Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 28 مئی، 2015

توھینِ عدالت

ایک جج کا اور سبزی فروش کا مول تول پر جھگڑا ہوگیا ۔
اگلے دن سبزی فروش کو توہین عدالت کا نوٹس ہوا ۔
سبزی فروش ے چارہ بھاگا بھاگا عدالت پہنچا ۔ پیشی ہوئی ۔
جج ، " کل تم نے عدالت کی توہین کی تھی ۔
جس پر تمھیں کڑی سی کڑی سزا دی جاسکتی ہے ۔
تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے " ؟
سبزی فروش ۔ " مائی باپ میں غریب سبزی فروش ، میری اتنی ہمت کہاں،
کہ میں عدالت کی توھین کروں:
جج غصے سے ،" تم عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے ہو؟ "
سبزی فروش ، " جناب حضورِ والا !
میرے دشمنوں نے غلط اور جھوٹی اطلاع دی ہے ،
میرا تو کل کسی سے جھگڑا نہیں ہوا"
جج غصے سے ،" حاموش تم جھوٹ بول رہے ہو !
کل عدالت خود وہاں موجود تھی اور ٹنڈے خرید رہی تھی ،
جب عدالت نے اپنی آنکھوں سے خود یہ سارا واقعہ دیکھا " 
سبزی فروش ، نے غور سے دیکھا ، تو اُسے بھیڑ کی کھال کے نیچے ، کل والا بدمزاج شخص نظر آیا ۔ جس کو سودا بیچتے وقت ، تھوڑی منہ ماری ہوئی تھی ۔

سبزی فروش ۔ " مائی باپ، اگر اِس احمق کو معلوم ہوتا ،
کہ عدالت ، آج ٹنڈے ، گوبھی پیاز اور لہسن لینے بذاتِ خود آئی ہے ۔
تو یہ ناچیز ، ہر گزتوھین عدالت نہیں کرتا "

جج نے توھین عدالت کا مقدمہ ، نپٹاتے ہوئے فیصلہ سنایا ،
"تم پر ایک آنہ جرمانہ کیا جاتا ہے ، تم ہر ماہ ایک پیسہ عدالت میں جمع کروایا کرو گے "
( نوٹ : 1947 سے پہلے کا یہ واقعہ ہمیں ایک بہت ہی بزرگ دوست جو بذاتِ خود وکیل ہیں انہوں نے سنایا )

منگل، 26 مئی، 2015

اتوار، 24 مئی، 2015

اقبال- تیرا دل تو ہے صنم آشنا



کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں

طرب آشنائے خروش ہو،تو نوائے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہء ساز میں

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

دم طوف کرمک شمع نےیہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں،نہ مری حدیث گداز میں

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں
 

ہفتہ، 23 مئی، 2015

آپ کیسا لکھتے ہیں ؟

جب سے فیس بک سے دوستی ہوئی ہے میں نے فیس بک پر پاکستانی اردو کی ترویج کی نئی جہت، ہمارے نوجوانوں میں دیکھی ہے ۔
کئی دوستوں نے رومن اردو میں کمنٹ لکھنا چھوڑ کر جب اردو میں لکھنا شروع کیا تو اُن کے کمنٹس کا میعار بہت اعلی ہو گیا جس کو پڑھ کر میں بہت لطف لیتا ۔
کئی دوستوں کو مشورہ دیا کہ وقت کے ساتھ کمنٹس فیس بک کی دھند میں غائب ہوجاتے ہیں ، انہیں ورڈ میں محفوظ کر لیں ۔ تاکہ بعد میں آپ اُن کو جمع کرلیں تو خود آپ کا ایک مضمون بن جائے گا ، جس کی قطع و بُرید کرکے آپ "ھماری ویب " پر ڈال سکتے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کا بھلا ہو ۔
بھر میرا واسطہ بلاگ سے پڑا ۔ لیکن میں نے گھبرا کر چھوڑ دیا ۔
لیکن کوئی دو مہینے بعد ، ایک بلاگر کا بلاگ دیکھا ، جس مجھے بہت انسپائر کیا ۔ اُن سے پوچھا کہ یہ کیسے بنایا ھے ؟
بولا ایک دوست نے بنا کر دیا ہے اور ٹُھس ۔
میں نے اُن کے مضمونوں پسند کرنے والوں کی فہرست دیکھی تو ڈر کر مرعوب ہو گیااور دوبارہ سوال نہ کیا ۔
پھر ایک اور بلاگر سے واسطہ پڑا ۔ اُن سے بھی پوچھا کہ بھائی بلاگ کس نے بنایا ؟ اُنہوں نے بھی کوئی "درک" نہیں ماری ۔ 
پھر اپنے داماد سے مدد مانگی انہوں نے دونوں بلاگ دیکھے اور مجھے میرا بلاگ بنادیا ۔اور ہدایت کی انگلش میں لکھنا گوگل والے پیسے بھی دیتے ہیں ۔
اور یوں میں نے اپنا پہلا مضمون
EDUCATIONAL RENAISSANCE بلاگ پر ڈالا جو انگلش میں تھا ۔
یہ مضمون میں نے " ہماری ویب " پر ڈالا تھا ۔ ارے ہاں ، اپنی ویب پر مضمون لکھتے لکھتے میں تنگ آگیا تھا ۔ ایک دوست نے " ہماری ویب" کا بتایا ۔
جو ہمیں اپنی ویب سائیٹس کے مقابلے میں آسان لگی یوں وہاں پہلا مضمون ،
  کزن میرج  ڈالا تھا ۔
بہرحال اپنے پہلے مضمون کے پڑھنے والے اور دیکھنے والے ہم ہی تھے ۔ پھر ہم نے اپنے مضمون ہماری ویب سے بلاگ پر شفٹ کرنے شروع کئے اور پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی ۔ اور مزے کی بات کمنٹس بھی آنے لگے ۔

اپنی حوصلہ افزائی دیکھ کر کئی اعلیٰ قسم کے مضمون لکھنے والوں کو مشور دیا کہ بلاگ بنائیں ۔ 
ابھی اپنے بلاگ پر مضمون ڈال رہے تھے کہ ایک مردِ درویش نے رائے دی کہ بلاگ کے کافی ٹمپلیٹ ویب پر ہیں - جو دیکھیں لیکن اپنے بلاگ کے لئے ۔ گوگل ٹمپلیٹ ہی رہنے دی مگر اُس میں جوانی میں پڑھے ہوئے اسباق کے مطابق تبدیلیاں کر لیں
 بیگم کے بلاگ کے لئے ، ویب سے ٹمپلیٹ اُٹھائی ۔ یوں اُن کا قدم بھی نو آموزبلاگرز میں رکھوا دیا اور ، ہمارئ ویب پر موجود ، اُن کے بھی مضامین بھی اُن کے بلاگ پر ڈال دیئے ۔
اور انگریزی کے بجائے اردو میں لکھنا شروع کر دیا ۔ 
یقین مانیئے ،اردو لکھنا ، بولنے سے زیادہ آسان ہے ۔ بولنے میں جو منہ سے نکل گیا ، نکل گیا ۔
لیکن لکھنے میں آپ الفاظ کو کانٹ چھانٹ سکتے ہیں ، انہیں بہترین بنا سکتے ہیں ، شعر اور مقولات ڈال سکتے ہیں تصاویر سے مضمون کو زیادہ فصیح کر سکتے ہیں ۔ اگر جملے غلط ہوگئے تو دوبارہ ایڈٹ کر دیں ۔ 

اردو میں کمنٹس لکھنے کے لئے یہ مضمون پڑھیں ۔
   رومن اردو سے اردو
 
بہر حال اپنا بلاگ بنانے کے لئے یہ مضمون پڑھیں !  اپنا بلاگ بنائیں اور بلاگر بنیں ۔

جمعہ، 22 مئی، 2015

مچھروں سے بچنے کی دعا

کہتے ہیں نیکی کرو اور دریا میں ڈال دو !    
یارو کیا زمانہ آگیا ہے بھلائی کا دور ہی نہیں رہا ۔  
 اب دیکھیں نا ! وٹس ایپ پر یہ پوسٹ آئی ہم نے مفاد عامہ کی خاطر اسے فیس بُک پر پریس ریلیز کر دیا کر دیا
۔
کہ ایک پیٹی بند ، جنگجو دوست نے پیار بھرا تھپڑ جڑ دیا!
 

 ابھی ہم ، اپنے ذہن کو سہلا رہے تھے ۔ کہ رگ ظرافت نے پھڑکنا شروع کر دیا ۔ کمبخت اِس رگ نے ہمیں، قیس کی طرح لیلائے فیس بک صحافت سے بڑا رگڑا دلوایا ہے ۔
ہم طریقِ خود غرض دوستانِ صحافت کے شدت سے خلاف ہیں ۔ خواہ وہ اخباری ہو ، میڈیائی ہو ، مُلّائی ہو یا " بلا گری" ہو ،
ہمیں اکثر ، مختلف فورموں میں گھسیٹا جاتا ہے اور پھر غالب سے کئے جانے والے حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا جاتا ۔
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کر کیسا "ناہجار" پھر گیا
جتنے عرصے میں میرا لپٹا ہوا بستر کھلا
  گو کہ ہم فورموں پر پبلسٹی کے محتاج نہیں ۔ لیکن کیا کریں ۔ ایک کھلنڈرا نوجوان ، بڑھاپے کی اِس راکھ میں کہیں چھپا بیٹھا ہے ، جو "رگِ ظرافت" کو گٹار کی طرح چھیڑنا شروع کر دیتا ہے ۔
محی الدین چوہدری کو جواب لکھا :
چوہدری جی : اِس دعا میں کیا طنز ہے ؟
اور اپنے رانا اکمل جی جو مچھلی کے شکاری کی طرح فیس بک کی جھیل کے کنارے ہماری طرح بیٹھے رہتے ہیں ، فوراً اپنی " اُدرو" میں جواب کا چارہ لڑھکایا ۔


Rana Akmal Mayre nazar may Tanz nahe Mazahh hay .bake har ek ke ap ne schoch hay.way say agar ya Dowa abol ho gee to un tamam Compnys ka kay ho ga jo machr marr Adwayat banatee hayn.

ہم جواب پڑھ رہے تھے کہ ، منادی کرنے والے نے ندا دی ،
" سر ! مہمان آئے ہیں "
ہم لیپ ٹاپ کو سُلا کر ، میزبانی کے فرائض سر انجام دینے ، اپنی "بیٹھک" سے نکل کر گھر کے "ڈرائینگ روم " پہنچے ۔ مہمان کو خوش آمدید کہا ، وہ دس منٹ بیٹھ کر چلے گئے ۔ واپس آئے ، اور 
یہ بلاگی پوسٹ وجود میں آئی ۔

چوہدری جی : اگر یہ عربی میں ہوتی تو لائکس 100تک تو ضرور جا پہنچتے اورجمعہ کے مبارک دن (مردوں کے جمعہ پڑھنے کی وجہ سے ) تو
٭- سبحان اللہ ،

٭- اللہ آپ کو خیر دے ۔

٭- کتنی اچھی دعا بتائی بابا جی آپ نے مچھروں سے نجات کے لئے -

٭- میرا تو مورٹین سے چھٹکارا آسان ہو گیا بہت مہنگی ہوگئی ۔
٭- لونگ اور لیموں ختم ہونے سے اماں ، نان سٹاپ صلوٰتیں دیتی تھیں اب دعائیں دیتی ہیں ، انکل اللہ آپ بھلا کرے اور نجیب عالم کے ٹوٹکوں سے بچائے ۔

٭ -   پیرِ عقل و دانش اِسے "طُغرا" بنا کر گھر کے بیرونی دروازے پر لٹکا دوں ۔

٭ - مجھے بھڑوں کے کاٹنے سے بچنے کی دُعا بتادیں انکل ۔ جو ڈیزرٹ کولر کی ہوا کے ساتھ کمرے میں آجاتی ہیں اور میں اُن سے چِڑی چِھکا کھیلتے کھیلتے تنگ آگئی ہوں ، کیوں کہ ایک آنکھ سے صحیح نظر نہیں آتا اور دوسری آنکھ ایک بھڑِ ناہنجار وناعاقبت اندیش نے سُجا دی ہے ۔

 
٭- بابا جی ۔ اپنا موبائل نمبر دیں یہاں کراچی میں، کھٹمل بہت ہوتے ہیں ۔ اُن کی دعا پوچھنی ہے ۔ کمبخت رات بھر سونے نہیں دیتے ۔

وغیرہ وغیرہ

                



         

بدھ، 20 مئی، 2015

وادئ ہنزہ ، خوبانیاں اور خوبانی کی طرح گال والے لوگ بچے

1982 مارچ کی بات ہے ، کہ ہمیں ایک مہم کے ساتھ شمالی علاقوں میں جانا پڑا وہاں ہر طرف پھلوں کے درختوں ے ہمیں بہت مرعوب کیا ۔ اِس دوران یہ بھی دیکھا کہ وہاں خوبانیاں سکھا کر رکھنے کا رواج ہے اور مہمانوں کی تواضع کے ساتھ لئے خوبانی کی مختلف ڈش بنائی جاتی ہیں ، جس کی وجہ سے اُن لوگوں میں مٹھاس کی بہتات ہے اور خوبانی کے بیجوں کا تیل اُن کی خوراک اُن کے جسم کی چکنائی میں اضافہ کر کے خشک اور سرد موسم کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہے سردیاں شروع ہوتے ہی ، بچوں کے منہ دھلنا بند ہو جاتے ہیں اور بہار کے میلے میں ، بچے کالے گلاب سے سرخ گلاب میں تبدیل ہوجاتے ہیں-
وادئ ہنزہ، اسلام آباد کے شمال میں ہمالیہ پہاڑوں سلسلے کے دو پہاڑوں آغورستان (شمال مشرق) اور پامیر ( شمال مغرب کے درمیان 7،900 سکوائر کلومیٹر وادی کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے اور سطح سمندر سے 8،200 فٹ بلند ہے گویا مری سے یہ مزید 600 فٹ بلند ہے ۔ ھنزہ وادی کا راولپنڈی سے فاصلہ 568 کلومیڑ ہے جو تقریباً دس سے 12 گھنٹوں میں طے ہے۔

گلگت سے یہی فاصلہ 2 گھنٹوں کا ہے اور فاصلہ صرف پہاڑی 95 کلو میٹر ، وہ دوست جنہیں پہاڑوں میں سفر کرنے کا شوق یا تجربہ ہے انہیں معلوم ہے کہ موٹر وے یا سپر ہائی وے پر 95 کلومیٹر جانا اور پہاڑی علاقوں میں 95 کلو میٹر جانا جہاں شروع سے آخر تک صرف پتھروں سے بنی ہوئی سڑک ہو وہاں 95کلو میٹر 6 گنٹوں بلکہ 12 گھنٹوں میں بھی تبدیل ہوسکتے ہیں 1982 میں ہمارے ساتھ یہی ہوا تھا ۔

یہ یاد رہے ، کہ اب تو ایک اور خوبصورت جھیل اللہ تعالیٰ نے عطا آباد اور گلمت کے درمیان دریائے نگر - ہنزہ وادی میں بنادی ہے ۔ تاکہ پانیوں کا "خازن" پاکستان کی مدد کر سکے ۔

راولپنڈی سے گلگت، بذریعہ جہاز جاکر آپ جیپ سے ہنزہ تک جاتے ہیں ، 1994 میں ڈین سم ، سکردو ، گگت اور گلگت سے ہمارا بذریعہ ہیلی کاپٹر ھنزہ جانے کا پروگرام تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے ، گلگت سے راولپنڈی آگئے ۔
لہذا 1982 والے سفر کی روداد ، یاداشت کے سہارے آپ کو بتاؤں گا ۔

میں اِس مہم کے ساتھ بطور کپتان لائژن آفیسر تھا ، مارچ وسط میں ہم گلگت پہنچے ۔ ہماری ٹیم ،تین آسٹریلوی کوہ پیما پر مشتمل تھی ۔ جنہوں نے راکا پوشی کو سر کرنا تھا ۔ جس کا راستہ جگلوٹ سے جاتا ہے ۔ 
یہ 30 دن کا ٹور تھا ۔ گلگت پہنچ کر اُنہوں نے ہنزہ دیکھنے کی فرمائش کی جس کی بالا حکام سے اجازت لی گئی ۔ اجازت کے بعد ہم چاروں ایک جیپ میں وادئ ہنزہ کے مقام بلتت (کریم آباد) روانہ ہوئے ۔ وِلّی جیپ ( پہلی جنگ عظیم ) ، ٹیوٹا جیپ اور دیگر جیپوں میں سے 2 ٹیوٹا جیپ کا انتخاب کیا جو ٹیم کے آٹوموبائل کے ماہر رُکن کیپٹن میتھیو نے منتخب کیں گو کہ ہم بھی فوج سے میکینیکل ٹرانسپورٹ کورس کے فارغ التحصیل تھے لیکن انتخابِ جیپ میں ہمارا کوئی ھاتھ نہ تھا ۔ دو ٹویوٹا جیپ فور وہیل ڈرائیو اوپن ٹاپ ساتھ دو فاضل وہیل اور دو جیری کین پیٹرول فی جیپ، بمع ہمارا سامان خوب کس کر جیپوں کے ساتھ باندھا گیا ، حرکتی اشیاء میں بس ہم پانچوں انسان تھے ، ڈرائیور نے ، گلگت سے وادی ہنزہ تک سفر کے سٹینڈنگ آپریٹنگ پر وسیجر(ایس او پی )  انگلش نما اردو میں بتائے ، جس کے چیدہ چیدہ نکات ، اونچائی پر چڑھتے ہوئے اگر جیپ رک جائے تو لکڑی کا گٹکا جو جیپ کے پیچھے لگا تھا وہ فوراً ایک صاحب پچھلے پہیے کے نیچے لگائے گا ، جودریا کی طرف والے پہیئے کے نیچے لگایاجائے گا ، یہ ڈیوٹی ہمیں دی گئے ۔ لہذا ہم جیپ میں ایسے بیٹھے کہ سریع الحرکت طاقت کا مظاہرہ کیا جاسکے ۔ کیوں کہ جیپ کے پیچھے چلنے یا دریا کی گہرائیوں کی طرف رُخ کرنے پر  " رُومن اینڈ کنٹری مین " نے چھلانگ لگا کر اپنی اپنی جان بچانی ہے ۔
تمام دعائیں مانگ کر جیپ کا سفر شروع ہوا ، سینئیر کوہ پیما جو ہم سے ایک سال چھوٹا تھا ، ڈاکٹر( پی ایچ ڈی ) گلبرٹ  ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں اور آندرے پیچھے اور کیپٹن میتھیو دوسری جیپ میں کوہ پیمائی کے تمام سامان کے ساتھ بیٹھا ۔ دریائے گلگت کے جھولتے پل سے پار اترنے کے بعد گلبرٹ نے اپنی کاپی نکالی اور بَلتی زبان میں جو کافی حد تک ڈرایئور کو قابلِ فہم تھی معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں ۔ ڈرائیور تو پہلے خوش ہوا ۔ لیکن بعد میں پریشان اور مجھے اردو میں کہا کہ صاحب تو کافی پرانی زبان بولتا ہے ، جو ختم ہوگئ ہے ۔  آندرے (بزنس مین) نے "ادرو" میں کہا ،
" اچھا ہمیں تو بٹایا ٹھا کہ یہ بُلٹی لینگوئج کا ایکسپرٹ ہے "

مارچ کا مہینہ تھا درختوں پر پھولوں ے نیچے پھل انگڑائیاں لے کر بیدار ہورہے تھے ۔ پانچ سے دس میل فی گھنٹہ کے حساب سے سفر کرنے کے بعد ایک گھنٹہ کی بریک آدھے گھنٹہ کے لئے کی -
یہاں کوئی دس گھروں پر مشتمل گاؤں تھا جس کے پانچ یا چھ ٹینس کورٹ کے برابر کھیت تھے ، پہاڑی بکرے ، سینگوں والے مینڈھے اور کھیلتے ہوئے بچے بشمول تین بوڑھے نظر آئے ، بچے کھیت کی منڈیر جو دس فٹ اونچی تھی وہاں آکر ہمیں دیکھ رہے تھے اور آپ میں کوئی شُغلی کمنٹس دے کر ہنستے ۔
آندرے نے پوچھا ، " یہ کیوں ہنسٹا ہے ؟"
" یہ اُس طرح ہنستا ہے جیسے ہم بندروں کو دیکھ کر ہنستا ہے " میں نے جواب دیا ۔
میتھیو زور سے ہنسا اور گلبرٹ جھینپ گیا ۔
اتنے میں بَلتی میں ایک بوڑھی عورت چلائی ۔ بچے واپس دوڑ گئے ۔ میں نے گلبرٹ سے پوچھا ،
" عورت نے کیا کہا ؟"
اچھا لیڈی ہے ، وہ بولٹا ہے گیسٹ کو مت ٹنگ کرو " گلبرٹ ادرو میں بولا ۔
اگر میں سفر کی روداد لکھوں تو ، یہ مضمون چالیس قسطوں تک کھینچ جاؤں ، بہرحال صبح 7 بجے روانہ ہونے کے بعد ہم علی آباد سے گذرتے ہوئے ، شام چار بجے ، کریم آباد(بلتت ) پہنچے ۔ سورج غروب ہو چکا تھا لیکن روشنی تھی ۔ ڈرائیور نے ہمیں ایک ہوٹل کے پاس کھڑا کر دیا ۔ لکڑیوں سے بنا یہ ہوٹل چھ کمروں پر مشتمل تھا ۔ چھٹا کمرہ مخدوش تھا ۔ ابھی چونکہ سیاحوں کی آمد شروع نہیں ہوئی تھی لہذا ہمیں کمرے ایک رات کے لئے سستے مل گئے ۔
بلتت ۔ میر آف ہنزہ کا محل کہلاتا ہے ۔ جس سے بلتستان یعنی بلتی بولنے والوں کا استھان کہلایا ۔ گلگت سے بلتت آنے والا راستہ گلیشئیر سے گذرتا ہوا بدخشاں ، تاجکستان اور کرغستان تک جاتا ہے ۔ سکندر اعظم کئ فوجی اور کہا جاتا ہے کہ آریا و یونانی اسی راستے سے گلگت و سکردو پہنچے اور نیلی آنکھوں ، شفتالو کی طرح رنگ انہیں کی دین ہے ، ہاں اِن کے ساتھ عورتیں نہیں تھیں ۔ یونانی نقش کے لوگ انہی کی ذریت ہیں گول ناکوں والے بلتی، ھوانگ ھو وادی سے آنے والے چینوں کے خاندان " ھن " بھی التت میں آباد ہیں، جن کی وجہ سے وادی کا نام
"ھن زہ" کہلایا اور بدخشاں سے آنے والی کالی آنکھوں والے ترکیوں کی نسل بھی ہے  ۔ اِس کے علاوہ برصغیر جانے اور اپنی آل و اولاد واپس لانے والوں کی نسلیں بھی گگت بلتستان کے علاقوں میں آباد ہیں ۔

التت "ھن زہ" بادشاہت کا پہلا پڑاؤ ہے ۔ جہاں پہلا قلعہ بنا ۔ قلعہ کو دیکھ کر اندازہ گایا جاتا ہے کہ خوفزدہ امراء اپنی حفاظت کی فکر کیسے کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ میر عیاشو 2 کی بیگم نے یہ قلعہ 1548 میں بنوایا تھا ۔
یہی صورت حال بلتت قلعے کی تھی جو ایک اونچے پہاڑ پر حملہ آوروں ے ڈر سے بنایا ہواتھا ۔ دونوں قلعوں کے درمیان ہوائی فاصلہ کوئی میل کے لگ بھگ ہے ۔
میروں کی حکومت 1974 میں ختم کر دی گئی اور 1982 میں ہم یہاں پہنچے

ھنزہ کی خوبانیوں کے خواص کی کہانی آپ نے تین بلاگروں سے سُن لی ۔
1- ثناء اللہ خان ۔( فیس بک)
2- بیاضِ افتخار
3- ہم اور ہماری دنیا - 


 لہذا یہ سادہ سی داستان ہے ۔ ایک کپتان کی جوانی میں ہنزہ کی وادیوں کی سیاحی کرنے کی ۔
گُلکن سے گذرتے ہوئے پاسو تک کیسے گئے ؟
واپسی کیسے ہوئی ؟
اور پھر سب سے اہم کام راکا پوشی پر جانے کے لئے ، ساتھ ملنے والا پندرہ لوگوں کا قافلہ لے کر راکا پوشی بیس کیمپ تک کیسے پہنچے ؟
الگ داستان ہے ۔
جو پھر کبھی !

بوہری اور آغا خانی

پاکستان میں بسنے والے ہر پاکستانی کو بلا امتیاز مزہب، رنگ اور نسل تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اور ہر غیر مسلم پاکستانی کی جان کی حرمت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کہ کسی مسمان کی۔۔
بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ کیا ہے اور کیا بوہری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟
بوہری اور آغا خانی دونوں کی اصل ایک ہے۔ امام جعفر صادق(ع) کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق(ع) کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق(ع) کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق(ع) کی زندگی میں ہی ہو گئی، امام صادق(ع) بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ہی وہ امام سمجھتے ہیں، امام(ع) نے اسماعیل کی وفات کے بعد اس کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی کئی۔

جب امام صادق(ع) کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم(ع) کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ اسماعیلی کہلائے۔ کچھ لوگوں امام صادق(ع) کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کہلائے۔
جن لوگوں نے امام جعفر صادق(ع) کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔ یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔
ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔ لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور قزوین نامی شہر کا اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انہوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ہوا اور ان کی فدائین کی تحریک بہت کامیاب ہوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام "حسن علی ذکرہ السّلام" آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔
آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رہے، ان کے امام کو "آغا خان" کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔ شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب "محلاّت" نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ہوئی تو بھاگ کر ہندوستان میں پہلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ہوا۔ انگریزوں نے ان کو "سر" کا خطاب دیا اور بہت عزّت و تکریم کی۔
بوہریوں کی خلافت جب مصر میں ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔
جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔ وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔
دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ "حلول" کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ "یاعلی مدد" کہتے ہیں تو ان کی مراد ہماری طرح مولا علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔
آغا خانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ "معاد جسمانی" کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جہنّم کا کوئی ظاہری وجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے۔ "معاد جسمانی" ہماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نہیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔
بشکریہ:
روحانى بابا



20 مئی 2015 بوڑھے کی ڈائری - بوڑھے کا ریزرو کھانا !

ناظرین ! دال پرانی ہے ، روٹی اور اچار تازہ ، کیوں کہ
بُڑھیا بیمار ہے ! جو اُس کا اب عمومی مشغلہ ہے !

فیس بُک پر، بالا جملے لکھ کر ہم نے یہ تصویر موبائل سے لے کر پوسٹ کر دی، یہ بوڑھے کا عمومی شغل ہے کہ فیس بک کے دوستوں کی رال ٹپکائی جائے اور ٹپکتی ہوئی رال کے ساتھ دئیے جانے والا ، کمنٹس کا لطف اُٹھایا جائے ۔

لیکن دکھ کے ایک شدید ریلے نے بوڑھے کو مایوس کر دیا ، کیوں کہ دعائے صحت (عتیق عباسی) برائے بڑھیا کم ، جملہ ہائے شکّیہ اور زبید آپا موجود تھے اور وہ بھی پسندیدہ دوستوں کی طرف سے ، بس یہی دل سے نکلا
دیکھا جو دال کھا کے سکرین کی طرف 
اپنے ہی خیر خواہوں سے ملاقات ہو ئی ۔

پہلا سوال : بوڑھے کو تازہ روٹی کس نے بنا کر دی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سوال یقیناً باعث غلط فہمی ہے ، کہیں دوست یہ نہ سمجھیں کہ بوڑھا بیوی کی عدم موجودگی میں کچن آباد کرتا ہے ، لہذا غلط فہمی دور کرنے کے لئے سادہ جواب دیا ۔
روٹی بنانے والے نے !
لیکن ہمارا شعار نہیں کہ لندن بہ لندن جواب دیں ، لہذا تُرکی بہ ترکی جواب دیا :
باسی دال کھانے پر بوڑھے سے کسی نے ہمدردی نہیں کی !
بس اُلٹے سیدھے سوال پوچے جا رہے ھیں ۔

یہ انیائے نہیں ، دختر نیک اختر !(مہر افشاں)

ایک  کمنٹ اپنے رانا اکمل کی طرف سے :
Sir g agar nal thora jay payaz v kat landay، tay Dal otay Garam Masala pesya hoya v paa laynday، tay Morag tu bota Maza na aanda،  tay Poray Paysay Wapas ho ja nay c
( سر جی ! اگر ساتھ پیاز بھی کاٹ لیتے ، اور دال پر پسا ہوا گرم مصالحہ بھی ڈالا ہوتا ۔ تو مُرغ سے زیادہ مزہ نہ آتا تو پورے پیسے واپس ہوجاتے )

اب رانا اکمل، کو کون سمجھائے کہ -
1- زبیدہ آپا کے چھابے میں ھاتھ نہ مارو ۔
2- یہ دال ہے اسے دال ہی رہنے دو ، مُرغ نہ بناؤ ۔
3- مزہ اِس سادہ دال کا راناجی آپ کیا جانیں ۔ ہائے ناداں آپ نے چمچے سے پی ہی نہیں ۔

 رانا جی ۔ ایک محبت کرنے والے فیس بک دوست ہیں ، اِن کی محبت کا اندازہ لگانے کے لئے میرے پاس ایک نہایت سادہ فوجی میعار پیمائش ہے۔ وہ یہ کہ 
جب کوئی دوست خط لکھتا ہوا دیکھو تو اپنا بھی سلام لکھوا دو ، اور محبت میں ہر کھڑی چیز کو سلیوٹ مارو اور پڑی چیز کو چونا کر دو ۔
اب آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہوگا ، کہ رانا جی فوجی نہیں تو اِن پر اِس فارمولے کا اطلاق کیسے ہوتا ہے ؟
ھا ھا ھا ۔ کوئی بتلاؤ اِن کو یا ہم بتلائیں کیا ؟
چلو بتلائے دیتے ہیں !فیس بک میں:-
سلام : آپ کی پوسٹ کے جواب میں کمنٹس لکھنے کو کہتے ہیں -
سلیوٹ : لائکس کو کہا جا سکتا ہے ۔
اور چُونا ! چُونا لگانا ، بتا دوں لیکن فیس بُک پر موجود خواتین سے ڈر لگتا ہے ۔ کہیں مجھے اُن فرینڈ نہ کر دیں - ویسے چونا اور گیری کا استعمال ، اُن کی پوسٹ پر آپ دیکھ سکتے ہیں 
تو اپنے رانا جی میری پوسٹ پر سلام اور سلیوٹ بہت کرتے ہیں ، جو ہمیں کیا سب کو پسند ہیں ، یہی وجہ ہے کہ پوسٹ پر لکھا جاتا ہے ۔ کہ لاکھ سلیوٹ (لائکس) تو بنتے ہیں !
رانا جی: یہ ایک سادہ دال ہے ۔ دو دالوں مونگ اور مسور کا اجتماع، جس کی تاریخ تیاری میں نہیں بتا سکتا ۔
یہ صرف میں ہی کھاتا ہوں ۔
جب یہ بنتی ہے ۔ تو میں سفید چاول پر ڈال کر دوپہر کو کھاتا ہوں ۔
پھر اُس کے بعد ، جب میری بیوی کے پیٹ میں ،کدّو ، فریش بین ، شلغم کی محبت جاگتی ہے تو مجھے یہ پیش کی جاتی ہے ۔ جو میں کھاتاہوں ۔
ھائے دال جتنی پتلی ہو بوڑھے کو مرغوب ہے، کیوں کہ دال کو چمچ سے پینے کا جو مزہ ہے وہ بھلا کسی چائینیز سوپ میں کہاں ۔
اور ھاں اِس میں کم سے کم مصالحہ جات ہوتے ہیں ، یوں سمجھو یہ طعام دعوتِ شیراز (طعامِ فقراء) ہے ۔
اب دیکھو بوڑھے کے ھاتھ ایک مضمون برائے بلاگ "یادش بخیر " افق کے پار، لگ گیا جس کا "پاپ اَپ " آپ نے کھولا ۔
باقی دال کی تفسیر " بلاگ پر رات 12 بجے کے بعد پڑھنا ۔
نوٹ: یہ وہ مضمون نہیں جو میں نے لکھنا تھا ۔ ابھی تو مضمون شروع ہوا ہے ۔ 

 باقی بریک کے بعد ۔
 

یہ ہے میکدہ یہاں رِند ہيں یہاں سب کا سَاقی اَمام ہے


یہ ہے میکدہ یہاں رِند ہيں، یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شيخ جی ، یہاں پارسائی حرام ہے

جو ذرا سی پی کے بہک گیا، اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں، یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے

کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب، تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا، یہ تو میکدے کا نظام ہے

یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے، عجیب سارے جہاں سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے، جو یہاں پیو تو حرام ہے

اس کائنات میں اے جگر، کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے آدمی، ابھی خواہشوں کا غلام ہے 



ہفتہ، 16 مئی، 2015

16 مئی 2015 بوڑھے کی ڈائری - سب سے مشکل مضمون !

چم چم کے سالانہ امتحان ہونے والے ہیں ، وہ امتحان کے سب سے مشکل پپر کی تیاری کے لئے نانو کے پاس اپنی کتابوں اور کاپیوں کے ساتھ ، کل سکول سے سیدھے 35 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے نانو کے گھر ویک اینڈ آئی ۔ وہ آتے ہی ھک گئی ھی لہذا کھانا کھا کر سو گئی ،
اُٹھنے کے بعد ، اُس نے اپنے کارٹون  قربانی دی ، ڈرامہ سی آئی ڈی کی قربانی دی اور آج صبح وہ مکمل " فیڈ اَپ " ہوگئی ۔
کیوں کہ جب نانو نے کہا ، 
" آغا جی ! عالی نے اپنا سبق خود یاد کیا ہے "
میں نے پورا منہ ھو کر حیرانی سے کہا ،
" ناممکن ۔ یہ ہو نہیں سکتا !"
" منہ بند کر کے حیران ہوں ، مکھی چلی جائے گی " نانو نے جھڑکتے ہوئے کہا اور چم چم کھلکھلا کر ہنسنے لگی ۔
ہم نے یک دم منہ بند کیا اور بند منہ سے  بولے
، 
" میں مان ہی نہیں سکتا "
نانو نے چم چم کی طرف دیکھا اور میری طرف ، اشارہ کرتے ہو اپنی کنپٹی پر انگلی گھمائی ، تو چم چم نے اپنی کتاب کھولی اور مجھے سبق سنانا شروع کیا ۔ اور میرا منہ حیرت سے کھلنے لگا ۔ جب وہ اپنی آخری حد کو پہنچا تو نانو چلائی ۔
"منہ بند کریں ورنہ سارے دانت گر جائیں گے"
ہم نے فوراً منہ بند کر لیا - لیکن اس سے پہلے نقلی دانت اپنی گود میں گرا چکے تھے ۔ اُٹھا کر واپس منہ میں رکھا ۔
چم چم نے ، الف سے خ تک ، ہر لفظ سے بنے والی پانچ پانچ چیزوں کے نام بتائے ، جب پچاس نام بتا چکی تو بولی ،
" آوا ! میں اُدرُو سے فیڈ اَپ ہوگئی ہوں ! "
اُسے " فیڈ اِن " کرنے ے لئے نانو نے اُس کی پسندیدہ کھانے کی چیز لینے کا پروگرام بنایا-
 تو ہم ، گرین ویلی کی طرف نکلے ، نانو نے اُس کی پسندیدہ ، چیزیں لیں ۔ اُس گھومنے کا پروگرام بنا اِس شرط پر بنا کہ جب تک وہ یہ چیزیں کار میں نہیں کھا لیتی، گھر نہیں جائیں گے ۔
چنانچہ اُسے بحریہ کا سڑک کے کنارے "زُو" دکھایا ، ریسنگ ٹریک پر گاڑی دوڑائی ، مجسمہ آزادی دکھایا ، ایفل ٹاور دکھایا ا اور " د سے بڑی ے " تک یاد کرنے کا وعدہ لیا کیوں کہ ، سوموار کو " ٹیسٹ" اور 25 مئی کو فائینل ٹیسٹ ہے ۔

بیوی کہنے لگی ،
" اپنے چار بچوں کو پڑھایا ، اے پی ایس کے بچوں کو 10 سال پڑھایا ۔ لیکن مشکل نہیں لگا ، اگر عالی کا اردو میں اے گریڈ نہیں آیا ، تومیری محنت اکارت گئی"
ہوا یوں کہ پچھے ٹیسٹ میں جو دو مہینے قبل ہوا تھا ، چم چم کے سارے مضامین میں "اے گریڈ" آیا سوائے "اردو" کے ۔

اور اب اردو میں
"اے گریڈ" حاصل کرنے کی خاطر ، اُس سے سبق سننے کے لئے ، شدید حیرانی کا مظاہرہ کرتے کرتے میرے بھی جبڑے لٹکنے لگے ہیں اور ایک ویک اینڈ اور آنا ہے -
پھر چم چم کو "اُدرُو" سے نجات مل جائے گی ، کیوں کہ اُس نے سنا ہے کہ دبئی میں
"اُدرُو" نہیں ہوتی ، لہذا وہ ، " سمر ھالی ڈے" میں، ثانی ماموں کے ہاں جاکررہے گی اور لڈو کے ساتھ سکول جایا کرے گی -
" تو پھر ہمارا کیا ہوگا ؟ " نانو نے پوچھا
"میں آپ سے یوسف کی طرح روزانہ سکائیپ پر بات کروں گی " چم چم نے مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا ۔

جمعرات، 14 مئی، 2015

للی ، لِلّی ، لِلّی ، امّی بچاؤ ، مر گیا

لِلّی ، لِلّی ، لِلّی ، امّی بچاؤ  ! مر گیا  ، مر گیا  !"
" کیا ہوا ؟ کیا ہوا  ؟  " امّی گھبرا کر گھر کے دروازے سے باہر آئیں ۔ 
دیکھا تو چھوٹا بھائی ، اپنے سر کو ھاتھ مار مار  کر دوڑ  رھا ہے ۔ اور تتئیے ( دھموڑیاں)  جیٹ طیاروں کی طرح اُس پر حملے کر رہی ہیں ۔
" بیٹھ جاؤ ! بیٹھ  جاؤ " امّی چلائیں
اِس سے پہلے  چھوٹا بھائی بیٹھتا ،  دوڑتے  ہوئے  ٹھوکر لگنے سے وہ گرا ، تو دھموڑیوں نے واپسی  راہ   لی ۔ امیّ اُسے اُٹھا کر گھر لے آئیں ۔ میں اور آپا  گلزار  خالہ کے ہاں جا کر چھپ گئے !
 فیس بک پر آئی ہوئی اِس بچے کی تصویر  دیکھتے ہی میں ایک جھونکے سے ماضی میں پہنچ چکا تھا  اور اوپر لکھے ہوئے الفاظ میرے ذہن میں " پوپ آپ" ہوگئے ۔
غالباً 1959 کی بات ہے ، ابّا کی پوسٹنگ اے ایم سی سنٹر  ایبٹ آباد تھی ، ہم چار بہن بھائی ، آپا   (ساڑھے سات سال)، میں  (چھ سال)، مجھ سے چھوٹا بھائی(ساڑھے  چار سال )  اور بہن جو چھ ماہ  کی تھی ۔ اور ہم تینوں برکی پرائمری سکول میں پڑھتے تھے  ۔ غالباً مئی کا مہینہ تھا ، ہماری بیٹھک کے پاس شہتوت کے درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنایا ۔ ہم اُس درخت پر چڑھ کر کھیلتے تھے ۔ لیکن  جب مکھیوں کی بھنبھناہٹ بڑھ گئی تو ہم اُس سے دور رہنے لگے ۔ لیکن پھر ابّا نے ، بیٹ مین کو کہہ کر رات کو چھتہ اتروالیا ، دوسرے دن اتوار تھا ۔ ابا نے ہمیں سمجھایا کہ اِس سے شہد کیسےنکال کر کھانا ہے ۔ انہوں نے ، ماچس کی تیلی لی اُسے توڑا ، اور جس خانے میں شہد تھا اُس میں داخل کیا اور چھوٹے بھائی کو چھکایا اور بتایا کہ جو خانے بند ہیں اُنہیں نہیں کھولنا ۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے مزے لے لے کر شہد کھایا ۔
 کوئی تین چار دن کی بات ہے ، کہ آپا نے مجھے بتایا کہ دروازے کے سوراخ میں بھی ایک  شہد کا چھتہ ہے ۔ میں اور چھوٹا بھائی باہر  دوڑ ے ، آپا بھی ہمارے پیچھے پیچھے آئی ، ہمارا یہ دروازہ کم استعمال ہوتا تھا ، کیوں کہ مرغیوں کے باہر بھاگ جانے کا ڈر ہوتا ، لہذا امی نے تالا ڈال کر بند کر دیا تھا ، اور ہم بیٹھک کا دروازہ استعمال کرتے ۔ہم دوڑتے ہوئے باہر آئے ۔ آپا نے دور کھڑے ہوکر اشارہ کیا کہ وہاں ، میں اور چھوٹابھائی  ، خوف سے بے نیاز ہوکر بند دروازے کے گھر کے باہر والے حصے پر پہنچے ۔ دائیں طرف کی چوکھٹ  کے پاس سیمنٹ گرنے سے ایک لمبی سی دراڑ پڑی تھی ، اُس میں ایک شھد کاچھتہ نظر آیا  جو گول تھا -
"واپس آجاؤ،  واپس آجاؤ  " آپا چلائی ۔
ہم  شھد مکھیوں  کے نہیں بلکہ آپا کے خوف سے واپس آگئے ۔ لیکن دل میں خواہش تھی کہ ، چھتہ نکال کر میٹھا میٹھا شہد کھایا جائے ۔  اب پوری تیاریاں کیں ۔ آپا نے ایک لمبی لکڑی ے گرد کپڑا لگایا ، تاکہ آگ لگاکر ، موذی مکھیوں کو دور رکھا جائے ، میں سر پر ، بیٹ مین کی طرح آپا کا دوسرا دوپٹہ لپیٹ کے ، شہد کا چھتہ ، لکڑی سے مار کر باہر گراؤں گا ۔  خیر پورا پلان بننے کے بعد آپا نے لکڑی پر آگ لگائی ، میں بلا خوف ایک اور لکڑی لے کر آگے بڑھا ،اِس سے پہلے کہ کچھ کام ہوتا ، سوراخ سے ایک دھموڑی باہر نکلی اُسے دیکھتے ہی  ، میں خوف کے مارے لکڑی پھینک اور 50 فٹ دور گلزار خالہ کے دروازے پر پہنچ گیا ۔
آپا نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور زور سے کہا ، " بزدل "
اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، چھوٹے نے لکڑی اُ ٹھائی  اور دوڑ کر ، چھتے کو باہر نکالنے کے لئے دراڑ میں ڈال دی ، کہ موذی دھموڑیوں  کا ایک لشکر نکلا اور چھوٹے پر حملہ آور ہوا ۔ اور اُس کے قیامت خیز شور نے  ہمارے دل دھلا دئے  ۔
" لِلی ،   لِلی ، لِلی ،   لِلی ، امّی بچاؤ  ! مر گیا  ، مر گیا  !"

بدھ، 13 مئی، 2015

کائینات کی وسعت اور انسانی سوچ

یہ کائنات بہت بڑی ہے، بہت ہی بڑی !
اگر ہم صرف قابلِ مشاہدہ کائنات کی بات کریں، تو اندازہ ہے کہ روشنی کو اپنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ جیسی زبردست رفتار سے سفر کرنے کے باوجود ، قابلِ مشاہدہ کائنات کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں 78 اَرب سال لگ جائیں گے۔
ہمارے اب تک کے بہترین اندازوں کے مطابق، کائنات میں لگ بھگ چار کھرب (400 اَرب) کہکشائیں ہیں۔

ہر کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب (100 اَرب) ستارے ہیں۔

اگر ان میں سے صرف ایک فیصد ستارے ہمارے سورج جیسے ہوئے، تو ہر کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے ستاروں کی تعداد ایک اَرب ہوگی۔

اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد ستاروں کے گرد، ہمارے نظامِ شمسی جیسے نظام ہائے شمسی ہوئے، تو صرف ایک کہکشاں میں ہمارے سورج سے مماثل نظامِ شمسی رکھنے والے ستاروں کی تعداد ایک کروڑ ہوگی۔

اگر ان میں سے صرف ایک فیصد نظام ہائے شمسی میں بالکل ہماری زمین جیسا کوئی سیارہ ہوا۔ تو ہر کہکشاں میں ہماری زمین جیسے ایک لاکھ سیارے ہوں گے۔

اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد، زمین نما سیاروں پر ایسا ماحول ہوا کہ جس میں زندگی آنکھ کھول سکے؛ تو ہر ایک کہکشاں میں زمین کا گہوارہ بن جانے والے سیاروں کی تعداد ایک ہزار ہوگی۔

اور اگر ان میں سے بھی صرف ایک فیصد سیاروں پر حالات اتنے عرصے تک سازگار رہے کہ وہ ابتدائی حیات، ارتقاء کی منزلیں طے کرکے انسان جیسی ذہانت اور قوتِ ایجاد حاصل کرلے، تو پھر ہر کہکشاں میں انسان جیسی ذہین تہذیبوں کی تعداد ایک سو ہوگی۔

لیکن ٹھہریئے! یہ تو صرف ایک کہکشاں کی بات ہورہی ہے۔ اب ذرا اس ہندسے کو چار کھرب (چار سو اَرب) سے ضرب دیجئے۔

معلوم ہوگا کہ ممکنہ طور پر کائنات میں ہم انسانوں جیسی چار سو کھرب (چالیس ہزار آرب) ذہین مخلوقات، مختلف سیاروں پر آباد ہوسکتی ہیں۔

شاید یہ کائنات اپنے ہر گوشے میں زندگی سے لبریز ہو۔

لیکن آج تک کسی خلائی مخلوق نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔

ہم بہت کوشش کررہے ہیں لیکن اس وسیع و عریض کائنات میں اکیلے ہونے کا احساس کسی بھی طور کم ہونے میں نہیں آتا۔

کیا ہم واقعی اکیلے ہیں؟

یا پھر ابھی تک ترقی کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں کہ جہاں پہنچ کر ہم کسی غیر ارضی ذہین مخلوق سے رابطہ کرنے کے قابل ہوجائیں؟

یہ سوالات ابھی تک عقدہ ہائے لاینحل کی طرح ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اور تو اور، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں ان سوالوں کا کوئی جواب مل بھی سکے گا یا نہیں۔ اور اگر کوئی جواب ملے گا بھی، تو کب ملے گا؟


( علیزہ احمد کی ریسرچ )

منگل، 12 مئی، 2015

گوگل بلاگ کا کنکریٹ بنکر

میں اپنے اُن تمام دوستوں کا مشکور ہوں جنہوں نے بلاگرز کی اِس میراتھن میں میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے 76،000 دیکھنے یا پڑھنے والوں ساتھ حاصل رہا ، اُن کی " کلک کی تالیوں " نے میرا حوصلہ بڑھا-

دراصل اردو بلاگرز کی دنیا اسی بے چین روحوں پر مشتمل ہے جو کائینات میں موجوسفید نورانی روشنی کوکسی رنگین فلٹر سے اپنے اندر "قوس و قزح " کو تباہ ہوتے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے اور وہ اس ساتوں رنگ اپنے اندر برقرار رکھنے کے لئے ، یہ فلٹر شدہ روشنی اُن سے جذب نہیں ہوتی اور وہ جذباتیت میں گرفتار ہوکر اس کی تصحیح کر ے اسے واپس فضا میں پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو تقریر یا تحریر کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ۔
لیکن تقریر اور تحریر پر پابندی کی صورت میں وہ دل مسوس کر کے رہ جاتے ہیں، مغرب کے باسیوں نے اِس پابندی کے خلاف آواز اٹھائی ، 
  "سب کچھ بول دو یا سب کچھ لکھ دو"

ای میل اور فیس بک کے بعد ورڈ پریس اور گوگل بلاگ نے انسانی "کتھارسس" کو ایک نئی راہ دی ۔
گو کہ کتھارسس کو انگریز، شدت جذبات ( رحم یا خوف ) کو آرٹ کی صورت میں اظہار کرنے کو کہتے ہیں ۔
تحریر بھی تو ایک آرٹ ہے ۔ جس میں آپ رحم اور خوف کا اظہار کرتے ہیں ہوئے  فلٹر لگا کر آپ کے اندر اُس کی پسند  روشنی ڈالنے والے کو کہتے ہیں ،
" اوہ بندہ بشر حقیقت چھپا کر ہمیں بے وقوف نہ بنا " 
اور لوگوں کو بے وقوف بننے کے خوف سے بچانے کے لئے آپ کے جذبات پھٹ پڑتے ہیں ۔ جو قدرتی بات ہے ۔ لیکن آپ اگلے کے " پاکستانی مُکے " سے بھی بچنا چاھتے ہیں ۔
میں بھی بندہ بشر ہوں میں نے بھی " گوگل بلاگ کا کنکریٹ بنکر " کا سہارا لیا ہے اور اپنے فیس بک کے دوستوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا ۔ ماننا یا نہ ماننا آپ کی مرضی ہمارا کام تو آپ کے
"کتھارسس" کو ایک نئی راہ دیا ہے ۔
آنکھوں والو ! پڑھو اور عبرت حاصل کرو


 ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
 ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭



خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔