آصف اکبر رنگ مزاح (نثر)
---------------------------
٭٭٭٭٭پرسنل مرزا٭٭٭٭٭
---------------------------
(یہ مضمون بزم مناثرہ، عرف شگفتو کی 9 مئی، 2020 کو آن لائن منعقد ہونے والی 21ویں مزاحیہ نثر کی محفل میں پیش کیا گیا۔)
-------------------
تحریر : آصف اکبر
-------------------
ہائے وہ بھی کیا دن ہوتے تھے جب ہر لکھنے والے کا، خصوصاً مزاح نگاروں کا، اپنا ایک مرزا ہوتا تھا، خواہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کا مرزا ظاہردار بیگ ہو، یا پطرس بخاری کا سائیکل فروش مرزا، یا مشتاق احمد یوسفی کا مرزا عبد الودود بیگ۔ اور فرحت اللہ بیگ تو خود مسلّم مرزا۔
اور کیا بات ہوتی تھی ان مرزاؤں کی بھی۔ ہر بات بالکل ویسے ہی کرتے اور کہتے تھے، جیسے لکھنے والا چاہتا تھا۔ ایک دم نستعلیق، نفیس، حاضر جواب اور مزاج آشنا۔ بقول حالی ،جہاں کر دیا گرم، گرما گئے وہ، اور بقول ہمارے، جہاں آ گئی شرم، شرما گئے وہ۔
اور یہ سامنے کی بات ہے کہ ایسے مرزا ، مفلوک الحال لکھنے والوں کے ہتّھے ، مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد ہی چڑھے، ورنہ جب تک حکومت تھی تو مرزا بھی جانِ جاناں اور خانِ خاناں جیسے ہوتے تھے، اور گئے گزرے وقتوں میں بھی مرزا غالب جیسے، جو شیفتہ جیسے نوابوں کو اردل میں رکھتے تھے۔
عرصے تک ہم اس بات پر غور کرتے رہے کہ ہمارے ایک ناکام مزاح نویس ہونے کا راز کیا ہے۔ جہاں تک بات سے بات پیدا کرنے کا تعلّق ہے ہم کسی سے کم نہیں رائی کا پہاڑ بنانے میں ید طول طویلا رکھتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھار تو، اور یہ 'کبھی کبھار ' کا استعارہ تو ازراہِ نفسا نفسی استعمال کر لیا ہے، حقیقتاً تو اکثر ہی بغیر کسی بات کے بھی بات بڑھا لیتے ہیں۔ تو ثابت ہواکہ ہماری قابلِ ذکر ناکامی کا راز یہ نہیں۔
پھر ہم نے سوچا کہ شاید ہماری شکل مزاح نگاروں جیسی نہیں۔ یہ بات ہمارے دل میں گھر کر گئی کہ اغلباً ہماری ناکامی کا راز ہمارا قبول صورت ہونا ہی ہے۔ اس احساس کے جاگزیں ہوتے ہی ہماری راتوں کی نیند اڑ گئی، اور ہم دن میں آٹھ نو گھنٹے سونے لگے۔ اب رات کو کیا کریں۔ کسی کو فون کرنا بھی مشکل۔ کیا پتا کس کا شوہر برافروختہ ہو جائے۔ ویسے ہمارے پاس فون نمبر ہی کسی کا نہیں ہوتا۔ جب فون کرنا بہت ضروری ہو جائے تو ہم کسی قریبی فرد سے کہتے ہیں کہ بھائی کسی کا فون نمبر تو دو۔ اور اکثر تو مولانا طارق جمیل جیسے کسی شخص سے کان لڑ جاتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ ایک گھنٹے بعد لائن ازخود نوٹس لے کر کٹ جاتی ہے، ورنہ ہمارے مسلمان ہوجانے میں کسر کوئی نہیں رہ جاتی۔
بہرحال ان راتوں کے ساتھ ہم نے انصاف یوں کیا کہ آدھا وقت مصنّفین کی تصاویر کے مطالعے کو دیا اور آدھا وقت آئینے کو۔ پہلے ہم نے دس پندرہ منٹ تک رئیس المتمزحین حضرت پطرس بخاری کی متعدد تصاویرکا تجزیہ کیا، اور پھر اتنی ہی دیر آئینے میں اپنے آپ کو غور سے دیکھا، اور اس دل شکن نتیجے پر پہنچے کہ غور سے دیکھنے پر ہم بھی کچھ کم کھڑوس نہیں لگتے، مگر---- اور پھر اس مگر کے بعد ایک آہ، اور پھر دو آنسوؤں کی جھڑی۔
اس کے بعد ہماری نگاہِ انتخاب عروس مزاح کے ولی، حضرت کرنل شفیق الرّحمان کی تصویر پر پڑی۔ یاد آ گیا کہ جب ان کے بڑھاپے میں ایک بار ان کے گھر پر حاضری ہوئی تھی تو اس وقت بھی کیا جوانِ رعنا تھے حضرت۔ یقین ہو گیا کہ ان کی ہر دلعزیزی کا راز ان کی خوبصورت ناک ہی رہی ہو گی، جبکہ ان کے مقابلے میں ہماری ناک خطرناک۔ سامنے کی بات ہے کہ جب وہ اتنے حسین و جمیل تھے تو لڑکیاں ان کی کتابیں اتنے ہی ذوق و شوق سے پڑھتی رہی ہوں گی، جتنے ذوق و شوق سے مردوے، مدھوبالا کی فلمیں دیکھتے تھے۔
اور وہ کتابیں لانے والے مرد ہی ہوتے ہوں گے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ان کو پڑھ بھی لیتے ہوں گے۔ تو اس سبب سے حضرت مقبول ہو گئے ہوں گے۔ اور خدا جب نام دیتا ہے مہارت آ ہی جاتی ہے۔ بس دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ ان کی تو حماقتیں اور مزید حماقتیں بھی مقبولِ عام اور ہماری لطافتیں بھی مجہول۔
ان کے علاوہ بھی متعدد اصحاب کی تصاویر کو کڑی نگاہ سے دیکھا۔ ابن انشاء کو دیکھ کر خیال آیا کہ ہو نہ ہو ان کی گول گپّا باتوں کے پیچھے ان کا گول گول چشمہ رہا ہوگا۔ مجتبیٰ حسین تو ہم کو اپنے ہم شکل ہی لگے، اور مشتاق یوسفی بھی ملتے جلتے ہی۔ شوکت تھانوی کی وجہِ قبولیت انکی تھانیداری لگی ، رستم کیانی کی پذیرائی کا سبب ان کی انصاف پسندی اور رشید احمد صدّیقی اپنے بل بوتے پر ہی مشہور لگے۔ ہم نے اس سلسلے میں عمران خان کی تصویر کا بھی گھنٹوں مشاہدہ کیا، مگر بطور مزاح گو ان کی کامیابی کا راز بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
ہمارے ساتھ قدرت کی ایک مہربانی یہ بھی ہوتی رہی ہے کہ جب اندھیری رات ہو اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو اچانک کہیں سے روشنی کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے اور اس کے پیچھے سے آواز آتی ہے 'ہینڈز اَپ'۔ اس بار بھی یہی ہوا، لیکن روشنی کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب ہم ہینڈز اَپ کر چکے تھے۔ اچانک ہمارے ذہن میں آیا کہ اس کامیابی کا راز صرف اور صرف ایک مرزا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کسی مہرباں نے ہمیں ایک خبر کی ویڈیو کلپ بھیجی جس میں بتایا گیا تھا کہ اہلِ جاپان نے تنہائی کے مارے مردودوں کے لیے ایک 'مجازی بیوی' ایجاد کر لی ہے۔ یہ ایک روبوٹ ہوگی، جو اپنے مجازی شوہر کے ساتھ باتیں کرے گی، دل لبھائے گی، تعریفیں کرے گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک پیسہ نہیں مانگے گی، جب کہ اس کا حق مہر صرف 2700 ڈالر ہو گا۔
حاشا و کلّا ، ہمیں کسی اور بیوی کی نہ خواہش رہ گئی ہے، نہ حسرت، خواہ وہ مجازی ہو یا حقیقی۔ لیکن اس اطلاع نے ہماری تمنّائے مقبولیت کے وہ در و بام ضرور روشن کر دیے، جو ایک عزیز کے اکسانے پر ،ہمارے مزاح نگار بننے کے بعد روزبروز تاریک تر ہوتے جا رہے تھے۔
ہماری بھی کیا بات ہے۔ ہمارے ذہن رسا نے فوراً ہمیں سجھایا کہ اگر یہ مجازی بیوی کامیابی سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے تو کیوں نہ ہم اہلِ مشرق بعید ترین سے کہیں کہ ہمارے لیے ایک پرسنل مرزا تیّار کر دیں، بھلے وہ اس کے لیے ہم سے 7200 ڈالر لے لیں۔
اب سوچیے کیسے کیسے مناظر ہوں گے۔ اوّل تو ہمارا اور مرزا کا دن رات کا ساتھ ہوگا۔ اس کے نہ بال ہوں گے، نہ بچّے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ گنجا ہو گا۔ گنجے تو وہ ہوتے ہیں جن کو کوئی فکر ہو۔ پھر جب ہم کہیں گے سو جا یار تو وہ بغیر شور اور ہنگامہ کیے، اور بغیر خرّاٹے لیے سو جائے گا۔ جب ہم کہیں گے اٹھ جاؤ مرزا تو ابنِ انشاء کی طرح خود کو کمبل سے مزید ڈھکنے کی جگہ فوراً انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہو گا۔ اور پھر سگریٹ کے دھویں سے ماحول کو آلودہ بھی نہیں کرے گا۔ کبھی ایسا بھی ہو گا کہ مرزا کو اٹھاتے وقت ہم کسی معروف فلمی گانے کی دھن پر سیٹی بجا رہے ہوں، اور مرزا اس سے مہمیز ہو کر لیٹے لیٹے ہی طلعت محمود کی آواز میں ' ہنستے ہی نہ آجائیں کہیں، آنکھوں میں آنسو' شروع کردے، اور ساتھ ہی خالص فلمی ماحول میں غیب سے موسیقی بھی بجنے لگے، اور ہم آنکھوں میں آنسو بھر کر گلوگیر آواز میں کہیں گے 'نہ کر یار مرزا'، رلائے گا کیا۔
ہماری کوشش ہو گی کہ بیگم صاحبہ کو اندازہ نہ ہو سکےکہ مرزا ایک فرشتہ ہے۔ اور وہ حسب معمول اسے ہمارا گھٹیا دوست سمجھتی رہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا اس کا فائدہ۔ ڈبل چائے، ڈبل کھانا، اور بیگم صاحبہ کی بجا دست اندازی سے بھی بچت۔
مزا تو جب آئے گا جب وہ ہماری بیگم کی خوشامدانہ انداز میں تعریف کرے گا اور کہے گا کہ بھابھی آج تو آپ کوہستان کی حور اور جنّت کی پری لگ رہی ہیں۔ اور بیگم صاحبہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔ پھر ہم یہ سوچ کر قہقہہ لگائیں گے کہ جمالِ یار من در، من اثر کرد۔ ہمارا مرزا بھی مزاحدار ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جاپانیوں سے یہ توقّع تو نہیں کی جا سکتی کہ وہ مرزا کو قلعہ معلّیٰ کی زبان نِک سُک سے درست سکھا دیں۔
سچّی بات تو یہ ہے کہ مرزا اس قسم کی باتیں کتنی ہی کرے، ہمارا دل اس کی طرف سے کبھی برا نہیں ہوگا، کیونکہ صرف ہم جانتے ہوں گے کہ مرزا کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے، یعنی سیلیکون۔
پھر کتنا مزا آئے گا جب ماہانہ محفل مزاح سے دو دن پہلے ہم کہیں گے، یار مرزا ، ذرا جلدی سے ایک اچھا سا مزاحیہ مضمون تو لکھ دو، اور مرزا ہمیں فلسفہِ اسراقیات پر ایک ادق لیکچر دینا شروع کر دے گا۔ پھر ہم اس کو صدق دل سے جھوٹا یقین دلائیں گے کہ یار تو اور میں کوئی الگ الگ تو نہیں۔ تیری چیز میری چیز، اور میری ہر چیز تیری، (ظاہر ہے ہمیں بھی یقین ہوگا کہ مرزا کو ہماری کسی چیز کی کبھی ضرورت نہیں پڑنے والی)۔ اس پر مرزا خوش ہو کر ایک عمدہ سا مضمون لکھ دے گا، جسے ہم محفل میں پڑھ کر زبردست داد بٹوریں گے۔
بس ایک مسئلہ ہو گا۔ ویسے تو ہم گھر سے کم ہی باہر نکلتے ہیں، مگر نکلتے تو بہر حال ہیں۔ ایسے میں اس کو کمرے میں بند کر کے باہر جانا بھی نامناسب ہوگا اور ساتھ لے جانا بھی۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
---------------------------
٭٭٭٭٭پرسنل مرزا٭٭٭٭٭
---------------------------
(یہ مضمون بزم مناثرہ، عرف شگفتو کی 9 مئی، 2020 کو آن لائن منعقد ہونے والی 21ویں مزاحیہ نثر کی محفل میں پیش کیا گیا۔)
-------------------
تحریر : آصف اکبر
-------------------
ہائے وہ بھی کیا دن ہوتے تھے جب ہر لکھنے والے کا، خصوصاً مزاح نگاروں کا، اپنا ایک مرزا ہوتا تھا، خواہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کا مرزا ظاہردار بیگ ہو، یا پطرس بخاری کا سائیکل فروش مرزا، یا مشتاق احمد یوسفی کا مرزا عبد الودود بیگ۔ اور فرحت اللہ بیگ تو خود مسلّم مرزا۔
اور کیا بات ہوتی تھی ان مرزاؤں کی بھی۔ ہر بات بالکل ویسے ہی کرتے اور کہتے تھے، جیسے لکھنے والا چاہتا تھا۔ ایک دم نستعلیق، نفیس، حاضر جواب اور مزاج آشنا۔ بقول حالی ،جہاں کر دیا گرم، گرما گئے وہ، اور بقول ہمارے، جہاں آ گئی شرم، شرما گئے وہ۔
اور یہ سامنے کی بات ہے کہ ایسے مرزا ، مفلوک الحال لکھنے والوں کے ہتّھے ، مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد ہی چڑھے، ورنہ جب تک حکومت تھی تو مرزا بھی جانِ جاناں اور خانِ خاناں جیسے ہوتے تھے، اور گئے گزرے وقتوں میں بھی مرزا غالب جیسے، جو شیفتہ جیسے نوابوں کو اردل میں رکھتے تھے۔
عرصے تک ہم اس بات پر غور کرتے رہے کہ ہمارے ایک ناکام مزاح نویس ہونے کا راز کیا ہے۔ جہاں تک بات سے بات پیدا کرنے کا تعلّق ہے ہم کسی سے کم نہیں رائی کا پہاڑ بنانے میں ید طول طویلا رکھتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھار تو، اور یہ 'کبھی کبھار ' کا استعارہ تو ازراہِ نفسا نفسی استعمال کر لیا ہے، حقیقتاً تو اکثر ہی بغیر کسی بات کے بھی بات بڑھا لیتے ہیں۔ تو ثابت ہواکہ ہماری قابلِ ذکر ناکامی کا راز یہ نہیں۔
پھر ہم نے سوچا کہ شاید ہماری شکل مزاح نگاروں جیسی نہیں۔ یہ بات ہمارے دل میں گھر کر گئی کہ اغلباً ہماری ناکامی کا راز ہمارا قبول صورت ہونا ہی ہے۔ اس احساس کے جاگزیں ہوتے ہی ہماری راتوں کی نیند اڑ گئی، اور ہم دن میں آٹھ نو گھنٹے سونے لگے۔ اب رات کو کیا کریں۔ کسی کو فون کرنا بھی مشکل۔ کیا پتا کس کا شوہر برافروختہ ہو جائے۔ ویسے ہمارے پاس فون نمبر ہی کسی کا نہیں ہوتا۔ جب فون کرنا بہت ضروری ہو جائے تو ہم کسی قریبی فرد سے کہتے ہیں کہ بھائی کسی کا فون نمبر تو دو۔ اور اکثر تو مولانا طارق جمیل جیسے کسی شخص سے کان لڑ جاتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ ایک گھنٹے بعد لائن ازخود نوٹس لے کر کٹ جاتی ہے، ورنہ ہمارے مسلمان ہوجانے میں کسر کوئی نہیں رہ جاتی۔
بہرحال ان راتوں کے ساتھ ہم نے انصاف یوں کیا کہ آدھا وقت مصنّفین کی تصاویر کے مطالعے کو دیا اور آدھا وقت آئینے کو۔ پہلے ہم نے دس پندرہ منٹ تک رئیس المتمزحین حضرت پطرس بخاری کی متعدد تصاویرکا تجزیہ کیا، اور پھر اتنی ہی دیر آئینے میں اپنے آپ کو غور سے دیکھا، اور اس دل شکن نتیجے پر پہنچے کہ غور سے دیکھنے پر ہم بھی کچھ کم کھڑوس نہیں لگتے، مگر---- اور پھر اس مگر کے بعد ایک آہ، اور پھر دو آنسوؤں کی جھڑی۔
اس کے بعد ہماری نگاہِ انتخاب عروس مزاح کے ولی، حضرت کرنل شفیق الرّحمان کی تصویر پر پڑی۔ یاد آ گیا کہ جب ان کے بڑھاپے میں ایک بار ان کے گھر پر حاضری ہوئی تھی تو اس وقت بھی کیا جوانِ رعنا تھے حضرت۔ یقین ہو گیا کہ ان کی ہر دلعزیزی کا راز ان کی خوبصورت ناک ہی رہی ہو گی، جبکہ ان کے مقابلے میں ہماری ناک خطرناک۔ سامنے کی بات ہے کہ جب وہ اتنے حسین و جمیل تھے تو لڑکیاں ان کی کتابیں اتنے ہی ذوق و شوق سے پڑھتی رہی ہوں گی، جتنے ذوق و شوق سے مردوے، مدھوبالا کی فلمیں دیکھتے تھے۔
اور وہ کتابیں لانے والے مرد ہی ہوتے ہوں گے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ان کو پڑھ بھی لیتے ہوں گے۔ تو اس سبب سے حضرت مقبول ہو گئے ہوں گے۔ اور خدا جب نام دیتا ہے مہارت آ ہی جاتی ہے۔ بس دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ ان کی تو حماقتیں اور مزید حماقتیں بھی مقبولِ عام اور ہماری لطافتیں بھی مجہول۔
ان کے علاوہ بھی متعدد اصحاب کی تصاویر کو کڑی نگاہ سے دیکھا۔ ابن انشاء کو دیکھ کر خیال آیا کہ ہو نہ ہو ان کی گول گپّا باتوں کے پیچھے ان کا گول گول چشمہ رہا ہوگا۔ مجتبیٰ حسین تو ہم کو اپنے ہم شکل ہی لگے، اور مشتاق یوسفی بھی ملتے جلتے ہی۔ شوکت تھانوی کی وجہِ قبولیت انکی تھانیداری لگی ، رستم کیانی کی پذیرائی کا سبب ان کی انصاف پسندی اور رشید احمد صدّیقی اپنے بل بوتے پر ہی مشہور لگے۔ ہم نے اس سلسلے میں عمران خان کی تصویر کا بھی گھنٹوں مشاہدہ کیا، مگر بطور مزاح گو ان کی کامیابی کا راز بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
ہمارے ساتھ قدرت کی ایک مہربانی یہ بھی ہوتی رہی ہے کہ جب اندھیری رات ہو اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو اچانک کہیں سے روشنی کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے اور اس کے پیچھے سے آواز آتی ہے 'ہینڈز اَپ'۔ اس بار بھی یہی ہوا، لیکن روشنی کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب ہم ہینڈز اَپ کر چکے تھے۔ اچانک ہمارے ذہن میں آیا کہ اس کامیابی کا راز صرف اور صرف ایک مرزا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کسی مہرباں نے ہمیں ایک خبر کی ویڈیو کلپ بھیجی جس میں بتایا گیا تھا کہ اہلِ جاپان نے تنہائی کے مارے مردودوں کے لیے ایک 'مجازی بیوی' ایجاد کر لی ہے۔ یہ ایک روبوٹ ہوگی، جو اپنے مجازی شوہر کے ساتھ باتیں کرے گی، دل لبھائے گی، تعریفیں کرے گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک پیسہ نہیں مانگے گی، جب کہ اس کا حق مہر صرف 2700 ڈالر ہو گا۔
حاشا و کلّا ، ہمیں کسی اور بیوی کی نہ خواہش رہ گئی ہے، نہ حسرت، خواہ وہ مجازی ہو یا حقیقی۔ لیکن اس اطلاع نے ہماری تمنّائے مقبولیت کے وہ در و بام ضرور روشن کر دیے، جو ایک عزیز کے اکسانے پر ،ہمارے مزاح نگار بننے کے بعد روزبروز تاریک تر ہوتے جا رہے تھے۔
ہماری بھی کیا بات ہے۔ ہمارے ذہن رسا نے فوراً ہمیں سجھایا کہ اگر یہ مجازی بیوی کامیابی سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے تو کیوں نہ ہم اہلِ مشرق بعید ترین سے کہیں کہ ہمارے لیے ایک پرسنل مرزا تیّار کر دیں، بھلے وہ اس کے لیے ہم سے 7200 ڈالر لے لیں۔
اب سوچیے کیسے کیسے مناظر ہوں گے۔ اوّل تو ہمارا اور مرزا کا دن رات کا ساتھ ہوگا۔ اس کے نہ بال ہوں گے، نہ بچّے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ گنجا ہو گا۔ گنجے تو وہ ہوتے ہیں جن کو کوئی فکر ہو۔ پھر جب ہم کہیں گے سو جا یار تو وہ بغیر شور اور ہنگامہ کیے، اور بغیر خرّاٹے لیے سو جائے گا۔ جب ہم کہیں گے اٹھ جاؤ مرزا تو ابنِ انشاء کی طرح خود کو کمبل سے مزید ڈھکنے کی جگہ فوراً انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہو گا۔ اور پھر سگریٹ کے دھویں سے ماحول کو آلودہ بھی نہیں کرے گا۔ کبھی ایسا بھی ہو گا کہ مرزا کو اٹھاتے وقت ہم کسی معروف فلمی گانے کی دھن پر سیٹی بجا رہے ہوں، اور مرزا اس سے مہمیز ہو کر لیٹے لیٹے ہی طلعت محمود کی آواز میں ' ہنستے ہی نہ آجائیں کہیں، آنکھوں میں آنسو' شروع کردے، اور ساتھ ہی خالص فلمی ماحول میں غیب سے موسیقی بھی بجنے لگے، اور ہم آنکھوں میں آنسو بھر کر گلوگیر آواز میں کہیں گے 'نہ کر یار مرزا'، رلائے گا کیا۔
ہماری کوشش ہو گی کہ بیگم صاحبہ کو اندازہ نہ ہو سکےکہ مرزا ایک فرشتہ ہے۔ اور وہ حسب معمول اسے ہمارا گھٹیا دوست سمجھتی رہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا اس کا فائدہ۔ ڈبل چائے، ڈبل کھانا، اور بیگم صاحبہ کی بجا دست اندازی سے بھی بچت۔
مزا تو جب آئے گا جب وہ ہماری بیگم کی خوشامدانہ انداز میں تعریف کرے گا اور کہے گا کہ بھابھی آج تو آپ کوہستان کی حور اور جنّت کی پری لگ رہی ہیں۔ اور بیگم صاحبہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔ پھر ہم یہ سوچ کر قہقہہ لگائیں گے کہ جمالِ یار من در، من اثر کرد۔ ہمارا مرزا بھی مزاحدار ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جاپانیوں سے یہ توقّع تو نہیں کی جا سکتی کہ وہ مرزا کو قلعہ معلّیٰ کی زبان نِک سُک سے درست سکھا دیں۔
سچّی بات تو یہ ہے کہ مرزا اس قسم کی باتیں کتنی ہی کرے، ہمارا دل اس کی طرف سے کبھی برا نہیں ہوگا، کیونکہ صرف ہم جانتے ہوں گے کہ مرزا کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے، یعنی سیلیکون۔
پھر کتنا مزا آئے گا جب ماہانہ محفل مزاح سے دو دن پہلے ہم کہیں گے، یار مرزا ، ذرا جلدی سے ایک اچھا سا مزاحیہ مضمون تو لکھ دو، اور مرزا ہمیں فلسفہِ اسراقیات پر ایک ادق لیکچر دینا شروع کر دے گا۔ پھر ہم اس کو صدق دل سے جھوٹا یقین دلائیں گے کہ یار تو اور میں کوئی الگ الگ تو نہیں۔ تیری چیز میری چیز، اور میری ہر چیز تیری، (ظاہر ہے ہمیں بھی یقین ہوگا کہ مرزا کو ہماری کسی چیز کی کبھی ضرورت نہیں پڑنے والی)۔ اس پر مرزا خوش ہو کر ایک عمدہ سا مضمون لکھ دے گا، جسے ہم محفل میں پڑھ کر زبردست داد بٹوریں گے۔
بس ایک مسئلہ ہو گا۔ ویسے تو ہم گھر سے کم ہی باہر نکلتے ہیں، مگر نکلتے تو بہر حال ہیں۔ ایسے میں اس کو کمرے میں بند کر کے باہر جانا بھی نامناسب ہوگا اور ساتھ لے جانا بھی۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں