Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 11 مئی، 2015

آپریشن نیپچون - سی آئی اے کا مشن

واشنگٹن: امریکا کے ایک تحقیقی صحافی اور مصنف سیمور ایم ہرش کے مطابق امریکا اسامہ بن لادن تک پاکستان کی مدد سے پہنچا تھا، لیکن اس نے اس کارروائی کو اس انداز سے ظاہر کیا کہ پاکستان کو مجرم بنادیا۔
جب سیمور ایم ہرش سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں یقین ہے کہ امریکا پاکستان کی مدد سے القاعدہ کے رہنما تک پہنچا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے امریکا کی مکمل مدد کی۔‘‘
لندن ریویو آف بکس میں اتوار کو شایع ہونے والی ایک اسٹوری میں سیمور نے واضح کیا کہ ’’آپریشن نیپچون‘‘ کے بارے میں امریکا کا سرکاری نکتہ نظر ایک فرضی کام یا پریوں کی داستان کی طرز کا تھا۔
سیمور ہرش نے لکھا،
"
وہائٹ ہاؤس نے امریکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مشن تیار کیا اور پاکستانی فوج اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سینئر جنرلوں کو اس چھاپہ مار کارروائی کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں بتایا تھا۔



’’یہ بہت بڑا جھوٹ تھا کہ پاکستان کے دو سب سے سینئر فوجی رہنماؤں (ریٹائرڈ) جنرل اشفاق پرویز کیانی (جو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف تھے)، اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کو امریکی مشن سے کبھی مطلع نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
یہ آپریشن ایک مداخلت کے ساتھ شروع ہوا اور بالآخر اسامہ بن لادن کی موت پر ختم ہوا۔
اگست 2010ء کے دوران پاکستان کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر اس وقت کے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینک سے رابطہ کیا۔ انہوں نے سی آئی اے کو پیشکش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد کے لیے تیار ہیں، بدلے میں انہوں نے وہ انعام طلب کیا، جس کا اعلان واشنگٹن نے 2001ء میں کیا تھا۔
انٹیلی جنس کے مذکورہ سابق عہدے دار فوج کے آدمی تھے، اوروہ اب واشنگٹن میں مقیم ہیں اور سی آئی اے کے لیے بطور مشیر کام کررہے ہیں۔
میں ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں بتاسکتا، اس لیے کہ یہ مناسب نہیں ہوگا۔
گو اسامہ بن لادن اپنے ذاتی خفیہ ٹھکانے میں مقیم تھے لیکن اُن کی اردگرد کے علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہ تھی وہ مکمل اپنے کماونڈ میں ایک قیدی کی زندگی گذار رہے تھے
کیوں کہ اسامہ بن لادن آئی ایس آئی کے قیدی تھے ، سعودی حکومت بھی اس بارے میں جانتی تھی اور اس نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو ایک قیدی کے طور پر رکھا جائے۔
جب امریکیوں نے پاکستان حکومت سے رابطہ کرکے اسامہ بن لادن کے بارے میں دریافت کیا تو آئی ایس آئی نے اصرار کیا تھا کہ انہیں مار دیا جائے اور ان کی ہلاکت کا اعلان اس آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد کیا جانا چاہیے۔
امریکیوں کو یہ لازمی کہنے کی ضرورت تھی کہ القاعدہ کے سربراہ ہندوکش کے پہاڑی علاقے میں ملے تھے تاکہ انہیں رکھنے کے لیے نہ تو پاکستان اور نہ ہی افغانستان کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا۔
آئی ایس آئی ان کی ہلاکت چاہتی تھی، اس لیے کہ ’’وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کے خلاف کوئی گواہ موجود ہو۔‘‘
امریکیوں نے ایبٹ آباد میں ایک نگرانی کی چوکی قائم کی اور بعد میں آئی ایس آئی کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اس آپریشن سے قبل آئی ایس آئی نے تربیلا، غازی میں ایک سیل قائم کیا، جہاں ’’امریکن نیوی سیلز کے ایک سپاہی اور دو رابطہ کاروں نے اس چھاپہ مار کارروائی کی مشق کی۔‘‘
صدر بارک اوباما نے شہ سرخی کی یہ خبر جاری کرنے اور براہِ راست نشریات پر قوم کو آگاہ کرنے سے قبل اس وقت کے فوجی یا آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے مشورہ نہیں کیا تھا۔
اس کور اسٹوری نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ ان کے لیے انتہائی شرم کا باعث تھا۔ پاکستان کے پاس ایک اچھی فوج ہے، بُری فوج نہیں ہے، لیکن اس کور اسٹوری نے اس کو بُرا بنادیا۔
سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اس کور اپ اسٹوری سے اختلاف کیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کیے گئے انتظامات کا احترام کرے۔
صدر اوباما نے اس منصوبے کو تبدیل کردیا اس لیے کہ وہ ضمنی انتخاب کے میں مصروف تھے۔ ان کی تقریر میں دو گھنٹوں کی تاخیر ایک اندرونی بحث کی وجہ سے ہوئی تھی۔ڈاکٹر شکیل آفریدی سی آئی اے سے روابط رکھنے پر اب جیل میں ہیں، وہ سی آئی اے کا اثاثہ تھے، لیکن انہیں اس آپریشن کے بارے میں علم نہیں تھا۔ انہیں حقیقی اسٹوری کو چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

اامریکیوں کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کیا گیا۔
 یہ کور اَپ اسٹوری تھی، جس نے پاکستانی فوج کے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخیاں پیدا کیں اور اسے بُری صورت دے دی۔
لیکن امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا بہت مضبوط پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ جاری ہے اور اب اس کو ایک اچھی صورت دی گئی ہے۔‘‘
دراصل جب پاکستانی انٹیلی جنس کے سابق عہدے دار اسامہ بن لادن کے بارے میں اطلاعات کےساتھ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پہنچے تو سی آئی اے نے ان پر یقین نہیں کیا۔
چنانچہ ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز نے ایک پولی گراف ٹیم بھیجی اور جب پاکستانی عہدے دار اس جانچ میں پورے اُترے تو سی آئی اے نے ان کی بات پر یقین کرنا شروع کیا۔
اگرچہ میں نے اس اسٹوری کے لیے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سمیت بڑی تعداد میں لوگوں سے بات کی، تاہم امریکی انٹیلی جنس کے ایک سینئر ریٹائرڈ عہدے دار میرا اہم ذریعہ تھے، جنہوں نے مجھے بتایا کہ ابتداء میں امریکیوں نے پاکستانیوں کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا کہ انہیں مذکورہ ریٹائرڈ پاکستانی عہدے دار سے کیا کچھ معلوم ہوا ہے۔
کیوں کہ ’’یہ خوف تھا کہ اگر ذرائع کی موجودگی کا علم ہوگیا تو پاکستانی اسامہ بن لادن کو کسی اور مقام پر لے جائیں گے۔چنانچہ لوگوں کی انتہائی مختصر تعداد کو اس ذریعہ اور اس کی اسٹوری کے بارے میں بتایا گیا۔‘‘
ایبٹ آباد کے اس کمپاؤنڈ کی سیٹیلائٹ سے نگرانی شروع کردی گئی۔
سی آئی اے نے نگرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایبٹ آباد میں ایک گھر کرائے پر حاصل لیا، اور وہاں پاکستانی ملازمین اور غیرملکیوں پر مشتمل عملے کو تعینات کیا گیا۔
بعد میں یہ گھر آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے کا ایک مرکز بن گیا۔ اس مرکز پر لوگوں نے توجہ نہیں دی، اس لیے کہ ایبٹ آباد ایک تفریحی مقام ہے، اور یہاں ایسے گھروں کی بڑی تعداد ہے، جو مختصر عرصے کے لیے کرائے پر دیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد مخبر کا نفسیاتی خاکہ تیار کیا گیا۔ (واضح رہے کہ مخبر اور ان کے خاندان کو غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر منتقل کرکے واشنگٹن کے علاقے میں آباد کردیا گیا۔وہ اب سی آئی اے کے لیے بطور مشیر کام کررہے ہیں۔‘‘
امریکی انٹیلی جنس کے سینئر ریٹائرڈ عہدے دار کے مطابق ’اکتوبر میں فوجی اور انٹیلی جنس برادری نے ممکنہ فوجی آپشنز پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ اس وقت سوچا گیا کہ
کیا ہمیں اس کمپاؤنڈ پر ایک بم گرانا چاہیے؟
یا ڈرون حملے سے انہیں باہر نکلنے پر مجبور کرنا چاہیے؟

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو انہیں قتل کرنے کے لیے بھیجا جائے، تاہم اس وقت ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔
انہوں نے کہا ’رات کے وقت اردگرد کچھ لوگوں کو ہم چلتے پھرتے دیکھ سکتے تھے، لیکن ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی، اس لیے کہ کمپاؤنڈ سے کوئی اطلاع باہر نہیں آرہی تھی۔
ریٹائرڈ عہدے دار نے کہا کہ اکتوبر میں صدر اوباما کو انٹیلی جنس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ ان کا ردّعمل محتاط تھا۔
’اس سے کوئی احساس پیدا نہیں ہورہا تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مقیم ہیں۔ یہ کافی حد تک پاگل پن تھا۔ صدر کا مؤقف مضبوط تھا، انہوں نے کہا ’’مجھ سے اس بارے میں اس وقت تک بات نہ کی جائے، جب تک آپ کے پاس یہ ثبوت نہ ہو کہ وہاں واقعی اسامہ بن لادن موجود ہیں۔‘‘
سی آئی اے کی قیادت اور جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ کا فوری مقصد اوباما کی حمایت حاصل کرنا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ وہ یہ حمایت حاصل کرہی لیں گے، اگر انہیں ڈی این اے ثبوت مل گیا تو اور اگر وہ انہیں یہ یقین دلاسکے کہ رات کے وقت اس کمپاؤنڈ پر حملے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ریٹائرڈ امریکی عہدے دار نے کہا کہ ان دونوں چیزوں کی تکمیل کا ایک ہی راستہ تھا کہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
2010ء کےموسمِ خزاں کے اواخر کے دوران امریکیوں نے اس حوالے سے خاموشی برقرار رکھی، اور جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اپنے ہم منصب امریکیوں سے یہ اصرار جاری رکھا کہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔
اگلا قدم یہ تھا کہ کیانی اور پاشا کو کس طرح یہ بتایا جائے کہ ہمیں ملنے والی انٹیلی جنس یہ ظاہر کررہی ہیں کہ اس کمپاؤنڈ میں ایک ہائی پروفائل ہدف موجود ہے، اور ان سے کس طرح یہ پوچھا جائے کہ وہ اس ہدف کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔
ریٹائرڈ امریکی عہدے دار نے کہا ’اس کمپاؤنڈ کا مسلح احاطہ نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی اس کے اردگرد مشین گنیں نصب تھیں، اس لیے کہ یہ آئی ایس آئی کے کنٹرول میں تھا۔‘
پاکستانی انٹیلی جنس کے سابق عہدے دار نے امریکا کو بتایا کہ اسامہ بن لادن ہندو کش کے پہاڑوں میں اپنی بعض بیویوں اور بچوں کے ہمراہ 2001ء سے 2006ء کے دوران روپوش تھے، اور یہ کہ ’بعض مقامی قبائلی افراد کو آئی ایس آئی نے ادائیگی کرکے انہیں دھوکے سے حاصل کرلیا تھا۔‘
پاکستانی عہدے دار نے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن بہت بیمار تھے، اور ایبٹ آباد میں ان کی قید کی ابتداء میں آئی ایس آئی نے ایک ڈاکٹر اور پاکستانی فوج کے میجر عامر عزیز کوان کے علاج کے لیے وہاں بھیجا تھا۔
ریٹائرڈ عہدے دار نے کہا ’سچ تو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن چلنے پھرنے سے معذور تھے، لیکن یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔‘
’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں نے ایک معذور شخص کو گولی ماردی؟
پھر وہ کون تھا جس کے پاس اے کے-47 تھی؟
ریٹائرڈ عہدے دار کے مطابق اس ابتدائی نکتے پر پریشان کن عنصر سعودی عرب تھا، جس نے اسامہ بن لادن کو قید میں رکھنے کے پاکستانیوں کو سرمایہ فراہم کیا تھا۔
انہوں نے کہا ’’سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ اسامہ بن لادن کی مودگی کا انکشاف ہم پر کیا جائے، اس لیے کہ وہ ایک سعودی تھے، اور اسی بنا پر انہوں نے پاکستانیوں سے کہا کہ انہیں منظرعام سے دور رکھا جائے۔
سعودیوں کو خطرہ تھا کہ اگر ہمیں اس بارے میں علم ہوگیا تو ہم پاکستانیوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ ہمیں اس بارے میں بتایا جائے کہ سعودی القاعدہ کے ساتھ کیا کررہے تھے۔ اور اس کے لیے وہ خاصی رقم خرچ کررہے تھے۔
اوباما کو اس یقین دہانی کے لیے فکر تھی کہ امریکا درست ہدف کی جانب بڑھ رہا تھا۔ یہ ثبوت اسامہ بن لادن کے ڈی این سے سامنے آنا تھا۔
منصوبہ سازجنرل کیانی اور جنرل پاشا کی مدد کے لیے تیار ہوگئے، جنہوں نے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر عامر عزیز سے کہا۔
اس چھاپہ مار کارروائی کے فوراً بعد پریس کو معلوم ہوگیا کہ ڈاکٹر عامر عزیز اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے قریب مقیم تھے۔ مقامی صحافیوں نے انکشاف کیا تھا کہ اردو زبان میں ان کے نام کی تختی ان کے دروازے پر نصب تھی۔

پاکستانی حکام نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ڈاکٹر عامر عزیز کا اسامہ بن لادن سے کسی قسم کا کوئی رابطہ تھا، لیکن ریٹائرڈ عہدے دار نے سیمور ہرش کو بتایا کہ امریکا نے ڈاکٹر عامر عزیز کو ڈھائی کروڑ ڈالرز کے انعام سے نوازا تھا،اس لیے کہ انہوں نے ڈی این اے کا وہ نمونہ فراہم کیا تھا، جس سے یہ حتمی طور پر واضح ہوگیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود تھے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ: ایک دوسری کہانی کے مطابق بریگیڈئر عثمان خالد، کا نام بحثیت سابقہ عہدیدار کے لیا جارہا ہے جس نے امریکیوں کو مدد دی اور امریکہ نے اپنے پورے اطمینان کے بعد بریگیڈئر عثمان خالد، کو بیوی اور بچوں سمیت اپنے پاکستان میں موجود کیمپ میں شفٹ کیا اور آپریشن کامیاب ہونے پر اسے، اپنے جہاز میں غیر قانونی طور پر امریکہ شفٹ کردیا ۔
بریگیڈئر عثمان خالد، اب سی آئی اے میں امریکی مفادات کی پاکستان میں نگرانی کر رہا ہے ۔
 
سچ کیا ہے شاید یہ بھی منظر عام پر نہ آئے لیکن ٹوٹی کڑیاں جوڑنے والے ہر صبح ایک نئی کہانی تخلیق کریں گے (خالد مہاجرزادہ )


نئی کہانی پڑھیئے :

میمو گیٹ اور اسامہ بن لادن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔