Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 30 جون، 2023

قربانی کا گوشت

  ہر سال کروڑوں حلال جانوروں کی قربانی کے باوجود ان کی نسل میں کمی کے بجائے متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔

اس حکم ربی کے بےشمار فوائد میں سے ایک فائدہ،  امیروں کی طرف سے غریبوں کو کم از کم ہر سال گوشت جیسی قیمتی نعمت سے وافر مقدار میں شکم سیری کا موقع نصیب ہوتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 ساتھ والوں کا بکرا کافی موٹا تازہ ہے
ہاں تو۔ ۔۔۔
ارے پاگل اس میں سے بہت سارا گوشت نکلے گا
پھر وہ ہمارے گھر بھی زیادہ گوشت بھیجیں گے
اماں سے کہوں گا مجھے بوٹیاں تل کر دے
اور مجھے شامی  کباب بنا کر
اور ابا کے لیے گول بوٹیوں والا پلاو بھی۔۔۔
‏اس مہنگائی سے پہلے کتنے مزے تھے
ہفتے میں ایک بار گوشت  پکتا تھا
مگر اب تو صرف چٹنی اچار اور آلو سے ہی روٹی کھائی جاتی ہے
تم فکر مت کرو ادھے محلے میں قربانی ہے
عید کے دن ہمارے گھر میں گوشت ہی گوشت ھو گا
کل مولوی صاحب بیان میں کہہ رہے تھے کے  قربانی کے گوشت  پر سب سے زیادہ غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا حق ہوتا ہے....
عید میں دو دن باقی تھے
منا اور گڈی اٹھتے بیٹھے بوٹیوں کی باتیں کرتے
 گوشت کھائے ہوئے کافی مہینے بھی تو ہو گئے تھے...

اماں گوشت آگیا؟؟؟
نو بجے ہی بچوں کا انتظار عروج پر تھا
بیٹا ابھی تو پڑوسیوں کا بکرا ذبح بھی نہیں ہوا
مگر چوہدری صاحب کے یہاں تو کب کا بیل ذبح ہوگیا
اماں گوشت آ گیا؟؟؟ (گیارہ بجنے والے تھے)
بیٹا گوشت بنانے بانٹنے میں وقت لگتا ہے
یہ لو پیسے تم دونوں چیز کھا لو جب تک آ جائے گا....
اماں یاد ہے نا میرے لیے تلی ہوئی بوٹیاں بنانی ہیں
اور میرے لیے شامی کباب
چل گڈی جب تک قربانیاں دیکھ کر آتے ہیں
ہمیں دیکھ کر انہیں یاد بھی آ جائے گا کے ان کے گھر ابھی تک گوشت نہیں بھیجا....
دوپہر کا ایک بچنے والا تھا
ماں کے ہاتھ اور ہانڈی دونوں خالی تھے
اب تو بچے بھوک سے بےحال ہو رہے تھے
 مگر بکرا عید کے دن گوشت  کے علاوہ  کچھ کھانے کو راضی نہیں تھے....
دروازے پر دستک ہوئی
دونوں بچوں کی آنکھیں چمکنے لگی
گوشت آگیا گوشت آگیا (دبی زبان میں نعرہ لگایا )
باجی شیخ صاحب والوں نے گوشت بھیجا ہے
مگر یہ کیا تھیلی میں دو بوٹیاں ایک چربی کا ٹکڑا اور دو ہڈیاں نظر آ رہی تھیں....
ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے
گڈی اور منا لپک کر ماں کے پاس آیۓ
کوئی بات نہیں اماں آپ شوربے والا سالن بنا لیں
کتنے دن ہوئے وہ بھی نہیں کھایا
میں اور  گڈی  شوربے میں روٹی چور کر کھا لیں گے
آپ یہ دو بوٹیاں ابا کے لیے رکھ لینا
شوربے میں بھی تو گوشت کا ذائقہ آ ہی جائے گا....

لیکن چوہدری  صاحب کا نیا ڈی فریزر قربانی کے گوشت سے بھرا جا چکا تھا ۔
بس دعاکرو کہ لوڈ شیڈنگ نہ ہو ورنہ ۔ ۔ ۔  ۔۔! 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 28 جون، 2023

ریٹائرڈ فوجی ، پنشن ، مہنگائی اور گذر اوقات

 

  بوڑھے نے آج اپنی نواسی چم چم سے مصنوعی ذھانت کے پروگرام   Chat GPT  کے  بارے میں سنا ۔ اُس نے انسٹال کرنے کا طریقہ بتایا  ، تو بوڑھے نے اپنے لیپ ٹاپ پر پروگرام انسٹال کر لیا  ، کئی سوال پوچھنے کے بعد   بوڑھے نے پوچھا :

ایک ریٹائرڈ فوجی کو مہنگائی میں پنشن سے اپنی زندگی  کیسے گذارے ؟
پروگرام  نے   درج ذیل   اہم تجاویز پیش کیں :

٭۔ بجٹ کا تعین: اپنے پنشن اور دیگر آمدنیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بجٹ تیار کریں۔ بجٹ بنانے کے لئے ضروری  اخراجات  کو شامل کریں، جیسے کہ گھر کرایہ، بجلی کا بل، کھانے پینے کی خریداری، طبی اور دوائی کے خرچ، ٹرانسپورٹیشن، اور دیگر روزمرہ کے اخراجات کو شامل کریں۔

٭۔ منظم منصوبہ بندی: خریداری اوراخراجات   میں  منصوبہ بندی  کا اہم کردار ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی کے لئے ضروری چیزوں کو ترجیح دیں  اور  ترتیب وار اہمیت کے لحاظ سے  انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ خریداری کو    کم اہمیت  کی بنیاد پر کم   کریں اور فائدہ مند   چیزوں پر توجہ دیں۔

٭۔  بچت کی عادت بنائیں: آمدنی میں بچت  ضروری ہے تاکہ  مستقبل  میں ہنگامی امور یا ضرورت  کے لئے رقم کی دستیابی ممکن ہو ۔ ہر ماہ کے بجٹ سے  رقم  کاٹیں اور اسے بچت کے لئے مختص کریں۔ 

٭۔اچھی سرمایہ کاری: اگر آپ کے پاس مالی وسائل ہیں تو اچھی سرمایہ کاری کو مد نظر رکھیں۔ مشورہ لیں اور مختلف سرمایہ کاری کے اداروں  کو سمجھتے ہوئے   اپنے سرمائے کو  ایسا  استعمال کریں کہ آپ کو ماہانہ   منافع ملتا رہے ۔ جس سے آپ کی آمدنی میں اضافہ ہو اور سرمایہ بھی محفوظ رہے ۔

 ( نوٹ  قومی بچت پروگرام میں پنشرز بینیفٹ اکاونٹ (PBA) یا 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے  بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ (BSC)  انویسٹمنٹ پروگرا م بہترین ہے جس میں آپ اپنی  کمیوٹیشن  جی پی فنڈ جمع کروا کر ہر ماہ  ملنے والے منافع کو  اپنی  آمدنی کا ذریعہ بنا سکیں)۔

٭۔  مہنگائی کے  پارٹ ٹائم یا کل وقتی جاب : مہنگائی کے دور میں زندگی گزارنے کے لئے آپ مزید ملازمت  تلاش کر سکتے ہیں جو آپ کے مالی حالات کو مدد دے سکتے ہیں۔  جو  سکول  میں یا ٹیوشن  پڑھانا، گاڑی چلانا، طبی مدد فراہم کرنا یا دیگر ہنر  کیلئے اپنی خدمات یش کر سکتے ہیں ۔

 ٭۔  سماجی معاشرتی سپورٹ: مہنگائی کے دور میں ایک ریٹائرڈ فوجی کو سماجی معاشرتی سپورٹ کی ضرورت ہوسکتی ہے۔لہذا معاشرتی اور حکومتی اداروں  کے   بوڑھوں اور  مالی تنگی کا شکار  افراد  کے لئے رعایتی نرخوں پر کھانے کی روزمرہ اشیاء کی فراہمی ۔

     ٭۔  ہیلتھ سپورٹ پروگرام ۔اپنی جسمانی اور ذہنی تندرستی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات کو ترجیح دیں، باقاعدگی سے ورزش کریں، اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے غذائیت سے بھرپور غذا برقرار رکھیں۔ اچھی صحت آپ کے مجموعی معیار زندگی کو بھی بڑھا سکتی ہے۔

 مہنگائی کے دور میں پنشن سے اپنی زندگی کو گزارنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن منظم بجٹ کی منصوبہ بندی، بچت، سرمایہ کاری، اور سماجی سپورٹ کی سہولتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اپنی زندگی کو مستحکم اور معیاری طریقے سے گزار سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 5 جون، 2023

ٹوٹا مرتبان ۔بھکشو اور جاپانی

 وٹس ایپ پر ہمارے  پنشنر دوست جناب  جمال الدین قریشی صاحب نے ایک اعلیٰ معلوماتی  تحریر بھیجی ۔جو حقیقت میں قوموں کی ترقی کے راز سے متعلق ہے ۔
لیکن اِس داستان کا آخری پیرا نہایت اہم ہے ۔ کیا ہم پاکستان کی بقاء کے لئے ، ٹوٹے ہوئے لوگوں کو نہیں جوڑ سکتے ؟
ذرا سوچئے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج سے چار سو سال قبل کسی جاپانی رئیس کا قیمتی مرتبان ٹوٹ گیا، اس نے مرتبان کی کرچیاں اٹھا کر باہر پھینک دیں، وہاں سے بدھ  بھکشو "کِن سوگی " گزر رہا تھا، اس نے کرچیاں دیکھیں، مسکرایا، کرچیاں اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈالیں اور آگے بڑھ گیا، بھکشو کی کلائی میں سونے کا ایک کڑا تھا، یہ اس کی واحد متاع تھی، وہ دوسرے گاؤں پہنچا، سنار کے پاس گیا اور اس کی دکان  میں مفت کام کی پیش کش کر دی۔

سنار  بہت خوش ہوا  اور اُس نے بھکشو کو اپنی دکان کے لئے بابرکت سمجھتے ہوئے ، اسے رہائش اور مفت کھانے کے عوض اپنے پاس رکھ لیا۔

 بھکشو نے سنار سے درخواست کی، میں سارا دن تمہارے پاس مفت کام کروں گا لیکن شام کے وقت اپنا سونے کا کڑا پگھلا کر اپنے مرتبان کی مرمت کروں گا۔

سنار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔  بھکشو اب سارا دن سنار کا کام کرتا تھا اور شام کے وقت جب دکان بند ہو جاتی تھی تو وہ اپنا کڑا پگھلا کر سونا نرم کرتا تھا اور سونے کی تار سے مرتبان کی کرچیاں جوڑتا رہتا تھا۔
بھکشو نے مہینہ بھر کی محنت سے ٹوٹا ہوا مرتبان جوڑ لیا۔مرتبان مکمل ہوگیا تو اس نے اسے صاف کرکے دکان کے شو کیس میں سنار کو دکھا یا ۔ سنار بھکشو  کی   مہارت اور کاریگری سے حیران ہو گیا ۔ بھکشو نے اِسے کچھ دن کے لئے دکان کے شوکیس میں  سڑک کی طرف رکھ دیا   ۔ جس سے سنار کی دکان    بھلی لگنے لگی ۔  سونے کی چمک  کی وجہ سے مرتبان   نمایاں  اور خوبصورت دکھائی دیتا  ، سڑک پر گذرنے والا  شو کیس کی طرف دیکھتا اور بے اختیار رُک جاتا   اور  یوں وہ مرتبان چند دنوں میں پورے علاقے میں مشہور ہوگیا اور مالدار  لوگ اس کی منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر بھکشو نے اسے بیچنے سے انکار کر دیا۔اس کا کہنا تھا یہ مرتبان کسی اور کی امانت ہے۔

مرتبان کی تعریف پھیلتے پھیلتے ، دوسرے علاقے کے،اس جاپانی رئیس تک بھی پہنچ گئی جو دراصل اس مرتبان کا مالک تھا، وہ بھی اس دکان پر پہنچ گیا۔اس نے اِس نے بھی خوبصورت    مرتبان دیکھا، مگر وہ اسے پہچان نہ سکا  کیوں کہ مرتبان کی ہیت تبدیل ہو چکہ تھی اور وہ پہلے  والے مرتبا ن  سے سونے کی تاروں  سے اور مزیّن ہو چکا تھا ۔ اس نے منہ مانگی قیمت دے کر مرتبان خریدنے کا اعلان کر دیا۔

بھکشو نے نیلامی کا بندوبست کیا  اور اگلے دن ،  بولی شروع ہوئی ۔ مالداروں کے درمیان سبقت لینے پر مقابلہ  شروع  ہو گیا ۔ بولی بڑھتی رہی  ، رئیس کی ہر بولی پہلی بولی سے اونچی ہوتی گئی ، یہاں تک کے علاقے کے رئیس  ہار مانتے گئے اور آخرے بولی ، رئیس نے جیت لی ۔

 رئیس نے فخر کے ساتھ مرتبان اٹھایا اور رقم دینے کے لئے  ہاتھ بڑھایا  ۔  تو بھکشو  بولا

 "حضور یہ مرتبان دراصل ہے ہی آپ کا اور میں آپ کی چیز کی قیمت آپ سے کیسے وصول کر سکتا ہوں؟ آپ اپنا مرتبان لیں اور میرے لیے بس دعا کر دیں"

 رئیس نے حیرت سے پوچھا "کیا مطلب؟"

 بھکشو نے  ، ٹوٹے مرتبان کی کرچیاں  باہر پھینکنے کا واقعی سناتے ہوئے کہا ۔" جب مرتبان کی کرچیاں میرے سامنے گریں ، تو میں اُس قیمتی مرتبان کی ٹوٹے جانے کے بعد بے وقعت ہونے پر افسردہ ہوا ۔میں نے سوچا کہ کیا یہ مرتبان دوبارہ اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے ؟؟

میں  نے کرچیاں اٹھائیں اور لے کر اِس دکان پر آگیا ۔  اور اِس  مرتبان کی خاطر میں  نے دکان پر ملازمت شروع کر دی، اور اپنا فاضل وقت میں نے مرتبان کو دے دیا ۔ رات کو میں نے اپنا کڑا پگھلا کر تار بنائی اور اِسے جوڑنا شروع کیا ایک مہینے کی محنت کے بعد   ، اِس کی وقعت پہلے سے بڑھ گئی ، سونے کی تاروں نے اس کے ٹکڑوں سے مل کر اِسے سب کی نظروں میں قیمتی بنا دیا اور یہ  پیس آف آرٹ بن گیا " رئیس حیران رہ گیا۔

 بھکشو  کِن سوگی  نے بتایا "ٹکڑے اشیاء کے ہوں یا انسانوں کے یہ جب جڑتے ہیں تو یہ چیزوں اور انسانوں کو انمول بنا دیتے ہیں"۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جاپان میں لوگ ٹوٹے ہوئے برتنوں کو سونے سے جوڑ کر پیس آف آرٹ بنا رہے ہیں، اِس فن کا بانی   بھکشو کے نام پر  کِن سوگی  کہلاتا ہے ۔


جاپان میں کن سوگی کے عمل سے گزرنے کے بعد عام سے پیالے، پلیٹیں، مگ اور گھڑے ملین ڈالر کا آرٹ پیس بن جاتے ہیں اور میوزیم میں رکھے جاتے ہیں یا پھر لوگ انھیں اپنے گھروں میں سجاتے ہیں، یہ فن صرف اشیاء کی "ری پیئرنگ" کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے ٹوٹے پھوٹے اور تباہ حال انسانوں کو بھی جوڑ کر، رگڑ کر نیا اور مہنگا بنایا جاتا ہے، جاپانی قوم خود بھی کن سوگی کا جیتا جاگتا شاہ کار ہے۔

دنیا میں آج تک ایٹم بم صرف دو بار استعمال ہوا اور امریکہ نے  دونوں مرتبہ جاپان پر گرایا گیا، 6اگست 1945 کو ہیروشیما پر پہلا اور 9اگست کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرا۔ ان دو بموں نے پوری جاپانی قوم کو   کرچی کرچی کر دیا  لیکن آپ کن سوگی کا کمال دیکھیے، جاپانی قوم نے نہ صرف اپنی تمام کرچیاں جمع کرکے خود کو دوبارہ بنا لیا بلکہ یہ اپنے اصل سے زیادہ قیمتی بھی ہوگئی۔

 جاپان کی آج کی 20 بڑی کمپنیاں خواہ یہ ٹویوٹا ہو، مٹسوبشی ہو، ہونڈا ہو، آئی ٹوچو ہو، نپون ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ہو، مٹسوئی ہو، جاپان پوسٹ ہولڈنگ ہو، ہٹاچی ہو، سونی ہو، انیوس ہولڈنگ ہو، ایون ہو، ماروبینی ہو یا پیناسونک،یہ دوسری جنگ عظیم سے قبل دفاعی آلات،لڑاکا جہاز ،  بم  اورتوپیں بناتی تھیں۔
ان کمپنیوں نے جنگ کے بعد اپنا کاروبار تبدیل کیا اور یہ چند برسوں میں دنیا کی بڑی تجارتی اور صنعتی کمپنیاں بن گئیں، جنگ عظیم دوم سے قبل جاپان کی فوج دنیا کی طاقتور اور خوف ناک فوج تھی، پسپائی ان کے سلیبس میں شامل ہی نہیں تھی، یہ اگر جنگ میں ہار جاتے تھے تو یہ"ہارا کاری"  ( خودکشی) کر لیتے تھے مگر شکست کے داغ کے ساتھ گھر واپس نہیں آتے تھے۔

جاپان کے پاس شکست کے بعد دو آپشن تھے، یہ لوگ باقی زندگی اپنے زخم چاٹ کر اور ماضی کی فتوحات کے ترانے گا گا کر زندگی گزار دیتے یا پھر کن سوگی کے عمل سے گزر کر اپنی کرچیاں سمیٹتے اور خود کو پہلے سے زیادہ قیمتی بنا لیتے، جاپانیوں نے دوسرا آپشن پسند کیا اور یہ کن سوگی کے عمل سے گزرنے لگے۔
جاپان نے عاجزی اور سادگی کو بھی اپنا آرٹ بنا لیا ہے، یہ جھک کر ملتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں، ہاتھ ملانا بے ادبی سمجھتے ہیں چناں چہ بادشاہ ہو، وزیراعظم ہو یا ہونڈا یا کرولا کمپنی کا مالک ہو وہ سینہ اور گردن جھکا کر آپ سے ملے گا، پوری قوم کام کی عادی ہے۔

ٹائم مینیجمنٹ کوئی اِس  قوم سے سیکھے ۔ لوگ  لیٹ نہیں ہوتے، صبح 7 بجے کا مطلب  ،   7 بجے ، ایک سیکنڈ بھی اوپر نہیں ۔

    پوری زندگی ایک کمپنی یا ایک فیکٹری میں گزار دیں گے اور کبھی معاوضے میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے، دو یا حد تین مرلے کے گھر میں رہیں گے، ہر خالی جگہ پر پھول اور پودے اگائیں گے ۔ زندگی کی آخری سانس تک کام کریں گے۔

   میرا مشورہ ہے آپ کوئی چیز نہیں ،  انسان ہیں آپ جب ٹوٹ جائیں تو آپ خود کو بے کار نہ سمجھیں، اپنی کرچیاں کچرا گھر میں نہ گرنے دیں، آپ کسی جگہ بیٹھیں اور اپنے آپ کو حوصلے، ہمت اور برداشت کے سونے سے جوڑنا شروع کر دیں۔
آپ نہ صرف دوبارہ مکمل ہو جائیں گے بلکہ آپ پہلے سے ہزار گنا قیمتی بھی ہو جائیں گے اور پیس آف آرٹ بھی بن جائیں گے۔ "

 


 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭


 

ہفتہ، 3 جون، 2023

پنشن اور پنشنرز گریڈ 1 تا 14

 اِس مہنگائی کے دور میں سارے  گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز  پریشان ہیں ، کہ وہ کیسے اپنی باقی زندگی کو معاشی دلدل سے گھسیٹ کر نکالیں؟

تنگ دستی اور پریشانیوں کی اِس آزمائش میں  وہ سوچتے ہیں کہ حکومت کیوں اُن کی طرف توجہ نہیں دیتی   ،  ملازمین کی تنخواہیں ہیں کہ وہ بڑھتی جارہی ہیں ، ممبرانِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی  کے وظیفے  کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور وکالت کی پر پیچ گلیوں سے گذر کر ، انصاف کا ترازو سنبھالنے والی مسند پر بیٹھنے والے ۔ آئین کے آرٹیکل   کا سہارا لے کر اپنی تنخواہیں ، الاؤنسز اور پنشن اتنی بڑھا چکے ہیں کہ گریڈ 1 کا ملازم  ، مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے ۔

اِس کے علاوہ ڈالر کی بے تحاشا اونچائی اور پاکستانی روپے کی قیمت خرید میں کمی کی وجہ سے گریڈ 15 سے 19 تک کے پنشنرز بھی کمر تک مہنگائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں  ۔ پے اینڈ پینشن کمیشن کی سفارشات سرخ فیتے کی نذر ہو چکی ہیں ۔ جس کے حق میں چیئرمین جناب انجنیئر  بشیر احمد بلوچ اور میں نے پچھلے سال   پنشن گریڈ کی چار کیٹیگریز کے لئے پنشن کے اضافے کی تجویز پیش کی تھی جس کے مطابق ۔
1- گریڈ 1 تا 11 ، 35 فیصد اضافہ
۔
گریڈ 12 تا 16 ، 25 فیصد اضافہ2 ۔ 

۔ گریڈ 17 تا 19 ، 15 فیصد اضافہ

۔ گریڈ 20  سے اوپر  ، 10 فیصد اضافہ

20 سال پہلے ریٹائر ہونے والے ،تمام ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے ۔ یہ کل  اضافہ پورے وفاقی بجٹ میں صرف  اعشاریہ 2 فیصد بنے گا ۔ 

یہ وہ ملازمین ہیں جنہوں نے دن رات حکومت  میں رہ کر پاکستان کے عوام کی خدمت کی  ، مہنگائی سے زیادہ بڑھاپے نے اُنہیں  حکومت پاکستان کی حکومت سے امید لگانے پر مجبور کر دیا ہے ۔  پے اینڈ پنشن کمیشن میں گو کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی شامل تھے ۔ اُنہوں نے اپنی سفارشات میں  جو منٹس بنائے اُن میں مدد کا ذکر کیا ۔ لیکن وہ سفارشات ابھی فائلوں  میں سفر کر رہی تھیں ، لیکن اِس کے باوجود 10 فیصد پنشن کا اضافہ کرکے  پنشنرز کے چند آنسووں کا مداوہ کیا ۔ 

پنشنرز کی بنیادی طور پر حکومت سے بس یہی ڈیمانڈ ہے کہ :
1۔ مہنگائی کے تناسب سے مندرجہ بالا سلیب کے مطابق  پنشن  بڑھائی جائے ۔

2۔ بڑھاپے میں انسان بیماریوں کے محدب عدسے کے نیچے آجاتا ہے ، ہسپتال جوانوں کی نسبت بوڑھوں سے بھرے رہتے ہیں ۔ جو میڈیکل الاؤنس کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں ۔ جس میں اضافہ نہایت ضروری ہے ۔
گو کہ پنشنرز کے بہت مسائل ہیں ، جس کے اگر حل پر واقعی ہمدردی سے غور کیا جائے تو  وہ ملک کی ایک پرسکون شہری کی زندگی گذار سکتے ہیں ( میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد مرکزی صدر آل  پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن )

جناب سید معراج صدر ٹوِن سٹی آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن نے پنشنرز کی مسائل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ جب ایک ملازم  50 سال کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ تو اُسے اپنے بچوں  کی تعلیم کے بعد معاشی جدودجہد میں ہاتھ بٹانے کے لئے اُس عزت دار ملازمت دلوانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔  ہمارے گریڈ 14 سے نیچے کے ملازم اپنی تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ، اپنے خاندان جس میں ماں باپ اور بہنیں شامل ہیں کے معاشی وسائل میں مدد مہیا کرنے کے لئے وہ اپنی بچوں کی تعلیم سے بے توجہی تعلیمی وسائل کے مہنگا ہونے کے علاوہ فیسوں کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ آٹھویں کلاس تک مدد کر سکتا ہے  ۔ جس ادارے میں وہ ملازمت کرتا ہے وہاں ویلفیئر فنڈ ، صدقات اور زکوٰۃ  سے مدد بھی کی جاتی ہے ۔جس سے بچوںکی تعلیم میں کچھ سپورٹ ملتے ہے ۔ یہاں میں حکومت  کو درخواست کروں گا کہ وہ  جس محکمے میں ملازم سروس کر رہا ہے اُس میں ملازمین کے بچوں کا کوٹہ رکھے ، جو لیبر ، نان سکلڈ ورکر اور سکلڈ ورکر کی کیٹیگری میں ہو جو بچہ  بھرتی کے میعار پر پورا اترتا ہو ، اُسے لازمی ملازمت دینے میں اہمیت دی جائے ۔

تمام پنشنرز کو ہیلتھ کارڈ جاری کیا جائے جس کی بنیاد پر ، ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق وہ میڈیکل سٹور سے دوائیاں خریدے۔یہ طریقہ تمام فوجی ہسپتالوں میں ،  تمام فوجیوں کے والدین  اور ریٹائرڈ فوجیوں ، ریٹائرڈ آفیسروں اور ان کی بیویوں  کے لئے مستعمل ہے     ۔ اِس کے لئے ہسپتال میں منظور شدہ میڈیکل سٹور کی آؤٹ لیٹ کھولی گئی ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭  

عافیہ صدیقی اس قوم کی بیٹی نہیں

نائن الیون کے بعد امریکی ایجنسیوں نے اپنا مانیٹرنگ کا نظام انتہائی سخت کردیا اور انہوں نے ڈاک، ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ پر بطور خاص نگرانی رکھ لی۔
مئی 2002 میں امریکی ایجنسیوں کو انٹرنیٹ پر ایک مشکوک ایکٹیویٹی نظر آئی تو وہ الرٹ ہوگئے یہ ایکٹیویٹی ایک شادی شدہ جوڑے کی طرف سے 10 ہزار امریکی ڈالرز کی انٹرنیٹ پر خریداری سے متعلق تھی جس میں انہوں نے بلٹ پروف جیکٹس اندھیرے میں دیکھنے والی عینکیں اور ایسی کتابیں خریدی تھیں جن میں گوریلا جنگ سے لے کر بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
ایجسیوں نے اس جوڑے کو ٹریک ڈاؤن کرلیا اور پوچھ گچھ کیلئے پولیس سٹیشن لے گئے جہاں ان دونوں نے ایجنسیوں کو بتایا کہ وہ شکار اور کیمپنگ کیلئے یہ سامان اکٹھا کررہے تھے ابتدائی تفتیش کے بعد انہیں جانے دیا گیا۔
اس خاتون کا نام عافیہ صدیقی تھا جو اپنے شوہر امجد خان کے ساتھ تفتیش کیلئے پولیس سٹیشن بلائی گئی اور اس وقت اس کے پاس امریکی شہریت بھی تھی
چند ماہ بعد عافیہ صدیقی پاکستان آگئی چند ماہ کراچی میں رہنے کے بعد دوبارہ نوکری کی غرض سے امریکہ چلی گئی اور امجد خان سے اس وقت طلاق لے لی جب اس کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش میں ابھی 4 ماہ باقی تھے بچے کی پیدائش کے غالبا 2 ماہ بعد عافیہ صدیقی نے عمار البلوچی/ عمار البلوشی سے شادی کر لی ،خالد البلوچی خالد البلوچی شیخ خالد الکویتی کا بھتیجا تھا جو کہ دہشتگرد تنظیم القائدہ کا ایک بڑا نام تھا اور نائن الیون کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی شخص تھا

2003 میں خالد شیخ نے گرفتاری کے بعد دوران تفتیش عافیہ صدیقی کے بارے میں بتا دیا کہ وہ ان کے گروہ کیلئے رابطہ کاری اور پلاننگ کے ٹاسک سرانجام دیتی تھی مارچ 2003 میں امریکہ نے عافیہ صدیقی اور اس کے شوہر امجد خان کے نام ہائی الرٹ جاری کیا اور پھر اس کے چند روز بعد عافیہ صدیقی اپنی بہن کے گھر سے اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی ریلوے سٹیشن جانے کا کہہ کر نکلی اور اس کے بعد کسی سے رابطے میں نہ رہی
اس دوران امریکی سی آئی اے نے عافیہ صدیقی کو انتہائی مطلوب دہشتگرد کی لسٹ میں ڈال دیا اور اسے لیڈی القاعدہ کا ٹائٹل بھی دے دیا

2008 میں عافیہ صدیقی افغانستان میں غزنی کے مقام پر اس وقت گرفتار ہوئی جب وہ برقع پہنے اپنے احمد نامی بچے کے ساتھ گورنر کی رہائش کے قریب کھڑی پائی گئی ۔تلاشی لینے پر اس سے مختلف بوتلوں میں کیمیکلز برامد ہوئے، پرس میں ایک یو ایس بی ڈرائیو تھی ۔جس میں نیویارک کے مختف مقامات کے نقشے اور مارکنگ کی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ بم بنانے کے پروسیجرز بھی موجود تھے۔
اگلے دن امریکی ایف بی آئی والے تفتیش کیلئے غزنی تھانے پہنچے ۔جہاں مبینہ طور پر پردے کے پیچھے کھڑی عافیہ صدیقی نے ایک پولیس والے کی زمین پر رکھی گن اٹھائی اور فائرنگ شروع کردی ۔جواب میں ایک پولیس والے نے اس کے پیٹ میں فائر کردیا اور اسے زخمی حالت میں بگرام ائیربیس پر لے آئے جہاں اس کا آپریشن کیا گیا اور غالباً 17 روز کے بعد نیویارک منتقل کردیا گیا وہاں عافیہ صدیقی کا علاج کیا گیا سائکلوجیکل ٹریٹمنٹ کی گئی اور 2010 میں اسے عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا گیا عافیہ صدیقی نے گن اٹھا کر فائر کرنے کے الزام کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف پردے کے پیچھے دیکھنے کیلئے گئی تھی اور امریکی اہلکار نے اس پر فائرنگ کردی ان تمام جرائم کی وجہ سے اسے امریکہ میں اسے 86 سال قید کی سزا ہوئی

نائن الیون ہو یا پھر اس کے بعد ہونے والے دہشتگردی کے واقعات عام لوگوں کا خون چاھے پاکستان میں بہا یا امریکہ میں وہ غیرانسانی اور غیرمذہبی تھا نائن الیون کا واقعہ انتہائی دلخراش اور غیرانسانی تھا بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں ڈرون حملے اور افغانستان کی جنگ ایک غیرانسانی فعل تھا


عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان میں گرفتار کیا گیا جب وہ القاعدہ کے ساتھ مل کر امریکیوں کے خلاف کاروائی کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ جبکہ اس کے پاس امریکی شہریت بھی تھی  اسلیے اسکے ساتھ امریکی شہریوں جیسا ہی سلوک کیا گیا اور پروسیجر کو فالو کیا گیا

عافیہ صدیقی کے معاملے کو سب نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلئے استعمال کیا اسامہ کو مارنے کےلئے پاکستان کے اندر گھس کر امریکہ کی نام نہاد اور فیک کاروائی پہ مبارکباد دینے والے، یوسف رضا گیلانی نے امریکی آشیرباد سے ہی  اسے قوم کی بیٹی قرار دیا تھا۔ تاکہ دہشتگردی کا الزام پاکستان پہ آئے عافیہ امریکی شہری ہے امریکہ میں پلی پڑھی اور انہی کی مہان یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔