Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 31 مئی، 2020

31 مئی کی ڈائری ۔ ایتھوپیا - چم چم کی کرونا بغاوت-اور شیرٹن کی سیر

 پروگرام کے مطابق ، چم چم  ، بڑھیا اور بوڑھے کا  15 جون کو اسلام آباد واپسی کا پروگرام ہے ۔
لہذا  ،  چم چم  ، بڑھیا اور بوڑھے کو کرونا سے بچانے کے لئے ، چم چم کی ماما نے فیملی   کے اسلام آباد پہنچ کر ، تمام حفاظتی تدابیر کی  SOPs  بنائیں اور لیکچر دیا ۔ بوڑھے کا خیال تھا کہ وہ  تو   OSHA  کا ماہر ہے ۔ جبکہ یہ تربیت  بوڑھے کے بجائے  بڑھیا اور چم چم کو دی جائیں کیوں کہ ماسک پہننے سے بڑھیا کو سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور چم چم کی ناک پر کھجلیوں کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ 
بڑھیا کی عینک پر بھاپ جم جاتی ہے اور اُسے نظر آنا بند ہو جاتا ہے ۔
ربڑ کے دستانے پہننے سے چم اور بڑھیا دونوں کے ہاتھ پسینے سے بھر جاتے ہیں ، تو کیا کیا جائے ۔
جِس کا تجربہ ۔ ہیپی برتھ ڈے پارٹی ، چاند رات ہلا گلا اور  عید ملن پارٹی میں ہو چکا تھا - جس میں صرف گھر سے  اولمپیا ہاؤس ( عارف صاحب کا گھر)   آنے جانے کا 5 منٹ کا راستہ تھا ۔ 
عدیس ابابا سے اسلام آباد کا سفر وایا دبئی  ۔10 گھنٹوں کا ہے ، سوشل ڈسٹنسنگ نے یہ وقت اور زیادہ لمبا کردیا ہے ۔جس کو کم کرنا ممکن نہیں ۔
لہذا  آج  بروز 31 مئی بروز اتوار۔   کو  ، چم چم ، اُس کی ماما ، بوڑھا اور بڑھیا خود ساختہ لاک ڈاؤن سے آزادی پا کر باہر کچھ کھانے گئے ۔ تاکہ عدیس سے اسلام آباد تک کے سفر پر مکملSOPs پر عمل کیا جائے ۔
لہذا چار کا ٹولہ  ۔ گھر سے مکمل SOPsکے ساتھ باہر نکلے -
سڑکیں تقریباً خالی ، ہوٹل پہنچنے تک ، تمام بتائے گئے اصولوں پر عمل کیا گیا سوائے چم چم کے ۔
 14 مارچ اور اُس سے پہلے بھرا ہوٹل سنسان ۔ لابی سوئمنگ پول ایریا خالی ۔ 
تین ڈائینگ ہال پر تالے ۔ انٹرنس کے بعد موجود بار لاونج میں چند فیملیز ۔ 
ایک میز پر صرف تین افراد کے بیٹھنے کا قانون ۔

یوں لگتا کہ کرونا نہ ہوا ، کوئی آسیب ہے سارے شہر کو ویران کر گیا !
 اور چار کا ٹولہ ، شیرٹن میں  تنہا اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا  -


٭٭٭٭واپس ٭٭٭

شیرٹن ایتھوپیا کا سیلون اور ڈی ایچ اے کا سلون

شیرٹن ایتھوپیا کا سیلون اور ڈی ایچ اے کا سلون

ایتھوپیا میں چم چم  کی ماما نے کئی بار کہا ۔ پپا آپ سیلون جائیں گے ۔

نہیں ! بوڑھا بولا

پپا اچھا ہوتا ہے آپ کے جسم کی مالش ہو جائے۔ چم چم کی ماما بولی ۔مجھے برا لگتا ہے کہ میں اور ماما گھر پر مساج کروائیں اور آپ نائی سے بال کٹوائیں ۔

کروا لیں مالش جسم کھل جائے گا ۔ بڑھیا بولی

آوا ، وومن سے کروائیں گے یا مین سے ۔ چم چم نے پوچھا ۔

میں کسی سے نہیں کرواؤں گا ۔ بوڑھا بولا ۔

دراصل ہر 15 دن بعد ، اٹلی کی ایک خاتون گھر آتی اور تینوں ۔ بڑھیا ، چم چم ماما اور چم چم کی مالش کرکے جاتی ۔ 

بیٹی نے سوچا بوڑھا باپ کو بھی مالش کے مزے کروائے جائیں ۔ بوڑھا تو پاؤں میں درد ہو تو بڑھیا سے پاؤں دبوانے سے بھاگتا۔ تو کیسی مالش ، کہاں کہ مالش اور کس لئے مالش ۔

دن گذرتے گئے۔ 

تو اُفق کے پار بسنے والودوستو ۔ہوا یوں کہ مئی 2020 کی عید پر بڑھیا نے عدیس ابا میں بسنے والے پاکستانی فیملیز ، ورلڈ فوڈ پروگرام کے سٹا ف کو مختلف دنوں میں عید ملن پروگرام پر بلایا ، جس کی ابتدا چاند رات سے ہوئی ۔ 

کرونائی ماحول سے چھٹکارا پانے کا یہ بہترین موقع تھا ۔ 

سب کچھ ٹھیک ہوا لیکن غضب یہ ہوا کہ چم چم کی ماما کی ایک سہیلی نے بڑھیا ، چم چم کی ماما اور چم چم کے لئے شیرٹن مساج پارلر کے کوپن دیئے اور بوڑھے کو مساج پالر کے علاوہ سیلون کا بھی کوپن دیا ۔ 

مساج پارلر کا کوپن تو بڑھیا نے ہتھیا لیا اور بوڑھے کو اکسایا کہ شیرٹن میں جاکر بال کٹوئیں ۔

بیٹی نے شیرٹن میں اپنی مساج پارلر کی بکنگ کروائیں اور بوڑھے کی سیلون کی ۔ اِن کی ہفتے کی تھیں اور بوڑھے کی اتوار کی ۔ 

ویسے بھی ایتھوپین نائی سے مستفید ہوئے بوڑھے کو مہینہ ہوچکا تھا ۔ لہذا بوڑھے نے ہامی بھر لی ۔  

بوڑھا بلیو کیب میں سب کے ساتھ   31 مئی کو شیرٹن جا پہنچا ۔ سیلون میں 10 افرادکے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ریسیپشن پر بتایا کہ 11:30 پر بوڑھے کی باری ہے ۔ سب لاونج میں بیٹھ گئے ۔ چم چم کے لئے ناشتہ منگوایا گیا۔ بوڑھے نے انتظار میں کافی پی اور بڑھیا نے چائے ۔ چم چم کی ماما نےپودینے کا رس ۔ جس کو ئی مشکل نام تھا۔ 

خیر 11 ؛25 کو ایک نوجوان بوڑھے کے پاس آیا اور کہا کہ سر آپ مکمل کرونا ایس او پی کے ساتھ سیلون میں داخل ہوں گے ۔

بوڑھے نے واش روم جاکر ہاتھ دھوئے ۔ گرم ہوا سے خشک کئے ، ہاتھوں پر سینیٹائزر لگایا ۔ اور بڑھیا کے پاس آکر این -95 ماسک لیا۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ۔ اور یوں بوڑھا شیرٹن سیلون کے خلائی سفر کے لئے کسی خلاباز کی طرح تیار ہو کر روانہ ہونے لگا ۔ تو 

چم چم بولی ۔ آوا میں بھی چلوں گی ۔ 

مگر اُس کی ماما نے اُسے منع کردیا ۔ وہ منہ بسور کر بیٹھ گئی ۔

سیلون کے قبرستان کی خاموشی کے حد تک کے ماحول میں بوڑھا داخل ہوا ۔

                کل تین افراد سیلون میں بیٹھے تھے ۔ جن کے ساتھ ہیئر ڈریسر اُن کے ہیئر کی ڈریسنگ کر رہاتھا ۔ 

بوڑھے کو بھی ایک لیدرائیٹ کی کرسی کی طرف اشارہ کیا ، بوڑھا اُس میں جا کر دھنس گیا ۔

بوڑھے نے طائرانہ نظروں سے جائزہ لیا ۔نیم تاریکی کے ماحول میں ہیئر ڈریسنگ کروانے والوں کے سروں کے اوپر روشن  بلبوں نے افریقی گھنگھریالے بالوں میں چلتی ہوئی بے آوازمشینوں کی مدھم سرر سرر نے طلسماتی ماحول بنایا ہوا تھا۔

ایک ماہر ہیر  ڈریسر نے بھینی خوشبو میں بسا ہوا ایک رومال طشت میں رکھ کر پیش کیا ، بوڑھے نے وہ رومال منہ پر پھیرا۔ اور واپس کر دیا ۔ 

 بوڑھا ہیر سٹائل دیکھنے میں مگن ہو اور تصورات میں  ڈی ایچ اے ون کے ہیر ڈریسر سیلون میں جااترا ۔ 

نائی سے باربر، بابر سے گیسو تراش ۔ گیسو تراش سے ہیئر ڈریسر ، اور پھر دوبارہ فوجی نائی  سے 25 مزید سال بال کٹواتا ہوا بوڑھا  جب 20214 میں  ہیئر ڈریسر کے سیلون میں بڑھیا خواہش پر جااترا ۔ بوڑھے کے خیال میں سیلون میں جیب کٹوانے سے بہتر ہے کہ نائی سے بال کٹوائے جائیں ۔ 

کیوں کہ بڑھیا کو بوڑھے کے سولجر کٹ بال پسند ہیں ۔ جب بھی بوڑھے نے اپنے بال پھیلانے کی کوشش کی تو بوڑھے نے جھڑکا ، اگر میجر نعیم سے تعارف کروانا ہے تو بال بھی فوجی کٹوائیں یوں بوڑھا بچپن سے 60 سال کی عمر بلکہ اب بھی فوجی کٹ کے ساتھ پھرتا رہا سوائے  اُس ایک سالہ یادگار دور کے جب بوڑھا سر پر مکمل وحید مراد ، محمد علی اور ندیم ے سٹائل کے بال رکھتا تھا ۔

بوڑھے نے ایل سی ڈی پر مختلف بالوں سے مزیّن سر دیکھتے ہوئے ۔ معلوم ہے دوستو  کیا کیا ؟؟

ایک سر پر پیالہ رکھ کر کٹوائے ہوئے سولجر کے سپاہی کی تصویر پر انگلی رکھ دی ۔ ماہر گیسو تراش کا منہ کھل گیا ۔ 

سر دس ون،  اُس کی سرگوشی میں آواز سنائی دی ۔

یس۔ بوڑھے نے سرگوشی میں جواب دیا۔

جب ڈی ایچ اے کے سیلون میں بوھے کے سامنے کتاب کے ورق اُلٹے جارہے تھے تو ساری 24 صفحات پر مشتمل تصاویرکے بعد ، ماہر ہیئر ڈرسیر نے پوچھا  ۔ سر کون سا سٹائل ۔

بوڑھے نے کہا          ۔ آپ کی کتاب میں وہ نہیں ہے۔

سر کونسا ؟ نوجوان نے پوچھا ۔

سولجر کٹ ۔ بوڑھا بولا ۔

جی ، نوجوان تقریباً چلانے کی آوازیں بولا ۔

جی بوڑھے نے جواب دیا ۔

بوڑھا دونوں ہیئر ڈرسیر کے ہن میں اُٹھنے والےگرمی کے بگولوں سے واقف تھا ۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے  سوچ رہے ہوں گے ۔ 

کہ او گھٹیا بڈھے ۔ گاؤں کے نائی سے بال کٹواتا کٹواتا ، اب ہیئر ڈریسر کو ذلیل کرنے کے لئے ہیئرڈریسنگ سیلون کی کشنڈ کرسی پر بیٹھ کر بھی اپنی اوقات نہیں بھولا اور سولجر کٹ کٹوانے پر بضد ہے ۔ اِس تو توبہتر ہے کہ تیری گردن کاٹ دی جائے۔

ایتھوپیئن نائی نے تو اپنی تمام تر غلیظ سوچوں کے باوجود ۔ ایک بار مشین اورتین بار قینچی کی چک چک میں سولجر کٹ بوڑھے کے سر پر بسا دی ۔ لیکن ڈی ایچ کے ہیر ڈریسر نے اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

سر وہ بھی کوئی کٹ ہے ۔آپ اجازت دیں تو میں آپ کی ایسی خوبصورت ہیئر ڈریسنگ کر دوں گا کہ آپ بھی کیا یاد کریں گے ۔ہیر ڈریسر بولا۔

نوجوان کتنا آسان ہے ، دائیں کنپٹی سے مشین چلا اور بائیں کنپٹی پر لا کر روک دےاور جو بیچ کے بال رہ گئے اُن کی چھنٹائی کر دے ، کام ختم ، بوڑھا بولا۔

سر مجھے کرنے دیں ۔ پلیز ۔ نوجوان بولا  

نوجوان ۔ اجازت دی ۔ جب ناکام ہوجاؤ تو بس ایک کام کرنا ۔ بوڑھا بولا ۔

جی سر وہ کیا؟

استرا پھیر دینا۔ گھر کی کھیتی ہے ۔ دوبارہ اُگ جائے گی بوڑھا بولا ۔

ھک ھک ھک  ھو ھو ۔ سر جی آپ بہت مخولیئے ہیں۔ نوجوان ہنڈا ففٹی کی آواز میں ہچک ہچک کر بولا ۔

 نوجوان یہ درد ولیانا   نسخہءِ آؤٹ پُٹ آنا ہے ۔ جس سے بوڑھا عموماً فیض یاب ہوتا ہے ۔  بہر حال اپنی مہارت کے جوہر دکھاؤ ۔ اگر گڑبڑ ہوئی تو بڑھیا نے آکر حساب برابر کرنا ہے ، کہ اُس کے سر کے تاج کو بے تاج کر دیا ۔ 

جی سر جی سر ، نوجوان اپنے مستقبل کے ہولناک انجام کی آگاہی پر پریشان ہوگیا ۔

بوڑھے نے آنکھیں موندھ لیں۔

ایتھوپیئن ہیئر ڈریسر نے بوڑھے کے سر پر خوشبو دار پانی کا سپرے کیا۔ معلوم نہیں کون سی خوشبو تھی لیکن ذائقے میں ناک کو ڈیٹول ہی لگی ۔

سر تھوڑے سپائک بنا دوں ۔ نوجوان کی آواز آئی۔

ھنڈرڈ میٹر دوڑانا ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا۔ اب ہمت نہیں نوجوان ۔ 

بوڑھے نے انکھیوں کے جھروکوں سے دیکھا۔ دور مختلف بوتلیں پڑی نظر آئی۔ جن میں مختلف رنگوں سے سیال نظر آئے ۔ شاید یہ ھربل آئیل ہیں ۔

نوجوان ، وہ کیا ہے بوتلوں میں؟ بوڑھے نے اپنی معلوما ت میں اضافہ کرنا چاھا ۔

آپ پینا چاھتے ہیں؟ ایتھوپیئن نوجوان نے پوچھا ۔

    ارے واہ ، بوڑھے نے سوچا۔ جدید نائی کے ٹھیّے پر بھی انگور کی بیٹی براجمان ہے ؟ ۔ نو تھینک بوڑھے نے جواب دیا ۔ 

ہیر سیلون کے ڈریسر نے بوڑھے کے بالوں  کو ہاتھوں سے گھما پھرا کر جگانے کی کوشش شروع کردی ۔ شائد وہ ساکت برق کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن اُس نوجوان کو نہیں معلوم تھا کہ بوڑھے کی بجلیاں جامد ہو چکی ہیں بلکہ منجمندِ جنوبی بن چکی ہیں ۔ 

سر آپ کے بال بہت خشک ہیں ۔ میں سکا کئی کا شیمپو کر دوں ۔ نوجوان ایتھوپیئن  انگلش میں بولا۔بوڑھے کو معلوم تھا یہ پیکج کا حصہ ہے ۔

شیمپو کردو مگر کئی و کُدال  نہ پھیرنا زخم جلدی ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ بوڑھا بولا  

ھک ھک ھک  ھو ھو ۔ سر جی ۔بھل ترنگ آواز میں  نوجوان بولا سر 200 روپے لگیں گے ۔ 

لگا دو ، بوڑھا بولاجب اوکھلی میں سر دے دیا تو پھر روپوں کی دھمک سے کیا ڈرنا ؟

بوڑھے نے سر پیچھے کیا ۔ نوجوان نے ، بوڑھے کے بالوں کو خشکی سے تری کی طرف لے جانے کے عمل شروع کرنے سے پہلے پوچھا۔ سر پانی کا ٹمپریچر ٹھیک ہے ؟
نہیں تھوڑا گرم کرو ۔ کہ اِس سے پہلے ، سیلون کے ائر کنڈیشن ماحول میں ،بوڑھے کی ک کھانچھینک سے، سر ر سرر اور چکک چکک  کی لے میں  اونگھتے ہوئے ہڑبڑا کر آرام دہ کرسیوں سے چھلانگ مار کر باہر کا رُخ کریں کہ شائد کرونا کا ہوائی حملہ ہو چکا ہے۔ پانی کو اتنا گرم کردو کہ بوڑھا خود بھی آرام سے رہے ، اور دوسرے بھی ۔کیوں کہ بوڑھا نزلے کا 1991 سے شکار ہے ۔  

دوستو۔ کھن چھینک آپ کی لغت میں نئے لفظ کا اضافہ ہوگا ۔ یہ خالصتاً  اُفق کے پار سے، بوڑھے کی دریافت ہے ۔  جب چھینکیں مار مار کر بوڑھے کا بچپن میں برا حال ہوجاتا ، تو وہ چھینک ناک کے بجائے منہ سے نکالتا  ۔جو کھانسی اور چھینک کے سنگم پر گلے ملتی ہوئی بالائے بنفشی شعاؤں سے اوپر کی چیز ہوتی  ، چنانچہ چم چم کی  ہنسی اور بوڑھے کی کھانچھینک، ایف نائن پارک میکڈونڈ ہو ، ایتھوپیا کا شیرٹن یا بحریہ کا چائے خانہ۔ انجوائے کرنے والوں کو بوکھلا دیتی ہیں ۔     

سر سے گرنے والا پانی، لوہے کی سٹینڈ پر پڑے ، سیلف ہیلپ بنیاد پر بنائے گئے ایلو مینیئم کے تسلے میں پانی کی پائپ کے نیچے رکھی ہوئی پلاسٹک کی بالٹی  میں جانا شروع کیا۔ 

دونوں ہیئر ڈریسر سلیون کی آؤٹ پُٹ ایک تھی مگر طریقِ کا و سازو سامان مختلف ۔ یہاں تک کے سازو سامان کے حلقوم سے نکلنے والی آوازوں کا زیر وبم بھی  پوپ اور پاپ  آوازوں کی طرح تھا ۔ کانوں میں آنے والی سرر سرر کی آوازوںاور قینچی کی چک چکا چک چک کی تال کی گھمبیتا اور سریلتا ایک تھی ، جو پنجارے کی تک دھنا دھن دن، تک دھنا دھن دن کی لے میں، ای سی جی کی لکیروں کی مند تھرتھراہٹ لئے ہوئی ہوتی ۔ 

شیمپو کے بعد ، بالوں کو خشک کیا گیا اور گرم ہوا پھینکی  گئی ۔

نوجوان آپ نے بال تر کئے اور دوبارہ خشک کئے تو کیا پہلے وہ ٹھیک نہ تھے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

سر آپ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیریں ۔ نوجوان بولا ۔

بوڑھے نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وقت شاہد آفریدی کا تصور کیا ۔ لیکن بوڑھے کے بال لختے نہیں تھے بمشکل انگلی بھر تھے جو شائدانگوٹھے برابر ہو جائیں ۔ بوڑھے نے انگلیاں پھیریں بوڑھے کو بال ویسے ہی لگے جب نہاتے وقت دوسری بار دو صابون پرانے اور نئے  کو جوڑ کر اُن کی سنگت میں جھاگ بنا کر پانی سے دھویا جاتا۔

دوسو روپے جگاڑ گیا ، نوجوان شیمپو ۔ 

ارے دوستو کیا بتاؤں ۔ ذہن نے ماضی میں بیک سمر سالٹ لگائی اور 1977 میں سکول آف آرٹلری کے آفیسر میں میں چاچا شیمپو کے پاس جا پہنچا ، جو ہر نوجوان آفیسر کو اُس کے بالوں میں خشکی کی اندوھناک خبر بتاتا اور  پھر اپنا خالص ریٹھے ، ڈیٹوال اور نہ معلوم کن کن ھربل دوائیوں سے بنایا گیا گیا شیمپو بیچتا ۔ جن جن نوجوان آفیسروں نے چاچا شیمو کا خالص ھرب شیمو استعمال کیا ۔ بوڑھے کی عمر میں اب اُن کے سروں پر دائیں کان سے اُگنے والے بال بائین کا ن پر لٹکتے ہیں یہ اور بات کہ وہ سوئمنگ سر پر رومال باندھ کرکرتے ہیں ۔

سر آپ کو تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑے گا    جب تک سکا کئی آپ کے بالوں میں رچ نہ جائے ۔ ایتھوپیئن انگلش میں ہدایت ملی ۔

کیا سکا کائی مہندی کی چھوٹی بہن ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

جی سر ؟ نوجوان بولا ۔

کچھ نہیں بوڑھا بولا ۔اِس بے چارے ایتھوپیئن کا کیا معلوم مہندی کیا ہوتی ہے َ جو پورے عدیس ابابا میں صرف ایتھوپیئن  چنبیلی  (پڑھیں ) کی دکان سے ملتی ہے اور بڑھیاکے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کے کام آتی ہے۔

اب ہیر ڈریسنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے، دونوں نائی اپنے اپنے اوزاروں کے ساتھ بوڑھے کے سر تو تختہءِ مشق بنائیں گے ۔ جن کی حتمی پسندیدگی یا ناپسندیدگی بڑھیا کے سر ہوگی ۔ 

چنانچہ بوڑھا کرسی سے اُٹھا  اور لاونج میں جاپہنچا ۔دونوں  خواتین  اور چم چم ابھی تک نہیں آئیں تھیں ۔ بوڑھا ایک کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا اور وٹس ایپ پر دوستوں کے پیغامات کے جوابات دینے اور اپنے پیغامات دینے میں مصروف ہو گیا سب سے پہلے ، چم چم کی ماما آئی ۔ وہ کوئی نوٹس لئے بغیراپنی کرسی پر بیٹھ گئی ۔پپا کافی پی لیں ؟

ضرور بوڑھا بولا۔

کافی کی چسکیاں لیتے وقت وہ بولی ۔ پپا   سیلون میں انجوائے کیا     ۔

پانی تک نہیں پیا ۔ بوڑھا بولا ۔ 

بال اچھے کٹے ہیں وہ بولی ۔ 

اتنے میں بڑھیا آئی ۔اور بیٹھتے ہی بولی ۔

سچ نعیم اتنا مزا آیا ۔وہ جومساج کرنے والی گھر پر آتی ہے وہ یہاں بھی کام کرتی ہے میں نے اُسی سے مساج کروایا ۔آپ بھی مردوں کے سیکشن میں کروا لیتے۔ سچ سار ی تھکن دور ہو جاتی ۔

کوئی خاتون مساج کرتی تو میں سوچتا بھی ۔ میں نے شرلی چھوڑی ۔

کیا؟ میں اُس کے ہاتھ نہ توڑ ڈالتی ۔ بڑھیاالفاظ چبا کر بولی ۔

ما ما ، ماما ، آپ پپا کو نہیں  جانتیں ؟ چم چم کی ماما بولی ۔ 

یہ چڑاتے کیوں ہیں ؟بڑھیا بولی۔

آوا آپ نے ہیر کٹ کروالی۔ چم چم نے  پوچھا ۔ سیلون کیسا تھا ؟ 

آپ نے بال کٹوا لیئے ۔ بڑھیا نے پوچھا یا کرونا کی وجہ سے اُنہوں نے سیلون پھر بند کردیا بڑھیا بولی ۔

اُنہوں نے بس صفائی کے کپڑے سے جھاڑ پونچھ کر کہا ، بابا جی بس جاؤ زیادہ  ہیرو بننے کی ضرورت  نہیں ہے ۔آپ ولن ہی اچھے لگتے ہو ؟بوڑھے نے کہا ۔

کیوں ؟ بڑھیا نے پوچھا ۔ ولن کیوں ؟

تاکہ یہاں بسنے کا پروگرام تکمیل کو نہ پہنچے ۔ بوڑھا بولا ۔

میں نے پوچھا بال کٹ گئے ہیں ، بڑھیا بولی

نائی نے تو یہی کہا ۔ باقی کیا کہوں ، بوڑھا بولا ۔

بس اتنے سے بال کاٹنے کے 700 روپے؟؟ بڑھیا چلائی ، آپ کو بس پیسے پھینکا آتا ہے ۔ 

بھئی تم ہی نے تو کہا تھا ۔ کہ اب نائی کے بجائے ھیئر ڈریسر سے بال کٹوایا کریں ۔ بڑھیا بولی ۔ بُرا لگتا ہے یہ کہنا کہ میجر صاحب ، نائی کے پاس بال کٹوانے گئے ہیں ۔

آہ بیگم پھٹے پر بٹھا کر یا سیلون کی جہازی کرسی پر بیٹھ کر سر پر اوزاروں کی دھماچوکڑی  کا حتمی نتیجہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔لہذا ٹنکی کے نیچے 100 روپے میں حجامت بنانے والا ہو یا سیکٹر سی میں پلازے میں بیٹھ کر 700 روپے میں بال گرانے والا ہیر ڈریسر سب کلائنٹل کا حجامت بناتا ہے ۔ 

سستی یا مہنگی  سولجر کٹ ۔

مزید  پڑھیں:۔

٭۔ نائی چاچا سے گیسو تراش کا سفر

٭۔ایتھوپیا کا نائی

کروا لیں مالش جسم کھل جائے گا ۔ بڑھیا بولی

آوا ، وومن سے کروائیں گے یا مین سے ۔ چم چم نے پوچھا ۔

میں کسی سے نہیں کرواؤں گا ۔ بوڑھا بولا ۔

دراصل ہر 15 دن بعد ، اٹلی کی ایک خاتون گھر آتی اور تینوں ۔ بڑھیا ، چم چم ماما اور چم چم کی مالش کرکے جاتی ۔ 

بیٹی نے سوچا بوڑھا باپ کو بھی مالش کے مزے کروائے جائیں ۔ بوڑھا تو پاؤں میں درد ہو تو بڑھیا سے پاؤں دبوانے سے بھاگتا۔ تو کیسی مالش ، کہاں کہ مالش اور کس لئے مالش ۔

دن گذرتے گئے۔ 

تو اُفق کے پار بسنے والودوستو ۔ہوا یوں کہ مئی 2020 کی عید پر بڑھیا نے عدیس ابا میں بسنے والے پاکستانی فیملیز ، ورلڈ فوڈ پروگرام کے سٹا ف کو مختلف دنوں میں عید ملن پروگرام پر بلایا ، جس کی ابتدا چاند رات سے ہوئی ۔ 

کرونائی ماحول سے چھٹکارا پانے کا یہ بہترین موقع تھا ۔ 

سب کچھ ٹھیک ہوا لیکن غضب یہ ہوا کہ چم چم کی ماما کی ایک سہیلی نے بڑھیا ، چم چم کی ماما اور چم چم کے لئے شیرٹن مساج پارلر کے کوپن دیئے اور بوڑھے کو مساج پالر کے علاوہ سیلون کا بھی کوپن دیا ۔ 

مساج پارلر کا کوپن تو بڑھیا نے ہتھیا لیا اور بوڑھے کو اکسایا کہ شیرٹن میں جاکر بال کٹوئیں ۔

بیٹی نے شیرٹن میں اپنی مساج پارلر کی بکنگ کروائیں اور بوڑھے کی سیلون کی ۔ اِن کی ہفتے کی تھیں اور بوڑھے کی اتوار کی ۔ 

ویسے بھی ایتھوپین نائی سے مستفید ہوئے بوڑھے کو مہینہ ہوچکا تھا ۔ لہذا بوڑھے نے ہامی بھر لی ۔  

بوڑھا بلیو کیب میں سب کے ساتھ   31 مئی کو شیرٹن جا پہنچا ۔ سیلون میں 10 افرادکے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ریسیپشن پر بتایا کہ 11:30 پر بوڑھے کی باری ہے ۔ سب لاونج میں بیٹھ گئے ۔ چم چم کے لئے ناشتہ منگوایا گیا۔ بوڑھے نے انتظار میں کافی پی اور بڑھیا نے چائے ۔ چم چم کی ماما نےپودینے کا رس ۔ جس کو ئی مشکل نام تھا۔ 

خیر 11 ؛25 کو ایک نوجوان بوڑھے کے پاس آیا اور کہا کہ سر آپ مکمل کرونا ایس او پی کے ساتھ سیلون میں داخل ہوں گے ۔

بوڑھے نے واش روم جاکر ہاتھ دھوئے ۔ گرم ہوا سے خشک کئے ، ہاتھوں پر سینیٹائزر لگایا ۔ اور بڑھیا کے پاس آکر این -95 ماسک لیا۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ۔ اور یوں بوڑھا شیرٹن سیلون کے خلائی سفر کے لئے کسی خلاباز کی طرح تیار ہو کر روانہ ہونے لگا ۔ تو 

چم چم بولی ۔ آوا میں بھی چلوں گی ۔ 

مگر اُس کی ماما نے اُسے منع کردیا ۔ وہ منہ بسور کر بیٹھ گئی ۔

سیلون کے قبرستان کی خاموشی کے حد تک کے ماحول میں بوڑھا داخل ہوا ۔                کل تین افراد سیلون میں بیٹھے تھے ۔ جن کے ساتھ ہیئر ڈریسر اُن کے ہیئر کی ڈریسنگ کر رہاتھا ۔ 

بوڑھے کو بھی ایک لیدرائیٹ کی کرسی کی طرف اشارہ کیا ، بوڑھا اُس میں جا کر دھنس گیا ۔

بوڑھے نے طائرانہ نظروں سے جائزہ لیا ۔نیم تاریکی کے ماحول میں ہیئر ڈریسنگ کروانے والوں کے سروں کے اوپر روشن  بلبوں نے افریقی گھنگھریالے بالوں میں چلتی ہوئی بے آوازمشینوں کی مدھم سرر سرر نے طلسماتی ماحول بنایا ہوا تھا۔

ایک ماہر ہیر  ڈریسر نے بھینی خوشبو میں بسا ہوا ایک رومال طشت میں رکھ کر پیش کیا ، بوڑھے نے وہ رومال منہ پر پھیرا۔ اور واپس کر دیا ۔ 

سے

 بوڑھا ہیر سٹائل دیکھنے میں مگن ہو اور تصورات میں  ڈی ایچ اے ون کے ہیر ڈریسر سیلون میں جااترا ۔ 

نائی سے باربر، بابر سے گیسو تراش ۔ گیسو تراش سے ہیئر ڈریسر ، اور پھر دوبارہ فوجی نائی  سے 25 مزید سال بال کٹواتا ہوا بوڑھا  جب 20214 میں  ہیئر ڈریسر کے سیلون میں بڑھیا خواہش پر جااترا ۔ بوڑھے کے خیال میں سیلون میں جیب کٹوانے سے بہتر ہے کہ نائی سے بال کٹوائے جائیں ۔ 

کیوں کہ بڑھیا کو بوڑھے کے سولجر کٹ بال پسند ہیں ۔ جب بھی بوڑھے نے اپنے بال پھیلانے کی کوشش کی تو بوڑھے نے جھڑکا ، اگر میجر نعیم سے تعارف کروانا ہے تو بال بھی فوجی کٹوائیں یوں بوڑھا بچپن سے 60 سال کی عمر بلکہ اب بھی فوجی کٹ کے ساتھ پھرتا رہا سوائے  اُس ایک سالہ یادگار دور کے جب بوڑھا سر پر مکمل وحید مراد ، محمد علی اور ندیم ے سٹائل کے بال رکھتا تھا ۔

بوڑھے نے ایل سی ڈی پر مختلف بالوں سے مزیّن سر دیکھتے ہوئے ۔ معلوم ہے دوستو  کیا کیا ؟؟

ایک سر پر پیالہ رکھ کر کٹوائے ہوئے سولجر کے سپاہی کی تصویر پر انگلی رکھ دی ۔ ماہر گیسو تراش کا منہ کھل گیا ۔ 

سر دس ون،  اُس کی سرگوشی میں آواز سنائی دی ۔

یس۔ بوڑھے نے سرگوشی میں جواب دیا۔

جب ڈی ایچ اے کے سیلون میں بوھے کے سامنے کتاب کے ورق اُلٹے جارہے تھے تو ساری 24 صفحات پر مشتمل تصاویرکے بعد ، ماہر ہیئر ڈرسیر نے پوچھا  ۔ سر کون سا سٹائل ۔

بوڑھے نے کہا          ۔ آپ کی کتاب میں وہ نہیں ہے۔

سر کونسا ؟ نوجوان نے پوچھا ۔

سولجر کٹ ۔ بوڑھا بولا ۔

جی ، نوجوان تقریباً چلانے کی آوازیں بولا ۔

جی بوڑھے نے جواب دیا ۔

بوڑھا دونوں ہیئر ڈرسیر کے ہن میں اُٹھنے والےگرمی کے بگولوں سے واقف تھا ۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے  سوچ رہے ہوں گے ۔ 

کہ او گھٹیا بڈھے ۔ گاؤں کے نائی سے بال کٹواتا کٹواتا ، اب ہیئر ڈریسر کو ذلیل کرنے کے لئے ہیئرڈریسنگ سیلون کی کشنڈ کرسی پر بیٹھ کر بھی اپنی اوقات نہیں بھولا اور سولجر کٹ کٹوانے پر بضد ہے ۔ اِس تو توبہتر ہے کہ تیری گردن کاٹ دی جائے۔

ایتھوپیئن نائی نے تو اپنی تمام تر غلیظ سوچوں کے باوجود ۔ ایک بار مشین اورتین بار قینچی کی چک چک میں سولجر کٹ بوڑھے کے سر پر بسا دی ۔ لیکن ڈی ایچ کے ہیر ڈریسر نے اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

سر وہ بھی کوئی کٹ ہے ۔آپ اجازت دیں تو میں آپ کی ایسی خوبصورت ہیئر ڈریسنگ کر دوں گا کہ آپ بھی کیا یاد کریں گے ۔ہیر ڈریسر بولا۔

نوجوان کتنا آسان ہے ، دائیں کنپٹی سے مشین چلا اور بائیں کنپٹی پر لا کر روک دےاور جو بیچ کے بال رہ گئے اُن کی چھنٹائی کر دے ، کام ختم ، بوڑھا بولا۔

سر مجھے کرنے دیں ۔ پلیز ۔ نوجوان بولا  

نوجوان ۔ اجازت دی ۔ جب ناکام ہوجاؤ تو بس ایک کام کرنا ۔ بوڑھا بولا ۔

جی سر وہ کیا؟

استرا پھیر دینا۔ گھر کی کھیتی ہے ۔ دوبارہ اُگ جائے گی بوڑھا بولا ۔

ھک ھک ھک  ھو ھو ۔ سر جی آپ بہت مخولیئے ہیں۔ نوجوان ہنڈا ففٹی کی آواز میں ہچک ہچک کر بولا ۔

 نوجوان یہ درد ولیانا   نسخہءِ آؤٹ پُٹ آنا ہے ۔ جس سے بوڑھا عموماً فیض یاب ہوتا ہے ۔  بہر حال اپنی مہارت کے جوہر دکھاؤ ۔ اگر گڑبڑ ہوئی تو بڑھیا نے آکر حساب برابر کرنا ہے ، کہ اُس کے سر کے تاج کو بے تاج کر دیا ۔ 

جی سر جی سر ، نوجوان اپنے مستقبل کے ہولناک انجام کی آگاہی پر پریشان ہوگیا ۔

بوڑھے نے آنکھیں موندھ لیں۔

ایتھوپیئن ہیئر ڈریسر نے بوڑھے کے سر پر خوشبو دار پانی کا سپرے کیا۔ معلوم نہیں کون سی خوشبو تھی لیکن ذائقے میں ناک کو ڈیٹول ہی لگی ۔

سر تھوڑے سپائک بنا دوں ۔ نوجوان کی آواز آئی۔

ھنڈرڈ میٹر دوڑانا ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا۔ اب ہمت نہیں نوجوان ۔ 

بوڑھے نے انکھیوں کے جھروکوں سے دیکھا۔ دور مختلف بوتلیں پڑی نظر آئی۔ جن میں مختلف رنگوں سے سیال نظر آئے ۔ شاید یہ ھربل آئیل ہیں ۔

نوجوان ، وہ کیا ہے بوتلوں میں؟ بوڑھے نے اپنی معلوما ت میں اضافہ کرنا چاھا ۔

آپ پینا چاھتے ہیں؟ ایتھوپیئن نوجوان نے پوچھا ۔

    ارے واہ ، بوڑھے نے سوچا۔ جدید نائی کے ٹھیّے پر بھی انگور کی بیٹی براجمان ہے ؟ ۔ نو تھینک بوڑھے نے جواب دیا ۔ 

ہیر سیلون کے ڈریسر نے بوڑھے کے بالوں  کو ہاتھوں سے گھما پھرا کر جگانے کی کوشش شروع کردی ۔ شائد وہ ساکت برق کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن اُس نوجوان کو نہیں معلوم تھا کہ بوڑھے کی بجلیاں جامد ہو چکی ہیں بلکہ منجمندِ جنوبی بن چکی ہیں ۔ 

سر آپ کے بال بہت خشک ہیں ۔ میں سکا کئی کا شیمپو کر دوں ۔ نوجوان ایتھوپیئن  انگلش میں بولا۔بوڑھے کو معلوم تھا یہ پیکج کا حصہ ہے ۔

شیمپو کردو مگر کئی و کُدال  نہ پھیرنا زخم جلدی ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ بوڑھا بولا  

ھک ھک ھک  ھو ھو ۔ سر جی ۔بھل ترنگ آواز میں  نوجوان بولا سر 200 روپے لگیں گے ۔ 

لگا دو ، بوڑھا بولاجب اوکھلی میں سر دے دیا تو پھر روپوں کی دھمک سے کیا ڈرنا ؟

بوڑھے نے سر پیچھے کیا ۔ نوجوان نے ، بوڑھے کے بالوں کو خشکی سے تری کی طرف لے جانے کے عمل شروع کرنے سے پہلے پوچھا۔ سر پانی کا ٹمپریچر ٹھیک ہے ؟
نہیں تھوڑا گرم کرو ۔ کہ اِس سے پہلے ، سیلون کے ائر کنڈیشن ماحول میں ،بوڑھے کی ک
کھانچھینک سے، سر ر سرر اور چکک چکک  کی لے میں  اونگھتے ہوئے ہڑبڑا کر آرام دہ کرسیوں سے چھلانگ مار کر باہر کا رُخ کریں کہ شائد کرونا کا ہوائی حملہ ہو چکا ہے۔ پانی کو اتنا گرم کردو کہ بوڑھا خود بھی آرام سے رہے ، اور دوسرے بھی ۔کیوں کہ بوڑھا نزلے کا 1991 سے شکار ہے ۔  

دوستو۔ کھن چھینک آپ کی لغت میں نئے لفظ کا اضافہ ہوگا ۔ یہ خالصتاً  اُفق کے پار سے، بوڑھے کی دریافت ہے ۔  جب چھینکیں مار مار کر بوڑھے کا بچپن میں برا حال ہوجاتا ، تو وہ چھینک ناک کے بجائے منہ سے نکالتا  ۔جو کھانسی اور چھینک کے سنگم پر گلے ملتی ہوئی بالائے بنفشی شعاؤں سے اوپر کی چیز ہوتی  ، چنانچہ چم چم کی  ہنسی اور بوڑھے کی کھانچھینک، ایف نائن پارک میکڈونڈ ہو ، ایتھوپیا کا شیرٹن یا بحریہ کا چائے خانہ۔ انجوائے کرنے والوں کو بوکھلا دیتی ہیں ۔     

سر سے گرنے والا پانی، لوہے کی سٹینڈ پر پڑے ، سیلف ہیلپ بنیاد پر بنائے گئے ایلو مینیئم کے تسلے میں پانی کی پائپ کے نیچے رکھی ہوئی پلاسٹک کی بالٹی  میں جانا شروع کیا۔ 

دونوں ہیئر ڈریسر سلیون کی آؤٹ پُٹ ایک تھی مگر طریقِ کا و سازو سامان مختلف ۔ یہاں تک کے سازو سامان کے حلقوم سے نکلنے والی آوازوں کا زیر وبم بھی  پوپ اور پاپ  آوازوں کی طرح تھا ۔ کانوں میں آنے والی سرر سرر کی آوازوںاور قینچی کی چک چکا چک چک کی تال کی گھمبیتا اور سریلتا ایک تھی ، جو پنجارے کی تک دھنا دھن دن، تک دھنا دھن دن کی لے میں، ای سی جی کی لکیروں کی مند تھرتھراہٹ لئے ہوئی ہوتی ۔ 

شیمپو کے بعد ، بالوں کو خشک کیا گیا اور گرم ہوا پھینکی  گئی ۔

نوجوان آپ نے بال تر کئے اور دوبارہ خشک کئے تو کیا پہلے وہ ٹھیک نہ تھے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

سر آپ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیریں ۔ نوجوان بولا ۔

بوڑھے نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وقت شاہد آفریدی کا تصور کیا ۔ لیکن بوڑھے کے بال لختے نہیں تھے بمشکل انگلی بھر تھے جو شائدانگوٹھے برابر ہو جائیں ۔ بوڑھے نے انگلیاں پھیریں بوڑھے کو بال ویسے ہی لگے جب نہاتے وقت دوسری بار دو صابون پرانے اور نئے  کو جوڑ کر اُن کی سنگت میں جھاگ بنا کر پانی سے دھویا جاتا۔

دوسو روپے جگاڑ گیا ، نوجوان شیمپو ۔ 

ارے دوستو کیا بتاؤں ۔ ذہن نے ماضی میں بیک سمر سالٹ لگائی اور 1977 میں سکول آف آرٹلری کے آفیسر میں میں چاچا شیمپو کے پاس جا پہنچا ، جو ہر نوجوان آفیسر کو اُس کے بالوں میں خشکی کی اندوھناک خبر بتاتا اور  پھر اپنا خالص ریٹھے ، ڈیٹوال اور نہ معلوم کن کن ھربل دوائیوں سے بنایا گیا گیا شیمپو بیچتا ۔ جن جن نوجوان آفیسروں نے چاچا شیمو کا خالص ھرب شیمو استعمال کیا ۔ بوڑھے کی عمر میں اب اُن کے سروں پر دائیں کان سے اُگنے والے بال بائین کا ن پر لٹکتے ہیں یہ اور بات کہ وہ سوئمنگ سر پر رومال باندھ کرکرتے ہیں ۔

سر آپ کو تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑے گا    جب تک سکا کئی آپ کے بالوں میں رچ نہ جائے ۔ ایتھوپیئن انگلش میں ہدایت ملی ۔

کیا سکا کائی مہندی کی چھوٹی بہن ہے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

جی سر ؟ نوجوان بولا ۔

کچھ نہیں بوڑھا بولا ۔اِس بے چارے ایتھوپیئن کا کیا معلوم مہندی کیا ہوتی ہے َ جو پورے عدیس ابابا میں صرف ایتھوپیئن  چنبیلی  (پڑھیں ) کی دکان سے ملتی ہے اور بڑھیاکے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کے کام آتی ہے۔

اب ہیر ڈریسنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے، دونوں نائی اپنے اپنے اوزاروں کے ساتھ بوڑھے کے سر تو تختہءِ مشق بنائیں گے ۔ جن کی حتمی پسندیدگی یا ناپسندیدگی بڑھیا کے سر ہوگی ۔ 

چنانچہ بوڑھا کرسی سے اُٹھا  اور لاونج میں جاپہنچا ۔دونوں  خواتین  اور چم چم ابھی تک نہیں آئیں تھیں ۔ بوڑھا ایک کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا اور وٹس ایپ پر دوستوں کے پیغامات کے جوابات دینے اور اپنے پیغامات دینے میں مصروف ہو گیا سب سے پہلے ، چم چم کی ماما آئی ۔ وہ کوئی نوٹس لئے بغیراپنی کرسی پر بیٹھ گئی ۔پپا کافی پی لیں ؟

ضرور بوڑھا بولا۔

کافی کی چسکیاں لیتے وقت وہ بولی ۔ پپا   سیلون میں انجوائے کیا     ۔

پانی تک نہیں پیا ۔ بوڑھا بولا ۔ 

بال اچھے کٹے ہیں وہ بولی ۔ 

اتنے میں بڑھیا آئی ۔اور بیٹھتے ہی بولی ۔

سچ نعیم اتنا مزا آیا ۔وہ جومساج کرنے والی گھر پر آتی ہے وہ یہاں بھی کام کرتی ہے میں نے اُسی سے مساج کروایا ۔آپ بھی مردوں کے سیکشن میں کروا لیتے۔ سچ سار ی تھکن دور ہو جاتی ۔

کوئی خاتون مساج کرتی تو میں سوچتا بھی ۔ میں نے شرلی چھوڑی ۔

کیا؟ میں اُس کے ہاتھ نہ توڑ ڈالتی ۔ بڑھیاالفاظ چبا کر بولی ۔

ما ما ، ماما ، آپ پپا کو نہیں  جانتیں ؟ چم چم کی ماما بولی ۔ 

یہ چڑاتے کیوں ہیں ؟بڑھیا بولی۔

آوا آپ نے ہیر کٹ کروالی۔ چم چم نے  پوچھا ۔ سیلون کیسا تھا ؟ 

آپ نے بال کٹوا لیئے ۔ بڑھیا نے پوچھا یا کرونا کی وجہ سے اُنہوں نے سیلون پھر بند کردیا بڑھیا بولی ۔

اُنہوں نے بس صفائی کے کپڑے سے جھاڑ پونچھ کر کہا ، بابا جی بس جاؤ زیادہ  ہیرو بننے کی ضرورت  نہیں ہے ۔آپ ولن ہی اچھے لگتے ہو ؟بوڑھے نے کہا ۔

کیوں ؟ بڑھیا نے پوچھا ۔ ولن کیوں ؟

تاکہ یہاں بسنے کا پروگرام تکمیل کو نہ پہنچے ۔ بوڑھا بولا ۔

میں نے پوچھا بال کٹ گئے ہیں ، بڑھیا بولی 

نائی نے تو یہی کہا ۔ باقی کیا کہوں ، بوڑھا بولا ۔

بس اتنے سے بال کاٹنے کے 700 روپے؟؟ بڑھیا چلائی ، آپ کو بس پیسے پھینکا آتا ہے ۔ 

بھئی تم ہی نے تو کہا تھا ۔ کہ اب نائی کے بجائے ھیئر ڈریسر سے بال کٹوایا کریں ۔ بڑھیا بولی ۔ بُرا لگتا ہے یہ کہنا کہ میجر صاحب ، نائی کے پاس بال کٹوانے گئے ہیں ۔ 

آہ بیگم پھٹے پر بٹھا کر یا  سیلون کی جہازی کرسی پر بیٹھ کر سر پر اوزاروں کی دھماچوکڑی  کا حتمی نتیجہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔لہذا ٹنکی کے نیچے 100 روپے میں حجامت بنانے والا ہو یا سیکٹر سی میں پلازے میں بیٹھ کر 700 روپے میں بال گرانے والا ہیر ڈریسر      سب کا کلائنٹل حجامت بنواتا ہے ۔ 

سستی یا مہنگی  سولجر کٹ ۔

 ٭٭٭٭٭٭

مزید  پڑھیں:۔

٭۔ نائی چاچا سے گیسو تراش کا سفر

٭۔ایتھوپیا کا نائی

٭٭٭٭واپس ٭٭٭  

  

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔