اِس مہنگائی کے دور میں سارے گریڈ 1 تا 14 کے پنشنرز پریشان ہیں ، کہ وہ کیسے اپنی باقی زندگی کو معاشی دلدل سے گھسیٹ کر نکالیں؟
تنگ دستی اور پریشانیوں کی اِس آزمائش میں وہ سوچتے ہیں کہ حکومت کیوں اُن کی طرف توجہ نہیں دیتی ، ملازمین کی تنخواہیں ہیں کہ وہ بڑھتی جارہی ہیں ، ممبرانِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے وظیفے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور وکالت کی پر پیچ گلیوں سے گذر کر ، انصاف کا ترازو سنبھالنے والی مسند پر بیٹھنے والے ۔ آئین کے آرٹیکل کا سہارا لے کر اپنی تنخواہیں ، الاؤنسز اور پنشن اتنی بڑھا چکے ہیں کہ گریڈ 1 کا ملازم ، مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے ۔
اِس کے علاوہ ڈالر کی بے تحاشا اونچائی اور پاکستانی روپے کی قیمت خرید میں کمی کی وجہ سے گریڈ 15 سے 19 تک کے پنشنرز بھی کمر تک مہنگائی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔ پے اینڈ پینشن کمیشن کی سفارشات سرخ فیتے کی نذر ہو چکی ہیں ۔ جس کے حق میں چیئرمین جناب انجنیئر بشیر احمد بلوچ اور میں نے پچھلے سال پنشن گریڈ کی چار کیٹیگریز کے لئے پنشن کے اضافے کی تجویز پیش کی تھی جس کے مطابق ۔
1- گریڈ 1 تا 11 ، 35 فیصد اضافہ
۔گریڈ 12 تا 16 ، 25 فیصد اضافہ2 ۔
۔ گریڈ 17 تا 19 ، 15 فیصد اضافہ 3۔
۔ گریڈ 20 سے اوپر ، 10 فیصد اضافہ 4۔
20 سال پہلے ریٹائر ہونے والے ،تمام ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے ۔ یہ کل اضافہ پورے وفاقی بجٹ میں صرف اعشاریہ 2 فیصد بنے گا ۔
یہ وہ ملازمین ہیں جنہوں نے دن رات حکومت میں رہ کر پاکستان کے عوام کی خدمت کی ، مہنگائی سے زیادہ بڑھاپے نے اُنہیں حکومت پاکستان کی حکومت سے امید لگانے پر مجبور کر دیا ہے ۔ پے اینڈ پنشن کمیشن میں گو کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی شامل تھے ۔ اُنہوں نے اپنی سفارشات میں جو منٹس بنائے اُن میں مدد کا ذکر کیا ۔ لیکن وہ سفارشات ابھی فائلوں میں سفر کر رہی تھیں ، لیکن اِس کے باوجود 10 فیصد پنشن کا اضافہ کرکے پنشنرز کے چند آنسووں کا مداوہ کیا ۔
پنشنرز کی بنیادی طور پر حکومت سے بس یہی ڈیمانڈ ہے کہ :
1۔ مہنگائی کے تناسب سے مندرجہ بالا سلیب کے مطابق پنشن بڑھائی جائے ۔
2۔ بڑھاپے میں انسان بیماریوں کے محدب عدسے کے نیچے آجاتا ہے ، ہسپتال جوانوں کی نسبت بوڑھوں سے بھرے رہتے ہیں ۔ جو میڈیکل الاؤنس کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں ۔ جس میں اضافہ نہایت ضروری ہے ۔
گو کہ پنشنرز کے بہت مسائل ہیں ، جس کے اگر حل پر واقعی ہمدردی سے غور کیا جائے تو وہ ملک کی ایک پرسکون شہری کی زندگی گذار سکتے ہیں ( میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد مرکزی صدر آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن )
جناب سید معراج صدر ٹوِن سٹی آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن نے پنشنرز کی مسائل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ جب ایک ملازم 50 سال کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ تو اُسے اپنے بچوں کی تعلیم کے بعد معاشی جدودجہد میں ہاتھ بٹانے کے لئے اُس عزت دار ملازمت دلوانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارے گریڈ 14 سے نیچے کے ملازم اپنی تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ، اپنے خاندان جس میں ماں باپ اور بہنیں شامل ہیں کے معاشی وسائل میں مدد مہیا کرنے کے لئے وہ اپنی بچوں کی تعلیم سے بے توجہی تعلیمی وسائل کے مہنگا ہونے کے علاوہ فیسوں کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ آٹھویں کلاس تک مدد کر سکتا ہے ۔ جس ادارے میں وہ ملازمت کرتا ہے وہاں ویلفیئر فنڈ ، صدقات اور زکوٰۃ سے مدد بھی کی جاتی ہے ۔جس سے بچوںکی تعلیم میں کچھ سپورٹ ملتے ہے ۔ یہاں میں حکومت کو درخواست کروں گا کہ وہ جس محکمے میں ملازم سروس کر رہا ہے اُس میں ملازمین کے بچوں کا کوٹہ رکھے ، جو لیبر ، نان سکلڈ ورکر اور سکلڈ ورکر کی کیٹیگری میں ہو جو بچہ بھرتی کے میعار پر پورا اترتا ہو ، اُسے لازمی ملازمت دینے میں اہمیت دی جائے ۔
تمام پنشنرز کو ہیلتھ کارڈ جاری کیا جائے جس کی بنیاد پر ، ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق وہ میڈیکل سٹور سے دوائیاں خریدے۔یہ طریقہ تمام فوجی ہسپتالوں میں ، تمام فوجیوں کے والدین اور ریٹائرڈ فوجیوں ، ریٹائرڈ آفیسروں اور ان کی بیویوں کے لئے مستعمل ہے ۔ اِس کے لئے ہسپتال میں منظور شدہ میڈیکل سٹور کی آؤٹ لیٹ کھولی گئی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں