Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 27 مارچ، 2019

ہربل- سینا چائے وزن کم کریں

دریائے نیل   کے علاقے   (   جنوبی سوڈان ، ایتھوپیا ، سوڈان اور مصر) میں اُگنے والا خودرو پودا- جس کی تجارت  مصر کی بندرگا ہ سکندریہ   سے ہونے کی وجہ سے اِس کا نام ، صحرائے  سینا کے نام پر سینا اسکندریہ (Senna alexandrina) پڑ گیا - یہ ایک خوبصورت پودا ہے جِس کے پیلے پھول  ، آنکھوں کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ باغوں میں لگانے کے لئے اِس کو  باقی بر اعظموں میں بھی لے جایا گیا ۔  مصری  میں اِسے عشرق  ، عشرگ     اور بر صغیر میں اِسے ، سنا مکی ۔ سونا مکی ۔ سونا پاتا ۔تخم سنبھالو۔  کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔پاکستان میں اِسے  سنا مکّی  (مکّہ میں اُگنے والی  سنا) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔
اِس سے انگریزی دوا (Senna glycoside) بنتی ہے جو آپریشن سے پہلے بڑی آنت سے فضلہ کی صفائی میں مدد دیتی ہے  
سیناء کا پودا ڈھائی فٹ سے چار فٹ تک اونچا ہوتاہے۔اس کے تخم ایک انچ لمبے چمکدار اور زردی مائل سبز ہوتے ہیں ۔ اس کے پھول پیلے ہوتے ہیں ۔اس کی پھلی چپٹی سی ہوتی ہے۔جس کے اندر چپٹا سالمبوترا اور کسی قدر خمیدہ چھوٹا ساتخم ہوتاہے۔اس کے پتے دواء کے طورپر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ 
سینا یا سنا ، کی دو اقسام ہیں۔
٭- چھوٹے پتوں والی سینا (Cassia angustifolia)- جو مصر میں دریائے نیل کے علاقوں میں پائی جاتی ہے -
٭- بڑے پتوں والی سینا-(Cassia acutifolia)جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے ۔ 
یہ پودا صدیوں انسانی جسم کی مختلف بیماریوں جو خصوصاً قبض سے پیدا ہوتی ہیں ، اُن کے لئے مصری ، یونانی اور ہندی طب میں استعمال کیا جاتا رہا ہے - 
٭- معدے اور آنتوں میں موجود بیکٹیریا ، فنگس ، وائرس ، کیڑے کا خاتمہ ہوتا ہے اور اینٹی آکسیڈنٹ ہے ۔ لہذا: کینسر ، ذیابیطس ، گردوں کی بیماری ، جگر کی بیماریوں اور ملیریا میں مفید ہے ۔ مغربی ممالک میں اِس کی عموماً چائے(Senna Tea) بنا کر پی جاتی ہیں ، جو وزن کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ اِس پودے کے پتوں میں پائے جانے والے اجزاء انسانی جسم سے تمام فاصد مادّے فضلے کے راستے نکال دیتے ہیں ۔ 
٭-قبض کی صورت میں اِسے بطور دوائی مسلسل 7 دنوں سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاھئیے ۔ 
٭- چائے بنانے کے لئے دو گلاس پانی میں ایک کھانے کا چمچ ڈال کر صرف 10 منٹ ابالیں - 
٭- قبض کی دوائی کے لئے اِسے 20 منٹ ابالیں - یہ کیسٹر آئل( ارنڈی کا تیل) سے زیادہ مفید ہے ۔ 
٭- اِس کے تنکے او ر ڈنٹھل کونکال کر صرف پتوں کو ابالا جائے ، کیوں کہ اِن میں قبض کشا ء تاثیر ، املتاس(Cassia fistula) کی طرح ۔بہت زیادہ ہوتی ہے - متلی ، بے چینی اور گھبراہٹ پیدا کر دیتی ہے ۔
 نوٹ: ھربل دوائیں ، انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہیں اور اِن کے سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتے ۔ اللہ نے تمام نباتات ، انسان کی زمین پر بطور غیر ارضی مخلوق (Alien) پہنچنے سے پہلے اُگا دی تھیں ۔ زمین پر موجود حیوانی مخلوق بھی اپنی صحت کا علاج انہیں نباتات سے کرتی ہیں ۔ 



حیوانی اور انسانی حسِ شامعہ(Sense of smell) دونوں ایک ہی قوت رکھتی ہیں ، لیکن انسانی حسِ شامعہ مصنوعی ماحول میں قدرتی حسِ شامعہ سے مختلف ہوجاتی ہے ۔ سونگھ کر کسی بھی چیز کو کھانا ، حیوانی فطرت ہے ۔ کہا جاتا ہے ، کہ کسی انسانی یا گوشت خورحیوانی جسم میں جب کوئی مرض نمودار ہوتا ہے تو اُس کے جسم کی بو تبدیل ہوجاتی ہے ۔ جانور کو بھی احساس ہو جاتا ہے کہ اُسے کوئی پریشانی لاحق ہوچکی ہے ۔ لہذا وہ جانور اپنے جسم سے نکلنے والی بو سے متماثل بو، وہ نباتات میں سونگھتا ہے اور پھر وہ پودا کھاتا ہے، یہاں تک کہ جسم کی وہ بو بیمار ختم ہو جاتی ہے ۔  
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِس سال 2020 میں پھیلنے والے وبائی مرض کرونا  کے سلسلے میں  یہ بھی کہا جارہا ہے   کہ ، اِس کا قہوہ بنا کر پیئں تو کرونا مریض کا بخار اتر جاتا ہے اور مرض بھی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ 
 تجربہ کرنے میں نقصان کیا ہے - خوراک کا استعمال تیسرے دن بتا دے گا ۔ورنہ پیٹ تو صاف ہو گا نا ۔
٭- کرونا مرض کے بارے میں ابھی تحقیق ہو رہی ہے  لیکن جو بنیادی دیسی  علاج   جوتجویز کئے جارہے ہیں وہ  امیون سسٹم  ( خودکار حفاظتی نظام) کو طاقتور بنانے کے لئے ہے ۔  کرونا  وائرس ، مریض کی   سانس کی نالیوں اور پھپھڑوں کو     14سے 15 دنوں میں زخمی کرتا ہے ۔ اب سننے میں آیا ہے کہ یہ خون میں کلاٹنگ پیدا کرتا ہے اور مریض 24 گھنٹوں میں فوت ہو جاتا ہے ۔ 

٭٭٭صحت  پر  مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں   ٭واپس٭٭٭٭

٭- کرونا وائرس - پھیپھڑوں کو مضبوط بنائیں ۔ 



جمعرات، 21 مارچ، 2019

ڈگری نہیں، ہُنر دیں

 ٹیوٹا ، ڈائی ہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں۔
 جبکہ شیورلیٹ ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے ۔
 آپ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں ؟ 
آئی – ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے ۔
 ایل – جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے ۔
2014 میں سام سنگ کا ریوینیو305 بلین ڈالرز تھا ۔
 " ایسر " لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جبکہ ویتنام جیسا ملک بھی " ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن " کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے ۔
 محض ہوا ، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔ 
اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے-
 خدا کو یاد کرنے کے لئیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں ۔
دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے ۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں " کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں " ٹیکنیکل " کرنا شروع کردیا ہے۔

 آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی تمام ممالک میں نظر آئینگے ۔ وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔
 ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گذرتا ہے۔ باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی – ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گذارتے ہیں ۔
دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں ۔ آپ دل پر
ہاتھ رکھ کر بتائیں ۔ بی – ای ، بی – کام ، ایم – کام ، بی – بی – اے ، ایم – بی – اے ، انجنئیرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں جی – پی کے لئیے خوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کون سا تیر مار رہے ہیں ؟

 آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر " ڈگری شدہ " انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں ۔
لاکھوں روپے خرچ کر ،  یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔
ہم اس قدر "وژنری " ہیں ۔کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔

 آپ ہمارے " وژنری پن " کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی – پیک کے انتظار میں صرف اس لئے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائینگے۔اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔
آپ فلپائن کی مثال لے لیں ۔ فلپائن نے پورے ملک میں " ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی " کے شعبے کو ترقی دی ہے ۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں ۔ اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ 

حتی کے بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے ۔ آئی – ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں ۔جبکہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ 
پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں ۔اور دوسری طرف لے دے کر ایک " مری " ہی ہمارے لئے ناسور بن چکا ہے ۔جہاں کے لوگوں کو سیاحوں کی عزت تک کرنا نہیں آتی ہے ۔
چینی کہاوت ہے کہ " اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو "۔ چینیوں کے تو یہ بات سمجھ آگئی ہے ۔
 کاش ہمارے ارباب اختیار کو بھی سمجھ آجائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مربوط تعلیمی انقلاب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 نوٹ: جس نے بھی لکھا ، خوب لکھا ، 2000 میں میں اِس پر ایک طویل پیپر لکھ کر جمع کرواچکا ہوں ،
کہ پاکستان مین پولی ٹیکنک طرز کے سکول دوبارہ کھولے جائیں ، جیسے ہمارے وقت ہوتے تھے  اور ہر وہ طالبعلم پولی ٹیکنک میں تمام شعبوں کی بنیادی تربیت دی جو طالبعلموں کو پروفیشنل کالجز کی طرف لے جائے اور اگر کوئی بچہ کہیں بھی ڈراپ آؤٹ ہو  تو اُسے اُس لیول کا سرٹیفکیٹ دیا جائے تاکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لئے اُسی شعبے میں تیار ہو ۔ اِس طرح ہمیں ، ہر لیول کے ماہر ملیں گے ۔
لیکن ڈراپ آؤٹ بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ امتحان دے کر اگلی سرٹیفکیشن لیتے جائیں ، جب اُن کے پاس مطلوبہ میعار کے سرٹیفکیٹ جمع ہوجائیں تو وہ انجنئیرنگ ، میڈیکل ، ڈینٹل ، کمپیوٹر سافٹ و ھارڈ وئر ، اور دیگر اعلیٰ تعلیم کے دھارے میں شامل ہوجائیں ۔
   ٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 20 مارچ، 2019

الذی آمنو کا منکر سے مشرک تک کا سفر

1- نَكِرَ:

فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ [11:70]

2- كُفْرًا :
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الضَّآلُّونَ [3:90]

3- يَنقَلِبْ : یوٹرن

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ [3:144]

4- يَرْتَدِدْ :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَـئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [2:217]

5- أُشْرِكَ:

تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ [40:42]
 
 

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

شگفتگو - شگُفتہ نثر کی ساتویں محفل

روداد: ساتویں بزم مناثرین
مورخہ: ۰۹ مارچ ۲۰۱۹
بمقام؛ ڈی ایچ اے، اسلام اباد

ابھی بیرونی سرحدوں پر واچ پارٹی نے خوب جنگ کی رونق جمائی تھی کہ حنا کے رنگوں اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ لیے ہوئے خواتین کا عالمی دن آگیا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں جانب سے شدت پسندی کی دونوں انتہاوں کے بیچ شگفتہ مزاج قلم کے مجازی خداؤں نے اپنی رونق جمائی۔ محترم آصف اکبر کوئٹہ /کراچی سے چار ماہ بعد واپس تشریف لائے اور بچھڑے ہوئے بزم مناثرین کے شرکا کو اپنے گھر مدعو کیا۔ پہاڑی کے دامن میں ان کی خواب صورت رہائشگاہ میں بزم کی ساتویں محفل پورے تزک و احتشام سے سجائی گئی۔ اس بار بھی کئی نامی گرامی معزز مہمان تشریف لائے جنہوں نے تبصروں کی شگفتگی اور برجستگی کے ساتھ مزاح کے خوب رنگ بکھیرے۔ دو گھنٹے کی اس نشست میں کل وقتی بنیاد پرمسکراہٹوں، تبسم، داد و تحسین، قہقہوں اور خاص خاص جملوں کو مکرّر پڑھنے کی فرمائشوں کے دوران ہمارے ذہن پر مشتاق یوسفی کی 'آبِ گم' کا ایک ذیلی عنوان 'وہ کمرہ بات کرتا تھا' مستقل سایہ فگن رہا اور ہم یہی سوچتے رہے کہ اگر وہ اس کمرے میں ہوتے جہاں چھ ماہ میں دوسری مرتبہ یہ محفل منعقد ہوئی ہے تو وہ یقیناً یہی کہتے کہ "یہ کمرہ قہقہاتا ہے"۔
بزم مناثرہ حسب معمول اپنے منفرد انداز میں بغیر کسی کی صدارت، بغیر کسی مہمانِ خصوصی اور بغیر کسی کہنہ مشق اور نوآموز کے امتیاز کے، مہینے کے دوسرے سنیچر کی شام چار آغاز ہوئی اور سات بجے کے لگ بھگ پر تکلف چائے پر ختم ہوئی۔
شرکائے مناثرہ کے نام حسب ذیل ہیں
آصف اکبر ، میزبان محفل

عزیز فیصل، ناظم 

سلمان باسط


رحمان حفیظ


سلیم مرزا

محمد عارف

عاطف مرزا

صْیاء الرحمن
ارشد محمود
اور حبیبہ طلعت

ہم مستقل اراکین میں سے میجر(ر ) نعیم الدین خالد ناسازیء طبع کے باعث حاضر نہ ہو سکے جبکہ ناہید اختر جی بھی تشریف نہ لاسکیں۔ 

دیگر مہمانوں میں صْیاء الرحمن صاحب سامع تھے رحمان حفیظ صاحب کے بھائی ہیں اور ناشر ہیں۔ سلمان باسط صاحب سے کون واقف نہیں, امریکہ سے آئے ہوئے ہیں. استاد, شاعر, نثر نگار ہیں جبکہ سلیم مرزا صاحب گوجرانوالہ سے تشریف لائے تھے اور فکاہیہ نثر لکھتے ہیں۔ محمد عارف واہ کینٹ سے تشریف لائے فکاہیہ نگار اور شگفتہ کلام بھی کہتے ہیں۔ اور لبّ لباب یہ کہ مسکراہٹوں اور قہقہوں سے لبریز، جاتی سردیوں کی یہ حسین شام یادگار رہی ۔۔۔
نوے کی دہائی میں جب بھارتی حیدرآباد میں پہلی عالمی مزاح کانفرنس منعقد کی گئی تو مظفر بخاری نے اپنے کالم میں، بھارتی لوک سبھا کے ان دنوں سپیکر تری رام پھاکڑا کا دلچسپ مقولہ بیان کیا کہ "مزاح ایک ایسی بیماری ہے جو انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے چنانچہ اسے چھوت کی بیماری کی طرح پھیلنا چاہیے۔ لیکن افسوس یہ بیماری پھیلنے کے بجائے ختم ہوتی جا رہی ہے اور بسا اوقات مزاح کے نام پر جو لکھاجاتا ہے اسے پڑھ کر سر پیٹنے کا دل چاہتا ہے۔ سو مزاح نویسوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ان وجوہ کا پتا چلائیں جن کی بنا پہ اتنی کارآمد یہ بے مثال بیماری از خود صفحہء ہستی سے ناپید ہوتی جا رہی ہے"۔ وجوہ تو شاید اظہر من الشمس ہیں، ضرورت عملی اقدام کی تھی۔ تو ممکن ہے کہ یہ مرض سرحد پار تو شائد نامساعد حالات میں جانبر نہ ہو پائے لیکن یہاں ہم سے آشفتہ سروں کے ہوتے، جنہوں نے باقاعدگی سے شگفتہ مزاجی کی روایت بہت دھوم دھڑکے سے تابندہ کی ہوئی ہے، مزاح نگاری کا مستقبل تابناک ہی لگ رہا ہے۔۔۔۔۔

(مبصّر -  حبیبہ طلعت )
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭

بلینک


فہم الکتاب اور تدبّر القرآن

 کتاب اللہ  :    الارض وسماوات  کی تخلیق  کے لئے اللہ کا مکمل   ضابطہ ۔

الکتاب:   المتقین  کے لئے معلومات  و افعال  کا خزانہ ۔

القرآن :     انسانی نفس کی زکاء  کے لئے  ہدایت   کا سرچشمہ ۔




اللہ کے   کُن سے  فَیَکُون    ہونے والے ،  کتاب اللہ کے تین   کلمات  جو ہمارے سامنے      مکمل آیات  بن کرآتے ہیں  اور :
1۔   بذریعہ   آنکھ :ہم  اُس کی شبیہ  دیکھتے ہیں ۔
2۔ بذریعہ  کان : اُس کی   آواز   سنتے ہیں  ۔

3- بذریعہ  ناک اُس  کی  بو سونگھتے ہیں ۔

 4- بذریعہ  ہاتھ اُسے محسوس کرتے ہیں ۔
 5- بذریعہ زبان  چکھتے ہیں ۔
 اِس پانچوں  حواس سے ملنے والی معلومات ،    ہمارے دماغ میں  محفوظ ہوجاتی  ہیں ، جس کی صفات  ہم اپنے ذہن میں  تسلیم کرنے کے بعد اُسے ایک صفت (اِسم)  دیتے ہیں ۔  
وہ اِسم  ہم اپنی  زبان میں، مکمل یقین کے ساتھ ،  اللہ کی اُس آیت سے منسلک کر دیتے ہیں ۔
ہماری دی گئی صفت   ، اُس بنیادی صفت پھل  ، مچھلی  اور پرندہ 
کو تبدیل نہیں  کرتی ۔

 اگر ہم اُن پر تدبّر کریں ، تو   ہر آیت،ایک مفصل  کتاب ہوتی  ہے ۔   

 جیسے اگر آپ سے پوچھا جائے ، کہ مچھلی کی یہ کون سے قسم ہے؟ 
تو شائد آپ نہ بتا سکیں ، لیکن اگر ایک   عالم  سے پوچھیں جس نے مچھلیوں کی اقسام میں تفکٗر کیا ہو تو وہ  کم از کم ایک صفحہ  سے سو صفحات تک اُس کی مکمل خصوصیات مفصل بتا دے گا ۔  

لیکن اگر اُس سے  الکتاب میں  بیئن کی گئی ،    ایک بستی کی مچھلیوں﴿7:163﴾   یا حوتِ موسیٰ ﴿18:61﴾    یا حوتِ یونس  ﴿37:142﴾   کے بابت پوچھیں !
تو وہ اِس سے زیادہ نہیں بتا سکتا کہ اوّل الذکر کھائے جانے والی مچھلیاں تھیں اورآخر الذکر ایسی مچھلی جو انسان کو کھا جاتی ۔ 
اگر کوئی اِس سے زیادہ وضاحت کرتا ہے تو  یہ لفاظی  کہلائے گی کیوں کہ اُس کے پاس معلومات زیادہ نہیں ہیں ۔  اور نہ ہی الکتاب میں اِس سے زیادہ ذکر ہے ۔
 غرض کہ  کتاب اللہ (کائنات )  میں ، اللہ کی ہر آیت کی بنیادی صفات ہیں،   جو اللہ نے الکتاب میں انسانوں کی بنیادی ہدایت کے لئے ، بنیادی الفاظ  میں  مفصّل  بتائیں ہیں ۔تاکہ ایک  اُمّی  انسان اُسے بآسانی عمل کے لیے سمجھ لے !
 روح القّدس نے اللہ کا پیغام محمدﷺ  کو بتایا  ::
وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً أَعْجَمِیّاً لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آیَاتُہُ أَأَعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاء  وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولَـٰئِكَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیْدٍ (41/44)   
اگر ہم اُس     کو عجمی میں قُرْآناً   قرار دیتے  تو وہ کہتے کہ اس کی آیات مفصّل کیوں نہیں؟
کیا عجمی اور عربی؟ 

کہہ!  وہ ان  لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ھدایت اور شفا ہے   .  
اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور اِن کے اوپر اندھا پن ہے، وہ  دور کے مکان سے پکارے جا تے رہتے ہیں ۔

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔