مصالحت اور
بیعت خلافت .
اخبار الطول:
زخم کے مندمل ہو جانے کے بعد حضرت حسن نے بلا تاخیر مصالحت
میں سبقت کی . سبائیوں کی برابر کوشش رہی کے صلح نہ ہونے پائے ، ان کے ایک
لیڈر حجر بن عدی نے پہلے تو حسن بن علی سے ملاقات کی تو انہوں نے سختی سے
ڈانٹ دیا ، پھر ان کے چھوٹے بھائی حسین بن علی سے گفت و شنید کی کہ تم عزت
کی بجاۓ ذلت کو اور کثیر کی بجاۓ قلیل کو اختیار کیوں کر رہے ہو اپنے بھائی
کا ساتھ چھوڑ دو تو میں اہل کوفہ میں سے اعوان و انصار کی کثیر
جماعت حاضر کر دوں گا ،مگر حضرت حسین نے جواب دیا اور صاف کہا کہ ہم نے
بیعت کر لی ہے معاہدہ ہو گیا ہے اور اب کوئی سبیل ہمارے بیعت توڑنے کی نہیں
ہے.
(اخبار الطول الدین پوری صفحہ 234 مطبوعہ لنڈن 1888 )
(اخبار الطول الدین پوری صفحہ 234 مطبوعہ لنڈن 1888 )
طبری : غالی راویوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت حسیں صلح و مصالحت سے متفق نہ تھے انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے بحث و مباحثہ کیا مگر حضرت حسن نے اپنے چھوٹے بھائی کو جھڑک دیا کہ تم چپ رہو میں اس معاملہ کو تم سے بہتر جانتا ہوں.(طبری جلد 2 صفحہ 62)
ڈاکٹر طٰحہ حسین:
نے اپنی جدید تالیف " علی و نبوہ " میں زیادہ تصریح سے لکھا ہے کہ حسین بن علی نے اپنے بھائی سے اتفاق نہیں کیا انہوں نے اپنے بھائی کو لڑائی میں چلنے کو زور دیا لیکن ان کے بھائی نے انکار کر دیا اور ڈرایا کہ اگر میری اطاعت نہ کی تو بیڑیاں پہنا دوں گا، (صفحہ 203 .)
اخبار الطول:
بہر حال حضرت حسین نے اپنے بڑے بھائی سے اتفاق بہ جبر کیا ہو یا خوشی سے
،بیعت سے تو کسی کو انکار نہیں ہے،اس وقت حالت یہ تھی کہ عراقی فوج کے
کمانڈر قیس بن عبادہ اور حضرت حسن نے حضرت معاویہ کی بیعت کر لی تھی اور
عراقیوں سے پوچھا کہ دو باتوں میں سے ایک اختیار کرو یا بلا امام کے جنگ
کرو یا معاویہ کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ . لوگوں نے حضرت معاویہ کی اطاعت
میں داخل ہونا اختیار کیا (اخبار الطوال صفحہ 233 )
اخبار الطول:
اخبار الطول:
عراق سے واپسی پر
بھی سبائیوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ان کے لیڈر مدینہ آئے جن میں سلیمان
بن صرو پیش پیش تھا اس نے حضرت حسن سے گفت گو کی مگر ان کے جواب سے مایوس
ہوئے ،پھر ان کے چھوٹے بھائی حسین بن علی کے پاس آئے اس پر حضرت حسین نے کہا
کہ تم سب لوگ اس وقت تک اپنے گھروں میں خاموش بیٹھے رہو جب تک یہ معاویہ
زندہ ہے .(اخبار الطوال صفحہ 173 )
اخبار الطول:
حضرت حسین نے جواب دیا کہ معاویہ
کی بیعت ہم نے کراہت سے کر لی ہے پس اگر معاویہ وفات پا گے تو ہم بھی غور
کریں گے اور تم بھی، ہم بھی رائے قائم کریں گے اور تم بھی.گویا اس غالی مولف
کے نزدیک حضرت حسین نے حضرت معاویہ سے بیعت بہ مجبوری اور بکراہت کی تھی
اور حصول خلافت کے لئے مناسب موقح کے منتظر تھے اور حضرت معاویہ کی وفات کے
بعد ان کو لا محالہ اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے کھڑا ہونا ہی تھا.
مقتل ابی مخنف:
ابو مخنف نے تو یہ قول حضرت حسین سے منسوب کر دیا کہ اپنے بھائی حضرت حسن
کا معاویہ سے بیعت کر لینا ان کو اس درجہ شاق تھا کہ فرماتے تھے کہ میری
ناک چاقو سے کاٹنے والا کاٹ ڈالتا یا میرا جسم آری سے چیر ڈالتا میں نے
اپنے بھائی کے اطاعت مجبوری اور کراہت سے کی ہے اس کے ساتھ بقول ابو مخنف
انہوں نے شیعان کوفہ سے کہا ، اب اس وقت صلح ہے اور بیعت بھی ہے جب تک یہ
شخص معاویہ زندہ ہے انتظار کرو جب مر جائے تو ہم بھی سوچیں گے اور تم بھی. ( مقتل ابی مخنف صفحہ 4 .متبح نجف . )
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں