لیکن اِس داستان کا آخری پیرا نہایت اہم ہے ۔ کیا ہم پاکستان کی بقاء کے لئے ، ٹوٹے ہوئے لوگوں کو نہیں جوڑ سکتے ؟
ذرا سوچئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج سے چار سو سال قبل کسی جاپانی رئیس کا قیمتی مرتبان ٹوٹ گیا، اس نے مرتبان کی کرچیاں اٹھا کر باہر پھینک دیں، وہاں سے بدھ بھکشو "کِن سوگی " گزر رہا تھا، اس نے کرچیاں دیکھیں، مسکرایا، کرچیاں اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈالیں اور آگے بڑھ گیا، بھکشو کی کلائی میں سونے کا ایک کڑا تھا، یہ اس کی واحد متاع تھی، وہ دوسرے گاؤں پہنچا، سنار کے پاس گیا اور اس کی دکان میں مفت کام کی پیش کش کر دی۔
سنار بہت خوش ہوا اور اُس نے بھکشو کو اپنی دکان کے لئے بابرکت سمجھتے ہوئے ، اسے رہائش اور مفت کھانے کے عوض اپنے پاس رکھ لیا۔
بھکشو نے سنار سے درخواست کی، میں سارا دن تمہارے پاس مفت کام کروں گا لیکن شام کے وقت اپنا سونے کا کڑا پگھلا کر اپنے مرتبان کی مرمت کروں گا۔
سنار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بھکشو
اب سارا دن سنار کا کام کرتا تھا اور شام کے وقت جب دکان بند ہو جاتی تھی
تو وہ اپنا کڑا پگھلا کر سونا نرم کرتا تھا اور سونے کی تار سے مرتبان کی
کرچیاں جوڑتا رہتا تھا۔
بھکشو نے مہینہ بھر کی محنت سے ٹوٹا ہوا
مرتبان جوڑ لیا۔مرتبان مکمل ہوگیا تو اس نے اسے صاف کرکے دکان کے شو کیس
میں سنار کو دکھا یا ۔ سنار بھکشو کی مہارت اور کاریگری سے حیران ہو گیا ۔ بھکشو نے اِسے کچھ دن کے لئے دکان کے شوکیس میں سڑک کی طرف رکھ دیا ۔ جس سے سنار کی دکان بھلی لگنے لگی ۔ سونے کی چمک کی وجہ سے مرتبان نمایاں اور خوبصورت دکھائی دیتا ، سڑک پر گذرنے والا شو کیس کی طرف دیکھتا اور بے اختیار رُک جاتا اور یوں وہ مرتبان چند دنوں
میں پورے علاقے میں مشہور ہوگیا اور مالدار لوگ اس کی منہ مانگی قیمت دینے کے لیے
تیار ہو گئے۔ مگر بھکشو نے اسے بیچنے سے انکار کر دیا۔اس کا کہنا تھا یہ
مرتبان کسی اور کی امانت ہے۔
مرتبان کی تعریف پھیلتے پھیلتے ، دوسرے علاقے کے،اس جاپانی رئیس تک بھی پہنچ گئی جو دراصل اس مرتبان کا مالک تھا، وہ بھی اس دکان پر پہنچ گیا۔اس نے اِس نے بھی خوبصورت مرتبان دیکھا، مگر وہ اسے پہچان نہ سکا کیوں کہ مرتبان کی ہیت تبدیل ہو چکہ تھی اور وہ پہلے والے مرتبا ن سے سونے کی تاروں سے اور مزیّن ہو چکا تھا ۔ اس نے منہ مانگی قیمت دے کر مرتبان خریدنے کا اعلان کر دیا۔
بھکشو نے نیلامی کا بندوبست کیا اور اگلے دن ، بولی شروع ہوئی ۔ مالداروں کے درمیان سبقت لینے پر مقابلہ شروع ہو گیا ۔ بولی بڑھتی رہی ، رئیس کی ہر بولی پہلی بولی سے اونچی ہوتی گئی ، یہاں تک کے علاقے کے رئیس ہار مانتے گئے اور آخرے بولی ، رئیس نے جیت لی ۔
رئیس نے فخر کے ساتھ مرتبان اٹھایا اور رقم دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔ تو بھکشو بولا
"حضور یہ مرتبان دراصل ہے ہی آپ کا اور میں آپ کی چیز کی قیمت آپ سے کیسے وصول کر سکتا ہوں؟ آپ اپنا مرتبان لیں اور میرے لیے بس دعا کر دیں"
رئیس نے حیرت سے پوچھا "کیا مطلب؟"
بھکشو نے ، ٹوٹے مرتبان کی کرچیاں باہر پھینکنے کا واقعی سناتے ہوئے کہا ۔" جب مرتبان کی کرچیاں میرے سامنے گریں ، تو میں اُس قیمتی مرتبان کی ٹوٹے جانے کے بعد بے وقعت ہونے پر افسردہ ہوا ۔میں نے سوچا کہ کیا یہ مرتبان دوبارہ اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے ؟؟
میں نے کرچیاں اٹھائیں اور لے کر اِس دکان پر آگیا ۔ اور اِس مرتبان کی خاطر میں نے دکان پر ملازمت شروع کر دی، اور اپنا فاضل وقت میں نے مرتبان کو دے دیا ۔ رات کو میں نے اپنا کڑا پگھلا کر تار بنائی اور اِسے جوڑنا شروع کیا ایک مہینے کی محنت کے بعد ، اِس کی وقعت پہلے سے بڑھ گئی ، سونے کی تاروں نے اس کے ٹکڑوں سے مل کر اِسے سب کی نظروں میں قیمتی بنا دیا اور یہ پیس آف آرٹ بن گیا " رئیس حیران رہ گیا۔
بھکشو کِن سوگی نے بتایا "ٹکڑے اشیاء کے ہوں یا انسانوں کے یہ جب جڑتے
ہیں تو یہ چیزوں اور انسانوں کو انمول بنا دیتے ہیں"۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جاپان میں لوگ ٹوٹے ہوئے برتنوں کو سونے سے جوڑ
کر پیس آف آرٹ بنا رہے ہیں، اِس فن کا بانی بھکشو کے نام پر کِن سوگی کہلاتا ہے ۔
جاپان میں کن سوگی کے عمل سے گزرنے کے بعد عام سے پیالے،
پلیٹیں، مگ اور گھڑے ملین ڈالر کا آرٹ پیس بن جاتے ہیں اور میوزیم میں رکھے
جاتے ہیں یا پھر لوگ انھیں اپنے گھروں میں سجاتے ہیں، یہ فن صرف اشیاء کی
"ری پیئرنگ" کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے ٹوٹے پھوٹے اور
تباہ حال انسانوں کو بھی جوڑ کر، رگڑ کر نیا اور مہنگا بنایا جاتا ہے،
جاپانی قوم خود بھی کن سوگی کا جیتا جاگتا شاہ کار ہے۔
دنیا میں آج تک ایٹم بم صرف دو بار استعمال ہوا اور امریکہ نے دونوں مرتبہ جاپان پر گرایا گیا، 6اگست 1945 کو ہیروشیما پر پہلا اور 9اگست کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرا۔ ان دو بموں نے پوری جاپانی قوم کو کرچی کرچی کر دیا لیکن آپ کن سوگی کا کمال دیکھیے، جاپانی قوم نے نہ صرف اپنی تمام کرچیاں جمع کرکے خود کو دوبارہ بنا لیا بلکہ یہ اپنے اصل سے زیادہ قیمتی بھی ہوگئی۔
جاپان کی آج کی 20 بڑی کمپنیاں خواہ یہ ٹویوٹا ہو، مٹسوبشی ہو،
ہونڈا ہو، آئی ٹوچو ہو، نپون ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ہو، مٹسوئی ہو، جاپان
پوسٹ ہولڈنگ ہو، ہٹاچی ہو، سونی ہو، انیوس ہولڈنگ ہو، ایون ہو، ماروبینی ہو
یا پیناسونک،یہ دوسری جنگ عظیم سے قبل دفاعی آلات،لڑاکا جہاز ، بم اورتوپیں بناتی
تھیں۔
ان کمپنیوں نے جنگ کے بعد اپنا کاروبار تبدیل کیا اور یہ چند
برسوں میں دنیا کی بڑی تجارتی اور صنعتی کمپنیاں بن گئیں، جنگ عظیم دوم سے
قبل جاپان کی فوج دنیا کی طاقتور اور خوف ناک فوج تھی، پسپائی ان کے سلیبس
میں شامل ہی نہیں تھی، یہ اگر جنگ میں ہار جاتے تھے تو یہ"ہارا کاری" ( خودکشی) کر لیتے
تھے مگر شکست کے داغ کے ساتھ گھر واپس نہیں آتے تھے۔
جاپان کے پاس شکست کے بعد دو آپشن
تھے، یہ لوگ باقی زندگی اپنے زخم چاٹ کر اور ماضی کی فتوحات کے ترانے گا گا
کر زندگی گزار دیتے یا پھر کن سوگی کے عمل سے گزر کر اپنی کرچیاں سمیٹتے
اور خود کو پہلے سے زیادہ قیمتی بنا لیتے، جاپانیوں نے دوسرا آپشن پسند کیا
اور یہ کن سوگی کے عمل سے گزرنے لگے۔
جاپان نے عاجزی اور
سادگی کو بھی اپنا آرٹ بنا لیا ہے، یہ جھک کر ملتے ہیں اور دوسروں کے سامنے
بچھ بچھ جاتے ہیں، ہاتھ ملانا بے ادبی سمجھتے ہیں چناں چہ بادشاہ ہو،
وزیراعظم ہو یا ہونڈا یا کرولا کمپنی کا مالک ہو وہ سینہ اور گردن جھکا کر
آپ سے ملے گا، پوری قوم کام کی عادی ہے۔
ٹائم مینیجمنٹ کوئی اِس قوم سے سیکھے ۔ لوگ لیٹ نہیں ہوتے، صبح 7 بجے کا مطلب ، 7 بجے ، ایک سیکنڈ بھی اوپر نہیں ۔
پوری زندگی ایک کمپنی یا ایک فیکٹری میں گزار دیں گے اور کبھی معاوضے میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے، دو یا حد تین مرلے کے گھر میں رہیں گے، ہر خالی جگہ پر پھول اور پودے اگائیں گے ۔ زندگی کی آخری سانس تک کام کریں گے۔
میرا مشورہ ہے آپ کوئی چیز نہیں ، انسان ہیں آپ جب
ٹوٹ جائیں تو آپ خود کو بے کار نہ سمجھیں، اپنی کرچیاں کچرا گھر میں نہ
گرنے دیں، آپ کسی جگہ بیٹھیں اور اپنے آپ کو حوصلے، ہمت اور برداشت کے سونے
سے جوڑنا شروع کر دیں۔
آپ نہ صرف دوبارہ مکمل ہو جائیں گے بلکہ آپ
پہلے سے ہزار گنا قیمتی بھی ہو جائیں گے اور پیس آف آرٹ بھی بن جائیں گے۔ "
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں