے ساتھ اپنی شلوار بھی خود ہی دھو دیتا ہے ..
اس معاشرے میں مرد کو بھی بہت کچھ چھپانا پڑتا ہے. . صرف عورت کو ہی نہیں. کچھ مسائل جو اس پردہ پوشی کی وجہ سے عورتوں کو بھگتنے پڑتے ہیں وہ یہ ہیں..
1. عورت کی تربیت اور فطری جھجھک کی وجہ سے وہ حیض سے متعلق مسائل پر بات کرتے ہچکچاتی ہے
2. بےشمار عورتیں شدید ترین مرض کا شکار ہو کر بھی اپنی شرمیلی زبان بندی کی عادت کے ہاتھوں شدید اینیمیا کا شکار ہو جاتی ہیں
3. ماہواری میں استعمال ہونے والا سینٹری پیڈ/کپڑا چھپا کر پھینکنے کی کوشش میں اپنے گھر کے مرد کی نظر میں مشکوک ٹھہرتی ہیں. . ایک خاتون اس مقصد کے لیے گہرے رنگ کے لفافے منگوانے کی گناہگار ٹھہری اور طلاق ہوتے ہوتے بچی .
اس معاملے میں ماں/ساس کا کردار یہ ہے کہ وہ بیٹی اور بہو کے معاملے کو سلجھائے اور بیویاں اپنے شوہر سے اس چیز کا پردہ نہ رکھیں. یاد رکھیں آپ کا شوہر آپ کا لباس ہے ..
4..... جیسے غیر مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے لیے نماز کا کمرہ مختص کیا جاتا ہے اسی طرح ہر معاشرے میں ورک پلیس /کالج /یونیورسٹی میں گرلز روم کا قیام ازبس ضروری ہے.
5. حیض نفاس احتلام اور طہارت کو ایک مضمون کی طرح نصاب میں شامل کیا جائے.
تاکہ یہ دوستوں سہیلیوں کے سینہ گزٹ سے سیکھنے سمجھنے کی چیز نہ بنے.
6. ماؤں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنی اولاد (لڑکا/لڑکی) کے مسائل کو سمجھ کر انہیں سمجھا سکیں ۔
7. ہر علاقے میں ہیلتھ ایجوکیشن کو فروغ دیا جائے اس کام کے لیے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے مل کر کام کریں
8. سینٹری پیڈ ایجیٹیشن غلط نہیں صرف اس کا طریقہ اظہار نامناسب ہے.
9. جب ہم اپنے بچوں کو تعلیم مغربی اداروں سے دلوا رہے ہیں تو ان سے مشرقی اقدار کی توقع صرف تبھی کی جائے اگر گھر میں والدین نے ان کی تربیت ان اقدار پر کی ہو
10 آفاقی سچ . . حیض اور مباشرت
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿2/222﴾
اور یہ لوگ تجھ سے ایام حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ :
وہ اذیت ہے، پس حائضہ عورتوں سے (اِن ایام میں) عارضی اختیار کرو !
اور جب تک وہ (الحیض سے) پاک نہ ہو جائیں تو تم اُن کی قربت اختیار مت کرو!
جب وہ وہ (الحیض سے) پاک ہوجائیں تو اُن کے پاس آؤ جیسا أَمَرَاللَّـهُ تم کو ہے!
بے شک اللہ التَّوَّابِينَ اورالْمُتَطَهِّرِينَ سے محبت کرتا رہے گا!
دوران حیض اگر خواہش (libido ...horny ) زیادہ بھی ہے تب بھی یہ صریح غیر اسلامی اور گناہ کبیرہ ہے، اس سے اجتناب فرمایے.
یہ میڈیکلی بھی شدید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے آپ پی آئی ڈی, اینڈومیٹریوسس اور انفرٹیلیٹی جیسی خطرناک بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں.
11. حائضہ عورت کو گھریلو کام کاج کے لیے ناپاک تصور کرنا غلط ہے. آپ دل اور زبان سے آیات و اذکار بھی پڑھ سکتی ہیں اور کھانا بھی پکا سکتی ہیں
12. بس نماز روزہ حج اور قرآن کے لیے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق ان مخصوص دنوں میں آپ ان عبادات سے مستثنی ہیں. اور ان دنوں کی نماز کا ثواب بغیر نماز ادا کئے ملے گا ..
سر جی اس میں کویئ شک و شبہ نہیں کہ یہ ایک بہترین علمی اور اعلی پائے کی تحریر ہے۔۔۔۔۔ سوچنے کے لئے ، سمجھنے کے لئے ، عمل کرنے کے لئے اور ریفرنس کے لئے ۔۔۔۔۔ مگر جن لوگوں کے لئے لکھی گئی ان کی سمجھ سے بہت باہر ۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںگند کی چھینٹے اڑانے والوں کو سمجھانے کے لئے ان کی بات میں بات کرنا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔ یہ واعظ ان کے لئے اہمیت رکھتے تو وہ ایسی باتیں ہی نہ کرتے